بین الا قوامی یوم محنت 2013کے موقع پر خصوصی مضمون
تحریر : - حبیب الدین جنیدی
دنیا کے بیشتر ممالک کے محنت کش عوام اور ترقی پسند قوتیں ہر سال یکم مئی
کے موقع پر جلسہ ،جلوس،سیمینارز اور کانفرنسز منعقد کرکے امریکی شہر شکاگو
کے اُن مزدور کارکنان اور اُن کے قائدین کی قربانیوں کو خراج عقیدت پیش
کرتے ہیں کہ جنھوں نے مئی 1886میں سرمایہ دارانہ نظام کے جبر کو توڑنے اور
محنت کشوں کے بنیادی حقوق کے حصول کے لئے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا ،ہنستے
مسکراتے پھانسی کے پھندے کو چوما اور تاریخ انسانی میں ہمیشہ کے لئے امر
ہوگئے ۔
عام طور پر شہدائے شکاگو کی جدوجہد کو زیادہ سے زیادہ آٹھ گھنٹے یومیہ
اوقات کار مقرر کرانے کی جدوجہد سمجھا جاتا ہے لیکن یہ تصور غلط اور اس
عظیم جدوجہد کے مقاصد کو محدود کرنے کے مترادف ہے۔حقیقت یہ ہے کہ اس تحریک
نے دنیا بھرکے مظلوم طبقات کو ایک نئی سوچ ،فکر،دانش اور سرخ پرچم سے
روشناس کرایا جس نے بعد ازاں سرمایہ دارانہ نظام کے کھوکھلے پن کا پردہ چاک
کیا اور اس کی جڑوں کو ہلا کر رکھ دیا ۔اس کے نتیجہ میں سرمایہ دار دنیا
مجبور ہوئی کہ وہ غریبوں اور محنت کشوں کو بھی انسان تصور کریں اور انہیں
وہ حقوق دیں جوکہ بحیثیت انسان ان کے پیدائشی حقوق ہیں۔آج دنیا کے ترقی
یافتہ،ترقی پذیر یا پسماندہ ممالک میں کروڑوں بلکہ اربوں کی تعداد میں
موجود محنت کشوں کو جو حقوق اور سہولیات حاصل ہیں بلا شبہ وہ شہدائے شکاگو
کی قربانیوں کاہی ثمر ہیں۔
پاکستان میں ہم آج اگر محنت کش ملازمت پیشہ طبقہ کے حالات اور ٹریڈ یونین
تحریک پر نظر ڈالیں تو صورتحال بہرکیف تشویش ناک ہی نظر آتی ہے ۔فوجی
ڈکٹیٹرز کے ادوار میں نہ صرف یہ کہ جمہوریت ، جمہوری تحریکوں بالخصوص ترقی
پسند پارٹیوں اور قوتوں کو نقصان پہنچا بلکہ آمروں نے اپنے مختلف ادوار میں
ٹریڈ یونین تحریک پر بھی مختلف ادوار میں زبردست حملے کئے اور اسے تباہ و
برباد کرنے میں کوئی کسر اٹھانہ رکھی۔ اس حوالہ سے یہ الزام دائیں بازو سے
تعلق رکھنے والی ایک سیاسی پارٹی پر بھی عائد ہوتا ہے کہ انہوں نے بھی اپنے
سابقہ ادوار حکومت میں محنت کش عوام اور ٹریڈ یونین تحریک کے ساتھ کسی
مختلف روّیہ کا اظہار نہیں کیا ۔یہ بھی وہ تاریخی عوامل اور وجوہات ہیں کہ
جن کی بناءپر پاکستان میں ٹریڈ یونین تحریک دیگر ترقی پذیر ممالک کے مقابلے
میں خاصی پیچھے رہ گئی ۔ایک بڑی حقیقت یہ ہے کہ صنعتی ترقی یا
انڈسٹریلائزیشن کی عدم موجودگی میں ایک موثر ،متحرک اور فعال ٹریڈ یونین
تحریک کا تصور محال ہے کیونکہ صنعتوں کے ارتقاءاور ٹریڈ یونین تحریک کا
چولی دامن کا ساتھ ہے ۔وجوہات خواہ کچھ بھی ہوں لیکن یہ امر ایک حقیقت ہے
کہ گزشتہ تقریباً 15سالوں میں وطن عزیز میں صنعتی ترقی اور اس کا پھیلاﺅ
کاغذ کی حد تک بے شک موجود ہو مگر عملی طور پر زیادہ نظر نہیں آیا۔نئے
کارخانے خاص طور پر وہ کہ جن کے ذریعہ بڑے پیمانے پر روزگار کے مواقع پیدا
