ڈاکٹر درمش بلگر کی علمی اور ادبی خدمات کا جائزہ

ڈاکٹر درمش بلگر کی علمی اور ادبی خدمات کا جائزہ
ہماری قوم آج کسی قدر جمود کا شکار ہے۔ ترقیاتی عملوں سے دور اور سازشوں کا شکار ہے لیکن کبھی یہی قوم تھی جس نے پوری دنیا پر حکومت بھی کی ہے۔ علم و ہنر کا شہرہ بھی اسی کے دم سے تھا۔
ہندوستان میں عربوں، ترکوں اور ایرانیوکی آمد کے متعلق ہم اچھی طرح جانتے ہیں کہ ان لوگوں نے ہندوستان کی تعمیر میں سب سے بڑا رول ادا کیا ہے۔ ہندوستان کی تہذیب پر ، ہندوستان کی زبانوں پر ان سب کے اثرات آج بھی اسی طرح ہیں۔ لیکن جب بات ہم اردو اور اس کے شیدائیوں کی کر رہے ہیں تو ترکی کا اثر اردو پر بالخصوص بہت زیادہ ہیں۔ یہاں تک کہ خود ’’اردو‘‘ بھی ترکی زبان کا ہی لفظ ہے اسی سے اس بات کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اردو ادب اور اردو تہذہب پر پر ترکی ادب کے کس قدر اثرارت مرتب ہوئے ہوں گے۔

درمش بلگر ترکی میں اردو کے تدریسی کام میں دل و جان سے لگے ہوئے ہیں۔ اور یہ کہنے میں کوئی مبالغہ نہیں کہ وہ خالص اردو کے لوگوں کے مقابلے زیادہ محنت کرتے ہیں۔ اور ایک نئی دنیا سے اردو کو روشناس کرانے کا اہم کام انجام دے رہے ہیں۔ حیرت ہوتی ہے جب یہ معلوم ہوتا ہے کہ ترکی میں اردو کی تعلیم بہت مقبول ہے اور سیکروں کی تعداد میں اردو کی تعلیم حاصل کرنے والے طلبا داخلہ لیتے ہیں ہیں۔ یہ بات تو ہم سبھی اچھی طرح جانتے ہیں کہ اردو کا زبان ترکی سے بہت گہرا رشتہ ہے یہاں تک کہ ‘ اردو ’ خود ترکی زبان کا ہی لفظ ہے۔ لہذا اردو کا ترکی میں مقبول ہونا کوئی تعجب کی بات نہیں لیکن ترکی کی ترقی اور وہاں کے رسم و رواج میں جس قسم کا تنوع آیا ہے اس میں لوگوں کا اردو کی طرف راغب ہونا اردو کی ترقی ایک بہت بڑی علامت ہے۔

درمش بلگر نے اردو کی تعلیم اسی طرح ترکی میں حاصل کی لیکن اردو کے تئیں ان کا لگاؤ اورسنجیدگی بڑھتی گئی۔ اب نوبت یہاں تک اآ پہنچی ہے کہ اردو کو درمش سے الگ کرنا ایسا ہی ہے جیسے کہ شیرے سے شکر کا الگ کرنا۔ ڈاکٹر درمش بلگر کی پیدائش۶۱ جولائی 1968 کو ایک بڑے معزز گھرانے میں ہوئی۔ انکی ابتدائی تعلیم آبائی علاقے میں ہی ہوئی۔پھر اعلی تعلیم کے لیے وہ دارالحکومت انکارا آگئے اور یہیں اعلی تعلیم حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ اردو کے ساتھ رشتہ بھی قائم کرلیا۔ اور اب یہ رشتہ اتنا گہرا ہو گیا ہے کہ وہ بالکل اہل زبان لگتے ہیں۔ درمش بلگر کی محض اردو سے محبت کی بنا پر ہند و پاک کا کئی سفر کیا۔ بلکہ پاک میں تو اردو کے لیے خدمات بھی انجام دی ہیں۔

شعراء وادباء اکرام قوم کا سب سے بڑا سرمایہ اور تاریخ انسانی کا وہ مقدس اورممتاز طبقہ ہے جو علم اردو اور ادبی شریعت کا سچا امین ہے اور جس نے اپنی تخلیقات کے ذریعہ ایمان ویقین،اخلاق وکردار عدل انصاف کے اعتبار سے نسل انسانی کی ایسی رہنمائی کی ہے کہ جس کی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے تاریخ ادب اردو نے زیر بحث حضرات کی خدمات کو قوم کے لئے معیار اور کسوٹی قرار دیا ہے جس کی پاسداری ہمارا اولین فریضہ ہے ۔ڈاکٹر درمش بلگر اسی دانشور طبقہ سے تعلق رکھنے والا ایک غیر معمولی شخصیت کا نام ہے جو اردو کی خدمات اس ارض بہشت میں انجام دے رہاہے جس کی جگہ سے غالب کے آبا و اجداد جلدی ہجرت کرکے ہندوستان آئے تھے۔ غالبؔ ہی کیا اردو شعر و ادب کے بابا آدم کہلانے والے حضرت امیر خسرو بھی ترکی النسل تھے جن کی شاعری ، دوہے اور کہ مکرنیاں آج بھی ضرب المثل ہیں۔ اور اگر زبان کی تشکیل و تاریخ پر غور کریں تو جب یہ شورسینی پراکرت سے اپ بھرنش بولیوں سے نکل کر کھڑی بولی کی طرف گامزن تھی یعنی اردو اپنے بال و پر کھول رہی تھی تب امیر سبکتگین کی قیادت میں پنجاب میں داخل ہوئی۔ پوری فوج میں مع امیر سبکتگین زیادہ تر تری النسل ہی تھے لہذا یہاں کی بولی ان کی زبان سے ملنے جلنے لگی تھی۔ اس کے بعد امیر سبکتگین کے فرزند محمود غزنوی نے اپنی حکومت کادائرہ پھیلایا تو یہاں کی کھڑی بولی کا ارتقا ہو چکا تھاجس میں فارسی،عربی اور ترکی زبانوں کی مدد بھی شامل تھی۔ یوں کہنا چاہیے کہ ترکستان سے آنے والے لوگوں نے ہندوستان کی تاریخ کا رخ ہی بدل کر رکھ دیا، مولانا جلال الدین رومی کی صوفیانہ فکر نے ہندوستان کے فلسفے میں روح ڈال دی، ایک زمانے سے ہندوستان اور ترک کا رشتہ بر قرار ہے، دونوں ملک ترقی کا راہ پر بہت تیزی سے گامزن ہیں۔ اس بحث سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اردو کا ترکی کے ساتھ رشتہ بہت ہی قدیم ہے۔ یہاں تک کہ لفظ ’’اردو‘‘ بھی ترکی زابان کا ہی لفظ ہے۔ اسی لیے شاید ترکی کے اہل زبان اردو کو اپنی زبان کا ایک حصہ مانتے ہیں۔ ڈاکٹر درمش بلگر بھی اسی جذبے کے ساتھ اردو کی خدمت انجام دینے میں لگے ہوئے ہیں۔

ڈاکٹر درمش بلگر اردو کے ان چند اہم قلم کاروں میں سے ایک ہیں جو اہل زبان ہوئے بغیر اردو کی خدمت میں لگے ہوئے ہیں۔ ان کی شخصیت آج اردو کے اہل دانش و علم میں کسی تعارف کی محتاج نہیں ۔ انہوں نے بہت سے ادبی فن پاروں کو ترکی سے اردو میں اور اردو سے ترکی مین منتقل کرنے کا اہم کارنامہ انجام دیا ہے۔ڈاکٹر درمش بلگر 16جولائی 1968کو ترکی کے ایک شہر قاضیان تپ میں پیدا ہوئے۔ قاضیان تپ ترکی کا بہت ہی مشہور شہر ہے جہاں علم و ادب کا گہوارہ ہے۔ آج کل استنبول یونیورسٹی میں اردو زبان و ادب کے اسوسیئیٹ پروفیسر ہیں۔ اور پوری دنیا میں اردو زبان و ادب کی خدمات کے لیے مشہور ہیں۔ یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ اردو پر ترکی زبان و ادب کے خوب اثرات ہیں۔

ادب ایک ایسا ساگر ہے جس میں دنیا جہا ن کے خیالات کے دریا آکر گرتے ہیں ۔ ان کا سوتا کہیں پھوٹتا ہے ۔ چادر آب کہیں بنتی ہے اور چشمہ کہیں اور جاری ہوتا ہے ۔ اردو ادب ہر دور میں نشیب و فراز سے گزرتارہا ہے ۔ لیکن ہر دور میں شاعروں اور ادیبوں نے اس کے لیے نت نئی راہیں ہموار کی ہیں اور ترقی کے راستے پر اسے گامزن کرتے رہے ہیں ۔ اس طرح شاعری اور افسانے و ناول کی صنف بھی ان ہی کا وشوں کا نتیجہ ہے۔ اور زبان کی خدمت کرنے والے کہیں بھی رہ کر اس کی خدمت انجام دیتے رہتے ہیں۔ اس میں تعجب تو ہوتا ہے لیکن اس غیر فطری عمل کوجذبہ جنون کی حدیں اپنے طور پر استعمال کرتی ہیں۔

