جب مشرف نے نواز شریف کی حکومت
پر ڈاکہ ڈالا تھا تو لوگوں نے مارے خوشی کے مٹھائیاں بانٹی تھیں۔ بھنگڑے
ڈالے تھیں۔ نو سالہ اقتدار مشرف سے تنگ آکر جب اُسے بھی رخصت کیا گیا تو
لوگوں نے پھر سے شکر کا کلمہ پڑا ۔ اُس کے بعد نام نہاد جمہوری دور کی مدت
پوری ہوئی تو عوام نے حسب عادت ایک بار پھر سکھ کا سانس لیا ۔ اس اُمید پر
کو شائد اب حالات بہتر ہو جائیں۔لیکن حالات ہمیشہ مزید بگڑتے چلے گئے
اورگزرے ہوئے حکمران یاد آنے لگے ۔ زرداری کے اقتدار میں آنے کے چند مہینوں
کے بعد ہی لوگ مشرف کو یاد کرنے لگ گئے تھے۔ کیونکہ مشرف کے دور میں نہ تو
اتنی مہنگائی تھی اور ہی اندھا دھند اندھیرے۔ اسی طرح نگران حکومت کے آنے
پر بھی ایک امید کی کرن جاگی تھی کہ اور کچھ ہو نہ ہو اس ملک سے لوڈ شیڈنگ
میں کمی ضرور آئے گی۔لیکن ہوا بالکل اس کے برعکس۔ جہاں 18 گھنٹے لوڈ شیڈنگ
ہوتی تھی وہاں اب 22 گھنٹے ہو رہی ہے۔یہ 2 گھنٹے کا احسان بھی جانے کب ختم
ہو جائے ۔ اور ملک مکمل طور پر ماضی بعید میں چلا جائے۔ہر آنے والی حکومت
جانے والی حکومت کو ذمہ دار ٹھہراتی ہے اور بجائے اس کے کہ حالات پر قابو
پایا جا سکے؛ خود بھرپور طریقے سے اقتدار کے مزے لوٹتی ہے اور جاتے جاتے بے
شمار مراعات اپنے نام لکھوا کر عمر بھر کے فکروں سے آزاد ہو جاتی ہے۔ یہی
جمہوریت ہے اور یہی سیاست۔
سیاست ایک ایسا تالاب ہے جہاں ایک نہیں ساری کی ساری مچھلیاں گندی نظر آتی
ہیں۔ اقتدار میں آتے ہی ان کے گھروں میں نوٹ بنانے والی مشینیں لگ جاتی ہیں
اور ان مشینوں میں کاغذ کی جگہ غریب ، بے بس، لاچار اور بھولی بھالی عوام
کا جسم اور سیاہی کی جگہ اُن کا لہو استعمال ہوتا ہے۔پھر انہی نوٹوں سے
عالی شان محلات تعمیر کیئے جاتے ہیں اور بڑی بڑی گاڑیاں خریدی جاتی ہیں۔
اسی عوام کے ووٹوں سے اقتدار کی گدی پر بیٹھنے والے اسی عوام کو اس طرح
بھول جاتے ہیں جیسے کبھی ان کو جانتے تک نہ ہوں۔کون کس حال میں جی رہا ہے ،
کس علاقے میں کون سی بنیادی ضروریات زندگی کا ہونا ضروری ہے،اور جن وعدوں
کی بنیاد پر اپنے علاقے کے لوگوں سے ووٹ حاصل کیئے ہوتے ہیں کیا اُن میں سے
کوئی وعدہ پورا کرنا ضروری ہے یا نہیں۔ان سب باتوں کی ان کے لیئے کوئی
اہمیت نہیں ہوتی۔ان کو صرف اقتدار چاہئے ہوتا ہے سو وہ حاصل کر چکے ہوتے
ہیں اب کوئی جیئے یا مرے انہیں کسی کی کوئی پروا ہ نہیں ہوتی۔یہ وہی لوگ
