ملک میں انتخابی سرگرمیاں خون ریزی کی نذر

انتخابات کا مقررہ دن گیارہ مئی جوں جوں قریب آرہا ہے توں توں ملک میں بم دھماکے اور خون ریزی میں اضافہ ہورہا ہے۔پے در پے بم دھماکے اور حملے اگرچہ سیاسی جماعتوں سے وابستہ لوگوں یا ان کے دفاتر پر ہورہے ہیں لیکن اس کے اثرات پورے ملک پر پڑ رہے ہیں،ان حملوں میں جان کی بازی ہار جانے والے یا تو عوام ہیں جن کا کسی جماعت سے کوئی تعلق نہیں اور اگر کسی جماعت سے تعلق ہو بھی تو ملک کے باشندے تو ہیں۔انتخابات کے قریب آکر خون ریزی کی چلی ہوئی لہر میں ملک میں خوف و ہراس کی ایک ایسی فضا چھائی ہے جو ملک کے باسیوں کو کسی دم چین نہیں لینے دیتی۔ ان حملوں کا نشانہ کوئی خاص جماعت نہیں بن رہی ہے، بلکہ اس نظام سیاست کی حصہ بننے والی تمام جماعتیں ہی ان حملوں کا نشانہ بن رہی ہیں۔
اگر صرف گزشتہ چند روز کے اخبارات پر نظر ڈالی جائے تو ملک میں بدامنی کی حالت کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔ گزشتہ روزاتوار کو صوبہ خیبر پختونخوا میں کوہاٹ اور پشاور کے مضافات میں انتخابی دفاتر کو بم دھماکوں کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ ان دھماکوں میں کم از کم نو افراد جاں بحق اور 26 زخمی ہوئے ہیں۔ایک دھماکے کا نشانہ اورکزئی ایجنسی کے حلقہ این اے 39 سے آزاد امیدوار سید نور اکبر کا انتخابی دفتر بنا۔ ہنگو روڈ پر کچا پکا کے مقام پر ہونے والے اس دھماکے میں کم از کم 5 افراد جاں بحق اور 16 زخمی ہوئے۔ دھماکے کے وقت نوراکبر دفتر میں موجود تھے تاہم وہ محفوظ رہے۔جبکہ پشاور میں چارسدہ روڈ پر مقصود آباد کے علاقے میں ہونے والے دھماکے میں خیبر ایجنسی کے علاقے باڑہ سے حلقہ این اے 46 سے (ن) لیگ کے امیدوار حاجی ناصر خان آفریدی کا دفتر متاثر ہوا۔ اس دھماکے سے دفتر کی عمارت کے علاوہ وہاں کھڑی گاڑیاں اور آس پاس کی دکانیں بھی متاثر ہوئیں۔ اس دھماکے میں چار افراد کی ہلاکت اور دس کے زخمی ہونے کی اطلاعات ہیں۔یاد رہے رواں ماہ کے دوسرے ہفتے میں پشاور میں عوامی نیشنل پارٹی کے جلسے کے قریب دھماکے میں 17 افراد جاںبحق ہوئے تھے جبکہ 31 مارچ کو بنوں میں اے این پی کے سابق رکنِ اسمبلی عدنان وزیر کے انتخابی قافلے پر بم حملے میں دو افراد مارے گئے تھے۔
ہفتے کے روز کوئٹہ سبی میں جماعت اسلامی کے انتخابی دفتر پر دستی بم حملے میں چھ افراد زخمی ہوئے۔پشاور میں صوبائی اسمبلی کے حلقہ نو سے مسلم لیگ (ق) کے امیدوار مولانا شعیب کے انتخابی دفتر پر نامعلوم افراد نے فائرنگ کی۔شمالی وزیرستان میں امیدوار عقیل زمان کا انتخابی دفتر بارودی مواد سے تباہ کردیا گیا۔مٹیاری پی ایس 44 میں امیدوار کے انتخابی دفتر کو نامعلوم افراد نے آگ لگادی۔ جناح روڈ پر جماعت اسلامی کے پی بی 21 سے امیدوار میر مظفر نذر ابڑو کے انتخابی دفترپر نامعلوم موٹرسائیکل سواروں نے دستی بم پھینکا جس کے پھٹنے سے چار کارکن زخمی ہوگئے ، میر مظفر بال بال بچ گئے۔