اردو زبان وادب کے مطالعے کے دوران یہ احساس باربار ہو تا ہے کہ اس دشت کی سیاحی کے لیئے ایک عمر ناکافی ہے اور میرے خیال میں کئی عمریں ناکافی ہیں۔قدم قدم پر حیرت زا نظارے دامن کو کھینچتے ہیں اور مجھ جیسے طالب علموں کو دعوت فکر دیتے ہیں کہ ہنوز دہلی دور است۔ یہ سچ ہے کہ ابتدائی تعلیم کے دوران کسی بھی طالب علم کا صاف وشفاف تعلیمی خدمت مقرر نہیں ہوتا کہ اسے آگے کیا کرنا ہے اور کیسے کر نا ہے لیکن ایم اے تک آتے آتے کسی حد تک حدف کی نشاندہی ہو جاتی ہے لیکن درمش بلگر نے ابتدائی دنوں سے ہی اپنا گول طے کر لیا تھا اور اردو کے لیے کام کرنے کی سوچ لی تھی لہٰذا انہوں نے اسی وقت سے سنجیدگی سے اس زبان و ادب کو پڑھنا شروع کر دیا تھا ۔ اس میں وہ لوگ مستزاد ہیں جنھیں زبان وادب ورثے میں ملتی ہے ۔ درمس بلگر بھی ایسے ہی ایک قافلے کے طالب علم ثابت ہوئے جنہوں نے زبان وادب کو شروع سے ہی سنجیدگی سے پڑھا ہے ۔ ان کے اندرپتہ نہیں وہ کون سی ایسی بات تھی جس نے انہیں اوائل طالب علمی سے ہی ہر شئے کو غور سے دیکھنے پر مجبور کیا ۔ غور وفکر کی عادت ان میں اوائل عمری سے ہی تھی ۔ تجسس کے جذبے نے انہیں ادب کے کونے کھدروں میں جھانکنے کی طرف گامزن کیا جس سے ان کا مطالعہ اور شوق مطالعہ بڑھتا گیا۔ یہی تجسس کا جذبہ تھا جس کی بدولت انہوں نے اردو زبان و ادب کو موضوع بنا کر پہلے گریجوئیشن کیا پھر اردو ادب سے ہی ایم اے کیااور اس کے بعد ڈاکٹریٹ بھی کیا اور بڑی عرق ریزی سے ان موضوعات کا انتخاب کیا جس کی کی وجہ سے وہ اردو والوں میں مقبول مشہور ہوتے چلے گئے۔ درمش بلگر نے جن موضوعات کا انتخاب کیا ہے ان میں مضامین کا بیشتر حصہ یا تو کلاسکی ادب ہے یا پھر روایتی ادب سے لے کر زبان و ادب کی ترویج و اشاعت اور درس و تدریس تک پھیلا ہوا ہے۔ انہوں نے اپنے مضامین میں دیگر ترقی یافتہ زبانوں سے بھی مثالیں پیش کی ہیں اور اردو کے ترقی اور ترویج میں معاون خیالات سے بھی آگاہ کیا ہے۔ان کے ایک مضمون کا نمونہ پیش ہے جس میں اردو زبان کے مستقبل سے بحث کی ہے ۔ملاحظہ کیجیے:
’’زبان ثقافت کا آئنہ اور قوموں کی شناخت ہے۔ زبان سب سے اہم ذریعہ ابلاغ عامہ ہے جو ماضی اور حال کے درمیان پل کا فریضہ سر انجام دیتی ہے۔ اگر سوچھا جائے کہ کسی انسان کا مہذب ہونا تعلیم پر مبنی ہوتا ہے اور تعلیم بھی زبان کے ذریعہ دی جاتی ہو تو یہ آشکار ہو گا کہ انسان کی پرورش اور اس کی پختگی میں زبان کی کتنی بڑی اہمیت ہے۔ ہمیں بھولنا نہیں چاہیے کہ الفاظ زبان کے بنیادی لوازمات میں سے ہیں اور مارے ذہن میں موجود مفہوم کا بدل بھی ہیں۔ اس اعتبار سے ہمیں چاہیے کہ ان مفہوم کو زبان پر لاتے وقت لفظوں کا انتخاب غور سے کریں، ایک ایک لفظ کا دوسرا اور مجازی معنی بھی جان لیں۔

ہمیں معلوم ہے کہ کسی اجنبی زبان میں سے جب ایک لفظ کسی دوسری زبان میں داخل ہوتا ہے تو اس لفظ کے ساتھ ساتھ متعلقہ محاورے اور دوسرے استعمالات بھی زبان میں داخل ہوتے جاتے ہیں۔ اجنبی زبان میں سے آنے والے ایسے الفاظ کے متبادل ڈھونڈنا اس لحاظ سے بہت اہم اور خاصا مشکل کام ہے۔ اس کام کے لیے اس زبان میں موجود تشبیہات کو جوں کا توں استعمال کر تے ہوئے متبادل لفظ تلاش کرنا ایک طرح سے فکری کم مائیگی کا باعث بن جائے گا۔ کیونکہ کسی زبان کے سرمائے کا دار و مدار اس کے لفظوں کی تعداد کی بہتات کے ساتھ ساتھ مخصوص قوت تشبیہ اور اس کی انواع پر ہوتا ہے۔ اس طرح اپنی ثقافت سے پھلنے پھولنے والی تشبیہات اور لفظوں کا اشتقاق تفکر و تعبیر کو متوازن اور مستحکم بنانے میں مددگار ثابت ہو گا۔

بات یہ ہے کہ زبان کی اصلیت بھی بہت اہم اور ضروری ہے۔ اگر کسی ملک میں عوام سے لے کر خواص تک لوگ غیر مانوس اور کسی دوسری زبان کے الفاظ استعمال کریں تو اس ملک کی زبان کا حلیہ بگڑ جائے گا، زبان کی شیرینی ختم ہو جائے گی، زبان کے ظاہری ڈھانچے اور باطنی سانچے کو دھچکا لگے گا۔ اس کا طبعی اور ناگزیر نتیجہ کانوں کو چھبنے والی ایک اجنبی اور نامانوس زبان کے علاوہ کچھ نہ ہو گا، اس کے ساتھ ساتھ ادب کا معیار بدل جائے گا، بلکہ ادبی لحاظ سے معیاری کام ظہور میں نہیں آئے گا۔

دوسری طرف گفتگو کے اصول سے نا واقف اور عوام کے مغرب زدہ ذہن رکھنے والے نمائندے اگر اپنی غلط روش پر ا صرار کریں تو اردو کو حقارت کی نظر سے دیکھا جائے گا، اردو میں بات کرنا کسی انسان کی جہالت گردانا جائے گا، عوام احساس کمتری کا شکار ہو کر اس سے بچنے کے لیے اپنینمائندہ لوگوں کی تقلید میں خواہ مخواہ اپنی زبان میں دوسری زبان کے الفاظ شامل کرنے لگیں گے۔

زبان کسی قوم کی ثقافتی اقدار کے لحاظ سے سر فہرست ہے اور قومی شناخت کا اصل اور اولین عنصر ہے۔ لہذا اسے اہمیت دینی چا ہیے۔ انگریزی زبان تعلیم و تربیت کے میدان میں آئے دن اردو کے مقابلے میں اپنا لوہا منوا رہی ہے اور اپنے اس تسلط کو ذرائع ابلاغ عامہ کے ذریعہ اور بھی قوی تر کئے جا رہی ہے۔ انٹرنٹ اور موبائل کا استعمال جوں جوں وسیع تر ہوتا جا رہا ہے ، نوجوان نسل کی توجہ غیر شعوری طور پر اردو زبان کی طرف سے ہٹتی جا رہی ہے۔

جب صورت حال یہ ہو تو قومی سلطو ں تکاور ملی شناختوں کو ختم کرنے کے لیے کی جانے والی سازشیں اور یہ عجوبہ سوچ کہ دنیا ایک بڑا گاؤں ہے اس منفی سوچ کے مقابلے میں کیا ہمیں اپنی زبان کا تحفظ نہیں کرنا چاہیے؟

ایک مرتبہ کنفیوشس سے پوچھا گیا کہ: "اگر کسی ملک کا نظم و نسق آپ کو دیا جاتا تو سب سے پہلے آپ کیا کام کرتے؟"
کنفیوشس یوں جواب دیتے ہیں: "

