سیاست دان اور بھولی عوام

ایک سیاست دان ووٹ مانگنے کیلئے اپنے حلقہ انتخاب کے ایک گاﺅں میں گیا تو وہاں کے لوگوں نے اُسے چاروں طرف سے گھیر لیا اور کہا کہ آپ تو پانچ سال بعد دوبارہ دکھائی دے رہے ہو حالانکہ ماضی میں ہم اخبارات میں آپ کی گمشدگی کا اشتہار بھی دے چکے ہیں۔ پچھلے الیکشن میں ووٹ مانگنے کے دوران تو آپ نے بہت سے وعدے کیے تھے لیکن ان میں سے ایک مسئلہ بھی حل نہیں ہوا بلکہ اب تو ہم مزید مشکلات کا شکار ہو گئے ہیں۔ آپ نے نلکا تو لگا دیا لیکن اسے کھولو تو اس میں سے پانی کی جگہ ہَوا کی سرسراہٹ سنائی دیتی ہے !!! وہ چرخی جس سے بیلوں کو جوت کر ہم کنویں سے پانی نکالتے تھے، اس کی جگہ آپ نے ٹیوب ویل تو لگا دیا ہے لیکن گاﺅں میں بجلی نہ ہونے کے باعث ہماری زمینیں پانی نہ ملنے کی وجہ سے خشک بنجر پڑی ہیں !!! یہاں پر جو اسکول آپ نے وعدہ کے مطابق بنوایا تھا وہ چودھری صاحب (جو آپ کا سالہ بھی ہے) کے گھوڑوں اور گدھوں کا اصطبل بنا ہوا ہے !!! جو اسکول کا فرنیچر وغیرہ تھا وہ بھی آپ کے سالے صاحب کی بڑی حویلی کے گھروں میں سردیوں میں کمروں کو گرم کرنے کیلئے انگیٹھیوں میں کام آ رہا ہے!!! آپ نے بچوں کے کھیلنے کیلئے جو باغیچہ بنایا تھا وہاں ہمارے بچوں کو جانے کی اجازت ہی نہیں بلکہ وہ باغیچہ بھی چودھری صاحب نے اپنی حویلی کے ساتھ ہی ملا لیا ہے !!! اور اسی طرح کی شکایتیں سب مل جل کر سیاست دان سے کر رہے تھے۔

سیاست دان تو پہلے سے ہی سب کچھ جانتا تھا مگر پھر بھی گاﺅں والوں کی شکایتیں غور سے سنتا رہا۔ اسی اثناء میں اُس نے اپنے سالے جو بغل میں ہی کھڑا تھا اور اپنے بہنوئی (اُمیدوار) کے حق میں ابھی زندہ باد کا نعرہ لگانے ہی والا تھا کہ سیاست دان (بہنوئی) نے ایک زوردار تھپڑ اس کی گال پر رسید کر دیا۔ چودھری صاحب (سالے) نے بہت ہی غصہ سے پوچھا، یہ کیا بھائی صاحب آپ نے تو سب گاﺅں والوں کے سامنے میری بے عزتی کر دی ہے، اب تو میں یہاں کسی کو منہ دکھانے کے قابل بھی نہیں رہا۔ ابھی سالہ صاحب دوسرا جملہ بولنے ہی والا تھا کہ ایک اور کرارے دار تھپڑ اُس کے دوسرے گال پر اپنا نشان چھوڑ گیا۔ سالہ غصہ میں پیر پٹکتے ہوئے اپنی حویلی کی طرف چل دیا اور پھر کیا تھا اس سیاست دان کے حق میں سارے گاﺅں والوں نے تالیاں بجانا شروع کر دیں اور پھر چند ہی منٹ بعد وہی سیاست دان جذباتی انداز میں گاﺅں والوں کا مخلص بن کر اپنی چرب زبان، دھواں دار تقریر کرنے میں مصروف ہو گیا!!! ”میرے بھائیو! آج مجھے یہ سن کر انتہائی دُکھ ہوا کہ اس نمک حرام نے میرے تمام منصوبوں پر پانی پھیر دیا ہے۔ میں اسے کسی قیمت پر بھی معاف نہیں کروں گا بلکہ اسے جیل کی سلاخوں کے پیچھے لے جاﺅں گا۔ اس کمبخت نے آپ کے حق پر ڈاکہ ڈالا ہے میں آپ سے ایک بار پھر وعدہ کرتا ہوں کہ جو آپ کے ساتھ پچھلی بار ہوا وہ اس بار نہیں ہوگا۔ اس دفعہ آپ دیکھیں گے کہ آپ کا یہ گاﺅں پھر سے خوشیوں کا گہوارہ بن جائے گا۔“