پنجگور میں نیشنل پارٹی کے مرکزی رہنما اور پی بی43سے امیدوار حاجی محمد سلام بلوچ کے گھر کے قریب بم دھماکے سے لوگوں میں خوف وہراس پھیل گیا۔ جے یو آئی (ف)کے قومی اسمبلی کے امیداور حافظ محمد اعظم کے گھرپر دستی بم حملے سے کوئی نقصان نہیں ہوا، کوئٹہ کے علاقے قمبرانی روڈ پر پولیس وبم ڈسپوزل اسکواڈ نے تین بم بروقت اطلاع ملنے پرناکارہ بنادیے۔ پسنی میں سیکورٹی فورسز نے نیشنل پارٹی کے رہنماءکہدا بلوچ کے گھر کے باہررکھے گئے تین دستی بم ناکارہ بنادیے۔ چارسدہ میں اے این پی کے امیدوار اسلام خان کے قافلے پر نامعلوم افراد نے فائرنگ کردی جس سے وہ بال بال بچ گئے تاہم ان کے بھائی زخمی ہوگئے۔ہفتے کے روز ہی کراچی میں اورنگی ٹاون کے علاقے قصبہ کالونی میں یکے بعد دیگرے دو دھماکے ہوئے۔ پہلا دھماکا متحدہ قومی موومنٹ کے یونٹ آفس جبکہ دوسرا امام بارگاہ کے قریب ہوا۔ دھماکوں کے بعد کریکر بھی پھینکے گئے۔ اس واقعے کے کچھ دیر بعد گلبہار کالونی میں سیاسی جماعت کے دفتر پر موٹر سائیکل سوار نے کریکر پھینکا جس میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔ اس کے بعد لیاری کے علاقے کمہار واڑہ میں سندھ اسمبلی کے حلقے پی ایس 11 سے پیپلز پارٹی کے امیدوار عدنان بلوچ کے انتخابی جلسے میں دھماکا ہوا جس میں جانی نقصان کے علاوہ این اے 249 سے پیپلزپارٹی کے امیدوار عزیز میمن ، صوبائی امیدوار عدنان بلوچ اور ان کے دو بھائیوں سمیت کئی افراد زخمی ہو گئے۔ دونوں واقعات میں مجموعی طور پر تقریباً پانچ افراد جاں بحق اور ساٹھ سے زائد افراد زخمی ہوئے۔ایم کیو ایم نے اپنے آفس پر ہونے والے دھماکوں کی وجہ سے یوم سوگ کا اعلان کیا جس سے اتوار کے روز کراچی میں ٹرانسپورٹ ، تعلیمی ادارے اور کاروبار زندگی مکمل طور پر معطل رہا، پورے کراچی میں ہو کا عالم رہا۔
جمعہ کی شبکراچی کے علاقے مومن آباد تھانے کی حدود اورنگی ٹاﺅن قائد عوام کالونی سیکٹر 4/F میں عوامی نیشنل پارٹی کے مرکزی رہنما اور حلقہ این اے 241 اور پی ایس 93 سے امیدوار بشیر جان کارنرمیٹنگ سے خطاب کے لیے جیسے ہی وہاں پہنچے خوفناک دھماکا ہوا، اس دھماکے میں 12 افراد جاں بحق، 45 سے زاید زخمی ہوئے۔ دھماکے سے بشیر جان کی گاڑی آدھی سے زیادہ تباہ ہوگئی جبکہ وہ خود محفوظ رہے۔ دھماکے سے تین مکانات، 5دکانیں، 4 موٹرسائیکلیں، 3 کاریں اور دیگر سامان تباہ ہوگیا۔ اسی روز این اے 255 سے اے این پی کے امیدوار عبدالرحمن اپنی گاڑی میں جارہے تھے کہ نامعلوم افراد نے ان کی گاڑی پر حملہ کردیا جس کے نتیجے میں راہ گیر بچے سمیت 2 افراد زخمی ہوئے ، عبدالرحمن محفوظ رہے۔ حلقہ پی بی 30 کچھی ایک سے جمعیت علماءاسلام ( ف ) کے امیدوار حاجی محمد ہاشم شاہوانی کے قافلے پر مچھ کے قریب ہرک کے مقام پر دستی بم حملہ ہوا اور فائرنگ کی گئی جس سے 2 گاڑیاں مکمل تباہ ہوگئیں۔ حاجی محمد ہاشم شاہوانی محفوظ رہے جبکہ قافلہ میں موجود کئی افراد زخمی شدید زخمی ہوگئے۔اے این پی نے اپنے دفتر پر ہونے والے حملے کی وجہ سے ہفتے کے روز کراچی میں یوم سوگ کا ااعلان کیا مگر ٹرانسپورٹ اور کاروبار زندگی معمول کے مطابق چلتا رہا۔

