پاکستان کے فوجی سربراہ پرویز مشرف جن کا امریکن ری پبلیکن پارٹی کی جانب سے
استعمال ہوا۔اور ان کو اقتدار ِ پاکستان کا لالچ دیا گیاجس سے وہ جارج بش کے جھانسہ
میں آگئے ۔اور انہوں پھر وہ کیاجو انہوں نے کہا۔دراصل امریکہ کو پاکستان میں ایک
ایسا حکمران چاہئے جو ان کی مرضی کے تابع ہواور ان کی ہاں میں ہاں کرتا رہے۔ان کو
حق پرستی والے حکمراںکی قطعی کوئی ضرورت نہیں۔بلکہ وہ ایسے شخص کو برداشت کرنا بھی
پسند نہیں کرتے۔اگر پاکستان کا کوئی حکمراں ہندوستان سے مفاہمت کرنے کی جسارت کرے
گا۔ تو اس کا انجام اقتدار سے کسی بھی طرح بے دخلی کی صورت میں ظہور پذیر ہوگا۔
ہندوپاک دشمن ممالک کو دوہمسایہ ممالک کا اتحاد اور دوستی کسی بھی صورت پسند نہیں ۔اگر
پاکستان میں ایسی حکومت منتخب ہوتی ہے جو ہندوستان کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھائے تو
اس کا خاتمہ بھی جلد ہوگا۔ پاکستان کی پیوپل پارٹی کی سربراہ مرحوم بے نظیر بھٹو نے
ہندوستان سے دوستی کی وکالت کی تھی۔ کہ وہ اگر برسراقتدار آئیں تو ہندوپاک کے
درمیان ایک خوشگوار ماحول تیار ہوگا۔ اور آپسی رشتہ مستحکم اور پائیدار کئے جائیں
گے۔کیونکہ مرحوم بے نظیربھٹو ملکہ جمہوریت ہونے کے ساتھ ایک طاقتور لیڈر بھی
تھیں۔ان کی یہ بات بیرونی ممالک کو بڑی ناگوار گذری۔اس سے پہلے کہ وہ صاحب اقتدار
بنتی ۔ اس سے قبل ہی ان کا کام تمام کردیا گیا۔ حالانکہ جنرل پرویز مشرف کو ان کی
ناکامی و کامیابی سے کوئی فرق نہیں تھا۔بلکہ ان کی کامیابی بیرونی مفاد پرستی پر
ایک بڑا حملہ تھا۔وہ اپنے مرحوم والد ذوالفقار علی بھٹوکی طرح سے ہندوپاک کے درمیاں
ایک پائیدار مفاہمت کا راستہ ہموار کرتیں۔اور ایک تاریخ رقم کرتیں۔ان کو راستہ سے
ایک بین الاقوامی سازش تحت ہمیشہ کیلئے ہٹا دیا گیا۔چونکہ ان کا قتل جنرل پرویز
مشرف کے دور اقتدار میں ہوا ہے اس لئے وہ اس کیلئے قصور وار ہیں۔وہ بے نظیر کے اصل
قاتل نہیں معلوم پڑتے۔قتل کے سازش کار کوئی اور ہی ہیں۔ان کے قتل کی سازش میں کون
لوگ سازشی طور پر ملوث ہیں۔شاید اس کی ان کو جانکاری ہو۔پاکستان میں مشرف کے ہاتھوں
ایک منتخب نواز شریف کی جمہوری حکومت کو بے دخل کیا گیا تھا۔ اس وقت امریکہ کے
حکمراںجمہوریت کا ساتھ دینے کے بجائے مشرف میاں کی کمر تھپ تھپا رہے تھے۔جس سے واضح
ہوتا تھا۔ کہ مشرف میاں کو حکمرانی جارج بش کی مرضی سے ملی ہے۔ بیرونی مفادپرست
حکمرانوں نے اپنے مفاد کی خاطر پرویز مشرف کو اقتدار کا لالچ دیا ۔جس سے وہ ان کے
جال میں پھنس گئے۔انہوں نے وہ کیا جس سے جمہوریت پسند دنیا شرمسارہوئی ۔ان کا سب سے
بڑا جرم یہ ہے کہ انہوں نے افغانستان میںمذہب اسلام کو ددھشت گرد مذہب میں تبدیل
کرنے والی تحریک جماعت طالبان کی حکومت کو تسلیم کیا۔ دوسرا بڑا جرم یہ ہے کہ جارج
بش کے سیاسی مفاد کے تحفظ کے خاطر اسلام کے خلاف اسلامی حلیہ میں جنگ کرنے والے
