بلوچستان کے 12 اضلاع سے تعلق رکھنے والے تقریباً 18ہزار اساتذہ نے انتخابات کے
دوران ڈیوٹی دینے سے انکا رکردیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ کالعدم بلوچ تنظیموں کی جانب
سے انتخابی ڈیوٹی دینے پر سنگین نتائج بھگتنے کی دھمکیاں مل رہی ہیں۔ اس صوبے میں
صرف پیپلز پارٹی اور اے این پی نہیں جمعیت علمائے اسلام، جماعت اسلامی، ن لیگ حتیٰ
کہ قوم پرست جماعتوں کے امیدواروں اور دفاتر پر بھی حملے کیے جارہے ہیں۔ ان حملوں
میں متعدد افراد جان سے ہاتھ دھو چکے ہیں۔ بلوچ عسکری تنظےموں نے عوام کو انتخابی
سرگرمیوں سے دور رہنے کا مشورہ دیا ہے، بصورت دیگر کہا گیا ہے کہ وہ اپنے نقصان کے
خود ذمہ دار ہوں گے۔ یہ دھمکیاں اور انتخابی عمل کوسبوتاژ کرنے کی کوششیں بہت خفیہ
نہیں ہیں بلکہ باقاعدہ پمفلٹ تقسیم اور دیواروں پر چسپاں کےے گئے ہیں۔
خیبرپختونخوا کی صورت حال بھی بہت نازک ہے۔ یہاں پر اے این پی خاص طور پر حملوں کی
زد میں ہے۔ امید واروں کے گھروں، دفاتر اور گاڑیوں میں دھماکے کیے جارہے ہیں۔ گزشتہ
دنوں ایسے ہی ایک دھماکے میں اے این پی کے مرکزی رہنما اور سابق وزیر ریلوے حاجی
غلام احمد بلور بال بال بچے تھے۔ فاٹا میں بھی کئی امیدواروں پر حملے ہوچکے ہیں۔
سندھ بھی انتخابی مہم کے باقاعدہ آغاز ہوتے ہی دھماکوں کی لپیٹ میں آگیا ہے۔ کراچی
میں گزشتہ 5 دنوں میں5 بم دھماکے ہوئے ہیں، جن میں 35 افراد مارے گئے، جبکہ درجنوں
بری طرح گھائل ہوئے ہیں۔ 3 دھماکے متحدہ قومی موومنٹ کے انتخابی دفاتر جبکہ 2
دھماکے اے این پی اور پیپلز پارٹی کے انتخابی جلسوں میں ہوئے۔ سندھ کے دوسرے بڑے
شہر حیدر آباد میں بھی ایم کیو ایم کے ایک امیدوار کو گولیوں کا نشانہ بنایاجاچکا
ہے۔
بم حملوں سے متاثرہ علاقوں میں خوف کی چادر تنی ہوئی ہے،انتخابات سر پر آنے کے
باوجود وہاں روایتی انتخابی ماحول نہیں بن سکا ہے، بلوچستان میں کوئی بھی جماعت
جبکہ خےبرپختونخوا اور کراچی میں اے این پی، پی پی پی اور ایم کیو ایم کے لیے بڑے
جلسے کرنا ناممکن بنادیا گیا ہے۔ 2 کروڑ آبادی کے شہر کراچی میں کوئی جماعت سڑکوں
پر آنے کا رِسک نہیں لے سکتی۔ یہاں کے باسیوں نے 5 میں سے 3 دن تو ہڑتال میں گزار
دیے ہیں، اس سے آپ اندازہ لگاسکتے ہیں کہ یہاں کیسی انتخابی گہما گہمی ہوگی۔ اب تو
دیگر جماعتیں بھی خوف زدہ نظر آنے لگی ہیں کہ نامعلوم کب انہیں بھی ”ناپسندیدہ“
جماعتوں میں شامل کرلیا جائے۔ یہی وہ خوف ہے جس کی وجہ سے تحریک انصاف نے کراچی میں
جلسہ ملتوی کردیا ہے اور شاید اسی وجہ سے میاں برادران بھی سندھ اور خیبرپختونخوا
کا رُخ نہیں کررہے ہیں۔ پاکستان جیسے ملک میں جہاں انتخابات کو خوب انجوائے کیا
جاتا ہے، آج 2 صوبوں میں مکمل سناٹا ہے جبکہ ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی میں بھی
ہُو کا عالم ہے۔ اگر لوگ ٹی وی اور اخبارات نہ دیکھیں تو انہیں پتا بھی نہ چلے کہ
بلوچستان، خیبرپختونخوا اور کراچی میں بھی انتخابات ہورہے ہیں۔ کوئی جلسہ نہ جلوس،
نہ زندہ باد اور نہ مردہ باد کے نعرے، الیکشن بھلا ایسے ہوتے ہیں!
