ٹی وی پہ اکثر عمران خان صاحب کی
تقریریں سن کرمجھے اپنے علاقے اور مسلم لیگ (ن) حلقہ پی کے چالیس سے صوبائی
اسمبلی کے امیدوار فرید خان طوفان یاد آجاتے ہیں۔ فرید طوفان صاحب اکثر
اپنے جلسوں میں عوام کی تفریح کا بھی خیال رکھتے ہیں ۔ اس لئے عوام کے
سامنے سیاست دانوں سے متعلق چٹکلے سناتے ہی رہتے ہیں۔ چوبیس اپریل کو کرک
میں ان کا جلسہ ہوا،جس میں انہوں نے مولا نا فضل الرحمان اور جاوید اقبال
خٹک کو( جاوید اقبال کرک سے تعلق رکھنے والے مولانا فضل الرحمان کی پارٹی
کے صوبائی امیدوار ہیں موصوف کا دبئی میں اپنا کاروبار ہے ) تنقید کا نشانہ
بناتے ہوئے ان کے بارے میں یوں بیان دیا۔
“جاوید خٹک شکست کھا کردبئی ،مولانا فضل الرحمان دوزخ جائے گا“ (دستک
نیوزکرک)
موصوف کے ایسے طنز ومزاح سے بھرپور اور بھی بہت سےسیاسی ڈائیلاگ ہیں۔ لیکن
یہاں فرید طوفان صاحب کے یہ سیاسی چٹکلے بیان کرنا مقصود نہیں ۔ بلکہ بات
یوں چلی کہ اپنے ایک دوست سے جو کہ عمران خان کا شیدائی اور حمایتی ہے سے
باتوں باتوں میں عمران خان کی سیاست پہ بات چل پڑی۔ میں نے کہا کہ بڑے لیڈر
جو انقلاب لاتے ہیں۔ وہ اپنے آپ کو ان لیڈروں سے ممتاز رکھتے ہیں جو حالات
کی رو میں بہتے ہیں۔ وہ حالات کا دھارا بدلنے کی بھرپور صلاحیت رکھتے
ہیں،ہواؤں کا رُخ موڑنا جانتے ہیں۔ لوگوں کو اپنی مخلص قیادت کا یقین دلاتے
ہیں،اپنی سادگی،صفائی، دیانتداری، اور اخلاق و عمل سے عوام کو گرویدہ بناتے
ہیں ۔ تاریخ ایسی مثالوں سے بھری پڑی ہے، قائد اعظم محمد علی جناح اور
ڈاکٹر محمد اقبال کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ میرے دوست نے کہا کہ میں آپ کی
بات پوری طرح سمجھا نہیں ۔ کیا مطلب ہے؟ آپکا اورکیا کہنا چاہتے ہیں؟
میں نے عرض کی کہ پاکستان میں چیاسٹھ سال سے ہم دیکھتے آرہے ہیں کہ تنقید
برائے تنقید اور گالی گلوچ کی سیا ست عام رہی ہے۔ رہنما تقریروں میں اپنا
منشور اتنا پیش نہیں کرتے جتنا مخالف پارٹی والوں کو گالیاں دیتے ہیں ۔
دوسروں پر کیچڑ اچھالنا اور مخالفین پر ہر طرح کا گند ڈالنے کی بھر پور
کوشش کرتے ہیں۔ ہر جلسہ میں ان کی تقریر فرعون کے لہجہ میں ہوتی ہے۔ عوام
کو یہ تاثر دینے کی کوشش میں کہ آپ کے ووٹ کے صحیح حقدار ہم ہی ہیں ۔ ہر
طرح کی اخلاقی دیواریں پھاندتے ہیں- میرا خیال ہے عمران خان صاحب بھی ان
لیڈروں میں شامل ہوگئے ہیں۔ اور فخر و غرور کی سرحدیں پار کرتے ہوئے
مخالفین پر طنز کے جو چھینٹے اُڑارہے ہیں۔ وہ رسمی سیاست ہی تو ہے۔
خان صاحب کی اصل وجہ شہرت کرکٹ ہے، سابقہ کرکٹر ہونے کی وجہ ان کے جلسوں
میں نوجوان اور بچے زیادہ ہوتے ہیں جو خان صاحب کو دیکھنے کی غرض سے آتے