بلا شبہ میں زبان پر نظر ثانی کر کے اپنے کام کا آغاز کرتا ہوں۔ کیونکہ اگر زبان ناقص ہو توالفاظ خیالات کی صحیح ترجمانی سیقاصر رہتے ہیں اور اگر خیالات کو اچھی طرح نہ سمجھا جائے تو جو کام کیا جانا چاہیے وہ صحیح طور پر نہیں کیا جا سکتا ہے۔ جب فریضے اپنے تقاضوں کے مطابق سر انجام نہ دیے جائیں تو عادات و اطوار اور ثقافتی اقدار بگڑ جاتی ہیں اور جب عادات و اطوار بگڑ جائیں تو عدل و انصاف غلط راستہ اختیار کر لیتا ہے اور جب عدل و انصاف غلط روش اختیار کر لے تو حیرت زدہ عوام نہیں جانتے کہ وہ کیا کریں، وہ تو یہ بھی نہیں جانتے کہ کاموں کا انجام کیا ہو گا۔ اسی لیے کوئی بھی چیز زبان جیسی اہم نہیں ہوتی۔"
نپولین اپنی ایک تقریر میں یوں بیان کرتے ہیں کہ:
’’جہاں الفاظ کام دے سکتے ہوں وہاں گولی چلانے کی ضرورت نہیں ہے۔"

ان کی یہ بات اپنی جگہ بہت مضبوط اور وقیع ہے کہ دوسرے ممالک پر قبضہ کرنے کے لیے ہتھیار استعمال کرنے کی چنداں ضرورت نہیں ہے۔ جس ملک کا پہلے ذہنی طور پر بعد میں مادی لحاظ سے استحصال کرنا مقصود ہو اس ملک میں اپنی زبان کے الفاظ کو داخل کرنا کافی ہو گا۔ اس طرح ایک تو اس ملک کے افراد کے فکری سانچے میں تبدیلی زیادہ آسان اور تیز ہو گی، دوسرا اس ملک کے ثقافتی ڈھانچے پر بھی اثرات مرتب کئے جا سکیں گے۔
ترک قوم کے قائد مصطفی کمال اتاترک اس ضمن میں یوں بیان کرتے ہیں:
"ترک قوم جو یہ جانتی ہے کہ اپنے ملک اور بلند استقلال کا تحفظ کس طرح کرے اس کے لیے لازمی ہے کہ وہ اپنی زبان کو بھی اجنبی تسلط سے بچائے۔"

یہ مفہوم پاکستانیوں اور ہندوستانیوں کے لیے بھی قابل عمل ہونا چاہیے۔ لیکن ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ مفہوم یہاں پر بالائے طاق رکھ دیا گیا ہے۔ زبان اور نوجوان نسل ہاتھ سے نکلتی ہے تو کسی کو کیا پروا!

ایک ترک شاعر یوسف یانچ اپنے ایک شعر جس کا عنوان ہے "ڈھونڈتا ہوں" میں ترکی زبان کے اجنبی لفظوں سے آلودہ ہونے کے متعلق اپنی افسردگی اور بے چینی کا اظہار نثر میں یوں کرتا ہے: "
میں کارامان اوغلو محمد بیگ کو ڈھونڈتا ہوں۔
آپ میں سے کوئی ایسا ہے جس نے انہیں دیکھا، سنا ہو اور انہیں جانتا ہو؟
انہوں نے ایک فرمان 2 صادر کیا تھا جو کہ کچھ اس طرح ہے:
"آج کے بعد دیوان میں، درگاہ میں، بارگاہ میں، مجلس میں اور میدان میں ترکی کے سوا کوئی زبان نہ بولی جائے۔"
۔۔۔
(یہ فرمان 15 مئی 1277 میں صادر کیا گیا تھا۔ )
کیا تمہیں یاد ہے؟
دکان کا نام سٹور، بازار کا نام مارکیٹ، لفافے کا نام شاپر ہوا۔
دکان کا نام سپر، ہائیپر اور گراس مارکیٹ ہوا۔
سستے پن کا نام سیل ہوا۔
کیا آپ میں سے کوئی ایسا ہے جو اس دھوکے میں آیا ہو؟
کیا آپ نے دیکھا نہیں کہ
دفاتر کی عمارات کو پلازہ
نمائش کی جگہوں کو سینٹر روم، شو روم
اور بڑے شہروں کو میگا کینٹ کہا جا رہا ہے
۔۔۔۔
میں کارامان اوغلو محمد بیگ کو ڈھونڈتا ہوں۔
آپ میں سے کوئی ایسا ہے جس نے انہیں دیکھا، سنا ہو اور انیں ا جانتا ہو؟
انہوں نے ایک فرمان صادر کیا تھا۔
کیا آپ میں سے کوئی ایسا ہے جو کہ اپنی دھندلی یادداشت میں اس فرمان کو پیش نظر رکھ کر اس پر عمل پیرا ہوتا ہو؟"
( Yanç, Yusuf, “Arýyorum”, Türk Dili, Nisan 1999, V: 568, p: 310-311, Ankara/Turkiye)

آج بہت سے مغربی ممالک اسلامی مما لک کو نہ صرف استحصال کی نظر سے دیکھتے ہیں بلکہ استحصال بھی کرتے ہیں۔ ان کے اس رویہ کے مقابلے میں ہم کیا کرتے ہیں؟ ایک طرف مطلق آزادی کا نعرہ لگاتے ہیں، لیکن دوسری طرف شعوری اور غیر شعوری طور پر اجنبی الفاظ کو اپنی زبان میں استعمال کر کے اپنا گلا گھونٹنے کا اسباب کیا ہم ہی مہیا نہیں کرتے؟ اس مرحلہ پر اگر مطلق آزاد ملک کے نعرے کے ساتھ ساتھ آزاد اردو زبان کا بھی ایک نعرہ لگایا جائے اور اس پر عمل در آ مد ہو جائے تب یہ اقدام کار آمد ثابت ہوں گے۔

اگر قومی یکجہتی اور اتحاد درکار ہے تو عوام سے لے کر خواص تک ہر طبقے کے کندھوں پر بہت بڑی ذمہ داری ہے۔ سرکاری اور غیر سرکاری اداروں کی ذمہ داری اس سے بھی بڑھ کر ہے۔ کیونکہ یہ ادارے اور ان کے کارکنان شعوری اور غیر شعوری طور پر عوام کی سوچ اور زبان پر اثر انداز ہونے والے کام کر جاتے ہیں۔

اردو زبان کی تعلیم اور اس میں تربیت اب ملکی سحو پر ایک معاشرتی مسئلہ بن گئی ہے۔ ایک طرف زبان میں ہونے والی خرابیوں کو درست کرنے اور لوگوں میں اردو پروری کا احساس پیدا کرنے میں مقتدرہ قومی زبان کا کوشا ں ہونا اور دوسری طرف بولنے میں کی جانے والی اغلاط، بیان میں جھکد، زبان میں استعمال ہونے والے اجنبی لفظوں کا تناسب اور لہجے کی خرابیاں اس بات کی نشاندہی کر رہی ہیں۔ اس پر طرہ یہ ہے کہ ملک کا پڑھا لکھا اور روشن خیال طبقہ مادی لحاظ سے انگریزی زبان کو سیکھنے میں عافیت سمجھتا ہے۔ خاص طور پر نرسری سے لے کر یونیورسٹی تک انگریزی کو ذریعہ تعلیم کی زبان کا درجہ دے کر فروغ دینا اور اردو کو نظر انداز کر کے پس پشت ڈالنا ایک بہت بڑی تاریخی غلطی ہی نہیں بلکہ جرم ہے۔ ان لوگوں کو یہ بات اچھی طرح ذہن نشین کر لینی چاہے لکہ زبان سیکھنا اور بات ہے اپنی زبان میں دوسری زبان کے الفاظ کو شامل کر کے اس کو آلودہ کرنا دوسری بات ہے۔

چونکہ آج ہم رائج ثقافت یعنی "پاپولر کلچر" کی زد میں ہیں اس لیے اس صدی میں زبان کے متعلق بعض قدریں بھلائی جا رہی ہیں۔ طرز بیان کو مالا مال کرنے والی ان قدروں کی بجائے اجنبی الفاظ کو استعمال کر کے اپنا مافی الضمیر دوسروں پر واضح کرتے ہیں جو کہ یہ الفاظ ادھر ادھر سے لیے گئے ہیں اور ان کے صحیح استعمال سے اکثر لوگ ناواقف ہیں۔ اب ایک فکرے کا آدھا حصہ اپنی زبان کے الفاظ سے اور دوسرا حصہ انگریزی الفاظ سے بناتے ہیں۔ اس کی ایک مثال یہاں درج کی جا رہی ہے جو پیپسی کولاکے متعلق کسی اشتہار سے لی گئی ہے۔ کچھ اس طرح ہے:
try karna must hai

