حضرت آدم علیہ السلام سے سفر
کرتے ہوئے انسانی تاریخ آخر کار ایک ایسے پوائنٹ آف نو ریٹرن پر پہنچ گئی
ہے جس کا پس منظر منافقت، خود غرضی ، ظلم و جبر، قتل و غارتگری سے لبریز
ایک مکروہ، خوفناک اور بھیانک صورت اختیار کر چکا ہے جب کہ اس کا پیش منظر
نہایت روشن ، چمکدار ، رنگین اور دلفریب عکس بندی کا شاہکار ہے۔ ہر سُو ایک
ہنگامی افراتفری اور بھاگ دوڑ برپا ہے اور یوں لگتا ہے کہ ہر شخص وقت سے
پہلے اپنے انجام کو پہنچ جانے کا متمنی ہے۔کوئی ادارہ اور کوئی شخص بنیادی
طور پر بُرا نہیں ہوتا۔لیکن دنیا کی حرص و ہوس میں مبتلا ہوکر وہ ایک گندی
مچھلی کا روپ دھار لیتا ہے۔ ہرادارے اور معاشرے میں چند گندی مچھلیاں ایسی
ہوتی ہیں جن کی وجہ سے سارا جل گندہ ہوجاتا ہے ان سے پورا ادارہ بدنام ہوتا
ہے یہ چند اشخاص ناموس دین ، ناموس وطن اور ناموس ملت کو اپنی خود غرضی کی
بھینٹ چڑھا کر اللہ اور رسول کے ساتھ ساتھ اپنی قوم سے بھی غداری کے مرتکب
ہوتے ہیں۔ میرا پاک وطن پاکستان گزشتہ پینسٹھ سالوں سے ایسے ہی منافقوں،
لٹیروں، ظالموں، بے رحم اور بے حس حکمرانوں کے نرغے میں ہے۔ جو اس کے زخموں
پر مرہم رکھنے اور اس کی محرومیاں دور کرنے کی بجائے اسے مزید لہولہان کرنے
پر تُلے ہوئے ہیں۔ یوں تو صحت ، تعلیم ، مالیات اور برقیات جیسے تمام ملکی
ادارے نہایت اہمیت کے حامل ہیں۔ جب کہ مقننہ ، عدلیہ، فوج اور میڈیا ریاست
کی طاقت اور بڑے ستون ہیں ۔جن کا درست کردار ہی ملک و قوم کو بلند ترین سطح
پر لے کر جاتا ہے جب کہ منفی کردارزوال سے ہمکنار کرتا ہے۔ اس وقت پاکستان
ذلت و رسوائی اور زوال کی جس نہج پر پہنچ چکا ہے مذکورہ بالا اداروں میں
کوئی بھی خود کو اس سے بری الذمہ قرار نہیں دے سکتا۔ میرے پاک وطن کی سپریم
کورٹ ایک قابل احترام ادارہ ہے اور اس کے تمام ججز واجب عزت و احترام اور
لائق تحسین ہیں جو بنیادی انسانی حقوق ، قانون کی بالا دستی اور عوام تک
عدل و انصاف فراہم کرنے کے لئے اپنا ذمہ دارانہ کردار ادا کرتے ہیں جب کہ
وُکلاءاپنے مقدس پیشے کے اعتبار سے تمام فریقین کی بلا امتیاز قانونی
معاونت کے لئے اہم کردار ادا کرتے ہیں اس لحاظ سے ان کا مقام بھی واجب
تکریم ہے اسی طرح سیاست ایک پاکیزہ راہ عمل ہے جس سے ملک و ملت کی بہترین
خدمت کی جا سکتی ہے۔ پارلیمان کو چلانے اور کامیاب پالیسیاں مرتب کرنے کے
لئے سیاست دانوں کی کارکردگی بھی نہایت اہمیت کی حامل ہے۔ لیکن نہایت ادب و
احترام اور معذرت کے ساتھ یہ عرض کرنا ضروری ہے کہ ارض وطن کے ہر ادارے اور
انسٹی ٹیوشن میں جہاں اعلیٰ اور قابل فخر کردار کے افراد کام کررہے ہیں