ہوں ،قائم ہوتے ہوئے نظر نہیں آئے ۔سالہاسال سے بند تقریباً ساڑھے تین ہزار
کارخانے آج بھی اسی حالت میں پڑے ہوئے ہیں ۔اس تمامتر صورتحال کا نتیجہ یہ
نکلا ہے کہ ہمارا ملک غیر ملکی مال اور پراڈکٹس کی کپھت کی منڈی میں تبدیل
ہوچکا ہے۔ستم بالائے ستم یہ کہ اندھا دھند پرائیویٹائزیشن کے ذریعہ ریاست
کو انتہائی منافع بخش اداروں (جن میں بالخصوص پرائیویٹائزڈ بنکس شامل ہیں )کی
ملکیت سے محروم کرکے انہیں سرمایہ داروں کے ہاتھوں فروخت کردیا گیا۔بتایا
جاتا ہے کہ پرائیویٹائزیشن کے عمل کے ذریعے فروخت کئے گئے بعض کارخانے
نجکاری کے بعد بند کردیے گئے اور ان کی املاک اور زمینوں کو بیچ دیا
گیا۔پاکستان میں پرائیویٹائزیشن سے قبل اور اس کے بعد تقریباً تمام
پرائیویٹائزڈ اداروں میں نام نہاد رائٹ سائزنگ کے نام پر لاکھوں ملازمین کو
بے روز گاری کے عفریت کے حوالہ کردیا گیا ۔اور یوں ہمارے ہاں نجکاری اور بے
روزگاری کو لازم و ملزوم تصور کیاجاتا ہے ۔دہشت گردی ، انتہاپسندی ،لاءاینڈ
آرڈر کے سنگین مسائل ناقص منصوبہ بندی ، فیکٹری اور کارخانوں سے جرائم پیشہ
گروہ اور ان کے پشت پناہوں کی بھتہ خوری نے بھی صنعت کاری کے عمل کو نقصان
پہنچایا ۔اس صورتحال کے منفی اثرات نے پورے ملک لیکن بالخصوص صوبہ سندھ کی
صنعتوں کو شدید متاثر کیا جہاں صنعتی پھیلاﺅ تقریباً منجمد ہوکر رہ
گیا۔صنعت کار طبقہ کی یہ بھی شکایت ہے کہ سندھ کے انڈسٹریل ایریا زمیں
انفرا اسٹرکچر پر بھی توجہ نہیں دی جس کی وجہ سے سرمایہ کاری کی حوصلہ شکنی
ہوئی ۔بتایا جاتا ہے کہ صوبہ سندھ سے تقریباً 30فیصد انڈسٹریز اس صوبہ سے
دوسرے نسبتاً محفوظ صوبہ بلکہ بیرون ملک بھی منتقل ہوچکی ہیں ۔اگر دیگ سے
چند چاول نکال کر پوری دیگ کے پکوان کا اندازہ لگانے کا قدیم فارمولہ درست
ہے تو ہمارے ہاں کی صنعتی ابتری جاننے کے لئے گارمنٹس انڈسٹری کی ایک ہی
مثال کافی ہے کہ بیشتر اب دیگر مما لک منتقل ہوچکی ہیں۔دوسری جانب بد قسمتی
یہ رہی کہ صنعت کاروں ،سرمایہ کاروں ،ملز مالکان اور پرائیویٹ سیکٹر کے
دیگر اداروں کی انتظامیہ کی اکثریت نے اس صورتحال کے منفی اثرات کو ملازمین
اور اپنے ادارو ں کے محنت کشوں کہ سر تھوپ دیا ۔چھانٹیاں ،برطرفیاں ، نہایت
ہی کم اجرتیں، غیر مستقل ملازمتیں ،ٹھیکیداری نظام کا پھیلتا ہوا عفریت اس
کی مثالیں ہیں۔ہمارے ملک کے پرائیویٹائزڈ کمرشل بنکس تو اس ضمن میں تمام
حدود پھلانگ گئے انہوں نے مستقل ملازمتوں کی فراہمی کے سلسلہ کو تقریباً
ختم ہی کردیا ۔بلیو کالر کیڈر سے تعلق رکھنے والے ہزاروں ملازمین کو ایک ہی
دن میںبیک جنبش قلم برطرف کرکے ان ملازمتوں کو آﺅٹ سورس کردیا گیا۔انتہائی
ظالمانہ طور پر کنٹریکٹ اور تھرڈ پارٹی ایمپلائمنٹ سسٹم کو اپنا لیا اور اس
طرح پاکستان کے بنکس کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ملازمتوں میں بھرتی کے لئے
ایک مڈل مین کے کردار کو جنم دیا گیا ،ان افراد نے اپنی کمپنیز قائم کرلی
