بے خبری کا یہ عالم ۔عدلیہ ہمیں سمجھائے

بے خبری کا یہ عالم۔ ذرا سبھی آئینہ تو دیکھو ۔ کیا کوئی صاحب شعور اپنی اصلاح کرکے اپنے رب کی رضا تلاش کرے گا؟

کوئی اخبار اٹھا کر دیکھ لیں مشرف نامی شخص کے خلاف آپ کو لاتعداد خبریں ملیں گی۔ مشرف کے خلاف غداری کا مقدمہ چلایا جائے،مشرف کو جیل بھیجا جائے، سابق چیف آف آرمی سٹاف اور سابق صدر مشرف کو یہ کردو وہ کردو وغیرہ وغیرہ۔ بیانات دینے والے ، لکھنے والے باشعور اہل قلم اور قانون دان طبقہ ہے۔ یہ مشرف صاحب کون ہیں؟ ہمارے ملک کا سابقہ جرنیل یا پاکستان کا صدر مشرف نام کا کوئی نہیں گذرا۔ ہاں جو شخص اس وقت اپنے گھر کی جیل میں ہے اس کا نام پرویز ہے۔ اسی نام سے ہمارا سابقہ چیف آف آرمی سٹاف اور سابق صدرپرویز ہے۔پرویز نام ہے مشرف والد کی نسبت سے لاحقہ لگایا۔ کیا عدم علمیت یا جہالت سے موسوم کریں گے کہ بیٹے کو باپ کے نام سے مسمی کردیا۔ بایں عقل و دانش بیاید گریست۔ پرویز ایک دشمن رسول کسریٰ ایران کا نام تھا،پرویز صاحب کے بارے سنا تھا کہ سید ہیں سید کو دشمن رسول سے کیا نسبت؟اب یہ حقیقت پڑھ کر بیٹے کو باپ کا نام دینے والے کھی کھی کریں گے۔ انہیں سرمو خجالت محسوس نہ ہوگی۔ چاہئے تو یہ کہ جج صاحبان کیس خارج کردیں کہ مدعیان مشرف کے خلاف مطالبات کررہے ہیں نہ کہ پرویز کے خلاف۔ مشرف صاحب تو عرصہ ہوا دنیا کے بکھیڑوں سے آزاد ہو چکے ہیں اور قاری خوشی محمد الازہری مرحوم کے مدرسہ میں انکے صاحبزادے نے برسراقتدار پرویز کے والد محترم کے ایصال ثواب کے لیئے متعدد باربھرپور قرآن خوانیاں اور دعائیں بھی کراچکے۔ مگر پرویز کے اقتدار سے جانے کے بعد قاری نجم صاحب بھی مشرف صاحب کو بھول گئے۔ دنیا میں یہی ہوتا ہے۔ اس بے خبری پر کھی کھی تو کرلی مگر جو آپ لوگوں پر دنیا کھی کھی کررہی ہوگی کیا وہ اعزاز ہے؟ چلیں اب اپنا ذہنی ریکارڈ درست فرمالیں۔بے خبری میں کیا کچھ ہورہا ہے کل جو کہا تھا آج اسکے برعکس ہورہا ہے ۔

وہ جو اصغر خان کیس میں بہت سارے قومی غمخواروں کے نام آئے تھے کہ آئی ایس آئی نے انہیں ہدئیے دیئے تھے، ان میں سے بیشتر تو حالیہ انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں۔ بے فکر ہوکر کھاﺅ اور آئیندہ مضبوط ارادوں کے ساتھ اسمبلیوں میں جاﺅیہاں کا حال ہاتھی کے دانتوں سے ملتا جلتا۔ قوم کا خزانہ لوٹ کر توقیر صادق بیرون ملک داد عیش دے رہاہے۔ کسی نے اس کا کیا کر لیا۔ شاہ رخ کے قاتل کو انٹرپول کے ذریعہ لے آئے مگر اربوں روپے کی کرپشن میں ملوث توقیر صادق کیا انٹر پول کی دسترس سے باہرہے یا اس کے لیئے بھی کوئی قانون سازی کی پچکاری کرنے ہوگی۔ سر عام جو حقائق الیکشن کمیشن یا عدالتوں نے عوام کو دکھائے، جعلی سندوالوں کو سزائیں دی گیئں۔ دوسری عدالت نے کاالعدم قرار دے کر انتخابات میں حصہ لینے کی سند عطا کردی۔ راجہ جی کیا رینٹل پاورکا اعزاز کھو بیٹھے ہیں کہ فل بنچ نے انہیں انتخابات میںبصد شوق حصہ لینے کی اجازت مرحمت فرمادی۔ جن وجوہات کی بنا پر الیکشن ٹریبیونل نے انہیں نا اہل قرار دیا تھا کیا وہ غلط ثابت ہوئیں؟ اگر وہ سب کچھ غلط تھا تو یہ بات معزز جج صاحبا ن کے صاد ق اور امین ہونے کو مشکوک کرتی ہے۔ کیا الیکشن ٹریبونل جج صاحبان پر مشتمل نہیں؟لوگوں کا کردار میڈیا عوام تک باہم پہنچا رہا ہے اور عوام یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ ہمارے ججوں کے پاس انصاف کے کتنے پیمانے ہیں؟۔ ایک شخص اسلم مڈھیانہ نام کا بحوالہ میڈیا لاتعداد مقدمات میں ماخوذ ہے جن میں ڈاکے،قتل اور سب سے اہم ایک جرم اس کا یہ بھی ثابت ہے کہ اس نے ایک استاد کی ٹانگیںتوڑیں۔ اسکے ان کرتوتوں کے پیش نظر ریٹرننگ آفیسر نے اسے الیکشن کے لیئے نااہل قرار دیا۔اس فیصلہ کے خلاف وہ الیکشن ٹریبونل میں گیا تو وہاں سے بھی نااہل رہا لیکن لاہور ہائی نے اسے الیکشن میں حصہ لینے کے لیئے اہل قرار دیدیا۔