وہاں چند گندی مچھلیاں ایسی بھی ہیں جو اپنے گھناﺅ نے اور مکروہ عزائم کے
سبب اپنے اپنے اداروں کے لئے بدنامی اور ذلت و رسوائی کا باعث بنے ہوئے ہیں۔
ان کا کردار کبھی کسی معاملے میں اچھا اور پر امن نہیں رہا۔
میں اپنی زندگی میں آج تک کبھی جنرل (ر) پرویز مشرف سے نہیں ملا نہ اسے
کبھی قریب سے دیکھا ہے اور نہ ہی میرا اس سے کوئی ذاتی یا سیاسی مفاد
وابستہ ہے۔ میں کسی مارشل لاءیا ڈکٹیٹر شپ کا حامی بھی نہیں ہوں۔ میں حق و
سچ کا بول بالا ہونے اور عدل و انصاف کی عملداری میں ہی ملک و قوم کی
بھلائی سمجھتا ہوں۔ چونکہ جنرل (ر) پرویز مشرف کا کیس عدالت میں ہے اس لئے
میں سمجھتا ہوں کہ اسے اپنے دفاع اور صفائی کا پورا موقع ملنا چاہیے۔ لیکن
اس حوالے سے گزشتہ چند دنوں میں میڈیا پرجو کچھ سامنے آیا وہ قابل مذمت ہے۔
ہمارے مختلف اداروں کی چند گندی مچھلیاںکچھ ابن الوقت لوگ جن کے گھناﺅنے
عزائم اور مفادات کی وجہ سے ملک پاکستان پہلے ہی تباہی و بربادی کے دھانے
پر پہنچ چکا ہے۔ یاجوج ماجوج کی مکروہ صورتوں کے ساتھ تان و تشنیع کے تند و
تیز چُھرے لے کر قصائیوں اور بھیڑیوں کی شکل میں پرویز مشرف پر پل پڑے ہیں
اور قانون کو اپنے ہاتھ میں لے کر ان کی بوٹیاں نوچ لینا چاہتے ہیں۔ یہ چند
ناہنجار سیاستدان، وُکلاء، صحافی اور کئی اداروں کے شُرفاءجو اپنے روایتی
فتنہ فساد اور قو م کو غلط پروپیگنڈا کے ذریعہ گمراہ کرنے میں ید طولیٰ
رکھتے ہیں عدالتوں پر پریشر بڑھا کر اپنی مرضی کے فیصلے مسلط کروانا چاہتے
ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ایک پرویز مشرف کو صلیب پر چڑھا دینے سے باقی سب کے
گناہ معاف ہو جائیں گے۔ اور وہ سب قربانی کے اس گنگا جل میں اشنان کرکے
پوتر ہوجائیں گے۔ جب کہ دوسری جانب یہی لوگ رات دن ملک و عوام کی خدمت ،
امن و سلامتی اور عدل و انصاف کا ڈھنڈورا پیٹتے ہوئے نہیں تھکتے۔ پاکستان
کی گزشتہ تاریخ میں ان لوگوں نے جو سیاہ کارنامے اور کرتُوت سر انجام دیئے
ہیںوہ کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں۔اصل حقیقت یہ ہے کہ یہ ملک و قوم کو تباہ
کرنے ، کمیشن کھانے اور سیاست کے ذریعہ حرام کا مال بنانے والے لٹیرے، غلیظ
اور گندے کردار کے حامل لوگ جنرل پرویز مشرف جیسے لوگوں کو اپنی ناپاک لوٹ
مار کے راستے کی رکاوٹ سمجھتے ہیں۔ بڑی عجلت اور تیز رفتاری سے پرویز مشرف
کے گرد قانونی شکنجہ کسنے اور اسے نشان عبرت بنانے کے خواہش مند مشرف فوبیا
کے مرض میں مبتلا ہو کر اپنے انجا م سے اندھے ہو چکے ہیں۔ میڈیا پر چوبیس