ہیں اور اب ان ہی کے توسط سے تقریباً تمام ہی پرائیویٹائزڈ کمرشل بنکس
ملازمتیں فراہم کرتے ہیںاور یہ ”مڈل مین“ اس ظالمانہ نظام کے مزے لوٹ رہے
اور لاکھوں کروڑوں میں کھیل رہے ہیں ۔ان پرائیویٹائزڈ کمرشل بنکس نے
ملازمین کی سہولت میں بھی زبردست کٹوتیاں کیں۔سالانہ بونس کی رقم کی حد کو
ملازمین کے لئے منجمد کردیا ۔طبی سہولیات میں کٹوتیاں کی گئیں ،بعض کیڈرز
کے ملازمین کے والدین کو فیملی کی تعریف سے خارج کرکے انہیں طبی سہولت سے
محروم کردیا گیا۔ پینشن کی رقم کو فریز کردیا گیا اور اس طرح عملی طور پر
پینشن نظام کو ہی ختم ہی سمجھیں۔(گویا صنعتی ،مالیاتی، اور اقتصادی ابتری
کے اصل ذمہ دار یہ ملازمت پیشہ افراد اور محنت کش طبقہ ہی تھا)۔بعض
پرائیویٹائزڈ کمرشل بنکس نے صرف اسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ انتہائی
شاطرانہ اور خاموش حکمت عملی (جسے سلو پوائزننگ کہا جانا چاہئیے) پر
عملدرآمد کرتے ہوئے اس امر کا اہتمام کرلیا ہے کہ آئندہ پانچ سات سالوں کے
دوران ان اداروں سے ٹریڈ یونین کا نام و نشان ازخود مٹ جائے گا۔واقعہ یہ ہے
کہ گزشتہ تقریباً 20سالوں سے ان اداروں میں یونینائزڈ کیڈر جوکہ کلیریکل
اور بلیو کالر ملازمین پر مشتمل ہوتا ہے ان کی بھرتیاں بند اور انہیں آﺅٹ
سورس کردیا گیا ۔جبکہ اُن ہی فرائض کی ادائیگی کے لئے جوکہ کلریکل عملہ ادا
کرتا تھا اس کے لئے کسٹمر سروس آفیسرز ،کیش آفیسرز اور اسسٹنٹ منیجر کے نام
سے بھرتیاں کی جاتی ہیں تاکہ یہ ملازمین جوکہ درحقیقت یونینائزڈ کیڈر ہی سے
تعلق رکھتے ہیں ،انہیں قانون کی غلط تشریح کرتے ہوئے ٹریڈ یونین کی رکنیت
حاصل کرنے کے حق سے محروم اور اس طرح ایک تیر سے دو شکار کئے جاسکیں ۔قانون
کی یہ دھجیاں پاکستان کے پرائیویٹائزڈ کمرشل بنکس میں کھلے عام اڑائی جارہی
ہیں۔اس طرح پاکستان میں ٹریڈ یونینز کی ممبر شب دن بدن گرتی جارہی ہے ،ادارے
اور کارخانے ”ٹریڈ یونین فری زون “ میں تبدیل ہورہے ہیں اور ٹریڈ یونین
تحریک کے انحطاط کا سب سے بڑا ایک سبب یہ بھی ہے ۔
ٹریڈ یونین تحریک کو اس انحطاط سے چھٹکارے اور صورتحال سے نمٹنے اور آگے
بڑھنے کے لئے یقینی طور پر جدوجہد کے مختلف مراحل طے کرنا ہونگے۔موجودہ
منظر نامہ اتنا گھمبیر اور مسائل مشکلات سے پُرہے کہ تنہا کسی ایک بڑے گروپ
آف ٹریڈ یونینز یا اُن کی حمایت میں کھڑا ہونے والی ترقی پسند سیاسی پارٹی
کے لئے بھی اس صورتحال سے نبر دآزما ہونا مشکل نظر آتا ہے۔آئندہ آنے والی
پارلیمان کو بعض متفقہ فیصلہ کرنا ہونگے۔اُسے یہ طے کرنا ہوگا کہ ملک کے
چاروں صوبوں میں بلا تفریق انڈسٹریلائزیشن کی جائے گی اور اُس کے لئے ماحول
سازگار بنایا جائیگا۔پرائیویٹائزیشن کے عمل کو ہمیشہ کے لئے ختم کرتے ہوئے
خسارہ میں چلنے والے سرکاری تحویل کے اداروں اور کارخانوں کی ری اسٹرکچرنگ
کرکے انہیں انتہائی پروفیشنل انتظامیہ کے حوالہ کیا جائیگا اور اس طرح
