خونی الیکشن یا۔۔۔۔۔۔۔۔؟

پاکستان میں عام انتخابات کے انعقاد میں اب چند دن رہ گئے ہیں۔الیکشن کی ہمہ ہمی اور رنگا رنگی کے بجائے کراچی سوگوار ہے، بم دھماکوں کی گونج سے ہر شخص سہما ہوا ہے۔ کراچی میدان جنگ بنا ہوا ہے، اس شہر میں برسوں سے جاری ٹارگٹ کلنگ کے نہ تھمنے والے سلسلے میں اب تیزی آگئی ہے۔ سر شام لوگ گھروں میں محصور دکھائی دیتے ہیں،پے در پے دھماکے اور اس کے بعد یوم سوگ نے عام آدمی کو ایک خوف میں مبتلا کر دیا ہے۔ حکومت میں پانچ سال گذارنے والے بھی اب نگراں حکومت سے تحفظ کا مطالبہ کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ کراچی میں امن و امان کے بارے میں سپریم کورٹ کے خدشات اب کھل کر سامنے آگئے ہیں۔ الیکشن میں حصہ لینے والے امیدوار اب صرف ملاقاتوں تک محدود ہیں۔ کراچی اور حیدرآباد میں فائرنگ کے سلسلے بھی شروع ہوگئے ہیں۔ جن میں ایم کیو ایم ،پی پی پی اور اے این پی نشانہ بن رہی ہے۔ تحریک طالبان اس کی ذمہ داری بھی قبول کر رہی ہے اور ان جماعتوں کو نشانہ بنانے کا اظہار بھی کر رہی ہے۔ کراچی اور سندھ میں سلامتی اور امنِ عامہ کی صورت حال کے بارے میں سکیورٹی اہلکاروں کے بیانات اور سیاسی حلقوں کے موقف میں زمین آسمان کا فرق دکھائی دیتا ہے۔کچھ کہتے ہیں کہ کراچی میں ہر طرف امن ہے اور یہاں دودھ کی نہریں بہہ رہی ہیں۔ لوگ بے خوف اپنے گھروں سے باہر نکل رہے ہیں اور ایسا صرف اس لیے ہے کہ پاکستان رینجرز نے دہشت گردوں کے خلاف کئی کامیاب آپریشن کیے ہیں۔ رینجرز کے ڈائریکٹر جنرل سندھ میجر جنرل رضوان اختر اس موقف کے حامی ہیں۔ گو رینجرز اہلکار روز ہی کوئی نہ کوئی آپریشن کر رہے ہیں، اور اس میں ان کو نقصان کا سامنا ہے۔ ابھی چند دن قبل حیدرآباد میں ان کی ایک چوکی پر حملہ ہوا، جس میں ایک سپاہی شہید ہوا، گزشتہ دوہفتوں میںکراچی حیدرآباد میں فائرینگ، دھماکوں سے مرنے والوں کی تعداد ساٹھ کے لگ بھگ ہوچکی ہے۔سیاسی مہم کے آغاز سے ہی کراچی گرم ہے،کراچی میں تحریکِ انصاف، متحدہ قومی موومنٹ پی پی پی، اے این پی اور جماعت اسلامی کے دفاتر، ریلی، کارنر میٹنگ اور جلسوں پر حملے ہو چکے ہیں اور پچھلے چند روز کے دوران کئی افراد سیاسی دہشت گردی کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں۔ شہر میں کہیں نہیں لگتا کہ ملک میں عام انتخابات اتنے قریب آ چکے ہیں۔ نہ کوئی جلسے جلوس نظر آتے ہیں، ایم کیو ایم اورپیپلز پارٹی، اے این پی، تحریک انصاف، جماعت اسلامی کے جھنڈے کہیں کہیں نظر آتے ہیں۔ لیکن ان سے انتخابات کے بخار کا پتہ نہیں چلتا۔