گھنٹے منفی پروپیگنڈا کے ذریعہ عوام کو اصل حقائق سے گمراہ کیا جا رہا ہے۔
جنرل پرویز مشرف نے رضاکارانہ طور پر پاکستان آکر خود کو قانون کے حوالے
کیا ہے لیکن عوام کو گمراہ کرنے اور دھوکہ دینے والے یہ چند مکار اور فریبی
خوشی سے بغلیں بجارہے ہیں اور اسے سیاست سے باہر دیکھ کر مسرور ہیں۔ میں
فرشتہ نہیں ہوں ممکن ہے میں غلطی پر ہوں ۔ لیکن میں سمجھتا ہوں جنرل پرویز
مشرف نہ تو ملک و قوم کا دشمن ہے نہ اس نے کمیشن کھایا ہے نہ اس نے دوسروں
کی طرح ملک و قوم کا پیسہ لوٹا ہے اور ابھی اس پر غداری بھی ثابت نہیں ہوئی
۔ پھر قوم یہ امید کرنے میں حق بجانب ہے کہ اسے ذاتی انتقام کا نشانہ نہیں
بنایا جائے گااور اس کے ساتھ زیادتی و ناانصافی نہیں ہوگی۔ جیسا کہ موجودہ
صورت حال سے محسوس ہورہا ہے ۔ جب جرم ثابت ہوجانے اور کیس کا فیصلہ ہونے سے
قبل یہ کہا جائے گا کہ پرویز مشرف کی حمایت کرنے یا اس کے حق میں بولنے
والا شخص بھی اس کا معاون اور مجرم تصور ہوگا۔ اور یہ کہا جائے گا کہ میں
کس کے ہاتھ پہ اپنا لہو تلاش کروں تو پھر یہ شکوک و شبہات یقین میں بدلنا
شروع ہو جائیں گے کہ ایک طے شدہ منصوبے کے تحت مقتدر قوتوں نے پہلے سے یہ
فیصلہ کر لیا ہے کہ وہ پرویز مشرف کو ہر صورت سزا کا مزہ چکھانا چاہتی ہیں۔
اس طرح مدعا علیہ کے جسٹس سے محروم ہو جانے کی صورت میں پاکستان کی تاریخ
پر ایک اور کلنگ کا ٹیکہ لگنے کا خدشہ پیدا ہوگیا ہے۔ جرم ثابت ہوجانے کے
بعد ہر صورت مجرمین کو اپنے انجام کو پہنچنا چاہیے ۔ لیکن میں اپنے تمام
صحافی ، وکلاءبھائیوں اور محترم سیاستدانوں سے درخواست کروں گا کہ وہ قبل
از وقت منفی بیان بازی اور جانبداری کا مظاہرہ کرکے کسی حق دار کو اس کے حق
سے محروم نہ کریں۔ اور کیس پر اثر انداز ہونے سے بچیں۔ بلکہ انہیں چاہیے کہ
اپنے قلم ، اپنے بیاتات اور عمل و کردار سے اپنی سچائی ، بڑائی اور عظمت کا
ثبوت پیش کریں۔ تاریخ شاہد ہے سچائی کے راستے پر چلنے والے صلیب پر جان تو
دے سکتے ہیں لیکن وہ دنیا بھر کی باطل قوتوں اور شیطانی ہتھکنڈوں کے آگے
ہتھیار کبھی نہیں ڈالتے۔ اس لئے سب لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی رضا اور
خوشنودی کے لئے آپس کی ذاتی دشمنیاں ختم کر کے ایک ہو جانا چاہیے۔ انتقام
اور دشمنی کی آگ میں سب کچھ جلا کر بھسم نہیں کر دینا چاہیے ہمیں بلند
حوصلے ، درگزر اور قوت برداشت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی انسانیت کو زندہ
رکھنا چاہئے کیونکہ ہم سب لو گ پہلے انسان ہیں اس کے بعد جج ، جنرل، وکیل،
صحافی یا سیاستدان وغیرہ ہیں۔ |