انہیں اپنے پیروں پر کھڑا ہونے کا پورا موقع فراہم کیا جائیگا۔نقصان میں
چلنے والے اداروں کے نئے بورڈ آف ڈائریکٹر ز مقرر کئے جائیں گے اور اس
معاملہ میں بھی صرف اور صرف میرٹ کو ملحوظ خاطر رکھا جائیگا۔سیاسی مداخلت
یا کسی بھی طبقہ کے اثرر سوخ کو خاطر میں نہیں لایا جائیگا۔ہمارے ملک میں
ٹریڈ یونینز اور اُن کی فیڈریشنزکا ایک وسیع نیٹ ورک موجود ہے ۔ایسی ٹریڈ
یونینز بھی موجود ہیں جنکا الحاق قومی سطح پر کسی بھی ٹریڈ یونین فیڈریشن
سے قائم نہیں مگر ان کی اہمیت اور افادیت اپنی جگہ مسلّم ہے۔ملک بھر میں
پھیلی ہوئی یہ موثر یا غیر موثر تنظیمیں اپنا اپنا وجود برقرار رکھتے ہوئے
،کم سے کم نکات پر متفق ہوجائیں تو ٹریڈ یونین محاذپر ایک طویل عرصہ کے بعد
یہ بہت بڑی پیش رفت ہوگی،پھر یہاں سے آگے بڑھا جاسکتا ہے اور اس کے دُورس
مثبت اثرات ٹریڈ یونین تحریک ،محنت کشوں کے حالات کار اور صنعتی ترقی پر
مرتّب ہوں گے۔ٹریڈ یونین کاڈر کو بھی نوجوان تعلیم یافتہ خواتین وحضرات اور
نئے خون کی ضرورت ہے۔یہ صدی انفارمیشن ٹیکنالوجی کی ہے ،نوجوان اسے زیادہ
بہتر انداز میں سمجھتے ہیں۔محنت کشوں کے مسائل اور مزدور تحریک کے مقاصد کو
اجاگر کرنے کے لئے کمپیوٹر نیٹ،الیکٹرانک میڈیا اور دیگر تمام ذرائع ابلاغ
کا استعمال کیا جانا چاہئیے ۔دنیا بہت تبدیل ہوچکی ہے ،عالمی سامراج اور اس
کا وضح کردہ سرمادارانہ نظام اور اس کے مقامی حواری اور BENIFICIRIES پوری
طاقت کے ساتھ جدید انفارمیشن ٹیکنالوجی اور ابلاغ کے ذرائع کو استعمال کرکے
اپنے ظالمانہ عوام دشمن مقاصد کو آگے بڑھا رہے ہیں۔جبکہ محنت کشوں اور ان
کی تنظیموں کے موقف کو پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر آنے سے روکا جاتا ہے کہ
اس طرح استحصالی طبقات کے ظلم کا پردہ چاک اور ان کے نظام کی قلعی کھل جاتی
ہے۔محنت کش طبقہ کو ہمارے ہاں ایک سازش کے تحت پارلیمانی سیاست اور
پارلیمانی اداروں سے دور رکھا گیا ہے ۔پارلیمان کے تمام ایوانوں میں ان
طبقات کے افراد کی اکثریت ہے کہ جن کو محنت کشوں ،ہاریوں ،مزارعوںاورغریبوں
کے دکھ درد سے دور کا بھی کوئی واسطہ نہیں ۔پارلیمان کی رکنیت کسی بھی طبقہ
کی نسبت محنت کشوں کا پہلا حق ہے لیکن وہ WINABLES نہیں کیونکہ ان کے پاس
اسمبلی کی نشست جیتنے اور کمپین کے لئے کروڑوں روپے نہیں ہوتے اس کا واحد
طریقہ یہ ہے کہ تمام سیاسی جماعتوںسے مطالبہ کیا جائے کہ قانون سازی کے
ذریعہ پارلیمان کے تمام ایوانوں میں محنت کشوں کے نمائندگان کے لئے نشستیں
مختص کی جائیں۔(پاکستان پیپلز پارٹی نے اپنے منشور میں ایسا کرنے کا اعلان
کردیا ہے اور ہم اس کا خیر مقدم کرتے ہیں کہ انہوں نے پہل کاری کی)۔اس کے
لئے لابنگ پریشر اور پبلسٹی کی ضرورت ہے ۔یہ سارے کام کرنے کے لئے محنت کش
تنظیموں میں وسیع مشاورت ،اتفاق رائے اور اشتراک عمل کی ضرورت ہے ۔انگریزی
زبان کا ایک پرانا مقولہ ہے کہ"UNITED WE STAND,DIVIDED WE FALL" یوم مئی
2013کا پیغام بھی یہی ہے۔ |