الیکشن کی آمد آمد اور درد دل رکھنے والوں کے لیے ایک اہم پیغام
(Abdul Qadoos Muhammadi, )
بسم اللہ الرحمن الرحیم
جب سے الیکشن کا غلغلہ بلند ہوا اس وقت سے دردِ دل رکھنے والے، محب وطن،
اسلام پسند حلقوں کی جانب سے مسلسل اس فکر مندی کا اظہار کیا جارہا ہے کہ
مذہب پسندوں،استعماری طاقتوں سے فکری محاذ پر نبرد آزما قوتوں کا ووٹ بینک
تقسیم نہ ہو،الیکشن کے نام پر باہمی تفریق و تقسیم کی خلیج مزید وسیع نہ
ہو،آپس میں محاذ آرائی کی فضا نہ بننے پائے ۔اس سلسلے میں بنیادی طور پر تو
یہ تصور پیش کیا گیا کہ ان انتخابات میں ”استعمار دشمنی“ کے یک نکاتی
ایجنڈے پر ایک وسیع تر اتحاد تشکیل دیا جانا چاہیے اور اسی بنیاد پر آنے
والے انتخابات کے اکھاڑے میں اترنا چاہیے۔اس سوچ کی کھچڑی تو بہت پہلے پکنی
شروع ہوئی لیکن ہائے افسوس کہ یہ بیل منڈھے نہ چڑھ سکی اور مسلم لیگ ”ن“،جمعیت
علمائے اسلام اور ایم ایم اے میں شامل دیگر جماعتیں ،جماعت اسلامی اور
متحدہ دینی محاذ کے نام سے چند ایسے پلیٹ فارم سامنے آئے جو کم از کم
پاکستان کی آزادی و خود مختاری اور دائیں بازو کے رجحانات کے باعث یکجا
ہوسکتے تھے (اس موضوع پر اگلی کی نشست میں بات ہوگی) لیکن کئی اسبا ب و
وجوہات کی بنا پر یہ خواب شرمندہ تعبیر نہ ہو پایا تو اس بات کی فکر کی
جانے لگی کہ کم از کم اہلِ حق کا بکھرا ہوا شیرازہ مجتمع کرنے کی ضرورت
ہے۔یہ آواز سب سے پہلے وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے صدر اور مخدوم
العلماءشیخ الحدیث حضرت مولانا سلیم اللہ خان دامت العالیہ کی طرف سے سامنے
آئی۔جامعہ احسن العلوم کراچی کے طلباء،جامعہ اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن اور
دیگر جامعات کے اساتذہ و طلباءکی شہادتوں کے بعد جب مولانافضل الرحمن کی
رہائش گاہ پر تمام جید علماءکرام اور اکابر کا اجلاس ہوا تو اس میں حضرت نے
بڑی دردمندی، فکرمندی، خلوص اور محبت سے مولانا فضل الرحمن ،مولانا سمیع
الحق اور دیگر تمام علماءکرام سے کہا کہ وہ امت کے حال پر رحم کریں اور
اسلام پسندوں کے ووٹ بینک کو تقسیم ہونے سے بچائیں ورنہ وہ بھی روئیں گے
اور پوری قوم بھی روئے گی لیکن اس پچھتاوے سے کچھ ہاتھ نہ آئے گا ۔پھر جوں
جوں انتخابات کا مرحلہ قریب آتا گیا تو ایک افسوس ناک رجحان تو یہ سامنے
آیا کہ سیکولر طبقات،نظریہ پاکستان کے مخالفین اور اسلام بیزار لوگ تو یکجا
اور یک جان دکھائی دئیے لیکن جنہیں متحد ومتفق ہو نا چاہیے تھا وہاں جوتوں
میں دال بٹتی رہی، شراب نوشی کے مرتکب شخص کی نااہلی کو نظریہ پاکستان کا
رنگ دے کر نظریہ پاکستان اور اسلام کے خلاف وہ طوفان بدتمیزی برپا کیا گیا
کہ الامان و الحفیظ ....اسی طرح امریکا کی حامی اور ہمنوا قوتوں کے ما بین
مفاہمت اور معاونت کا ماحول دکھائی دیا لیکن دوسرے کیمپ میں کھینچا تانی کی
فضا بنی رہی ایسے میں اہل حق کے مابین اتحاد نہ سہی کم از کم سیٹ ایڈجسٹمنٹ
کی کوششیں مزید تیز ہوگئیں چنانچہ کراچی میں ایسی معروف درسگاہیں جو ہمیشہ
خود کو انتخابی سیاست سے دور رکھتی ہیں اور ایسی شخصیات جو موجودہ جمہوری
سسٹم سے اپنا دامن بچائے رکھنے میں ہی عافیت سمجھتی ہیں انہوں نے بھی حالات
کی نزاکت کو بھانپتے ہوئے میدانِ عمل میں موجود جماعتوں،شخصیات اور کارکنوں
