آج خبرنامہ دیکھتے دیکھتے جانے کیسے بچپن کی بہت سی یادیں تازہ ہو
گئیں ۔ انسان بھی عجیب ہے بیٹھے بیٹھے جانے کیا کیا یاد کرنے لگتا ہے۔یہ
یادیں بعض اوقات بہت گہری ، سنجیدہ ، شرارت سے بھر پور یا پھر بہت تکلیف دہ
بھی ہوتی ہیں۔ کچھ چیزیں تو انسان کو یہ احساس دلا دیتی ہیں کہ کاش انسان
اپنے بچپن ہی میں رہتا اور کبھی بڑا نہ ہوتا مگر بہت سے خوش قسمت ایسے بھی
ہوتے ہیں جو اپنی عمر کو وقت کے ساتھ ساتھ ENJOY کرتے ہیں۔مگر جو بھی ہو
پچپن میں بچپن کا مزہ کبھی نہیں آ سکتا یا اگر یوں کہیں کہ جو مزہ بچپن میں
ہے وہ پچپن میں کہاں تو ہر گز غلط نہ ہو گا۔
آج میں جب بیٹھی ٹی وی پر خبریں دیکھ رہی تھی تو مجھے بچپن کی بقرہ عید یاد
آ گئی اب سوچنے کی بات یہ ہے کہ بچپن کی بقرہ عید کا یا صرف بقرہ عید کا
خبروں سے کیا اور کس قسم کا تعلق؟ اور آخر خبروں میں ایسا کیا خاص تھا کہ
مجھے بقرہ عید یاد آ گئی۔۔ وہ بھی بچپن کی؟ کیا خبروں میں کوئی بکرا منڈی
دکھائی جا رہی تھی یا بقرہ عید سے تعلق رکھنے والی کوئی اور خاص چیز ؟ تو
جناب ایسا کچھ نہیں تھا۔۔۔۔۔نہ تو بقرہ عید قریب ہے نہ اس سے تعلق رکھنے
والی کسی خبر کا وہاں چرچا ہو رہا تھا۔۔۔۔۔دراصل خبروں میں تو آنے والے
الیکشن کی تیاریاں ، نامزدگیاں اور الیکشن کمیشن کے کسی حد تک کیے جانے
والے وہ مظالم دکھائے جا رہے تھے جو کہ وہ معصوم اور خود کو مظلوم کہنے
والے سیاست دانوں پر کر رہے ہیں۔
لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بقرہ عید اور آئندہ الیکشن کا آپس میں کیا
تعلق۔۔تو سن لیجئے تعلق ہے۔۔۔۔۔۔۔اب خود یاد کرنے کی کوشش کیجئے کہ ہم بچپن
میں کیا کیا کرتے تھے جب بھی بقرہ عید آتی تھی؟ ظاہر ہے ابو سے بکرا لانے
کی فرمائش اور کیا ! تو جناب یہی سب تو ہماری حکومت میں بھی ہو رہا ہے۔
جیسے ہم کہتے تھے کہ اس عید پر بکرا ہر حال میں ۔۔۔۔۔تو ہر سیاسی پارٹی کی
بھی یہی کوشش ہے کہ اس الیکشن قومی و صوبائی اسمبلی کی نشستیں ہر حال میں
اسے ہی چاہییں۔
اب جب ابو اﷲ اﷲ کر کے بقرہ لا دیتے تھے تو ہمارے کوشش ہوتی تھی کہ اسے جلد
از جلد گھومانے لے جائیں ، اسکو سجا لیں اور جتنا جلدی ہو اپنے دوستوں کو
دکھانے لے جائیں اور انھیں بتا سکیں کہ دیکھو ہمارا بکرا کتنا خوبصورت اور
تمھارے بکرے سے کئی گناہ اچھا ہے۔۔۔ہاں بات گوہ کہ غلط تھی مگر بچے کہاں
سمجھتے ہیں۔۔۔۔۔۔تو معذرت کے ساتھ ہمارے سیاست دان بھی آج کل کسی بکرا پکڑے
بچے سے کم حرکتیں کرتے نظرنہیں آتے جب چاہا جہاں چاہا اپنا بکرا ا وہ !