اس جملے کا مطلب تو ظاہر ہے۔ لیکن افسوس ہے اس جملے کو لکھنے والے ذ ہن پر اور ہیہات اس مغرب زدہ دماغ پر کہ اس کو خیال تک نہ آیا کہ وہ عوام اور معاشرے کے قلب و دماغ پر دور رس مضر اثرات مرتب کر رہا ہے۔ کیا وہ اردو زبان کے ساتھ ایسا رویہ اختیار کر کے اس کا تمسخر اڑا رہا ہے؟ حالانکہ اردو کے خزانے میں ایسی بہت سے لفظی قدریں ہیں جو کہ لکھنے میں بہت خوب صورت ہیں، سننے میں کانوں کو بہت اچھی لگتی ہیں اور ان قدروں کا استعمال صاحب زبان ہونے کی دلیل بھی ہے۔ اس کے علاوہ لفظی قدریں صدیوں کے تجربے کے نتیجے میں معرض وجود میں آئی ہوئی ہیں۔

موجودہ دور میں عام ہونے و الی "غیر ملکی الفاظ کو استعمال کرنے کی عادت " ایک ایسا موضوع ہے جس پر ہمیں سنجیدگی سے غور و فکر کرنا چاہیے۔ اجنبی الفاظ کا استعمال دوسروں کی اندھا دھند تقلید اور بظاہر نظروں کو خیرہ کرنے والی بناوٹی مغربی ثقافت سے متاثر ہونے کا نتیجہ ہے۔ پس ہمیں ایک ایسے معاشرے کی تشکیل سے بچنا چاہیے جہاں اجنبی زبان میں بولنے والوں یا اجنبی زبان کے الفا ظ کو استعمال کرتے ہوئے بولنے والوں کو تعلیم یافتہ اور اردو بولنے والوں کو ان پڑھ سمجھا جائے۔ اس خرابی کو روکنے کے لیے پاکستانی معاشرے میں قومی زبان کا شعورپیدا کرنا ضروری ہے۔ اس کام کے لیے تعلیم کی ضرورت ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ریڈیو اور ٹیلی ویڑن میں استعمال ہونے والی زبان میں بھی اجنبی الفاظ کے استعمال سے گریز کرنا چاہیے۔

چونکہ آج کل ہم اردو زبان کی طرف بے توجہی برتتے ہیں اس لیے اردو کو ایک بہت بڑا خطرہ درپیش ہے۔ دکانوں اور چیزوں کے ناموں کے لیے غیر ملکی الفاظ کو ترجیح دینا ذرائع ابلاغ عامہ میں نا مانوس زبان کے استعمال اور لفظوں کے غلط انتخاب نے اردو زبان کو ایک ایسی دہلیز پر لا ڈالا ہے جہاں سے نکلنے کا کوئی راستہ نہیں ہے۔

حالانکہ اردو زبان کے الفاظ کا زخیرہ بہت وسیع ہے۔ دوسری طرف اردو نہ صرف لاحقوں اور سابقوں کے اعتبار سے زرخیز ہے بلکہ نئے نئے الفاظ کے اشتقاق کے حوالے سے بھی ایک موزون زبان ہے۔ اس لحاظ سے اردو زبان اپنے اندر علمی زبان کے طور پر استعمال کئے جانے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ زبان جس کسی شعبے میں استعمال کی جاتی ہے اس میں ترقی کرتی جاتی ہے اور ہر لحاظ سے اس کی زرخیزی بڑھتی جاتی ہے۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ا ردو زبان علمی زبان کے طور پر ترقی کرے اور مالا مال ہو جائے تو ہمیں اردو زبان کو اس شعبے میں ترجیح اور اولیت دینا ہو گی۔

ہمیں امید ہے کہ پاکستان اور ہندوستان کے اردو زبان کے محسن لوگ مغرب سے چلنے والی ہوا کے دھوکے میں نہیں آئیں گے اور اس عبوری دور کا سامنا پامردی سے کر کے اپنے مستقبل کو روشن کریں گے اور اپنی زبان کو غیر ملکی اثرات سے محفوظ رکھ کر آنے والی نئی نسل کو مادی، معنوی اور ذہنی لایظ سے صحیح راستے پر ڈال دیں گے۔‘‘

میں جانتا ہو ں کہ ہماری زبان کا دامن جتنا وسیع ہے اس کے تمام گوشوں پر نظر ڈالنے کی صلاحیت کسی ایک شخص میں نہیں ہوسکتی لیکن میں یہ بھی جانتا ہو ں کہ اپنا فرض ڈاکٹر درمش بلگر کو پوری ایمانداری سے ادا کر نا آتاہے۔ وہ جو بھی مضامین قلم بند کر تے ہیں اس میں اس موضوع کی روح تک پہنچ کر اپنا فرض ادا کرتے ہیں۔ انہوں نے مضامین قلم بند کرتے وقت اس بات کا خاص خیال رکھا ہے کہ موضوع کے تمام اہم پہلوؤں کا احاطہ ہو ۔ انہیں قطعی یہ دعویٰ نہیں کہ ان کے یہ مضامین اپنے موضوع کو پوری طرح واضح کر سکتے ہیں لیکن اگر آپ انہیں اپنے مطالعے میں لائیں تو پتہ چلے گا کہ درمش بلگر کے ان مضامین کے ذریعہ کسی بہت سے اہم موضوع کی نشاندہی بھی ہو جاتی ہے۔ اور یہی بات ان کے لیے باعث تسکین ہو تی ہے ۔ تحقیق و تنقید کے فرش کی خاکروبی کر تے وقت انہوں نے خالص ادبی، علمی نظریات وعقائد نیزان سے ابھر نے والے ادبی شہہ پا روں کا وسعت نظری سے مطالعہ کیا ہے اور ان خیالات سے اپنے ذہن و دل کو مالامال بھی کیا ہے ۔ استاد ان ادب کی صحبت میں بیٹھ کر ان کے ساتھ فکری و فنی مسئلوں کا حل ڈھونڈا ہے۔ اور اس دوران انہوں نے علمی کمالات سے اپنے دیدہ ودل کو تابناک ہو تے ہو ئے محسوس بھی کیا ہے ۔ ان کے مضامین کا اگر بغور مطالعہ کریں تو ان میں آپ کو کئی خوبیوں کی رمق نظر آئے گی۔ جو ان کی ایمانداری سے کی گئی محنت اور ذوق مطالعہ کے نتیجے کا پتہ دیتی ہے۔

جب بھی ان سے ان کے مضامین یا علمی کارناموں کے متعلق گفتگو ہوتی ہے اس بات کا اندازہ ہوتا ہے کہ انہیں اس بات کا شدید احساس ہے کہ ان کے چند منتخب مضامین اردو ادب کے ہجر لامتنا ہی میں بلبلے سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتے لیکن میں دعوے کے ساتھ کہ سکتا ہوں کہ یہ بلبلہ اس چمکتے ستارے میں بدل جائے گا، جو آسمان کی بلندیوں کو چھوتا ہوا اپنی روشنی کا احساس دلاتا ہے۔ جب انہیں مطالعہ کرتے ہوئے آپ کے ذہن کا ہر دریچہ کھلا ہو۔ قارئین نے ان کے مضامین کو ہمیشہ قدر کی نگاہ سے دیکھا ہے ان کی دل کھول کر پذیرائی بھی کی ہے۔ اس پذیرائی کا نتیجہ ہے کہ ان کے حوصلے میں اضافہ ہوتا رہا اور وہ تحقیق کے گہرے کنویں میں ڈول ڈالنے کی جرات کر تے رہے۔ متن کے مطالعہ کے دوران اندرون متن موجود ان کے جذبے اور معلوم ذرائع پر بھی نظر ڈالنا دیانت داری ہو گی کیونکہ ان کے مضامین میں چند ایسے علمی گوشے اور اہم پہلو نظر آئیں گے جن کو محسوس کرنا ہی اپنے آپ میں ادبی چاشنی کا مزہ لینا ہو گا۔ مثال کے طور ان کا ایک مضمون علامہ اقبالؔ کے حوالے سے جس میں وہ کہتے ہیں:
In the modern period as a philosopher Iqbal who has got imaginative insight of eastern world, his thought and thinness of his philosophy is based on an invitation of thinking that comes from deep and ambition of activity. Iqbal who had written his own writings in Persian so that his message can be read and understood in the Islamic geography, generally for all human being especially for Muslims, had presented those principles which will be able to be resource to spiritual salvation of them in their religious life and worldly life. But because Iqbal was a philosopher poet, therefore it made difficult to understand a little bit the density of idea in his books. Here, in this article to obliterate this difficulty relatively has been dealt Iqbal's basic opinion and his philosophy that has formed essence of his works. Besides in this study we have presented detailed life of Iqbal, his education and environment in which he lived, those scholar who has part in forming of Iqbal's thought.

