سابق صد ر کی خیالی ڈائری کے چند اوراق

21 مارچ 2013ء
مجھے پاکستان بھر سے کہا جا رہا ہے ’’پھول سجائے ہوئے دلہے کی طرح آؤ‘‘۔میری پارٹی ،میرے لوگ،میرا پاکستان مجھے بلا رہا ہے۔لوگ میری تاریخیں سن کر اکثر ایک دوسرے سے مذاق سے کہتے ہوں گے ۔یہ تو عدالتوں کی طرح تاریخوں پہ تاریخیں دیئے جارہا ہے۔لیکن اب ساری تیاری مکمل ہے ۔ ضمانت نامے بھی مکمل ہو چکے ہیں۔میری پاکستان میں ’’حوالگی ‘‘سوری موجودگی کا سہرا بھی نگران حکومت مکے سر بندھنا تھا۔میں تو دن رات خواب میں اپنا دور حکومت یاد کرتا ہوں جب وہاں عوام خوش حال تھے۔لوگوں کو ڈھول تماشوں کے علاوہ کوئی کام ہی نہیں تھا۔ہر طرف خوشحالی ہی خوشحالی تھی ۔جب بھی ڈالر کی ضرور پڑتی تھی چپ چاپ ادھر کا مال ادھر کر دیتے تھے۔یاکوئی نئی بات مان لیتے تھے یا کوئی نئی ڈیل کر لیتے تھے۔

24مارچ2013ء
ڈرتا ورتا نہیں ہوں لیکن اس کے باوجود سفر سے قبل امام ضامن ضرور باندھا ہے۔قمیض کے نیچے ایک موٹی بنیان پہن رکھی تھی جسے ذیادہ تر سوشل میڈیا بلٹ ہروف جیکٹ کا نام دیتا رہا۔کراچی ائرپورٹ پر میرا تاریخی فقرہ ’’جان پر کھیل کر پاکستان بچانے آیا ہوں ‘‘منہ سے نکل گیا اللہ خیر کرئے ۔میری پارٹی میرا پہلا جلسہ مزار قائد پر کروانا چاہتی تھی ۔جسے میری مقبولت سے شاکی لوگوں نے نہ ہونے دیا۔اپنے استقبال کی’’ گرم جوشی ‘‘دیکھ کر میں نے دل میں نگران سیٹ اپ کا شکریہ ادا کیا جنہوں نے جلسے کی اجازت نہ دے کر میری عزت رکھ لی تھی۔کیونکہ چند روز قبل میری پارٹی نے سندھ کے کسی مقام پر ایک جلسے کا اہتمام کیا۔یہ میڈیا والے بھی بال کی کھال اتارتے ہیں۔بھئی ایک تو جلسے میں بندے کم اوپر سے میڈیا والوں نے ان کے ساتھ بھی ’’کون بنے گا کروڑ پتی ‘‘ کھیلنا شروع کر دیا ۔ان میں سے بہت سوں کو علم ہی نہیں تھا کہ جلسہ کس پارٹی کا ہے۔بس وہ بے چارے روٹی کی تلاش میں یا آئے تھے یا لائے گئے تھے۔

29مارچ 2013ء
آج ایک بد شگونی ہو گئی کی عدالت میں پیشی کے دوران کسی کرائے کے بندے نے مجھے جوتا دے مارا۔جوتا تو نہیں لگا لیکن میں حواس باختہ ہو گیا مجھے یوں محسوس ہورہا تھا کہ بہت سارے لوگوں نے بغل میں جوتے چھپائے ہوئے ہیں۔میں نے میڈیا میں بیان تو دے دیا کہ مجھ پر جوتا پھینکنے والے کو تو میڈیا نے بہت ہائی لائٹ کیا لیکن جو جوتے میرے حامیوں نے مارے اسے میڈیا نے دکھایا ہی نہیں۔اس کے بعد عدالت سے واپسی پر وکیلوں نے اپنا غصہ میری گاڑی پر پتھراؤ اور پلاسٹک کی خالی بوتلیں پھینک کر نکالا۔حالانکہ یہ سب کچھ میڈیا ک کٹ کر دینا چاہیئے تھا۔میڈیا کو یہ ساری آزادی میرے ہی دور حکومت میں ملی تھی لیکن لائیو پر واقعی پابندی ہو نی چاہیئے۔کچھ تو وقفہ ہو چاہے دس منٹ کا ہی کیوں نہ ہو۔میں تو یہ بھی کر کے دکھا دیا تھا۔لیکن وقفے تو اسی صورت میں کارآمد ہے جب آپ کے اپنے بندے میڈیا کے کنٹرول روم میں بیٹھے ہوئے۔جو ہدایات دیں کہ یہ حصہ آن ائیر نہیں جانا چاہیئے۔