مطلب اپنا نمائندہ پکڑا اور کسی بھی من چاہے علاقے میں پہنچ گئے اپنی اور
اپنی پارٹی کی نمائش کروانے۔۔۔۔۔۔ جیسے ہمارا بکرا ہوتا تو کوئی 12000کا
تھا مگر ہم اپنے دوستوں کو کہتے کہ 18000 کا لائے ہیں ہمارے ابو ۔۔پوری
منڈی میں اس جیسا بہادر اور زبردست بکرا نہیں تھا۔۔۔۔۔آج ٹی وی پر دکھائے
جانے والے مختلف سیاسی پارٹیوں کے جلسوں میں بھی ہر پارٹی کا کارکن یا
نمائندہ اپنے اور اپنی پارٹی کے بارے میں کچھ ایسے ہی انکشافات کرتا نظر
آتا ہے۔ اب بقرہ عید پر سب سے بڑا کردار ادا کرتا ہے قصائی وہ بھی ایک طرح
سے ولن کا۔۔۔۔ اور اپنی الیکشن عید یعنی الیکشن کے دنوں میں ولن کا کردار
ادا کرتے ہیں الیکشن کمیشن والے۔۔۔۔۔۔ بس یوں سمجھئے کہ الیکشن ہونے سے
پہلے کے کچھ دن معصوم سیاست دانوں کے لئے اس رات سے کم نہیں ہوتے جب بکروں
کو چھریاں دکھائی دیتی ہیں کہ صبح جانے ان کے ساتھ کیا ہو گا۔۔۔قصائی ان کے
ساتھ کیا کریں گے یا پھر عوام۔۔۔
بعض اوقات جب بکرا بھاگ جاتا تھا تو ہم بچپن میں نا صرف یہ کہ ڈر جاتے تھے
بلکہ روتے بھی تھے اور اسی طرح اگر جب کبھی ابو بکرا لانے میں ناکام ہو
جاتے یا نہ لاتے تو ہم پورا گھر سر پر ااٹھا لیتے تھے۔۔اور مجھے یہ بات عین
اس وقت یاد آئی جب میں نے جمشید دستی صاحب کو بلک بلک کر روتے دیکھاکہ وہ
بچارے اس بار کی الیکشن عید کا حصہ نہیں بن سکتے۔سچ میں وہ عید یاد آ گئی
جب ابو کسی مجبوری کے تحت بکرا نہ لا سکے تو عید کا کچھ مزہ ہی نا آیا۔
اب کچھ لوگ ایسے سلیقہ شعارہوتے ہیں کہ ہر تقریب کی PLANNING یا تیاری کافی
پہلے ہی کر لیتے ہیں تا کہ انھیں آخری لمحات یا آخری دنوں میں کسی بھی قسم
کی پریشانی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔۔۔ہر عید پر بھی وہ تمام سودا سلف ، کپڑے
اور ضرورت کی تمام اشیاء کی خریدوفروخت بہت پہلے ہی کر لیتے ہیں ۔ اس سے
وقت اور پیسوں دونوں کی بچت تو ہوتی ہی ہے ساتھ ہی انسان بے جا نقصانات اور
پریشانیوں سے بھی بچ جاتا ہے۔تو ہماری بہت سی سیاسی پارٹیاں ایسی بھی ہیں
جنھوں نے الیکشن کی تیاریاں وقت سے بہت پہلے ہی مکمل کر لی ہیں۔ اب ہر کسی
کا نام لیا جائے ضروری تو نہیں نا جناب ۔۔۔کبھی تو خود بھی سمجھ لیا
کریں۔۔۔ہر بات سمجھانی پڑتی ہے۔۔۔۔اف توبہ !