ظاہر ہے علامہ اقبال کی ساری فکر کو کسی ایک مضمون میں نہیں بیان کیا جا سکتا، لیکن پھر بھی ڈاکٹر درمش بلگر ان اہم نکات کو ضرور سمیٹنے میں کامیاب ہو گئے ہیں جن پر علامہ اقبال کا زور رہا ہے۔ ڈاکٹر درمش بلگر کی شگفتہ تحریروں کا قائل ہروہ شخص ہے جس نے انھیں پڑھا ہے یاسنا ہے ۔وجیہہ خدوخال کے مالک ڈاکٹر درمش بلگر علمی وادبی حلقوں میں مقبول بھی اسی لیئے ہیں کہ وہ خود بھی نستعلیق ہیں اور ان کی تحریریں بھی ۔میرے سامنے ان کی تحریروں کا ایک ڈھیرہے جس پر کچھ لکھنے سے پہلے میں یہ صاف کر دینا مناسب سمجھتاہوں کہ زندہ تحریریں وہی ہوتی ہیں جو آنکھوں سے پڑھی جائیں لیکن ہر لفظ دل میں اتر جائے۔ ڈاکٹر درمش بلگر اس کے حوالے سے ایک خوش اطوا ر، خوش اسلوب ، خوش فکراور خوشخصال قلم کار کی حیثیت سے اپنی شناخت قائم کرتے نظر آتے ہیں لیکن دوران خوش طبعی جب ان کا قلم سنجیدگی کی طرف مائل ہوتا ہے تو اسے بھی نظرانداز نہیں کیا جاسکتا ۔آپ کو یہ جان کر یقینا حیرت نہیں ہونی چاہئے کہ پچھلے 30-20سالوں میں زبان و ادب کا مفہوم ہی بدل گیا ہے، زبان کا مطلب کسی بازار میں بکنے والی شے کا اشتہار لکھنا اور اب کسی سنجیدہ ادب کا مطلب ہوتا ہے کسی مخصوص فکرکو مشتہر کرنا جو ادبی کم سیاسی زیادہ ہو لیکن ڈاکٹر درمش بلگر کی سنجیدگی ذرا دوسرے قسم کی ہے۔ وہ خالص ادب اور خالص ادبی فکر کو فروغ دینے میں پوری طرح کامیاب ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ آج کے سماجی اور ثقافتی مسئلوں کے ساتھ ساتھ اردو کے کلاسیکی ادب سے بھی گہری دلچسپی رکھتے ہیں۔ اور یہ دلچسپی ہے کہ انہیں امیر خسروؔ، ولیؔ ، سراجؔ، میرؔ، سوداؔ، اور خواجہ میر دردؔ کی شاعری کا مطالعہ کرنا بہت اچھا لگتا ہے۔ اور اس کے اندر سے تصوف اور فلسفوں کی باریکیوں کو کھنگالنا اور انہیں عوام میں پیش کرنے کی فکر بھی رکھتے ہیں یہاں ان کے اس حوالے سے ایک مضمون کی تلخیص محض پیش ہے :
In this study Hvacah Mîr Dard, as a philosopher and Sufi poet of Urdu ghazal in the 18th century, has been dealt and have been given examples about his poems. In this degradation century, in which the bases of Hind-Turk Empire had been shaken and despondency had been spread out everywhere, as a philosopher and Sufi poet Hvacah Mîr Dard whose mystic and philosophical thoughts are very important, had caused to run a kind of life wave with his own thought and practice in Delhi ground, had changed the moods of the people with his spiritual personality and high virtue, had persuaded them to adopt high values of life. Mîr Dard who had taken his own place among the classics in Urdu ghazal tradition, had stated those mystic subject that became inspiration to his heart, in Persian and Urdu poems in a very beautiful manner, because of that he had been accepted very important poet of his own period. In his own thoughts about the life and the universe, at the point of view to the love, in the manner of thought on the metaphor and the truth, briefly about all topics because he had private manner of state, therefore he had gained an honored place in comparison with those poets that they are not Sufi. As a poet his mood and his mystic nature had combined in his ghazals in such manner so that the most beautiful harmony had appeared in the end.
ٔ
درمش بلگر کا ذکر ابھی اردو تاریخ میں داخل ہوا تو ہے لیکن اس کی اہمیت کا ندازہ نہیں ہو سکا ہے۔ ان کی ادبی کا رگذاریوں کے تعلق سے جتنا اور جیسا تحقیقی کا م منظر عام پر آنا چاہیئے تھا نہ آسکایہ مقالہ اس تلافی کی جانب ایک قدم ہے ڈاکٹر درمش بلگر کی شش جہت شخصیت پر کچھ لکھنا ایسا ہی ہے جیسا کہ سورج کو چراغ دکھا نا ۔

درمش بلگر اردو ادب کی تاریخ میں بہت زیادہ قابل ذکر تونہیں ہوئے مگر اردو ادب میں ان کے بعض بے مثل کارناموں کو یکسر نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ ادب کی جامع اور مکمل تاریخ کے لئے ضروری ہے کہ صف اول کے ادبیوں کے علاوہ صف دوم کے ادیبوں پر بھی تحقیقی اور تنقیدی کام کیا جائے ۔درمش بلگر کی شخصیت پر اب تک کوئی تحقیقی کام نہیں ہو سکا ہے ۔ راقم نے اس احساس کے تحت درمش بلگر کی ادبی و علمی خدمات جیسے موضوع کا انتخاب کیا۔زیرنظر مقالے میں درمش بلگر کی شخصیت اور ان کے ادبی خدمات کا اجمالاً ذکر کر تے ہوئے ان کے مضامین پر تفصیلی گفتگو کی گئی ہے ۔اردو زبان و ادب کی تنقیدی تاریخ پر نظر ڈالیں تو اندازہ ہوگا کہ ہمارے ناقدوں نے گنے چنے مخصوص ادیب و شاعر کا انتخاب کر لیا ہے اور انہیں پر آنے والے ناقدوں نے بھی اپنا زور قلم صرف کر دیا ۔درمش بلگر اس عصبیت کے شکار ہو رہے ہیں۔

داکٹر درمش بلگر کی ادبی شخصیت کی اہمیت کا اندازہ اس سے ہوتا ہے کہ وہ اردو کی بستیوں سے دور رہ کر بھی اردو ادب اور اردو تعلیم کے حوالے سے اکثر مضامین قلم بند کرتے رہتے ہیں ٹی وی ٹاک میں شرکت کر کے اور اردو کی محفلوں میں اہل اردو کو گراں قدر مشورے دے کر اپنی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ خودداری اور انا کا وہ سراپا مجسمہ ہیں ایک ہی ساتھ شاعر، محقق، صحافی ، انشاپرداز بھی کہے جا سکتے ہیں۔