اب سوال یہ ہے ایک ایسا الیکشن جس کی 3 صوبوں میں مہم تک نہ چلائی جاسکے، اِس کے
نتائج کی حےثیت کیا ہوگی؟ گزشتہ حکومت کی مایوس کن کارکردگی کی وجہ سے یہ صاف نظر
آرہا تھا کہ پیپلز پارٹی اور اے این پی بہت سی نشستیں کھو دیں گی، جبکہ ایم کیو ایم
کے ہاتھ سے بھی تین، چار نشستیں نکلتی محسوس ہورہی تھیں۔ اگر انتخابات کے دوران
انہیں مکمل آزادی دے دی جاتی اور اس کے بعد وہ شکست کھا جاتیں تو پھر اِن پارٹیوں
کے پاس کہنے کو کچھ نہ رہتا مگر اب جس طرح اِن کی انتخابی مہم کو محدود کردیا گیا
ہے، ہارنے کے بعد یہ جماعتیں مظلوم بن کر اُبھریں گی۔ یہ تینوں انتخابی نتائج کو
چیلنج کریں گی اور ایک بڑا طبقہ ان کے دلائل کو اہمیت دینے پر مجبور ہوجائے گا۔
اس معاملے کا ایک اور زاویے سے بھی جائزہ لینا ضروری ہے، پہلے تذکرہ ہوچکا ہے کہ
خیبرپختونخوا، بلوچستان اور کراچی کے شہری انتہائی خوف زدہ ہیں۔ اگر ان علاقوں میں
لوگ 11 مئی کو گھروں سے نہ نکلے تو تب کیا ہوگا؟ یہ نہیں ہوسکتا کہ صرف 3 جماعتوں
کے حامی گھروں میں دبکے بیٹھے رہیں اور باقی جماعتوں کے حامی پولنگ اسٹیشنوں پر
پہنچ جائیں۔ بعض گروپوں کی جانب سے 11 مئی کو حملوں کی واضح الفاظ میں دھمکیاں
سامنے آئی ہےں۔ ایسی صورت حال میں کوئی سرپھرا ہی پولنگ اسٹیشن کا رُخ کرے گا۔
ووٹروں کے نہ آنے کا نتیجہ ووٹنگ کی شرح میں خوف ناک کمی کی صورت میں سامنے آئے گا۔
قابل غور بات یہ ہے اگر خیبرپختونخوا، بلوچستان اور کراچی میں ووٹنگ کی شرح نہ ہونے
کے برابر رہی تو ایسے نتائج کو کون تسلیم کرے گا؟ دوسری صورت یہ ہوسکتی ہے کہ مقتدر
حلقے قیام امن میں ناکامی کے بعد سیاسی جماعتوں کو بیلٹ باکس بھرنے کے لیے فری ہینڈ
دے دیں، پتا چلے ووٹ ڈالنے تو 200 لوگ آئے تھے لیکن بکسوں سے 2 ہزار ووٹ نکل رہے
ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ ماضی میں اس طرح کے کرتب بڑی صفائی کے ساتھ کرتی رہی ہے مگر اس بار
متحرک میڈیا کے ہوتے ہوئے ہاتھ کی صفائی دکھانے کی کوشش کی گئی تو انتخابی عمل مزید
تماشا بن جائے گا۔
اللہ کا شکر ہے کہ پنجاب میں انتخابی مہم روایتی جوش وخروش سے جاری ہے مگر اِس
پرامن اور بھرپور مہم نے قومی وحدت کے حوالے سے چند سنگین نوعیت کے سوالات اٹھا دےے
ہیں۔ بعض سیاسی رہنما اس صورت حال سے فائدہ اٹھاتے ہوئے پنجاب اور دیگر صوبوں کے
درمیان منافرت ابھارنے کی کوشش کررہے ہیں۔ وہ کچھ ایسا تاثر دے رہے ہیں گویا دیگر
صوبوں میں بھر پور انتخابی مہم کا نہ چلنا پنجاب کی سازش ہے۔ ایک جماعت کے رہنما نے
تو یہاں تک کہہ دیا ہے کہ اگر اب چھوٹے صوبوں نے جغرافیائی تبدیلی کا کوئی مطالبہ
کیا تو اس کا ذمہ دار پنجاب ہوگا۔ انتخابات کے دوران صوبائی اور لسانی تعصبات ماضی
میں بھی اُبھارے جاتے رہے ہیں لیکن اس بار معاملہ زیادہ خطرناک رُخ اختیار کرچکا
ہے، صوبائی تعصب کے جو بیج ان انتخابات میں بوئے جارہے ہیں قوم کو بہت عرصہ تک اس
کے نتائج بھگتنا پڑیں گے۔
انتخابات ملک کے لیے ریچھ اور کمبل والی کہانی بن گئے ہیں۔ اگر 11 مئی کو پولنگ
کرادی جائے تو اس کے نتائج کو کس طرح ملک اور عالمی برادری میں تسلیم کروایا جائے
گا؟ ہارنے والوں کے ہاتھوں میں مظلومیت کا جھنڈا ہوگا اور جیتنے والے شرماتے شرماتے
پھررہے ہوں گے۔ اگر عوام کی بجائے ”جن بھوتوں“ سے بیلٹ بکس بھروائے گئے تو عدلیہ
اور میڈیا کے منہ پر ہاتھ کون رکھے گا؟ انتخابات میں ایک ماہ کی توسیع کردی جائے،
جس کا بعض لوگ مطالبہ کررہے ہےں تو اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ ایک ماہ کے بعد حملے
نہیں ہوں گے؟ اور یہ بھی کہ اگر ایک بار الیکشن ملتوی ہوگئے تو کیا دوبارہ جلد
ہوپائےں گے؟ انتخابات کے التواءسے جو سیاسی افراتفری پھیلے گی اس مصیبت پر کیسے
قابو پایا جائے گا؟ ملک عجیب موڑ پرآکھڑا ہوا ہے، سوال سو ہیں اورجواب صرف ایک ہے،
اللہ رحم کرے۔ |