وہ بھی آجائیں تو مزا آجائے

”مَسلز“ دِکھانے کا مقابلہ شروع ہوچکا ہے۔ سیاسی جماعتیں انتخابی مہم شروع کرچکی ہیں اور دوسری طرف عدلیہ نے بھی احتسابی مہم کا آغاز کردیا ہے۔ خاصی محنت سے تیار کیا ہوا جال پھینکا تو پہلے ہی ہَلّے میں خاصی بڑی مچھلی آن پھنسی ہے۔ جال پھینکنے والے یہ سوچ کر پریشان ہیں کہ اِتنی بڑی اور تگڑی مچھلی کو اُن کا جال سہار بھی سکے گا یا نہیں! پرویز مشرف کو دیکھ کر آغا حشر کشمیری کا وہ مشہور جملہ یاد آرہا ہے کہ شیر لوہے کے جال میں ہے!

سڑک ہو یا میدان، اخبارات کے صفحات ہوں یا ٹی وی اسکرین .... ہر جگہ رونق میلہ لگا ہوا ہے اور اِس رونق میلے کے اسٹال دن بہ دن بڑھتے ہی جارہے ہیں۔ جو بے دم بیٹھے تھے، وہ پرویز مشرف کے خلاف مقدمے کی سماعت اور اُنہیں مُقیّد کئے جانے سے تازہ دم ہوکر میدان میں نکل آئے ہیں۔ ہمارے سیاسی شکر خوروں کو بھی اللہ شکر دے ہی دیا کرتا ہے! میڈیا والوں کے بھی بھاگ جاگ اُٹھے ہیں۔ مُدّت سے چند ایک نئے اِشوز کا انتظار تھا۔ ایک ہی جوڑا دھو دھوکر کب تک پہنا جاسکتا ہے! بعض موضوعات تو گِھس گِھساکر پھٹ گئے تھے۔ بھلا پرویز مشرف کا کہ وہ باہر سے آئے اور اپنے ساتھ میڈیا کے لیے چند نئی تازہ سانسیں بھی لائے!

پرویز مشرف کی گرفتاری سے نواز شریف اور عمران خان میں تازہ ولولہ پیدا ہوا ہے۔ دونوں کمر، بلکہ لنگوٹ کس کر میدان میں آگئے ہیں۔ عمران خان کہتے ہیں کہ وہ بچپن میں صرف کرکٹ ہی نہیں کھیلتے تھے بلکہ نشانہ بازی بھی کرتے تھے۔ اور اب وہ کاغذی شیروں کو نشانہ بنائیں گے! ہم سمجھ نہیں پائے کہ خود کو کاغذی شیروں کا شکاری قرار دے کر وہ کِس بات کی داد چاہتے ہیں! عمران خان کا یہی مخمصہ ہے۔ وہ کبھی ایک گیند سے دو یا تین وکٹیں گرانے کی بات کرتے ہیں۔ کبھی سُونامی لاکر سب کچھ بہا لے جانے کا راگ الاپتے ہیں۔ اب نشانہ بازی پر اُتر آئے ہیں۔ اُن کے مشیر بھی بڑے سِتم ظریف ہیں، اچھے خاصے معقول آدمی کو بڑھکیں مارنے پر لگادیا ہے! عمران کی اداکاری میں ایک بڑی خامی یہ ہے کہ جلسے میں بڑھک مارتے ہوئے اُن کی ہنسی چُھوٹ جاتی ہے! یہ کچّے پن کی نشانی ہے۔ ہنسانے والے خود نہیں ہنسا کرتے! عوام کو سبز باغ دِکھاتے وقت سنجیدہ رہنا چاہیے! یہی تو سیاسی تھیٹر کا بنیادی اُصول ہے!

نواز شریف کا انداز بتا رہا ہے کہ کچھ نہ کچھ تو پہلے ہی طے ہوچکا ہے۔ وہ ابھی سے وزیر اعظم کے سے انداز سے بات کرنے لگے ہیں! اور یہ انداز پچھلی دو بار کی وزارتِ عُظمٰی والا نہیں! وزیر اعظم کے منصب پر فائز رہنے سے وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ کب آواز میں وزیر اعظم والا لہجہ گھولنا ہے! مگر ابھی سے اِس قدر اعتماد! ابھی پولنگ کا جاں گُسل مرحلہ باقی ہے۔ ابھی تو اُن کے شیر کو ”باگڑ بَلّے“ کا سامنا کرنا ہے! میاں صاحب کا اعتماد دیکھ کر ڈر لگتا ہے۔ اللہ خیر کرے، کہیں مُک مُکا والی قیاس آرائیاں حقیقت سے قریب تو نہیں؟
نگراں حکومت کے سَر پر بوجھ بڑھتا جارہا ہے۔ بے چاری جان بھی نہیں چُھڑا سکتی۔ ع
کام وہ آن پڑا ہے کہ بنائے نہ بنے!