درمش بلگرنے اپنے مضامین میں انسان کے نفسیاتی اور سماجی پہلو کو جس انداز سے بیان کیا ہے اس سے اردو ادب کے کسی بھی نقاد کو اختلاف نہیں ہو سکتا اب یہاں تجزیہ کر نا کہ کیا و ہ اپنے آپ میں ایک کامل ادیب و مفکر ہو سکتے ہیں کہ نہیں یہ ایک الگ بحث ہے ۔لیکن یہ امر مسلم ہے کہ کسی بھی فن پارے یا ادبی مضامین کے لئے ایسے موضوع کا ہو نا ضروری ہے کہ جو کسی بھی سماج معاشرہ اور حکومت کی صحیح تصویر پیش کر سکے جس میں اس کے تخلیق کار کا مزاج، خیالات، نقطہ نظر پنہاں اور اس کی کا میابی کا راز پوشیدہ ہو تا ہے ۔ ہر قاری یا ناقد کسی بھی تخلیقی ورثہ کو اپنے نقطۂ نگاہ سے جانچ پرکھ کر کے اس کی کامیابی کا حکم صادر کر تا ہے ۔ڈاکٹر درمش بلگر کے مضامین میں کامیابی کے سبھی عناصر موجود ہیں اور اس بنیاد پر یہ رائے پیش کی جاسکتی ہے کہ درمش بلگر اپنے موضوع اور مزاج کے اعتبار سے اردو ادیبوں میں اہمیت رکھتے ہیں ۔ اور اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ ان کے مضامین کے موضوعات عام انسان کی زندگی اور اس کے مسائل سے ہوتے ہیں لہذا قاری کی دلچسپی بھی بنی رہتی ہے اور درمش کی محنت سے لکھے گیے مضمون کی وسعت اہمیت اسے اور مقبول بنا دیتی ہے۔ جیسے کہ انہوں نے پاکستان میں زبان کے مسئلے کو موضوع بنا کر ایک مضمون لکھا جس میں آپ دیکھ سکتے ہیں کہ کس باریکی سے ان مسئلوں پر گفتگو کرتے ہیں اور اہل زبان نہ ہوتے ہوئے بھی اردو زبان کے مسائل پر کیسی گرفت رکھتے ہیں۔
Pakistan is one of the multi-lingual & multi-cultural countries in the world where Punjabi, Siraiki, Sindhi, Pakhtoon/Pashtoon, Balouch and Kashmiri are major ethnic groups while Hindko, Pothohari, Brahvi, Chittrali, Kohistani, Balti, Shin, Brosho, Pahari, Wakhi, Bihari, Rohtaki, Gujrati and Mewati etc. are minor ethnic groups. All of these ethnical groups are speaking their mother tongue which is not Urdu and have variants from Urdu with respect to their structures, syntax, vocabulary and phonetics. It would be more accurate if such languages are termed as Urdu-like languages. Although today, Punjabi ethnic group comprises of nearly half of the total population of Pakistan, each ethnic group has unique features of its own mother tongue, a distinguished cultural heritage for centuries. Despite Urdu is being regarded as the national language by the state, as mentioned above, because Urdu is not the language of any nation in Pakistan, so it is being taught as a foreign/second language in educational institutions in the country. So in such a country where the official language is English, the public whose mother tongue is different from Urdu, is not giving importance to Urdu as much as it deserves. On the other hand, Urdu terminology for official language prepared and arranged by National Language Authority, Islamabad, could never gain public popularity or acceptance compared to English terminology. Moreover, despite of the efforts of Urdu language movements, Government of Pakistan never declared Urdu as official language during past sixty-four years. It reflects the basic flaw and vivid contradiction in national language policy as well as socio-cultural vision of the ruling elite of Pakistan up to date.
The aim of this study is to discuss the future and the position of Urdu Language which is accepted as the national language in Pakistan.

یہ بات عام ہے کہ ادب اور بالخصوص نثری ادب کا تعلق سماج کے اس طبقے سے ہوتا ہے جس میں زندگی اپنے اصلی مفہوم میں فعال نظر آتی ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ ادب کے ذریعہ انسان اپنے خفیہ جذبات و احساسات کوبروئے کار لاتاہے اور سماج پر اس کے گہرے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ لیکن یہ بات بھی تجربہ میں آتی ہے کہ "ـنثر"اپنی زود حسی کی وجہ سے براہِ راست سماج کو متاثر کرنے والی صنف ہے۔ اور صنفِ نثر میں مضامین تیر بہ ہدف کا مقام حاصل کر چکا ہے۔ مضمون پہلے عشق کا تیر ہے جو سینے کے پار ہوجاتاہے اور یہی وجہ ہے کہ اس صنف نے ایک طویل عرصے تک اردو نثر پر حکومت کی ہے۔ اور اگر سنجیدگی سے غور کیا جائے تو ابھی اس کی حکمرانی کا ہی دور ہے اور اردو زبان و ادب آج بھی ان کے بل پر ہی دیگر زبانوں کے مقابل کھڑا ہے۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آیا اس قدرکم سِن صنف کو وہ کون سی جڑی پلادی گئی یا کس فقیر نے اسے بقائے دوام کی دعا دے دی، جو اس کی خیرگی ختم ہونے میں نہیں آتی بلکہ روزبروزترقی کے منازل طے کرتی جارہی ہے۔ اس سوال کو حل کرنے کے لئے زیادہ نہیں بس چند لمحے غور کرنے کی ضرورت ہے۔اور وہ یہ کہ جس طرح اردو شاعری کو اگر اوائل عمری میں ہی ولی ؔجیسا شاعر نصیب ہوگیاتھا اور بعد میں متواتر میرؔ و غالبؔ ملتے رہے تو یقینااردو مضامین کو بھی ولیؔکی طرح سر سید ملے۔ اور اس کے بعد تو پھر ادبی مضامین و علمی مضامین لکھنے والوں کا تانتا سا لگ گیا۔ لیکن یہ بات بھی اہم اور قابل گور ہے کہ موضوعات پر دور اندیشی اور باریک بینی بہت کم لوگوں کو میسر ہوتی ہے۔ڈاکٹر درمش بلگر کا شمار اسی طرح کے ادیب میں ہوتا ہے جس کی گفتگو میں دور اندیشی اور باریک بینی بھی ہے۔ مثال کے لیے ان کے مایک مضمون کی تلخیص ملاحظہ فرمائیں جس میں انہوں نے برطانوی تجارات کاروں سے لے کران کے حکومت قائم کرنے تک کی کہانی بیان کی گئی ہے :
The aim of this article is to show the socio-cultural and the political situation of the sub-continent of Indo-Pakistan in the 19th century. In this century the British domination in the sub-continent not only influenced the socio-cultural life of the people, but also persuaded some of them to a new interpretation of the religion and the life. However, when some of the Muslim intellectuals and educated people denied the basic norms of the new civilization, the others adopted these norms and a modern way of life brought by the British. The opponents denied it, because the system that had been brought and established by the Britain, was not only contradicting the faith of the devout Muslims, but also changing administrative construction. As a result of this change Muslims lost their political domination which they had for a long period. Also the purpose of this article is to bring out the socio-cultural and the political struggle which was started against the British Imperialism by the Muslims.

اس بات پر غور کیا جائے کہ درمش کی حیثیت ایک ترکی کی ہے۔ ان کا جذباتی لگاؤ ہندو پاک سے ویسا ہر گز نہیں ہو سکتا جیسا کہ ہم اہل وطن کا ہے ایسے میں ان کی سچائی اور ایمانداری و دیانت داری ہی ہے کہ انہوں اس مضمون میں ہندوپاک کی مظلومیت اور برطانوی ظلم کا کھل کر ذکر کیا ہے۔ غیر جانب دار ہوتے ہوئے سچی بات کہنے کا نتیجہ ہی ہے کہ اس مضمون میں ظلم کا پردہ فاش ہو گیا۔

علم و ادب کی پذیرائی ہمارا قومی فریضہ ہے۔ جہاں ایک طرف درمش بلگر تدریسی، تعلیمی، اور ادبی اعتبار سے بین الاقوامی شہرت حاصل کر چکے ہیں وہیں ان کے شعبے سے فارغ التحصیل طلبا پوری اردو دنیا میں علم و ادب کا پرچم لہرا رہے ہیں ۔شعبۂ اردو کے کارناموں کو دانشور طبقہ قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ یہ اردو کے لیے اعزاز کی بات ہے کہ ترکی کی سرزمین سے طلباء و طالبات کی بڑی تعداد اردو میں ایم اے اور اردو زبان و ادب کے حوالے سے الگ الگ کورسز کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے پاکستان کے علاوہ ہندوستان کا بھی رخ کر رہی ہیں۔ اور یہ سب ڈاکٹر درمش بلگر کی ہی تربیت اور کاوشوں کا نتیجہ ہے۔ ہندوستان کو علم و ہنر کے گہوارے کی حیثیت حاصل ہے،گزشتہ برسوں میں یہاں کے اساتذہ و طلباء کی جو علمی وادبی خدمات سامنے آئی ہیں ان کی ہمارے بین الاقوامی دانشوروں اور اسکالروں نے خاطر خواہ پزیرائی کی ہے۔ یہاں تفصیل کا موقع نہیں لیکن ہم اتنا ضرور کہیں گے کہ یہ سب یہاں کی زرخیز مٹی کا کمال ہے۔

بیرون ملک ہندوستان کے بڑے بڑے دانشوروں اور ادیبوں کے لکچرز اور خطبے کے اہتمام کی روایت رہی ہے۔ ان ملکوں میں ترکی کا شمار صف اول میں ہوتا ہے۔ ترکی سے بھی ہمارے ملک میں آنے والوں کی تعداد بہت ہے۔ دونوں ملکوں کی کوشش ہوتی ہے کہ اس طرح cultural exchange کا یہ سلسلہ چلتا رہے۔