قادیانیوں کے سپہ سالار اسامہ بن لاڈن کی خوب تشہیر کی۔تیسرے طالبا ن کی مدد چونکہ
القاعدہ و طالبان لے لوگ فدائیں حملہ یعنی خودکش حملہ کو اپنا خصوصی ہتھیار بتا
کربے گناہوں کو اپنا نشانہ بناتی ہے۔ جبکہ خودکشی اسلام کی روح سے ایک حرام فعل ہے۔
یہی وہ ایک نقطہ ہے۔جس نے القاعدہ و طالبان کو بے نقاب کرکے رکھ دیا۔اب دنیا میں
رائے شماری امریکی خنجر اٹھائے اسلامی حلیہ میں نامنہاد مجاہدین اسلامی مملکت کی
وکالت کرتے ہیں۔ اسلام کی اصل تعلیم کرنے والے لوگوں پر حملہ کیا جاتا ہے۔مشرف کے
دور میں لال مسجد کو اس لئے نشانہ بنایا گیا کہ وہ لوگ القاعدہ ، طالبان و لشکر
طیبہ ، جماعت دعوہ کو اسلام کے خلاف ایک سازش مانتے تھے۔لال مسجد کے مدرسین نے جان
دینی گوارہ کی مگر باطل طاقتوں کے آگے جھکنا گوارہ نہیں کیا۔بہرحال اسلام کے خلا ف
سازش کرنے والے چاہئے وہ کتنے ہی طاقتور کیوں نہ ہوں ان کو بھی ایک دن سرنگوں ہونا
ہی پڑتا ہے۔ فی الوقت جنرل پرویز مشرف کی گرفتار ی پر امریکی حکومت خاموش ہے۔جس کا
کہنا ہے۔ کہ مشرف کی واپسی و قانونی کاروائی کے متعلق امریکہ کوئی موقف نہیں
رکھتا۔اور یہ مسئلہ پاکستان کے آئین و قانون کے مطابق حل ہونا چاہئے۔چونکہ امریکہ
میں ڈیموکریٹ کی حکمرانی ہے۔ اس لئے امریکہ کو ان کی کوئی پرواہ نہیں۔ اگر وہاں ری
پبلیکن کی حکمرانی ہوتی۔تو حالات کچھ اور ہوتے۔کیونکہ بش کے پارٹی کے مشرف پر اور
مشرف کے بش پارٹی پر احسانات ہیں۔ اگر جنرل پرویز مشرف کی جماعت پاکستان کے انتخاب
میں کچھ کردیکھاتی ہے۔ تو پھر ان کی امریکن ری پبلیکن پارٹی کی طرف سے ایک خاطر
داری کا دور شروع ہوسکے گا۔ مگر اس کی امید بہت کم ہی ہے۔ تازہ امریکہ میں دھشت
گردی کے حالات اشارہ دے رہے ہیں۔ کہ ری پبلیکن پارٹی کی حمایت یافتہ کسی ویڈیو کیسٹ
سے قادیانیوں کے سپہ سالار اوسامہ بن لادن کو کہیںپھر زندہ کرکے نہ رکھ چھوڑ ا جائے۔
اس لئے کہ القاعدہ و طالبان امریکن ری پبلیکن کا ہی تو پروڈکٹ ہے۔دنیا کے آگے سیاسی
حالات کیا ہوتے ہیں۔ مگر اس وقت مشرف پر ظلم و ستم کا دور شروع ہوچکاہے۔بس اب یہ ہی
کہا جاسکتا ہے کہ مشرف کو اقتدارکے لالچ میں پڑنے کی سنگین سزا ملے کی تیاری ہورہی
ہے ۔ جن کی وجہ سے وہ اس حال کو پہنچ رہے ہیںمگر حیرت اس بات پر ہے جس کیلئے پرویز
مشرف نے یہ سب کیا وہ مفاد پرست لوگ ان کو بچانے کی اپنی طرف سے کوئی کوشیش کریں
گے؟؟۔سابق حکمران نوازشریف کے ہندوستان سے دوستی کیلئے بڑھتے قدم نے ہی ان کی بے
دخلی کا سبب بنے اور ان اسی وجہ سے امریکہ نے مشرف کو اقتدار کا لالچ دیا۔وہ جھانسہ
میں آئے ۔ اور آج وہ دربہ در کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہیں۔اس لئے پاکستان کے
حکمرانوں کو اپنی اقتدار کی سلامتی کیلئے ہندوستان سے بہت محتاط انداز میں دوستی کو
پروان چڑھانا چاہئے۔کیونکہ وہ نہیں چاہتا کہ ہندوپاک ملکر اس خطہ میں مجموعی طور
ایک مضبوط و متحد طاقت بنے۔ |