ایک بات جو سب میں اہم ہے وہ یہ ہے کہ اگر بکرا لانا ہو تو سب سے اہم کام
بکرا چیکنگ کا ہوتا ہے یعنی بکرا منڈی میں بکرے کا COMPLETE MEDICAL CHECK
UP ۔۔کہ آیا بکرا قربانی کے تمام اصولوں پر پورا اتر بھی رہا ہے کہ نہیں۔
۔تو جناب آج کل ہمارے سیاسی نمائندوں کے ساتھ بھی یہی تو ہو رہا ہے بچارے
اور معصوم سیاست دانوں کو ہر کسوٹی پر پرکھا جا رہا ہے ۔ کہیں ڈگریاں ناپی
تولی جا رہی ہیں تو کہیں دوسرے بہت سے مشکل ترین سوالات جیسے کلمہ طیبہ
سنائیے ، کوئی سورت سنائیے ، قائداعظم کہاں پیدا ہوئے ، نماز میں کتنے فرض
اور سنتیں ہیں وغیرہ وغیرہ ۔ ۔۔
اب خود سوچئے اتنے مشکل ترین سوالات کے جوابات اب کوئی کیسے بھلا یاد رکھے
وہ بھی اس وقت جب ڈگریوں کے جعلی ہونے کا الزام بھی خواہ مخواہ دہر دیا
جائے تو ایسی صورت حال میں بکرا کرے بھی تو کیا مگر مگرماشائاﷲ سے ہمارے
نمائندے بہت بہادر اور نڈر ہیں دوسرے الفاظ میں ڈھیٹ۔۔۔۔۔۔۔وہ کیا کہتے ہیں
کہ
جو بڑھاتے ہیں بھاؤ منڈی کا
انکی من مانیوں کے عادی ہیں
دیں گے مہنگائی میں بھی قربانی
ہم تو قربانیوں کے عادی ہیں
یعنی ہم تو لگے رہیں گے بھیا جو کرنا ہے کر لو۔۔۔۔
ایک اور بات وہ یہ کہ عید ہے سر پر اور تیاری کچھ نا ہو تو خود سوچئے کہ سب
کے سامنے کیا عزت رہ جاتی ہے۔۔تو بس یہی کچھ آجکل دیکھنے میں آ رہا ہے سب
کے سب الیکشن عید میں مصروف ہیں اور تو اور بعض پارٹیوں کے نمائند ے اپنی
ہی پارٹیوں کو چھوڑ کر کہیں اور خود کو نیلام کرتے پھر رہے ہیں۔اور پارٹی
والے بچارے آہ بھر کے کہتے ہیں کہ
تم رکھ سکے نہ پاس ذرا اپنے قول کا
لیکن جو بھی ہو ہماری اور خصوصاً میری طرف سے تمام امیدواروں کے لئے نیک
خواہشات کہ و ہ اپنا بکرا کسی بھی طترح قصاب کی نظر سے بچتے بچاتے اسمبلیوں
کی نظر کرنے میں کامیاب ہو جائیں ۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ الیکشن عید میں کون
عوام کی امیدوں کو پورا کرتا ہے اور کون نہیں ، کس کے ہاتھ لال بوٹیاں آتی
ہیں اورکس کہ ہاتھ صرف سری پائے۔
بہرحال جو بھی ہو لیکن خبروں کی منڈی تو ان دنوں خوب چمکی ہوئی ہے۔۔بقول
زاہد فخری
چاروں طرف بہار ہے اب انتخاب کی
ڈونگے ہیں قورمے کے کہیں ڈش کباب کی
دن رات ہو رہی ہیں بڑی جی حضوریاں
نکلی ہوئی ہے لاٹری ووٹر جناب کی۔۔۔۔۔۔۔ |