افغانستان سے پاکستان میں بھارتی تخریب کاری

راجہ ماجد جاوید علی بھٹی

برسلز میں پاکستان کے آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی نے افغانستان سے پاکستان پر حملوں کی روک تھام کا بھرپور انداز میں مطالبہ کیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ افغانستان میں بڑھتا ہوا بھارتی عمل دخل اور اس کے نتیجے میں پاکستان میں پھیلتی ہوئی دہشت گردی اور سرحدوں پر منظم حملے پاکستان کی سلامتی کے حوالے سے ایک بڑا چیلنج بن کر سامنے آ چکے ہیں۔ 2014ءمیں امریکی نیٹو افواج کی واپسی کے بعد پاکستان میں بھارتی پشت پناہی میں افغانستان سے تخریب کاری بڑھ جائیگی جس سے خطے میں امن و امان برقرار رکھنا اور خود افغانستان میں صورتحال کی بہتری کی کوئی اُمید نہیں رکھی جاسکتی۔ امریکہ نیٹو کے مقبوضہ افغانستان میں بھارت کو کھل کھیلنے کا موقع کیوں دیا گیا ہے۔ یہ سوال اور اس کا جواب کسی بھی پاکستانی کےلئے کوئی خفیہ راز نہیں۔ کیونکہ پاکستان دشمنی کے لئے افغانستان کا استعمال بھارت کی پرانی پالیسی اور تاریخ کا تاریک باب ہے۔

”را“ بلوچستان میں شدت پسندوں کو بھڑکانے اور انتہا پسندی کو فروغ دینے کیلئے افغان وزارت داخلہ اور افغانستان کی خفیہ ایجنسی ”خاد“ KHAD جس کا نام نام ”رام“ RAM ہے کے ساتھ مل کر کام کرتی ہے۔ 1980ءکے وسط میں ”را“ نے کاﺅنٹر انٹیلی جنس ٹیم ایکس (CIT-X) اور کاﺅنٹر انٹیلی جنس ٹیم جے (CIT-J) کے ناموں سے دو خفیہ گروپ بنائے جن کا مقصد پاکستان کے اندر دہشت گردانہ حملے کرناتھا۔

پاکستان کے آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی نیٹو کے کمانڈر سے افغانستان سے پاکستان پر ہونے والے حملے بند کرانے کا کہہ چکے ہیں جبکہ پاکستان کے دفتر خارجہ نے بھی لگی لپٹی رکھے بغیر کہہ دیا ہے کہ صوبہ کنڑ اور نورستان میں پاکستانی طالبان کے محفوظ ٹھکانے ہیں جہاں سے انہیں مدد ملتی ہے ۔

بھارت شروع سے افغانستان کو پختونستان کے لئے ابھارتا رہا بلکہ پختونستان کا تصور ہی مہاتما گاندھی کی تخلیق تھا جسے افغان حکومت کے حوالے کردیا گیا۔ افغانستان کے حکمرانوں نے ڈیورنڈ لائن کو مسترد کردیا اور جب پاکستان نے 1955ءمیں دستور بنانے کے لئے ون یونٹ قائم کیا تو افغانستان نے پاکستان سے یہ کہہ کر سفارتی تعلقات توڑ لئے کہ ون یونٹ نے پختونوں کی آزادی سلب کرلی ہے۔ اس طرح افغانستان نے پاکستان کی سرحدوں کے اندر پختونستان کی مصنوعی ریاست کے تصور کو ایک سیاسی مسئلے کا رنگ دیدیا جس کی بھارت لگاتار پروپیگنڈا کے ذریعے حوصلہ افزائی کرتا رہا۔ بھارت نے سفارتی آداب اور بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے افغانستان کے سفیر سردار نجیب اللہ خان کو آل انڈیا ریڈیو سے 27 مئی 1951 ءکو پاکستان کے خلاف تقریر کرنے کی اجازت بھی دی تھی جس پر پاکستان نے بھارت سے احتجاج بھی کیا تھا۔ پاکستان کےخلاف بھارتی پریس اور ریڈیو اس طرح استعمال ہوا کہ پختونستان کے متعلق خبریں افغانستان کی بجائے بھارت سے زیادہ سنی جاتی تھیں۔

دونوں ملکوں میں اس ناپسندیدہ اور غیر ضروری کشیدگی کے کئی ناخوشگوار نتائج نکلے۔ کشمیر میں رائے شماری کے لئے بھارت پر دباﺅ ڈالنے کے لئے پاکستان اسلامی ریاستوں کی حمایت حاصل کررہا تھا۔ مسئلہ کشمیر پر عالم اسلام کے اثرات کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ افغانستان کا کشمیر سے بارڈر ملتا ہے لیکن افغانستان نے یہ اعلان کرکے رکاوٹ پیدا کردی کہ وہ دونوں ریاستوں سے دوستی کی بناءپر مسئلہ کشمیر اور نہری پانی کے تنازعہ پر کسی بھی فریق کی طرفداری نہیں کرسکتا۔ اس خیال کا اظہار افغان وزیر اعظم سردار محمد نعیم نے کیا تھا لیکن 1949-50ءمیں پاکستان اور حریت پسند کشمیریوں کےخلاف جنگ کے لئے بھارت کے فوجی وفد کو افغانستان نے اپنے ہاں سے رضاکاروں کی عام بھرتی کے لئے اجازت دیدی۔ یہ الگ بات ہے کہ افغانستان کے مسلمانوں نے بھارت کی فوج میں بھرتی ہونے سے انکار کردیا اور بھارت کا فوجی وفد ناکام لوٹ گیا۔ صرف اس پر بس نہیں کی گئی بلکہ جنوری 1950 ءمیں بھارت اور افغانستان کے درمیان پانچ سالہ دوستی کا معاہدہ ہوا جس پر لندن کے ہفت روزہ اکانومسٹ نے تحریر کیا کہ ”بھارت اور افغانستان کے درمیانہ پانچ سالہ دوستی کا معاہدہ پاکستان میں عدم اعتماد کا بیج بوئے بغیر نہیں رہے گا۔ یہ اقدام کس طرح مستحسن ہوسکتا ہے کہ بھارت کے دارالحکومت دہلی کو ایسے مقام کے طور پر منتخب کرلیا جائے جہاں سے افغانستان کی شکایت اور الزامات کو ہوا دی جائے۔
Javed Ali Bhatti
About the Author: Javed Ali Bhatti Read More Articles by Javed Ali Bhatti: 141 Articles with 94892 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.