سب گاﺅں والے ایک بار پھر اس سیاست دان کی باتوں میں آ گئے اور اپنے سنہرے خوابوں کو ایک اُمید کے
سہارے اپنے دلوں میں سجائے گھروں کی طرف روانہ ہو گئے کہ شاید اب کی بار کچھ بہتری ہو جائے۔ دوسری طرف وہ سیاست دان اپنے چیلے چپاٹوں (سپورٹروں) کے ساتھ چودھری صاحب کی شاندار حویلی میں پہنچا، جہاں اُس نے دیکھا کہ اُس کا سالہ دوسری طرف منہ کیے اپنے گالوں کو سہلا رہا ہے ۔ سیاست دان کی اپنی بیگم بھی وہاں موجود تھی اور اپنے شوہر سے ناراض تھی کہ اُس نے بلاوجہ اُس کے بھائی کی سارے گاﺅں والوں کے سامنے بے عزتی کر دی۔ سیاست دان اپنے سالے کے پاس گیا اور کہا کہ دیکھو بھائی یہ سیاست ہے، یہاں کچھ پانے کیلئے بہت کچھ کھونا پڑتا ہے۔ اب دیکھو میں نے تمہارے ان احسانات جو تم نے میرے لیے یہاں رہ کر اس گاﺅں کے لوگوں کو بیوقوف بنا کر میری پوزیشن کو سنبھالے رکھا، اس کے عوض میں نے تمہارے لیے دوسرے شہر میں ایک زبردست کوٹھی بنوائی ہے اور تمہارے لیے تمہاری مرضی کے کاروبار کیلئے لائسنس بھی بنوا دیا ہے، اب تم عیش کرو!!! یہ سن کر چودھری صاحب فوراً ہی خوشی خوشی اُٹھ کھڑا ہوا اور پوچھا کہ ”اب گاﺅں کا کیا ہوگا؟“ سیاست دان نے فوراً کہا ”اب تیرا دوسرا بھائی جوان ہو گیا ہے اور وہ اس گاﺅں والوں کو بیوقوف بنانے میں میرا ساتھ دے گا۔“

اب ایک بار پھر انتخابات کا زمانہ ہے۔ وہ سیاست دان جو پچھلے الیکشن کے بعد سے غائب ہو گئے تھے دوبارہ منظرعام پر آ چکے ہیں اور انہوں نے اپنے انتخابی حلقوں کے دورے کرنا شروع کر دیئے ہیں۔ اب وہ عمر دیکھ کر ووٹروں کے ساتھ رشتے استوار کر رہے ہیں۔ چچا، بھائی اور بیٹے کے الفاظ نے ایسے ایسے انتخابی اُمیدواروں کے منہ سے نکلنا شروع کر دیا ہے جو اپنے علاوہ دوسروں کیلئے حسبِ توفیق ”دوٹکے کا بندہ“ جیسے الفاظ استعمال کرتے رہے ہیں۔ اب پھر سے بھولے عوام کی قدر و منزلت بڑھ گئی ہے اور اگر وہ بڑی بڑی لینڈر کروزر، پجارو میں کلف لگے کپڑوں کے ساتھ ملبوس، گردنوں میں سریئے، چہروں پر رعونت سجائے ان سیاست دانوں کو دو چار کھری کھری بھی سنا دیں تو وہ برا نہیں مانیں گے۔ کیا امیر کیا غریب، کوئی پوچھے نہ پوچھے، کوئی بتائے یا نہ بتائے ان سیاست دانوں کو سب کی شادیوں اور فوتگیوں کا پتہ چل جاتا ہے اور یہ حضرات وہاں پہنچ جاتے ہیں۔کچھ دن پہلے ایک جنازے میں سیاسی لیڈروں کی بھرمار دیکھی بلکہ ایک مذہبی سیاسی رہنماءکی جنازے میں موجود مولوی صاحب نے کچھ اس انداز میں حمایت کی کہ متعلقہ رہنماءایک بہت بڑی مذہبی شخصیت کے فرزند ارجمند ہیں۔ یہ ہمارے حلقے سے امیدوار ہیں لہٰذا ہمارا مذہبی اور ملی فریضہ بنتا ہے کہ ہم سب ان کو ووٹ دیں کیونکہ قیامت کے دن ووٹ کا بھی باقاعدہ حساب کتاب ہوگا۔ جنازے میں موجود دیگر سیاسی رہنماء(اُمیدوار) بھی بارش کی پرواہ کیے بغیر ہر آدمی سے فرداً فرداً ملنا اپنا فرض اولین سمجھتے تھے۔