ہیں۔ ایک سیاسی لیڈر کی حیثیت سے شاید ہی اتنے لوگ ان کو پسند کرتے ہوں
جبکہ خان صاحب غرور میں آکر کبھی نواز شریف کو مناظرے کا چیلنج کرتے ہیں تو
کبھی مولانا فضل الرحمان کے خلاف ہرزہ سرائی کرتے ہیں، کبھی کہتے ہیں کہ
نواز شریف کی پارٹی میں اگر کسی کے نام کے ساتھ لفظ شریف نہیں ہے،تو نواز
شریف اس کو پارٹی کا ٹکٹ ہی نہیں دیتے۔کبھی نواز شریف کو گیدڑ کہتے ہیں
،کبھی مولانا فضل الرحمان کو منافق کہتے ہیں۔ تو کبھی کہتے ہیں کہ بلا سب
کی پھینٹی کرے گا۔ تو کبھی لہک لہک کرانصاف کی بات کرتے ہیں۔اگر سچ پوچھیں
تو پچھلے پانچ سالوں میں انہوں نے بلا کیوں استعمال نہیں کیا؟ زرداری حکومت
کے خلاف کیا طاقت دکھائی جو اب سب کی پھینٹی کرنا چاہتے ہیں ۔ اور انصاف
کہاں تک کیا؟ کیونکہ آج تک ساری دنیا میں ہم نے کرپٹ حکومتوں کے خلاف عوام
یا انقلاب لانے والوں کو اُٹھتے دیکھا ہے۔ لیکن خان صاحب کا تو انداز ہی
نرالا رہا، چند سیٹوں کی خاطر حکومت کو چھوڑ کر مولانا اور نواز شریف کے
پیچھے یوں پڑے ہیں۔ جیسے ازل سے لیکر ابد تک ساری دنیا میں صرف انہی دونوں
کے ساتھ اُن کی دشمنی ہو۔ یہ کہاں کا انصاف ہے؟ شاہد آفریدی کی نواز شریف
کے ساتھ چند لمحوں کی ملاقات ان سے برداشت نہیں ہوئئ۔ ان کے حامیوں نے
آسمان سر پر اُٹھا لیا۔ اور شاہد آفریدی کو بے وقوف کہنے لگے۔
میرے دوست سے جب اور کوئی جواب نہ بن پایا تو بولے کہ پاکستان کے لوگ اس
قسم کی سیاست اورتقریروں کو پسند کرتے ہیں۔ میں نے عرض کی کہ اگر لوگ اس
قسم کی تقریریں پسند کرتے ہیں اور خان صاحب بھی اس رسمی سیاست اور عامیانہ
تقریروں کے دوڑ میں شامل ہوگئے ہیں تو پھر انقلاب ہمارا خواب ہی رہے گا۔
قائد اعظم محمد علی جناح نے ہمیں جو تین رہنما اصول دیے، وہ اتحاد تنظیم
اور ایمان پر مشتمل ہیں۔ ہم اپنے لیڈر میں بھی یہ سب کچھ دیکھنا چاہتے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ گالیاں بکنے والوں اور دوسروں پر کیچڑ اچھالنے والوں کی
سیاست سے پاکستانی معاشرہ اُکتا چکا ہے۔ امیدواروں کی تقریروں میں ڈسپلن
ہونا چاہیے۔ جو بھی ڈسپلن قائم رکھیں گے وہی ہمارے لیڈر ہونگے۔ ورنہ وہ محض
جوکر ہی ہونگے جو ایک آدھ گھنٹہ دوسروں پر کیچڑ اچھال کر جلسہ کے شرکاء کو
محظوظ کرتے ہیں، اورحاضرین تالیاں بجاتے،ہنستے اور نعرے لگاتے ہوئے داد
دیتے ہیں۔ جوکر اور لیڈر میں فرق ہونا چاہئے۔ ہمیں اپنی تقریروں میں دوسروں
کا احترام اور اخلاقیات کا لحاظ رکھنے والے لیڈر کی ضرورت ہے جوکر کی
نہیں،ہماری انقلاب کی تمنا تبھی پوری ہوسکتی ہے اور ہم مستقبل کا محفوظ اور
ترقی یافتہ پاکستان کا خواب دیکھ سکتے ہیں۔ بقول اقبال
خاموش اے دل بھری محفل میں چلانا اچھا نہیں
ادب پہلا قرینہ ہے محبت کے قرینوں میں |