جمعرات کی شب سر سید تھانے کی حدود نارتھ ناظم آباد قلندریہ چوک نصرت بھٹو کالونی متحدہ قومی موومنٹ کے بند الیکشن آفس کے قریب موٹر سائیکل میں نصب بم زور دار دھماکے سے پھٹ گیا۔ دھماکے میں چھ افراد جاں بحق اور بارہ افراد زخمی ہوئے۔اس دھماکے کی وجہ سے بھی ایم کیوایم نے یوم سوگ کا اعلان کیا ، جمعہ کے روز کراچی سمیت پورا سندھ دن بھر بند رہا۔جبکہ منگل کے روز تیموریہ تھانے کی حدود نارتھ ناظم آباد پیپلز چورنگی کے قریب بھی متحدہ قومی موومنٹ کے حلقہ NA-245 کے انتخابی کیمپ میں بم کا زوردار دھماکا ہوا تھا جس سے دوافراد جاں بحق اور 25 سے زاید زخمی ہوئے تھے۔ اس دھماکے کے بعد ایم کیو ایم نے یوم سوگ کا اعلان کیا، کراچی سمیت پورے سندھ میں تعلیمی ادارے، ٹرانسپورٹ اور دوسرے تمام کام بدھ کے روز مکمل بند رہے۔ اسی روزکوئٹہ میں یکے بعد دیگرے 4 دھماکوں میں 6 افراد جاں بحق جبکہ پچیس افراد زخمی ہوئے۔ پہلا دھماکا جناح ٹاﺅن میں ہوا۔ یہ کریکر بم دھماکا تھا جس میں کوئی جانی مالی نقصان نہیں ہوا۔ گوالمنڈی میں ہونے والے دوسرے دھماکے میں حلقہ پی بی 3 سے جمعیت علماءاسلام نظریاتی گروپ کے امیدوار عبدالغفار کاکڑ سمیت متعدد افراد زخمی ہوئے۔ تیسرا دھماکا گوردات سنگھ روڈ پر 15 منٹ کے وقفے کے بعد ہوا۔ جناح ٹاﺅن میں ایک کلو، گوالمنڈی چوک پر دو کلو جبکہ گوردات سنگھ روڈ پر ایک کلو دھماکا خیز مواد استعمال کیا گیا۔ چوتھا دھماکا کوئٹہ کے گنجان آباد علاقے نیچاری روڈ پر ہوا جس میں ایف سی اہلکار سمیت 4 افراد کے جاں بحق ہونے کی اطلاعات ملیں۔ بم ڈسپوزل اسکواڈ کے مطابق دھماکے میں 80 سے 100 کلو گرام دھماکا خیز مواد استعمال کیا گیا۔ دھماکے سے ایف سی کی چوکی اور 5 دکانیں تباہ ہو گئیں۔

دوسری جانب ملک میں جاری خون ریزی کے پیش نظر بلوچستان کے گیارہ اضلاع کے اٹھارہ ہزار سے زائد اساتذہ نے انتخابات میں ڈیوٹی دینے سے انکار کردیا ہے،الیکشن کمیشن نے واضح کیا ہے کہ ڈیوٹی نہ دینے والے اساتذہ کے خلاف کارروائی ہوگی، جبکہ اساتذہ کا کہنا ہے کہ ہمیں دھمکیاں دی جارہی ہیں ان حالات میں ہم ڈیوٹی کیسے دے سکتے ہیں،بعض حلقے ان حملوں کی ذمہ داری طالبان پر ڈال رہے ہیںلیکن سوال یہ ہے کہ اگر یہ حملے کرنے والے طالبان ہیں تو مذہبی سیاسی جماعتوں پر حملے کون کررہا ہے؟بعض تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اس قسم کی کارروائیاں انتخابات کو ملتوی کرانے کی سازش ہے،لازمی نہیں کہ ان حملوں میں طالبان ملوث ہوں بلکہ کوئی دوسری قوت بھی ملوث ہوسکتی ہے۔
عابد محمود عزام
About the Author: عابد محمود عزام Read More Articles by عابد محمود عزام: 869 Articles with 701376 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.