ہیں جو ہر بار الیکشن کے قریب آپ کے دروازے پر ووٹ مانگنے کے لیئے اپنی
جھولیاں پھیلا دیتے ہیں اور آپ ایک بار پھر ان کے جھانسے میں آجاتے ہے۔اور
اپنی غلطیوں کی سزا اگلے آنے والے الیکشن تک بھگتتے رہتے ہے۔ کوئی روٹی
کپڑا اور مکان کا لالچ دیتا ہے تو کوئی لوڈ شیڈنگ ختم کرنے کا وعدہ کرتا ہے،
کوئی نوجوانوں کو اپنے جال میں پھنسانے کے لیئے اُن میں لیپ ٹاپ تقسیم کرتا
ہے تو کوئی بوری بند لاشوں کی وجہ سے خوف کی علامت بن کر زبردستی ووٹ چھین
لیتا ہے۔ امیدوار وہی پرانے ہوتے ہیں ۔ البتہ ان میں سے چند امیدوار ہر بار
پارٹی ضرور بدل لیتے ہیں اور پھر کہتے ہیں ہم تبدیلی لائیں گے۔
عوام پرانے اور بار بار آزمائے ہوئے چہروں سے تنگ آ چکی ہے۔ اور نیا
پاکستان بنانے کی خاطر نئے لوگوں کو دیکھنا چاہتی ہے۔اب نئے لوگوں کو
ڈھونڈنے نکلیں تو ان میں بھی پرانے لوگ چھپے ہوئے ہیں۔لیکن ان نئے لوگوں
میں اکثریت اُن لوگوں کی ہے جنہوں نے ابھی تک اقتدار کا مزہ نہیں چکھااور
نہ ہی ان پر کوئی کرپشن کے الزامات ہیں۔ ان کے ہاتھ ابھی تک بڑی حد تک صاف
ہیں۔ ان میں اقربا پروری کی ابھی تک وبا نہیں پھوٹی۔اگر ان کا دوسری پارٹیز
جو دو دو یا تین تین بار اپنی باری لے چکی ہیں سے موازنہ کیا جائے تو یہ
لوگ ابھی تک اُن سے قدرے بہتر نظر آتے ہیں۔لیکن یہ سیاست ہے ۔ یہ گندی
مچھلیوں سے بھرا ہو ایک بہت بڑا تالاب ہے۔ جسے اس گندگی سے پاک کرتے کرتے
نہ جانے کتنے سال لگ جائیں۔ اس تالاب کو پاک اور صاف کرنا صرف کسی ایک
سیاسی پارٹی کا کام نہیں عوام کی بھی ذمہ داری ہے اور عوام کو اپنی یہ ذمہ
داری بڑی ایمان داری سے نبھانی ہے۔ ووٹ اس برائی کے خلاف ایک بہت بڑا
ہتھیار ہے جسے استعمال کرتے ہوئے ہر کوئی ایک اچھا، ایماندار اور محب وطن
لیڈر چننے میں اپنا کردار ادا کر سکتا ہے۔
اب سوچنا یہ ہے کہ اچھے لوگوں کو کیسے چنا جائے۔ اگر کسی حلقے کے تمام
امیدوار اُس حلقے کی عوام کے معیار پر پورا نہیں اُترتے تو یہ فیصلہ کرنا
ہو گا اُن تما م بُرے لوگوں میں سب سے کم برا امیدوار چن لیا جائے تاکہ
اپنے ووٹ کا استعمال کر کے کم از کم کسی زیادہ بُرے امیدوار کو کامیاب نہ
ہونے دیا جائے۔ اس سے بُرائی ختم تو نہیں ہو گی لیکن کم ضرور ہو جائے
گی۔بُرائی کو اسی طرح سے شکست دی جاسکتی ہے کیوں کہ 65 سالوں سے بگڑا ہوا
یہ معاشرہ ایک دن میں تو نہیں سدھر سکتا۔ |