کراچی کے علاوہ باقی سندھ میں انتخابی مہم پرامن اور بھرپور طریقے سے جاری ہے۔
متحدہ قومی موومنٹ نواب شاہ اور میرپورخاص میں دو بڑے جلسے کرچکی ہے، اسی طرح
پیپلزپارٹی کے سابق وزراءاور ارکان پارلیمان جب اور جہاں چاہ رہے ہیں، جلسے،
جلوس کررہے ہیں۔ نوازشریف بھی دو، تین دورے کرچکے ہیں، فنکشنل لیگ تو گویا
چھائی ہوئی ہے، ہر وروز کہیں نہ کہیں ان کا بڑا جلسہ ہورہا ہے۔ قوم پرست
جماعتیں بھی کافی سرگرم ہیں۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ اندرون سندھ بھی تمام جماعتوں
کے سیاسی کارکن پنجاب کی طرح بلاخوف وخطر انتخابی مہم چلائے ہوئے ہیں۔ البتہ
پچھلے چند دنوں سے حالات کسی اور رخ پر جاتے محسوس ہورہے ہیں۔
24اپریل کو علیحدگی پسند تنظیم جئے سندھ قومی محاذ (شفیع برفت گروپ) کے 2 سرگرم
کارکنان کو ”نامعلوم“ افراد نے اغواءکیا اور چار روز بعد یعنی اتوار کو دادو کے
علاقے خیرپور ناتھن شاہ سے ان کی بوری بند لاشیں ملیں۔ نوجوانوں کی لاشیں ملتے
ہی سندھ کے کئی علاقوں میں پرتشدد کارروائیاں شروع ہوگئیں۔ کوٹری میں پنجاب سے
کراچی آنے والی عوام ایکسپریس پر موٹرسائیکل سواروں نے فائرنگ کردی، جس کے
نتیجے میں ایک فوجی اور ایک پولیس اہلکار جاںبحق ہوگیا۔ حملہ آوروں نے ٹرین کے
ڈرائیور کو بھی نشانہ بنانے کی کوشش کی۔ اللہ کا شکر ہے وہ اس میں کامیاب نہیں
ہوئے، ورنہ بڑا سانحہ رونما ہوسکتا تھا۔ خیرپور اور گمبٹ کے درمیان ریلوے ٹریک
کو بم سے اڑادیا گیا،جس کی وجہ سے کئی گھنٹے ٹرین سروس معطل رہی۔ حیدرآباد میں
دکان پر فائرنگ کرکے 2 افراد کو مارڈالاگیا، ہوٹل پر دستی بم پھینکا گیا، جس سے
متعدد افراد زخمی ہوئے۔ آج (پیر) جب یہ سطور قلم بند کررہا ہوں، سندھ کے کئی
علاقوں میں کاروبار بند ہے، کریکروں سے حملے ہورہے ہیں، کئی مقامات پر دھرنے
بھی جاری ہیں۔ علیحدگی پسند جماعت کے سرگرم کارکنوں کا اغواءاور قتل کوئی معمول
کا واقعہ ہے یا بھینسے کو سرخ کپڑا دکھاکر مشتعل کرنے جیسی کوئی منظم سازش ہے۔
ایک ایسے موقع پر جب قوم انتخابی عمل سے گزررہی ہے، قوم پرستوں کو لاشوں کا
تحفہ بھیجنے کا کیا مطلب ہوسکتا ہے؟
قارئین جانتے ہیں کہ اے این پی کی اصل سرگرمیوں کا مرکز خیبرپختونخوا ہے، اس کی
ہار اور جیت کا فیصلہ اسی صوبے میں ہوتا ہے۔ گزشتہ انتخابات میں یہ جماعت
خیبرپختونخوا میں حکومت بنانے میں کامیاب ہوگئی تھی، جبکہ مرکز میں بھی کئی اہم
وزارتیں اس کے حصے میں آئیں لیکن اس بار یہ جماعت اپنے ”ہوم گراؤنڈ“ میں بھی
انتخابی مہم تک نہیں چلاپارہی ہے، تجزیہ کاروں کے مطابق اے این پی کے لیے ایسے
حالات پیدا کردیے گئے ہیں جس سے وہ الیکشن کے بائیکاٹ کی طرف جاسکتی ہے۔ ایم
کیو ایم 1988ءسے کراچی پر چھائی ہوئی ہے۔ اس کا عوامی مینڈیٹ اصلی ہے یا جعلی،
اس بحث میں پڑے بغیر یہ حقیقت تسلیم کرنا پڑے گی کہ شہر کے زیادہ تر انتخابی
حلقوں پر اس کی گرفت اب بھی انتہائی مضبوط ہے۔ یہ جماعت زبردست اور بھرپور
عوامی انداز میں انتخابی مہم چلاتی ہے۔ اس کے جلسے حاضری اور ڈسپلن کے حوالے سے
بے مثال ہوتے ہیں۔ مگر اس بار ایم کیو ایم بھی چاردیواریوں تک محدود ہوکر رہ
گئی ہے۔ شہر بھر میں قائم اس کے درجنوں انتخابی دفاتر کئی روز سے بند پڑے ہیں۔
ایم کیو ایم کی قیادت اس صورت حال پر بہت برہم ہے۔ یہ جماعت ایک بار پہلے بھی