کے متعدد اجلاس منعقد کروائے،ان کے درمیان مفاہمت کیلئے راہ ہموار کرنے کی
کوشش کی۔
اس سلسلے میں سب سے منفرد اور قابل تقلید مثال مری میں سامنے آئی۔ اس حلقے
میں جمعیت علماءاسلام ف اور ن کے دھڑوں میں پہلے سے بٹی ہوئی ہے ۔جمعیت
علماءاسلام ”ف“ کی قیادت مولانا سیف اللہ سیفی فرمارہے ہیں جبکہ مولانا
سفارش عباسی اور مولانا محمود الرشید حدوٹی جمعیت علماءاسلام نظریاتی کے
ساتھ وابستہ ہوگئے ۔انتخابات کے موقع پر عز مِ انقلاب پارلیمانی گروپ کے
نام سے جواں سال ،باہمت اور محنتی نوجوانوں کی شکل میں ایک ایسا” آپشن
“سامنے آیا جس کی قیادت اشتیاق عباسی اور چودھری عنصر کر رہے تھے ۔اہلسنت
والجماعت کے وابستگان اور جواں سال علماءومذہبی کارکنوں کی حمایت سے سامنے
آنے والے اس گروپ نے مری کی سیاست میں ہلچل پیداکردی ایسے میں دردِ دل
رکھنے والے حضرات نے مری کے اہلِ حق کے مابین اتحاد کا بیڑہ اٹھایا ۔برسوں
کی نفرتوں کے کانٹے چننا ،عشروں کی دوریوں کی خلیج کو پاٹنا اتنا آسان نہیں
ہوتا لیکن جہد مسلسل ،حسن نیت اور مری کے تمام جید علماءکرام اور درد دل
رکھنے والوں کی محنت کے نتیجے میں بالآخر یوں ایڈجسٹمنٹ ہوئی کہ مولانا سیف
اللہ سیفی قومی اسمبلی اور جواںسال اشتیاق عباسی صوبائی اسمبلی کے امیدوار
کے طور پر سامنے آئے اور ایک ایسا منفر د گروپ تشکیل پایا جس میں قبلہ سیفی
صاحب جمعیت علماءاسلام کی طرف سے کتاب کے انتخابی نشان اور متحدہ دینی محاذ
کی طرف سے اشتیاق عباسی سیڑھی کے انتخابی نشان پر الیکشن میں حصہ لے رہے
ہیں اور اس اتحاد کی وجہ سے آج مری کے تمام اہلِ حق ،تمام دینی مراکز اور
تمام علاقوں میں یکسوئی اور یکسانیت دکھائی دیتی ہے ۔
اسی طرح کی ایک کوشش حضرت مولانا پیر عزیز الرحمن ہزاروی اور دیگر حضرات نے
کی صوبہ خیبر پختونخواہ میں کی جہاں اس کوشش کی ضرورت شدت سے محسوس کی
جارہی تھی۔ مولانا عزیز الرحمن ہزاروی کو اللہ رب العزت نے عجیب اوصاف سے
نوازا ہے اور پھر ان کا خلوص اور درد دل نور علیٰ نور کا مصداق ہے ۔ حضرت
ہزاروی دامت برکاتہم نے جمعیت علماءاسلام ”ف “ اور ”س“ کے مابین دوریوں اور
محاذ آرائی کو کم کرنے کی کوشش کی اور طویل جد وجہد کے بعد بالآخر نوشہرہ
میں مولانا سمیع الحق صاحب کے جواں سال صاحبزادے اور سابق ایم این اے
مولانا حامد الحق کے مقابلے میں جامعہ تحسین القرآن نوشہر ہ کے مہتمم ،خادمِ
قرآن وسنت حضرت مولانا عمر علی صاحب کو دستبردار کروانے میں کامیاب ہوگئے ۔مولانا
عمر علی اپنے علاقے میں خاصا اثر ورسوخ رکھتے ہیں ۔ان کا معیار ی اور منفرد
ادارہ خدمت قرآن کا مثالی اور منفرد مرکز ہے۔ ان کے تلامذہ اور متعلقین کا
حلقہ خاصا وسیع ہے لیکن انہوں نے بڑے پن کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے مادرِ
علمی جامعہ حقانیہ کے مشائخ کی لاج رکھی اور انتخابات سے دستبردار ہوگئے یہ
صوبہ خیبر پختونخواہ کے حوالے سے ایک بڑا بریک تھر و تھا جس کا فوری اثر
مردان میں مولانا قاسم صاحب اور مولانا فضل الرحمن کے مقابلے میں جمعیت
علماءاسلام (س ) کے امیدواروں کی دستبرداری کی صورت میں سامنے آیا جو یقینا
بہت مستحسن اقدام تھا جس کی وجہ سے فضا میں موجود تکدر میں خاصی کمی آئی ۔لیکن