ترکی کے اساتذہ کی ہمیشہ یہ کوشش رہتی ہے کہ یکے بعد دیگر ے اردو زبان وادب نظم ونثر کی جملہ اصناف کی تعلیم و تدریس کا وہاں کے تعلیمی اداروں میں بہتر سے بہتر انتظام ہو۔ اس قبیل میں اردو زبان وادب کے فروغ ،علمی مواد کی تیاری واشاعت کے ساتھ ساتھ اردو کی تہذیب وثقافت کے عظیم ورثے کے تحفظ اوراس کی آبیاری کے لیے بھی وہ لوگ بہتر سے بہتر حکمت عملی تیار کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ ان کے نساب اور اس کورس میں غالبؔ،اقبالؔ، میرؔنظیر اکبرالہ آبادی،ولیؔ دکنی،میر انیس،فا نیؔبدایونی، فراق گورکھپوری،میرؔامن، رجب علی بیگ سرورؔمحمد حسین آزاد، خواجہ میردردؔ،افضل جھنجھانوی، مولانا الطاف حسین حالیؔ،پریم چند،کرشن چندر،عصمت چغتائی،سعادت حسن منٹو،قرۃالعین حیدر،وغیرہ سبھی اہم ادیبوں کی تصانیف ساتھ ہی نثر اور نظم کے جملہ اصناف ادب پر مشتمل نصاب پڑھائے جا رہے ہیں۔

یہ بات سبھی جانتے ہیں کہ اردو ایک نیچرل اور فطری زبان ہے، جس میں ہر جذبے اور ہر آواز کی ادائگی بآسانی ہو جاتی ہے۔ بازار کی ضرورت کے مطابق ترسیل کا حق بھی اردو نے ہمیشہ ادا کیا ہے، اردو کا مستقبل بہت تابناک ہے۔، ہمارے طالب علموں کو ذرا بھی مایوس ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ ضرورت ہے تو بس اپنے اندر مہارت پیدا کرنے کی۔ ادیب کی تخلیق اور عبادت میں زیادہ فرق نہیں ہوتا۔ جس طرح ایک زاہد مسلسل عبادت میں لگا رہتا ہے اسی طرح ایک ادیب اور فن کار بھی اپنے فن کی تخلیق میں خشو وع خضوع کے ساتھ لگا رہتا ہے۔ در اصل فنکار ہونے کے لیے گمرہی ضروری ہے۔ یہ گمرہی ہی صحیح راہ کی طرف گامزن ہونے پر راغب کرتی ہے۔ فن کار ایک جادو گر ہوتا ہے اور وہ اپنے فن میں جادو گری پیدہ کرنے کے لیے بہت جدو جہد کرتا ہے۔ فن پر مہارت حاصل کرنا اس کے تشکیلی عمل میں پیہم لگے رہنا اس کی مجبوری نہیں اس کا ذوق ہوتا ہے۔ ہجرت میں نصرت اور ارتقا کا عمل شامل ہے۔ عزت اسے ملی جو چمن سے نکل گیا‘ اسی لیے داکٹر درمش بلگر نے اپنا وطن چھوڑ کر کئی سال تک پاک و ہند کی خاک چھانی ہے۔ عہدِ حاضر میں شعر وادب کا منظر نامہ چند ادبی چہروں کی روشنی سے منور اور تاباں نظر آتا ہے ۔ ان کی شخصیات اردو ادب میں اپنا منفرد مقام بنا چکی ہیں۔ یہ شخصیات صرف نقاد ہی نہیں ادبی صحافی،مترجم اور محقق کی حیثیت سے بھی مشہور و معروف ہیں۔اور ابھی تک ان کی متعدد کتابیں شائع ہو چکی ہیں ۔ اور درمش بلگر بلا شک اس صف رکھا جا تا ہے۔ اردو ادب میں ڈاخٹر درمش بلگر ایک محقق کی حیثیت سے بھی کا فی مقبول ہو چکے ہیں۔ ان کی تحریروں میں نئی تراکیب ،نئی تمثالیں اور علامتیں بکثرت پائی جاتی ہیں جو ایک طرف ہمارے ادب کے مزاج کی عکاسی کر تی ہیں اور دوسری طرف کلاسکیی ادب سے ہمارا رشتہ مضبوط کر تی ہیں۔ ڈاکٹر درمش بلگر کے متعدد بصیرت افزا ادبی،تاریخی،علمی اور سیاسی مضامین ہندوستان اور بیرون ملک کی ادبی دنیامیں بقائے دوام حاصل کر چکے ہیں۔موصوف نہ صرف عالمی شہرت یافتہ دانشور وادیب ہیں بلکہ ماہر تعلیم کی حیثیت سے بھی اپنی ایک علےٰحدہ شناخت رکھتے ہیں اور متعدد مختلف النوع عالمی تعلیمی،ادبی وثقافتی اداروں کے رکن خاص اور اعزازی فیلو بھی ہیں۔

ہمارا خیال ہے کہ اکیسویں صدی میں اردو کا ارتقا انفارمیشن ٹکنا لوجی کے چیلنج پر منحصر ہے۔ لہٰذا اس صدی میں اردو کو انفارمیشن ٹکنا لوجی سے مربوط کر تے ہوئے دنیا کو یک لسانیت یایک لسانی حیثیت اختیار کرنے سے روکا جا سکتا ہے۔اسی لیے درمش بلگر نے عصری علوم کی ترجمہ کاری اور عصری تقاضوں سے نمٹنے کے لیے ہندو پاک بھر کے اردو اداروں کا قومی وفاق قائم کرنے کی ضرورت محسوس کرتے ہیں۔ وہ آرزومند ہیں کہ اساتذہ طلباء ، ادباء اور اردو داں طبقہ،عصری طریقہ تعلیم اختیار کریں تاکہ اردوزبان وادب کو عصری علوم کی طرح فروغ دینے میں مدد مل سکے۔

شائد ڈاکٹر درمش بلگر سر سید تحریک اور ان کے رفقاء سے بہت متاثر نظر آتے ہیں کیوں کہ ان کی فکر قوم کی ترقی کے لیے اسی راہ کو اختیار کرتی ہے جس کی تلقین سر سید اور ان کے رفقاء نے کی تھی۔ چونکہ آج زمانہ بدل چکا ہے اور اسی کے ساتھ سماجی و معاشی قدریں بھی بدل چکی ہیں لہذا داکٹر درمش بلگر اپنے زمانے کے مطابق اپنی ترقیاتی فکر کو عوام تک پہنچاتے ہیں، اس بات کا پتہ ان کے ’الطاف حسین حالیؔ‘ کے حوالے سے لکھے گئے ایک مضمون سے بھی چلتاہے۔
When we looked at the patterns of the early period of Urdu literature which took literary materials from Arabic and Persian, we see that these are biographical samples. Therefore a lot of biographical Works had been written in Sub-Continent. The present article is about the historical progress of the biography in the nineteenth century in India. A part from it this study deals with Altaf Husayn Hâlî and his biographical Works on this topic.

اس مضمون میں الطاف حسین حالی کی پوری روح سما گئی ہے۔ اس کے مطالعے سے ہمیں اس عہد کی کشمکش اور انتشار کا پتہ تو چلتا ہی ہے ساتھ ساتھ یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اس زمانے میں ایک تعلیم یافتہ طبقہ کیا فکر رکھتا تھا اور قوم و ملک کے ساتھ اپنے ادبی سریوں اور اس کی تخلیق کے متعلق کس دور اندیشی سے کام لیتا تھا۔ اردو کے آغاز نشو نما اور ارتقاء کی داستان بے حد طویل ہے۔اس میں تاریخی انقلابات تہذیبی تغیر ات اور تمدّنی کروٹوں کے لہر در لہر سلسلے شامل ہیں یہ ایک الگ بحث کا باب ہے ۔ ایک زمانہ تھا اردو شعروادب کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ اردو شاعری میں گل و بلبل اور لب و رخسارکی باتیں قلمند کی جاتی ہیں، اردو ادب عشقیہ داستانوں پر مشتمل ہو تا ہے۔لیکن زمانے کے ساتھ حالات کے پیش نظر اس سلسلے میں تبدیلیاں آئی ہیں اوراردو شعر وادب میں زندگی کے سلگتے ہوئے مسائل سے بھی بحث کی جانے لگی۔ اردو زبان سبھی جانتے ہیں کہ دنیاکی چند بہترین زبانوں میں سے ایک ہے ہندوستان میں جنمی،پلی، بڑھی اور پوری دنیا میں پھیل گئی ۔ اسی کے حوالے سے داکٹر درمش بلگر نے اپنے ایک مضمون میں تاریخی حوالوں کا سہارا لیتے ہوئے بڑی چابک دستی سے اپنی بات کہی ہے۔ اس کی تلخیص ملاحظہ کیجیے۔
That fact that all languages had originated from one language, nobody can deny it. But, it is difficult to determine the time and the place in which language come to existence, and to trace its development process. That is a historical fact that in this process different cultural elements acted own part along the centuries and these elements also developed and changed gradually and in the end new languages came to out. So much so that, this consciousness of preparation can not exist in that nation who is speaking that language. Language is being felt only at that time when it showed its element of newness with writing. In this study we have presented the origin of Urdu Language and its historical development process.