ایک اُمیدوار کے بارے میں مشہور تھا کہ وہ انتہائی بدتمیز اور مغرور ہے۔ تکبر سے ہر وقت اس کی گردن اکڑی رہتی ہے۔ اس نے الیکشن میں بطور اُمیدوار حصہ لیا اور ایک جلسے میں اپنی تقریر کا آغاز کچھ اس انداز میں کیا”بھائیو ! لوگ کہتے ہیں کہ میں بہت مغرور ہوں ۔ آپ خود سوچیں اگر میں مغرور ہوتا تو کیا آپ جیسے دو ٹکے کے لوگوں کے سامنے تقریر کر رہا ہوتا۔“ بات اس نے صحیح کی، آج کل لیڈروں کی اکثریت عوام کو ”دو ٹکے“ کی سی نظر سے دیکھتی ہے لیکن پھر بھی بیچاری بھولی عوام ان کے دھوکے میں آ جاتی ہے۔ ہمارے بعض بزرگ اپنی اولاد اور رشتہ داروں کو مجبور کرتے ہیں کہ فلاں چودھری، خان، سردار، راجا مہاراجہ میرے گھر آ گیا ہے لہٰذا ووٹ اس کو دینا۔ بعض جگہوں پر جنبوں، ڈلوں، قومیتوں اور برادریوں کے نام پر ووٹ ڈالے جاتے ہیں اور بعض مذہب کا نام استعمال کرتے ہیں۔ غرضیکہ ووٹ کا غلط استعمال ہمارے ملک میں عام ہے اور پھر اس کا خمیازہ پوری قوم کو بھگتنا پڑتا ہے۔

کبیرا بھی آج کل ایک بار پھر ایسے ہی سیاسی لیڈروں کی چکنی چپڑی باتوں میں آیا ہوا ہے۔ وہ پہلے کی طرح پریشان ہے تو کبھی خوشی سے پھولے نہیں سما رہا، کیوں کہ بڑے بڑے جاگیردار، وڈیرے اور لٹیرے جھک جھک کر اسے آداب بجا لاتے ہیں۔ گزشتہ ایک الیکشن کے دوران میں کبیرے کے ساتھ تھا۔ ایک سیاسی لیڈر نے کبیرے کے کندھے پر تھپکی دی، پھر کیا تھا کبیرا خوشی سے پھولے نہیں سما رہا تھا بلکہ وہ خود کو اس وقت کسی ریاست کا بادشاہ تصور کرنے لگا تھا۔ وہ صاحب جیت گئے اور کبیرے کو بھول گئے۔ ایک دفعہ گاڑیوں کے جلوس کے آگے کھڑے کبیرے نے اس کو دونوں ہاتھوں سے سلام کیا مگر سیاسی لیڈر دھول اُڑاتی گاڑیوں میں کبیرے کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے بڑے تکبر سے گزر گیا۔ کبیرا اپنا سا منہ لے کر گھر چلا گیا اور اپنی گائے بھینسیں چرانے میں مشغول ہو گیا۔ اگلا الیکشن آیا کبیرے کی ضرورت پھر آ پڑی۔ ایک دو دفعہ کبیرا سیاسی لیڈروں کی گاڑیوں میں جھنڈے تھامے نظر آیا حالانکہ گھر میں اس کے مال مویشی بھوکے تھے مگر کبیرا پرجوش تھا جیسے اس دفعہ الیکشن میں کبیرے کے سارے ارمان پورے ہو جائیں گے مگر کبیرے کے ساتھ پھر ہاتھ ہو گیا ۔ اس وقت نہ صرف اس کی آنکھیں اشکبار تھیں اور موٹی موٹی گالیاں اس کی زبان پر تھیں۔ اب پھر الیکشن کا دور ہے لیکن اس دفعہ کبیرا ہوشیار ہو گیا ہے۔ وہ بدلہ لینا چاہتا ہے اُس سیاست دان سے جس کی گردن کا سریا اکڑا ہوا تھا۔ کبیرا جان چکا ہے کہ اس کی حیثیت ”دوٹکے“ کی نہیں بلکہ اس کا ووٹ انتہائی قیمتی ہے۔ وہ نظریات کا حامی ہو چکا ہے اور اس دفعہ ایسے محسوس ہوتا ہے کہ کبیرے کا ووٹ تبدیلی کا پیش خیمہ بن سکتا ہے۔ کبیرے کو اب ضرور ہوشیار ہو جانا چاہئے وگرنہ وہ پھر ماضی کی طرح روئے گا۔
Najeem Shah
About the Author: Najeem Shah Read More Articles by Najeem Shah: 163 Articles with 194563 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.