درویش نے کہا تھا بعض غلطیاں ایسی ہوتی ہیں جو بیک وقت جرم اور گناہ کے زمرے میں
شامل ہوتی ہیں اور جب دونوں غلطیوں کا ارتکاب ایک ہی وقت میں ہوتا ہے تو رد عمل میں
معاشرے کو ایسی زلت ناک پستی اور زوال سے دوچار ہونا پڑتا ہے کہ لوگ سرپیٹتے اور
سینہ کوبی کرتے ر ہ جاتے ہیں۔ ppp نے 11مئی کے الیکشن کے لئے کوٹ ادو کی قومیna176
اورpp 251 کوٹ ادوpp 253 چوک منڈا کی نشست پر ٹکٹوں کی تقسیم میں نہ صرف محولہ بالہ
غلطیوں اور ناعاقبت اندیشی کا ثبوت دیا بلکہ ppp کے شہنشاہ یوسف رضا گیلانی نے ایک
ایسے امیدوار کو چوک منڈا کی صوبائی نشست سے ٹکٹ تھمادیا جو لسانیت عصبیت برادری
ازم انتشار و افراط کا پیروکار ہے۔ 176na اور پی پی 251 کوٹ ادو میں ppp کے
پارلیمانی بورڈ نے ڈاکٹر شبیر علی قریشی اور یوسف ہنجرا کی ٹکٹیں ایک سال قبل ہی
کنفرم کردی تھیں۔ دونوں امیدواروں ڈاکٹر شبیر علی قریشی اور بیرسٹر یوسف ہنجر اپنی
خدمات کے عوض جیت کی بنیاد بھی رکھ دی تھی۔ زرداری صاحب نے دونوں کو جیت کا ٹاسک
دیا تھا مگر اے بسا ارزو کہ خاک شد پارلیمانی بورڈ کا فیصلہ یوسف رضا گیلانی نے بیک
جنبش قلم مسترد کرتے ہوئے لاکھوں لوگوں کے سرفروشانہ جذبات کو کچل دیا۔ جاگیرداریت
جیت گئی لوٹوں نے ڈالروں کے عوض اللہ کی غریب مخلوق کی اواز کو دبا دیا۔5 دفعہ
پارٹیاں تبدیل کرنے والے ن لیگی بھائیوں کو18 اپریل کو پارٹی ٹکٹیں جاری کردیں۔na
176 سے ڈاکٹر شبیر علی کی بجائے ارشد عباس قریشی اور251 میں یوسف ہنجرا کی بجائے
امجد عباس کو ٹکٹ دیکر جمہوریت کا خون کیا گیا۔اس پر مستزاد یہ کہ چوک منڈا کی
پنجابی بیلٹ میں لسانیت کے موجد احسان نولاٹیہ کو ٹکٹ دیکر بینظیر بھٹو اور قائد
عوام کی روح میں نشتر گھونپ دئیے۔ جمہوریت و سیاست گردی کی المناک مثال تو یہ ہے کہ
ن لیگ کے جن لوٹوں کو پی پی نے ٹکٹ جاری کئے ہیں انہوں نے پی پی پی ٹکٹ کے لئے
درخواست بھی نہیں دی تھی لوٹے تو ن لیگ سے ٹکٹ کے طلبگار تھے۔ نواز برادران نے
لوٹوں کی قلابازیوں کے ورلڈ ریکارڈ ملاحظہ کئے اور پھر انہوں نے میاں امجد اور میاں
ارشد کو انگھوٹھا دکھا کر لوٹا ازم کی حوصلہ شکنی کی۔ ڈاکٹرشبیر علی اور بیرسٹر
یوسف نے ازاد الیکشن لڑنے کا اعلان کیا تو لوٹے جاگیردار دوبارہ فارم میں اگئے۔شبیر
علی قریشی محسن قریشی ex mnaاور سینیٹر خالدہ محسن قریشی کے فرزند ہیں ۔ ازاد حثیت
سے شبیرعلی قریشی کی جیت الم نشرح تھی کہ صدر مملکت سے لیکر جنوبی پنجاب کے پارٹی
مہاراج یوسف گیلانی اور بلاول بھٹو سے لیکر گورنر نے ڈاکٹر شبیر قریشی کو دستبردار
کروالیا۔ پارٹی کاجبر و ستم جیت گیا دھونس و دھاندلی نے وقتی کامیابی حاصل کرلی
تاہم ن اور ق لیگ سے شفٹ ہونے والے ارشد و امجد تیر کا نشان تو لے گئے مگر وہ عوامی
نفرت و حقارت کا تازیانہ عبرت بنے ہوئے ہیں۔ کوٹ ادو کی غیور عوام بشمول جیالے