یکم اپریل 2013ء
پاکستان مسلم لیگ کے رہنمااور سنیئر وکیل احمد رضا قصوری نے آج ایک بہت گرم بیان دیا ہے جسے ٹی وی پر سن کر میں بھی اس کی گرمائش محسوس کئے بغیر نہ رہ سکا۔انہوں نے کہا اگر پرویز مشرف کو دوبارہ جوتا مارا گیا تو سخت جواب دیا جائے گاہم نے کوئی چوڑیاں نہیں پہن رکھیں۔میرے خیال میں احمد رضا قصوری کو یہ بیان نہیں دینا چاہیئے تھا۔کیونکہ پہلے جوتے کا ہم نے کیا کر لیا ہے یہ تو ایک طرح سے جوتا گردی کی دعوت ہے۔یہ مافیا بڑا طاقتور ہوتا ہے اس مافیا نے تو بش پر جوتا گردی کی گیم بنا ڈالی تھی ۔میرے خیال میں جو بھی بیان منظر عام پر آئے وہ میرا سنسر شدہ ہو نا چاہیئے۔

16اپریل 2013ء
آج میرے چاروں قومی حلقوں سے کا غذات نامزدگی مستردہو چکے ہیں۔میرے ساتھی ہیں جو شائد مجھے نہیں اپنے آپ کو حوصلہ دے رہے ہیں۔ریٹرننگ آفیسرز کے فیصلوں کے خلاف اپیلوں کا مشورہ دے رہے ہیں۔لیکن میں سوچ رہا ہوں کہ جانا تو میں نے اسمبلی میں تھا اگر میں ہی نہ گیا تو میری پارٹی جا کر کیا کرئے گی۔شائد یہ بھی میرے لئے بہتر ہی ہو۔اس سے شائد میرے صدر بننے کی راہ ہموار ہو گی۔صدر زرداری نے جیسے مجھے گارڈ آف آنر دے کر فارغ کیا تھا ۔شائد اگلا صدر پاکستان میں ہی ہوں۔نہ جانے کیوں آج کاغذات نامزدگی کے مسترد ہونے پر دل سے ایک بوجھ سا اتر گیا ہے میں اپنے آپ کو ہلکا پھککا محسوس کر رہا ہوں۔

18اپریل2013ء
آج غیر متوقع طور پر عدالت نے میری ضمانت خارج کر دی ۔جس سے میں وقتی طور پر حواس باختہ ہو گیا۔میری ذاتی سیکورٹی کے ایک رضاکار نما کارندہ نے میرے کان میں کہا بھاگ جائیں۔جب تک میرے یا پولیس کے ہوش ٹھکانے آتے یا وہ صورتحال کو سمجھتے میں اپنی گاڑی میں تھا۔میں اپنے فارم ہاوس تو پہنچ گیا لیکن میرے مثال جنگل میں بھاگتے ہوئے نہتے انسان کی تھی ۔جس نے بھاگ کر جانا کہاں تھا۔ایک تو اس احمد رضا قصوری نے اشتعال انگیز بیان دینے بند نہیں کئے۔میڈیا کے سوالوں کے جواب میں اس نے کہا ’’وہ تو اپنے فارم ہاوس میں بیٹھے سگار اور کافی پی رہے ہیں‘‘۔میں کس حال میں بیٹھا تھا یہ مجھے ہی پتہ تھا۔آج پھر دوبارہ سوچ رہا ہوں کہ پارٹی یا میرے متعلق بیانات مجھ سے اجازت لے کے جاری کئے جائیں۔

20اپریل 2013ء
آج مجھے عدالت میں پیش کر دیا گیا ۔عدالت نے مجھے چودہ دن کے لئے جیل بجھوانے کا حکم دیا ہے ۔بعد ازاں میرے فارم ہاوس کو سب جیل قرار دے دیا گیا ہے۔سارا دن سیکورٹی،پولیس اور دوسرے اداروں کا آنا ،جانا رہا۔رات کو میرے فارم ہاوس کی چالیس گز کی دیوار گر پڑی ۔نہ جانے یہ میرے لئے بد شگونی یا نیک شگون ہے۔اگر اور حالات ہوتے تو میں اس ٹھیکیدار کو ضرور بلواتا جو اس دیوار کو بم پروف کا درجہ دیتا تھا۔

22اپریل2013ء
جیل تو جیل ہی ہوتی ہے چاہے وہ پھولوں کی سیج پر ہی کیوں نہ بنی ہو۔میری پارٹی کے بیانات کی گونج آہستہ آہستہ کم ہوتی جا رہی ہے۔قصوری صاحب کی آواز کی کھنک بھی ماند پڑتی جا رہی ہے۔میں سوچ رہا ہوں پاکستان میں تبدیلی نیچے سے کبھی نہیں آ سکتی ۔یہ میری خام خیالی تھی کہ جو میں نے نیچے سے تبدیلی کا خواب دیکھا۔نیچے سے تبدیلی کا خواب دیکھنا دن میں تارے دیکھنے کے مترادف ہے ۔یہ ملک نہ بدلا ہے نہ بدلے گا۔یہ لوگ آوے ای آوے کے نعرے تو بڑے پر جوش انداز میں لگاتے ہیں ۔مگر جب کوئی ان کی آوے ای آوے میں آ جاتا ہے توپھر یہ نعرہ بدل لیتے ہیں جاوے ای جاوے۔
Khalid Mehmood
About the Author: Khalid Mehmood Read More Articles by Khalid Mehmood: 37 Articles with 35302 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.