ابھی اس حوالے سے بہت محنت کی ضرورت ہے۔ اس کا م کا بیڑہ حضرت مولانا زاہد
الراشدی اور ان کی نفاذ شریعت کونسل نے اٹھا رکھا ہے اور وہ ہر علاقے میں
جاکر علماءاور اہلِ درد کو متحد ومتفق کرنے کی کوشش بھی کر رہے ہیں اور اس
کے لیے ذہن سازی میں مصروف عمل ہیں ۔اس سلسلے میں وفاق المدارس کے مستعداور
باصلاحیت ناظم اعلیٰ مولانا محمد حنیف جالندھری نے جماعت اسلامی کے سابق
امیر قاضی حسین احمد مرحوم کی حیات میں اتحاد تنطیمات مدارس کے پلیٹ فارم
سے پہلے تمام مذہبی قوتوں کے ووٹ بینک کو تقسیم ہونے سے بچانے کی کوشش سے
کیا اور بعد ازاں اہلِ حق علماءدیوبند سے وابستگی رکھنے والی جماعتوں کے
مابین داخلی طور پر مفاہمت کی مسلسل جدوجہد کی ۔ اس حوالے سے سب سے
تواناآواز اکابرِ وفاق کی طرف سے سامنے آئی ہے ۔وفاق المدارس العربیہ
پاکستان کے صدر شیخ الحدیث مولانا سلیم اللہ خان ،مفتی اعظم پاکستان مفتی
محمد رفیع عثمانی اورمولانا ڈاکٹر عبدالرزاق اسکندر کی طرف حالیہ دنوں میں
ملتان میں منعقد اجلاس میں ایک پیغام پڑھ کر وفاق المدارس کے تما م ضلعی مسﺅ
ولین کو سنایا گیا اور اسے آگے پہنچانے کا عہد لیا گیا ۔
وہ پیغام یہ تھا
”گزارش ہے کہ آنے والے انتخابات میں مذہبی جماعتوں میں عدم اشتراک بلکہ بہت
سے حلقوں میں محاذ آرائی کی جو کیفیت نظر آرہی ہے وہ انتہائی پریشان کن ہے
اور ملک کے مستقبل کے حوالے سے تشویشناک ہے ۔عالمی اور ملکی سیکولر حلقے
پاکستان کے اسلامی تشخص کو مجروح کرنے ،دستور وقانون سے اسلامی دفعات کو
غیر موثر بناے اور سیکولر ایجنڈے کو مسلط کرنے کے لیے جس طرح سرگرم عمل ہیں
،اس کا تقاضہ ہے کہ متفقہ لائحہ عمل اختیار کریں اور خاص طور پر الیکشن کے
موقع پر سیکولر قوتوں کا مل جل کر مقابلہ کریں ۔اس لیے ملک بھر میں سنجیدہ
علماءکرام اور دینی اداروں سے اہم اپیل کرتے ہیں وہ فور ی طور پرضلعی سطح
پرمل بیٹھ کر اپنے اپنے ضلع کی صورتحال کا جائزہ لیں اور کوشش کریں کہ
انتخابات میں حصہ لینے والے امیدواروں میں باہم تعاون واشتراک کی فضاءقائم
ہو اور جہاں بھی مذہبی جماعتوں کے امیدوار ایک دوسرے کے مقابلہ میں کھڑے
ہیں ان میں مفاہمت کا کردار ادا کر کے کسی ایک پر اتفاق کروایا جائے ۔وقت
بہت کم ہے اس لیے اس کام کو ضلعی سطح پر اور چند روز کے اندر کرنے کی کوشش
کی جائے اور جہاں انتہائی ضرورت ہو وہاں اکابر سے رابطہ کرکے ان سے تعاون
اور رہنمائی کی درخواست کی جائے ۔
امید ہے کہ اس مکتوب کو پڑھنے والے سب حضرات اس سلسلہ میں اپنی ذمہ داری
محسوس کرتے ہوئے ہر ممکن کردار ادا کرنے کی کوشش کریں گے اور اس مکتوب
کوزیادہ سے زیادہ پھیلانے کی محنت کریں گے ....منجانب (۱)حضرت مولانا سلیم
اللہ خان (۲)حضرت مولانا مفتی محمد رفیع عثمانی (۳)حضرت مولانا ڈاکٹر
عبدالرزاق اسکندر“
باہمی اتحاد واتفاق کی ان کو ششوں کا اگرچہ بہت زیادہ فائدہ نہیں پہنچا اور
جوں جوں انتخابات قریب آرہے ہیں بعض تشویشناک اطلاعات اور افواہیں گردش
کرنے لگی ہیں ایسے میں جو جو جس حدتک امت کے مابین اتحاد ویکجہتی کے لےے کو
شش کرسکے اسے کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کرنا چاہیے ،ممکن ہے کسی کی کوئی
معمولی سی کوشش امت کی فلاح، پاکستان کے بہتر مستقبل اور سعادت دارین کا
ذریعہ بن جائے ۔ |
|