لوٹوں کو رد کرنے کے ساتھ ساتھ غیر عوامی فیصلوں پر pp قیادت کو سبق سکھانے کی مہم
پر رواں دواں ہیں۔ 2002 سے ppکی جیب میں رہنے والی 3 نشستیں جن میں کوٹ ادو کی1
قومی اور 2صوبائی کوٹ ادو pp251اور چوک منڈا 253pp پارٹی ڈکٹیٹرز کے ایک غلط فیصلے
کے رد عمل میں 11 مئی سے قبل ہی جیت و مقابلے کی دوڑ سے باہر ہوچکی ہیں۔چوک منڈا کی
صوبائی نشستpp 253 پر نو امیدوار زور ازمائی کررہے ہیں جن میں احسان نولاٹیہppp
ڈاکٹر یونس ن لیگ مرتضی رحیم کھر ازاد مشرف لیگ کے شفیق الرحمن متحدہ دینی محاز کے
شبیر سیال جماعت اسلامی کے میاں صادق الطاف حسین کے محمد تنویر ایٹمی سائنس دان
ڈاکٹر قدیر کے پجاری چوہدری مصطفی شامل ہیں۔ نیشنل سروے ارگنائزیشن کے تازہ ترین
سروے کے مطابق ازاد امیدوار رحیم مصطفی کھر61٪ نمبروں کے ساتھ پہلے جبکہ ن لیگ کے
ڈاکٹر یونس29٪ جبکہpp کے امیدوار ex mpa احسان نولاٹیہ21٪ کے ساتھ3 نمبر پر ہیں۔چوک
منڈا کو سوئی گیس کے امریت زدہ ڈاکٹر شبیر علی نے مہیا کی تھی۔ ڈاکٹر شبیر علی کی
ٹکٹ احسان نولاٹیہ نے منسوخ کروائی حالانکہ انکے والد ضلعی صدرppمحسن علی قریشی ex
mna نے2002 اور2008میں نولاٹیہ فیملی کو ٹکٹ دی تھی۔نولاٹیہ جماعت اسلامی کے ممبر
تھے۔محسن قریشی نےpp ٹکٹ پرنولاٹیہ کو دو مرتبہmpa بنوایا مگر وہ ماضی کی تمام
وفاووں کو فراموش کرچکے ۔انکی کارستانیوں کی وجہ سے ppکا ووٹر رحیم مرتضی کی پشت پر
کھڑا ہو گیا۔چوک منڈا اور چکوک میں پنجابی اباد کاروں کی تعداد حلقہ کے کل ووٹرز
کا30٪ ہے جن میں جٹ گجر ارائیں شامل ہیں۔ سرائیکی اقوام کل ووٹرز کا70٪ ہیں۔
بدقسمتی سے احسان نولاٹیہ نے دو مرتبہmpa شپ میں لسانیت گروہی فرقہ پرستی کی بنیاد
رکھتے ہوئے صرف جٹوں کی اقلیتی برادری کو 75٪ تعداد رکھنے والی لوکل ابادی پر فوقیت
دی۔2002 تک تھل چوک منڈا میں پنجابی ارائیں و سرائیکی اقوام کے مابین کسی قسم کا
لسانی تفاوت کا نام و نشان نہ تھا مگر نولاٹیہ فیملی نے لسانی دہشت گردی کی بنیاد
رکھ کر ملک و قوم کے ساتھ کھلواڑ کیا ہے۔ دکھ تو یہ ہے کہ نولاٹیہ نےpp کے عوامی
کلچر کو ایک دہائی میں اپنانے کی زحمت نہیں کی۔ اسکی عصبیت زدہ عینک کا کمال تھا کہ
اس نے ا رائیوں گجروں اور سرائیکیوں کو اپنے قریب نہیں انے دیا۔ نولاٹیہ نے عصبیت
پروری کو ہوا دیکر سرائیکی صوبے کی مخالفت کی۔سرائیکی ارائیں واہلے جرولے گجر للی
جٹ رندھاواے اسراں پٹھان لشاری چانڈیہ کلاچی اور بلوچ اقوام رحیم مرتضی کھر کی
حمایت پر کمر بستہ ہیں۔ محسن علی قریشی گروپ اور پی پی کے عہدیدار قیادت کے امرانہ
احکامات کو رد کرکے رحیم مرتضی کھر انتخابی نشان بالٹی کی حمایت پر ڈٹ چکے ہیں۔
رحیم مرتضی کھر کی شہرت انکی غریب پروری دیانت داری اور صداقت کے کارن ہے۔ وہ پچھلے