ہمارے ملک کی یکجہتی اور قومی سالمیت کی قدراول مادری زبان اردو کی بقا کامسئلہ آج اولیت اختیار کر گیا ہے۔ یہ حقیقت روز روشن کی طرح واضح ہے کہ اگر کسی قوم سے اس کی زبان چھین لی جائے تو وہ گونگی اور بہری ہو جا تی ہے ۔ اگر ہم نے صف بستہ ہو کر اپنی زبان ، اس کے کلچر اور خصو صی طورپر اس کے رسم الخط کو بچا یا نہیں تو احتمال ہے کہ ہماری زبان آئندہ صدی آتے آتے اپنی مقبولیت کھو دے گی۔ہندوستانی زبان کو دیونا گری رسم الخط میں آج سرکاری حیثیت حاصل ہے۔مگر اردو کی روز افزوں مقبولیت اوراس سرکاری زبان کے لیے اس کی مقبولیت کسی سے چھپی نہیں ہے۔اس عوامی مقبولیت کے پیش نظر ہمارایہ فریضہ بن جا تاہے کہ ہم اردو کی شناخت یعنی رسم الخط کو زندہ رکھنے کے لیے جی توڑ کوشش کریں کیونکہ یہی رسم الخط اسے دیگر ہندوستانی زبانوں سے ممتاز کر تاہے۔ کون نہیں جا نتا کہ اگر اس رسم الخط کو عوام میں زندہ رکھا جائے تواس سے پیاری اور خوبصورت زبان بر صغیر ہی میں نہیں بلکہ عالمی سطح پر پوری کائنات میں کہیں نہیں ہے۔

ڈاکٹر درمش بلگر اکثراس طرح کے خیالات کا اظہار کیا کرتے ہیں اور کہا کرتے کہ اردو زبان جنوبی ایشیاء کی زبان ہے ،اور برصغیر ہند کی آزادی ملنے کے بعد اس زبان کو بہت فروغ ملا۔آج اردو ہندوستان کی دیگر ۱۸ زبانوں میں سے ایک ہے وہیں پاکستان کی یہ قومی زبان ہے۔ ہندوستان میں اس زبان کے شیدائی سینکڑوں کی تعداد میں ہر مذہب و ملت کے ہیں،وہیں پاکستان ،افغانستان،بنگلہ دیش،اور نیپال میں بھی اس زبان کے بولنے والے کم نہیں ہیں۔برصغیر کے علاوہ گلف،مشرقی وسطی،مغربی یورپ،سکینڈی نیویا،امریکہ اور کینڈا میں بسنے والے جنوب ایشیائی لوگوں کی اردو تہذیبی زبان کے طور پر موجود ہے۔ تاریخی اعتبار سے اردو زبان کی ابتداء بارہویں صدی عیسوی سے ہوتی ہے جب مسلمانوں نے شمال مغرب کے راستے تجارت کی غرض سے ہندوستان کی سر زمین پر قدم رکھا اور رابطے کی زبان کے طور پر مقامی باشندوں اور سپاہیوں کے اختلا ط و ارتباط سے ملی جلی زبان اردو وجود میں آئی۔عہد وسطی میں اردو کو مختلف نام دئے گئے جیسے زبان ہند،ہندی،زبان دہلی، ریختہ، گجری،دکھنی،زبان اردوئے معلی،زبان اردو یا پھر صرف اردو کے نام سے یاد کیا گیا۔اسی عہد میں سب سے پہلے فارسی زبان کے ترکی النسل عظیم مصنف امیر خسرو،نے اس زبان کو شا عری میں استعمال کیا اور فارسی کے علاوہ عوامی زبان میں دوہے پہیلیاں اور مکرنیاں لکھیں اور ہندوی کا نام دیا۔اردو ترکی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی ہے لشکر۔اردوئے معلی کا مرکب اکبر کے زمانے میں لشکر کے لئے رائج تھا۔میر امن کے مطابق شاجہاں نے اردوبازار کو اردوئے معلی کا خطاب دیاتھا۔سر سید احمد خان نے لکھا کہ جو زبا ن شاہی بازاروں میں مروج تھی اسی کو زبان اردو کہتے ہیں ــ۔

ڈاکٹر درمش یہ مانتے ہیں کہ انسویں صدی کے اواخر تک اردو کے بڑے ادیبوں نے اس زبان کو ہند ی یا ہندوی ہی کہا ہے۔اردو زبان کے لئے ہندی کا لفظ میر امن کے زمانے میں مروج تھا۔غالب نے اپنے خطوط کے مجموئے کا نام عود ہندی رکھا جو کہ خا لص اردو کی کتاب ہے۔ اردو زبان و ادب کی ترقی و ترویج میں ہزاروں سالوں کی تاریخ پوشیدہ ہے اور جس کے آغاز و ارتقاء میں مختلف قسم کے معاشرتی،سیاسی اور تہذیبی محرکات نے کلیدی رول ادا کیا۔ یہ سب باتیں درمش بلگر نے اپنے اس مضامین میں قطعیت اور دلائل کاخیال رکھتے ہوئے اس انداز سے کہی ہیں کہ تحقیق و تنقید دونوں کا حق ادا ہو جاتا ہے۔ انہوں جن موضوعات پر مضامین لکھیں ان سب کی تفصیلات یہاں ممکن تو نہیں لیکن ان کے عنوان سے آپ کو آگاہی ان کی علمی اور ادبی حیثیت کا پتہ دے جائے گی۔ چند مضامین کی سرخیاں یہاں درج کرتا ہوں۔ ’’نفاذ اردو کی راہ میں رکاوٹیں :ایک ترک کی نظر میں‘‘، یہ مضمون ارردو میں لکھا تھاجو 1995 کے ’اخبار اردو‘ پاکستان میں شائع ہوا تھا۔ ’’تحریک پاکستان کا فکری پس منطر‘‘ یہ مضمون 1998میں انقہرہ یونیورسیٹی کے سمینار میں پڑھا گیا تھا ۔ یہ بھی اردو میں ہی لکھا گیا ہے۔ ترکی زبان میں ’’"A List of the Printed Material About Turks at the Libraries of Subcontinent"‘‘، یہ مضمون سلجوق یونیورسیٹی کے1998کے جریدے میں شامل ہے۔ ترکی زبان میں لکھا گیا مضمون ’’From Commerce to Colonialism: Hindustan and the British Supremacy in the 19th Century‘‘2004میں شائع ہوا ہے۔ ’’اردو کا مستقبل‘‘ کے عنوان سے 2008میں اخبار اردو مین شائع مضمون بڑا معنی خیز ہے جو اخبار اردو میں شائع ہوا ہے۔ ’’ترکی میں کتب بینی کی روایت‘‘ ببھی بڑا دلچسپ مضمون ہے جو ’کتابی رسالہ‘ پاکستان میں شائع ہے۔ ان کے علاوہ اور بھی بہت سے دلچسپ اور معلوماتی مضامین کا خزانہ ہے ۔ اس کے ساتھ ساتھ اردو زبان کی تدریس کے حوالے سے کئی کتابیں شائع ہو چکی ہیں پھر اردو غزل و نظم اور ں نثری فن پاروں کے کئی انتخابات ترکی میں شائع ہو چکے ہیں۔

ترکی میں اردوزبان اور ادب روز بہ روز مقبول ہورہا ہے، استنبول اورقاہرہ یونیورسٹیوں میں گزشتہ 25 برس سے اردو کے شعبے فعال ہیں جبکہ سواس یونیورسٹی میں بھی شعبہ اردو قائم ہوگیا ہے جس کے لئے اساتذہ کی تلاش جاری ہے۔ اردو قوم اورقومیت سے بالاتر ایک بین الاقوامی زبان ہے، ترکی کی موجودہ حکومت اس کے فروغ کے لئے مخلص ہے۔ استنبول میں ایک ہزار پاکستانی رہتے ہیں۔ جن سے ملاقات کے لئے وہ ہر ہفتے شہرکے ایشیائی حصے سے یورپی حصے کا سفر کرتے ہیں۔ اس وقت انہیں احساس ہوتا ہے گویا وہ پاکستان جارہے ہیں۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہاکہ ترکی میں 95 فیصد آبادی مسلمانوں کی ہے، اس لحاظ سے یہ ایک سیکولر ریاست ہونے کے باوجود دنیا کا سب سے بڑا مسلم ملک ہے۔
Dr. Mohammad Yahya Saba
About the Author: Dr. Mohammad Yahya Saba Read More Articles by Dr. Mohammad Yahya Saba: 40 Articles with 131879 views I have Good academic record with a Ph.D. Degree in Urdu “Specialization A critical study of Delhi comprising of romantic verse, earned Master’s Degree.. View More