انتخابات کا بائیکاٹ کرچکی ہے، ا ب بھی عوام ایسے کسی اعلان کے لیے ذہنی طور پر
تیار ہیں۔ اب ذرا پیپلزپارٹی کی بات کرتے ہیں۔
خیبرپختونخوا، بلوچستان اور کراچی میں پیپلزپارٹی بھی حملوں کی زد میں ہے، جس
کی وجہ سے ان علاقوں میں اس کی انتخابی مہم متاثر ہوئی ہے لیکن پیپلزپارٹی کو
اس سے کوئی زیادہ فرق نہیں پڑا ہے، کیونکہ اس کا اصل مرکز خیبرپختونخوا،
بلوچستان اور کراچی نہیں، سندھ ہے۔ یہاں بغیر کسی روک ٹوک کے اس کے جلسے جلوس
ہورہے ہیں، لگ ایسا رہا ہے کہ اب اندرون سندھ حالات خراب کرکے پی پی کو بھی
بندگلی کی طرف لانے کی سازش کی جارہی ہے۔
ایم کیو ایم کی قیادت واضح طور پر کہہ چکی ہے کہ اگر انتخابات کو کچھ عرصہ کے
لیے ملتوی کردیا جائے تو انہیں اعتراض نہیں ہوگا۔ یعنی ایم کیو ایم ہر صورت
11مئی کو انتخابات نہیں چاہتی، دوسرے لفظوں میں ہم یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ ایم
کیو ایم کے لیے انتخابات کے بائیکاٹ کا آپشن استعمال کرنا ناممکنات میں سے نہیں
ہے۔ کہنے کو تو اے این پی کی قیادت باربار وقت مقررہ پر انتخابات کے انعقاد کا
مطالبہ کررہی ہے لیکن سیاسی نبض شناسوں کا خیال ہے اے این پی کو انتخابات کے
بائیکاٹ پر آمادہ کیا جاسکتا ہے۔ اصل مسئلہ پیپلزپارٹی ہے، اگر وہ انتخابی عمل
میں شریک رہتی ہے تو پھر دیگر جماعتوں کی جانب سے بائیکاٹ موثر ثابت نہیں ہوگا۔
اللہ نہ کرے اگر اندرون سندھ امن وامان کی صورت حال خراب ہوجاتی ہے تو
پیپلزپارٹی کے لیے انتخابی مہم چلانا خاصا مشکل ہوجائے گا۔ ایسے حالات پیدا
ہوگئے تو پھر ایم کیو ایم اور اے این پی کی طرح پیپلزپارٹی بھی انتخابات کے
بائیکاٹ کے آپشن پر غور کرسکتی ہے۔
صدر زرداری، اے این پی کے سربراہ اسفندےارولی اور متحدہ قومی موومنٹ کے
قائدالطاف حسےن کے درمیان جس تیزی سے ٹیلی فونک رابطے ہورہے ہیں، اس سے اس تاثر
کو تقویت ملتی ہے کہ یہ تینوں جماعتیں انتخابات کے حوالے سے کسی فیصلے پر
پہنچنا چاہتی ہیں۔ عوام کے سامنے تو یہی کہا جارہا ہے کہ حملہ آوروں کے سامنے
نہیں جھکیں گے اور کسی صورت انتخابی میدان نہیں چھوڑیں گے مگر واقفانِ حال یہ
خبر لائے ہیں کہ ان جماعتوں کے اندر بہت کھچڑی پک رہی ہے، ایک طبقہ موجودہ
حالات میں الیکشن لڑنے کو پارٹی کے لیے نقصان دہ سمجھتا ہے، جبکہ دوسرا گروپ
میدان چھوڑنے کو خودکشی قرار دیتا ہے۔ کیا حملے بڑھنے کی صورت میں بھی بائیکاٹ
کے مخالفین کا پارٹی میں پلہ بھاری رہے گا؟ شاید ایسا نہ ہوسکے۔
اگر یہ تینوں جماعتیں انتخابی دوڑ سے نکل گئیں تو انتخابات تو بھاڑ میں جائیں،
ملکی سلامتی کے لالے پڑجائیں گے۔ وہ افراتفری مچے گی کہ الامان و الحفےظ....
یہی وہ موقع ہوتا ہے جب کسی نظام کو لپےٹ دیا جاتا ہے، اگر جمہوریت کو لپیٹنے
کے لیے کسی سطح پر اس نوعیت کی کوئی منصوبہ بندی ہورہی ہے تو یقینا یہ ملک وقوم
سے خیرخواہی نہیں ہے۔ تمام جماعتوں کو انتخابی عمل میں حصہ لینے کی اجازت ہونی
چاہیے، اس حوالے سے مقتدر حلقوں کا کردار صرف اتنا ہے کہ وہ ایسا پرامن ماحول
فراہم کریں جس میں قوم شفاف طریقے سے اپنے نمایندے منتخب کرسکے۔ اس کردار کے
علاوہ ایک قدم بھی اٹھانا آئین وقانون کی خلاف ورزی تصور کی جاتی ہے، چاہے یہ
قدم حب الوطنی کا نام لے کر ہی کیوں نہ اٹھایا گیاہو۔ |