”کیا ہے جو پیار تو پڑے گا نبھانا“ کے مِصداق نگرانوں کو اب اپنے حصے کا کام تو کرنا ہی پڑے گا۔ اوکھلی میں سَر دے ہی دیا ہے تو مُوسل سے کیا ڈرنا! ہاں، یہ بات ضرور اُلجھنیں بڑھا رہی ہے کہ کئی پوٹلے بیک وقت کھولے جارہے ہیں۔ ابھی تو پرویز مشرف کے خلاف مقدمات کا آغاز ہوا ہے۔ دوسری بڑی مچھلیاں سُکون کا سانس نہ لیں، اُن کا نمبر بھی آسکتا ہے۔ رینٹل پاور کیس بھی موجود ہے جو کسی بھی وقت بم کی طرح پھٹ سکتا ہے۔ اربوں روپے کی کرپشن اور ترقیاتی فنڈز کی بندر بانٹ کا معاملہ بھی سُپریم کورٹ کی نظر میں ہے۔ سابق صدر کے خلاف کیسز کھول کر سُپریم کورٹ نے اپنے لیے ایک اور چیلینج تیار کرلیا ہے یعنی یہ کہ دوسری بڑی مچھلیوں کو بھی جال میں لانا پڑے گا!

جب بھی عوام سے رائے طلب کرنے کا مرحلہ آتا ہے، معاملات کو اِس قدر اُلجھا دیا جاتا ہے کہ رائے دینے والے پریشان اور بدحواس ہو جاتے ہیں! اب کے بھی عجیب ہی جمہوری بہار عجیب ہی انداز کے گل کِھلانے پر تُلی ہوئی ہے۔ لوگوں کو انتخابی مہم کے دوران ایسے عجیب تماشے دیکھنے کو ملتے ہیں کہ وہ ٹوپی سے کبوتر اور رومال سے انڈا نکالنے جیسے شُعبدے بھی بُھول بھال جاتے ہیں! سیاسی جلسوں میں لوگ تھیٹر، سرکس اور چڑیا گھر کا مزا ایک ساتھ پاتے ہیں!

حامیوں کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر دیکھ کر سیاست دان اپنے حواس میں نہیں رہتے اور بڑھکیں مارتے مارتے کہیں سے کہیں نکل جاتے ہیں! پھر اُنہیں خیالی جنت کی بُھول بُھلیّوں سے کھینچ کھانچ کر حقیقت کی دُنیا میں واپس لانا پڑتا ہے! کئی ایسے بھی ہیں کہ پھر واپس نہیں آتے! بے نظیر بھٹو کو آپ شاید بُھول گئے؟ وہ بھی معاملات طے کرکے آئی تھیں مگر جب وطن کی فضاو ¿ں میں اپنے حامیوں اور جاں نثاروں کا والہانہ انداز دیکھا تو ہر سمجھوتہ بُھول گئیں! اِس کے بعد جو کچھ ہوا وہ تاریخ ہے! جیالوں، متوالوں اور دِل والوں کے لیے مشورہ ہے کہ اپنے قائدین کو چاہنے کے معاملے میں چند ایک حدود میں رہا کریں۔ ع
اب اِس قدر بھی نہ چاہو کہ دَم نِکل جائے!

انتخابی مہم زور پکڑ رہی ہے اور شُغل میلے کا گراف بلند ہوتا جارہا ہے تو چند ایک شخصیات کی کمی شدت سے محسوس ہو رہی ہے۔ ”شیخ الاسلام“ ڈاکٹر طاہر القادری بھی ہوں تو مزا ہی آجائے! کچھ عرصہ قبل بھی تو اُنہوں نے دھماچوکڑی مچائی تھی۔ انتخابی ڈرامے میں ایک شاندار اور دھانسو قسم کے ایکٹ کی کمی محسوس کی جارہی ہے جو ”شیخ الاسلام“ کے آنے سے پوری ہوسکتی ہے۔ پہلے کِسی کی فرمائش پر آئے تھے، اب ہماری فرمائش پر آجائیں! اُن کی کمی اُسی طرح محسوس ہو رہی ہے جس طرح سالن میں نمک کی کمی محسوس ہوتی ہے! اور سچ تو یہ ہے کہ اُنہوں نے ایک ہنگامے کی طرح آکر چند ایک حریفوں کو تو نمک، ہمارا مطلب ہے خاک چٹا ہی دی تھی!

ڈاکٹر طاہر القادری نے اعلان کیا تھا کہ اُن کی جماعت انتخابات کے موقع پر ملک بھر میں دھرنے دے گی۔ بھئی، وہ تو بہت دور کی بات ہے۔ ہر جماعت کے جلسوں میں جوش و خروش سے شریک ہونے والے ”بھائی جان، مہربان، قدر دان“ ڈاکٹر طاہرالقادری کی آمد کے منتظر ہیں۔ وہ بھی میدان میں نکلیں تو انتخابی مہم کا رنگ کچھ اور نِِکھر جائے، لطف دو بالا ہوجائے! جنہیں اُنہوں نے بہ بانگِ دُہل ”سابق“ قرار دے دیا تھا وہ بھی اب سابق ہوچکے! آکر ذرا اِن سابقین کا تماشا ہی دیکھ لیں۔ کینیڈا کی حکومت سے التماس ہے کہ تھوڑی سی مہربانی کرے، ڈاکٹر صاحب کو کچھ دِن کے لیے ریلیز کرے تاکہ ہماری سیاست کے تن نازک کو تھوڑا سا ٹانک میسر آجائے، کچھ اور جان پیدا ہو!
M.Ibrahim Khan
About the Author: M.Ibrahim Khan Read More Articles by M.Ibrahim Khan: 572 Articles with 483545 views I am a Karachi-based journalist and columnist. .. View More