استادکی ٹانگیں توڑیں یا کسی اور کی عدالت نے اس شخص کو کیسے امین اور صادق بنا ڈالا؟اب تو وہ مزید فیاضی سے لوگوں کی ٹانگیں توڑے گا۔ سارے مجرم صادق و امین قرار دے دیئے تو دوسری طرف جن ججوں نے کرپٹ لوگوں کو بددیانت قرار دیا تھا اس تناظر میں انکے بارے کیا حکم ہوگا۔ اب تو ظالموں کو کسی کی پرواہ نہیں عوام عدالتوں کا کیا سہارا لیں گے جب عدالتیں استادوں کی ٹانگیں توڑنے والوں کو عوامی نمائیندہ بننے کا اہل قرار دے رہی ہیں۔ میں جو کچھ لکھ رہاہوں یہ عوام کی باتیں ہیں جو وہ سوزوکیوں میں، پان سگرٹ کی دکانوں پر کھڑے ہوکر کرتے ہیںاور یہ کوئی الجھن والی یا ذومعنی باتیں نہیں۔ روز روشن کی طرح حق و باطل کے نکھار کی باتیں ہیں اور یہ ایسی باتیں نہیں کہ جو صرف جج ہی جانتے ہیں اور عام آدمی ان کو سمجھنے کی اہلیت نہیں رکھتا۔ قومی خزانے سے اربوں کے قرضے معاف کرانے والے کرپٹ پھر اقتدار میں آکر رہی سہی کسر نکالیں گے۔ الیکشن کمیشن نے کہاتھا کہ سابقہ اراکین سے سے ترقیاتی فنڈز کا حساب لیا جائے گا۔ کیا وہ کھاتے صاف نکلے؟ ہرگز نہیں ۔ ترقیاتی فنڈز آئندہ انتخابات کے لیئے سرمایہ فراہمی کا ذریعہ ہوتے ہیں۔ کیونکہ اس پس انداز کیئے گئے سرمایہ سے انتخابی اخراجات اور بھاری رقومات پارٹی فنڈ یا پارٹی گدی نشین کو بطور نذرانہ پیش کرنے کے لیئے پورے کیئے جاتے ہیں۔ انکی اپنی افزائش کے لیئے تو کچھ اور ہی ترقیاتی سکیمیں اور سودے ہوتے ہیں۔ واللہ قوم کو یقین تھا کہ اس دفعہ فرشتے نہیں تو فرشتہ صفت انسان ہی اسمبلیوں میں جائیں گے مگر گیارہ مئی کو جو کچھ ہونے والا ہے وہ انتہائی مایوس کن ہے۔ عوام کہتے ہیں کہ الیکشن کمیشن کی ساری باتیں سطان راہی کی فلمی بڑھکیں معلوم ہوتی ہیں۔چیف جسٹس آف پاکستان ججوں کے ان آسیب زدہ فیصلوں کا نوٹس لیں اور کم از کم اس دفعہ تو جرائم پیشہ، لٹیروں اور غاصبوں کو عوامی نمائیندگی سے دور رکھیںاور جنہیں ثبوت کے ساتھ ریٹننگ افسروں اور الیکشن ٹریبونلزنے نا اہل قرار دیا تھا انکے کے فیصلوں کو بحال فرمائیں۔یا پھر یہ کہوں گا کہ عوام اپنے مسائل کے حل کے لیئے اپنے رب کے حضور سربسجود ہوجائیں کیونکہ وہ قادر مطلق ہے وہ سب کچھ کرسکتا ہے اور عوام کو پھر سے تختہ مشق بنانے والوں کا تختہ کرسکتا ہے۔
AKBAR HUSAIN HASHMI
About the Author: AKBAR HUSAIN HASHMI Read More Articles by AKBAR HUSAIN HASHMI: 146 Articles with 129941 views BELONG TO HASHMI FAMILY.. View More