10 سالوں میں اپنی جیب سے ہزاروں محکوم و بے بس مریضوں کا علاج کروا چکے ہیں۔ رحیم
مرتضی کھر خاندان کا چشم و چراغ ضرور ہے مگر سچ تو یہ ہے کہ اسکی طبعیت میں
جاگیردارانہ رعونت کا شائبہ دور دور تک نہیں۔ رحیم مرتضی کھر نے ہمیشہ حلقے میں
بھائی چارے کو اولیت دی۔وہ یتیموں کے درد کا درماں مسکینوں کے کرب کا دار ہے۔انکی
زات تھانے کچہری کی سیاست سے بالاتر ہے۔11مئی کو ہونیوالی پولنگ میں ایک طرف تیر ہے
جس نے5 سال میں قوم کے مستقبل کو لوڈ شیڈنگ کے اندھیروں میں ڈبو دیا۔ تیر کے
امیدوار نولاٹیہ نے لسانیت عصبیت گروہی تفریق اور پنجابی سرائیکی مخاصمت کو فروغ
دیا جبکہ تیر کے مقابلے میں بالٹی ہے اللہ کی مجذوب مخلوق کی حمایت بے سہارا لوگوں
کی دعائیں ہیں۔ ایک طرف سازشی احسان فراموش اور تعصب پسند امیدوارہیں دوسری جانب
لسانیت گروہی تقسیم کے مخالف اور بھائی چارے عقیدت رواداری کے روح رواں محروم طبقات
کی داد رسی کرنے والا رحیم مرتضی ہے۔ایک طرف چوک منڈا کو سوئی گیس اور ہیڈ محمد
والہ کے تابندہ تحائف دینے اور447 چکوک کو بجلی فراہم کرنے والے شبیر علی قریشی
ایسے باکمال نوجوان لیڈر ہونگے تو دوسری طرف جٹ فیملی کے علاوہ دیگر برادریوں کو
دھتکارنے والے نولاٹیے ہونگے۔ محسن علی قریشی گروپ نے رحیم مرتضی کھر کو اپنا
نمائندہ نامزد کیا ہے۔11 مئی کو کیا فیصلہ ہوتا ہے؟ کونpp 253 کا فاتح ہوگا اسکا
علم تو خداواندتعالی ہی بہتر جانتا ہے تاہم اتنا طئے ہے کہ اللہ کی مخلوق کو گروہوں
میں بانٹ کر سیاست چمکانے والے پرانے جغادری شکست کے سمندر میں ہمیشہ ڈوب جائیں
گے۔pp 253 کے ووٹرز سے درخواست ہے کہ لسانیت اور قومی مخاصمت کو ہوا دینے لوڈ شیڈنگ
بیروزگاری اور کرپشن کو پروان چڑھانے والوں کی شعبدہ بازیوں کو سمجھ کر ووٹ کا
استعمال کریں کہیں ایسا نہ ہو کہ لسانیت کی دہشت گردی برادری ازم کی عصبیت چوک منڈا
کو کراچی کی طرح خون کے سمندر میں ڈبو دے۔ ووٹ قومی امانت ہے جس پراہل اور خدا ترس
صداقت و شجاعت کے پیرو کار امیدواروں اور سرتاپا وفا رہنماوں کا حق ہے ووٹ کاسٹنگ
شرعی طور پر ضروری ہے اگر کوئی شخص ووٹ کاسٹنگ میں تساہل پرستی کا مظاہرہ کرتا ہے
اگر ووٹ جیسی مقدس شرعی امانت کو حق دار امیدواروں تک پہنچانے میں غفلت و کوتاہی
برتی جاتی ہے تو ووٹرز کو زہن نشین کرلینا چاہیے کہ انکی خدائی چارج شیٹ میںمحولہ
بالہ قول کی روشنی میں جرم اور گناہ کی ایف ائی ار بھی شامل ہوگی ۔ یادرہے کہ رد
عمل میں اللہ پاک کی ناراضگی کے علاوہ اس دنیا میں بھی پچھتاوے کے ساتھ ساتھ ہمیں
سماجی و تہذیبی طور پر سزا کاٹنی پڑے گی ہم پچھتاوے اور سر دھننے کے علاوہ کچھ کرنے
کے قابل نہ رہیں گے۔پاکستان میں تبدیلی کی لہر چل پڑی ہے۔ پرانے چہروں کو تبدیل
ہونا چاہیے یہ تبدیلی ملکی سلامتی عوامی خوشحالی قومی یکجہتی کے لئے لازم و ملزوم
ہو چکی۔ |