بات تو ہو گئی پُرانی لیکن ابھی بھی چلی آ
رہی ہے۔ آج کل سیاست کا بازار گرم ہے اور ہر کوئی اپنی کوششوں میں لگا ہوا
ہے، جس دَن سیاست کے بازار کا آخری دن ہو گا، اُس دن کے بعد سب ویران ہو
جائے گا۔ نہ سیاستدان نظر آئیں گے نہ اُن کے وعدے، بس رہ جائیں گیں تو فقط
عوام کی پُرانی آہیں۔ یہ عوام بھی بیچاری کیا کرے اِن کو ہر طریقہ سے لُٹا
جاتا ہے، کبھی جمہوریت کے نام پر تو کبھی تبدیلی کے سُہانے خواب دِکھا کر
لیکن حقیقت اِس کے بر عکس ہوتی ہے۔
عوام تو ہو گئی بیچاری اور بچ گئے سیاستدان جو الیکشن میں اپنا سرمایا لگا
دیتے ہیں اور اقتدار میں آ کر وہ سرمایا پورا کرنے اور منافع کمانے کے
راستے ڈھونڈتے ہیں، اور اِن راستوں پر ملتا ہے تو وہی بیچاری عوام جس نے
اِنہیں اقتدار دیا لیکن سیاستدانوں کی عوام کے ساتھ چاہت تو دیکھں کہ وہ
عوام کو پھر بھی نہیں چھوڑتے، عوام سے اُن کی عزت تک چھین لیتے ہیں۔ اور
بیچاری عوام کا حوصلہ دیکھیں کہ یہی سیاستدان جب دوبارہ اقتدار حاصل کرنے
کی خاطر اُسی عوام کے پاس جاتے ہیں تو پھر وہی تماشا شروع ہو جاتا ہے۔
بیچاری عوام کس قدر لاغر و نا تواں ہو بیٹھی ہے کے اِسی چکی میں کئی سالوں
سے پِس رہی ہے، لیکن اپنے حق کے لیے ایک نہ ہو سکی۔ کوئی شیر تو کوئی شیر
کا شکاری، کوئی تیر تو کوئی تلوار، کوئی کتاب تو کوئی پتنگ، کوئی سائیکل تو
کوئی مذہب کے نام پر اپنے اپنے گروہ کی حکومت چاہتا ہے۔ جس دِن عوام اِن سب
سے بالا تر ہو کر سوچے گی اُس دِن سُرخُرو ہو جائے گی۔
حضرت علی رضی الله تعالٰی عنہ کا فرمان ہے: آزمائے ہوئے کو آزمانا بے وقوفی
ہے۔
یہ سیاستدان وہی پُرانے چہرے ہیں جو ہیں جو برسوں عوام کو لُٹتے رہے اور
پاکستان میں اسلامی قانون نافذ نا کر سکے، اب اِن کی جان چھوڑ دو کہ
’’اِن تِلوں میں تیل کہاں‘‘
’’کیا اندھیر نگری بنا رکھی ہے؟ جو چاہے آ کر لُوٹ جاتا ہے۔
عوام کے بھروسے کا دھاگہ ہر آخر پہ ٹوٹ جاتا ہے۔
کیا کرو گے اَتنی دولت کو؟ قبر میں کام نہ آئے گی۔
وہاں تو غیروں کی بات چھوڑ اپنوں کا دامن بھی چھوٹ جاتا ہے۔‘‘ |