کراچی میں کون جیتے گا ؟ کو ئی اس سوال کا جواب نہیں دیتا، ؟ یہ وہ سوال ہے جس کا جواب دینے سے عموماً سب کتراتے ہیں۔ اس سوال کی گونج ہر جگہ سنائی دیتی ہے۔ گھروں اور نجی محفلوں میں سیاسی تبصرے ہوتے ہیں۔ لیکن سیٹوں کی تعداد کوئی نہیں بتاتا، کیا کراچی میں ایم کیو ایم اپنا سابقہ ریکارڈ برقرار رکھے گی؟ اس بارے میں سکہ بند تجزیہ نگار بھی رائے دیتے ہوئے گھبراتے ہیں۔ بظاہر کراچی کے مینڈیٹ میں کوئی کمی نظر نہیں آتی ،الطاف بھائی کی تصاویر ہر جگہ نظر آتی ہیں۔ اس تصویر کا جادو اس شہر پر برسہا برس سے چل رہا ہے۔ اور ابھی اس میں کوئی فرق نہیں پڑا ہے۔ لیکن پھر بھی کچھ نہ کچھ ایسا ہے جس پر لب کشائی نہیں کی جاتی۔سب کچھ جاننے والے بھی، اور نہ جاننے والے تو کسی شمار قطار میں ہیں ہی نہیں۔بہت سے معتبر حلقے حقائق سے آگاہ ہیں۔لیکن شائد صاف صاف بات کرنا ہر کسی کے بس میں نہیں۔ کراچی پولیس کا بھی کہنا ہے کہ وہ کراچی کے ہر علاقے تک رسائی نہیں رکھتی۔ یہ بات پولیس کی طرف سے الیکشن کمیشن کو ایک خط میں لکھی گئی ہے۔ رینجرز بھی محدود نوعیت کا آپریشن کر رہی ہے۔ ایسے میں فوج اگر کراچی میں آئی اور حساس علاقوں میں فوج تعینات ہوئی تو حالات کیا رخ اختیار کریں گے۔ اس بارے میں متضاد باتیں کہی جاتی ہیں کچھ اسے کراچی کے لئے نیک فال اور کچھ اسے کراچی میں مزید خرابی سے تعبیر کرتے ہیں۔ کراچی کے بارے میں کوئی بھی پولیس اہلکار کوئی بات ریکارڈ پرلانے کو تیار ہے، کراچی میں پولیس نے اس بارے میں بہت بھاری قیمت چکائی ہے۔ کراچی میں دہشت گردی کے واقعات عام ہیں۔رینجرز کی شکایت ان علاقوں کے بارے میں ہے جہاں کہا جاتا ہے کہ طالبان کا قبضہ ہے۔ کون کس کی پشت پناہی کر رہا ہے، یہ بھی صاف نظر آتا ہے۔ سیاسی جماعتیں کم از کم یہی کہتی ہیں۔قانون نافد کرنے والے اداروں کے اہلکار کا کہنا ہے کہ تقریباً ہر سیاسی جماعت کی پشت پناہی کوئی جرائم پیشہ گروہ کر رہا ہے۔ رینجرز کی طرف سے یہ بھی پوچھا جاتا ہے کہ جب وہ اغوا برائے تاوان کے مجرموں کو پکڑنے کے لیے کہیں آپریشن کرتے ہیں، تو کسی ملزم کے مرنے پر سیاسی جماعتوں کے حامی جلوس کیوں نکالتے ہیں۔ پچھلے دنوں لیاری میں شہر کے ایک تاجر کے اغوا کے سلسلے میں بھی ایسا ہی ہوا۔کچھ حلقے یہ امید لگائے بیٹھے ہیں کہ ایم کیو ایم کی نشتیں کم ہوجائیں گی۔ تحریک انصاف، مسلم لیگ نون، جماعت اسلامی، اور مسلم لیگ کیو ایسی ہی امیدوں کے سہارے الیکشن کمپین چلا رہی ہیں۔ ڈیفینس کی ایک سیٹ این اے۰۵۲ ایسی ہی ایک نشت ہے۔ جس پر تحریک انصاف کے عارف علوی، جماعت اسلامی کے سابق مئیر نعمت اللہ خان، ایم کیو ایم کی خوش بخت شجاعت، اور مسلم لیگ کیو کے کامران ٹیسوری سب ہی جیت کے خواہش مند نظر آتے ہیں۔ لیکن اس بارے میں کوئی حتمی طور پر نہیں کہتا کہ الیکشن کے دن کیا ووٹر ووٹ ڈالنے کے لئے گھر سے نکلے گا؟ کراچی کے لئے یہ سوال بہت اہم ہے۔ خوف نے ہر کو اس دن سے ڈرا دیا ہے۔ کیا سیاسی جماعتیں اسے خوف کو ووٹر کے دل سے دور کرنے میں کامیاب ہوں گی۔دہشت گردی کا الزام ہر ایک ہر سیاسی جماعت پر لگاتا ہے۔کچھ اس کے لئے مذہبی انتہا پسند قوت کو مورد الزام ٹہراتے ہیں تو کچھ ایم کیو ایم، پیپلز پارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی کے بارے میں ایسی ہی باتیں کرتے ہیں۔حا لیہ دنوں میں پیپلز پارٹی ، نیشنل عوامی پارٹی اور ایم کیو ایم جس طور پر دہشت گردی کا شکار ہوئیں ہیں۔ اس کی وجہ سے ایم کیو ایم کو بھی اپنا خواتین کا جلسہ ملتوی کرنا پڑا۔شہر میں اسلحہ بارود کی بہت زیادہ دستیابی اور جس طرح اب تک فوج نے اپنی غیر حاضری سے غیر یقینی کی حالت کو تقویت دی ہے، یہ عوامل اس خدشے کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ کراچی میں آئندہ انتخاباتً پرامن نہیں ہوں گے۔ طویل عرصے بعد کراچی کے ان علاقو ں میں جہاں متحدہ کی اکثریت تصور کی جاتی ہے،پیپلز پارٹی نے اس بار اپنی نششتوں پر سخت مقابلہ کی ٹھانی ہے۔ اس نے اپنی حکمت عملی بھی تبدیل کی ہے۔ لیاری میں دیگر سیاسی جماعتوں کا داخلہ مشکل نظر آتا ہے، یہی صورتحال ان تمام حلقوں میں ہے جہاں کسی بھی پارٹی کا ووٹ بنک زیادہ ہے۔ کراچی کے شہری اس رسہ کشی سے خائف ہیں۔ کراچی کے علاقے نارتھ کراچی میں پیپلز چورنگی کے قریب بم دھماکے میں دو افراد ہلاک اور بارہ زخمی ہوئے۔اس دھماکے نے کراچی والوں کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ بم موٹر سائیکل میں نصب کیا گیا تھا اور دہشت گردوں کا نشانہ متحدہ قومی موومنٹ کا انتخابی دفتر تھا۔ایک ایسی جماعت جو پانچ سال تک برسراقتدار رہی ہو، اور اب بھی نگراں حکومت اس کے اثر نفود سے دور نہ ہو،یہ حالات سب کے لئے پریشان کن ہیں۔ سابق صوبائی وزیر رضا ہارون کا کہنا تھا کہ دہشت گرد غیر قانونی ہتھیاروں اور بارود کے ساتھ گھوم رہے ہیں اور انہیں کوئی روکنے والا نہیں ہے۔سوال یہ ہے کہ ان سیاسی جماعتوں نے برسوں سے جاری کراچی میں ٹارگٹ کلنگ کو سنجیدگی سے کیوں نہیں لیا۔ایم کیو ایم کی جانب سے کراچی اور سندھ میں ان واقعات پر دو دن یوم سوگ منایا گیا۔ جبکہ ایک دن پیپلز پارٹی اور اے این پی نے سوگ منانے کی اپیل کی۔ لیکن اس کے بر عکس بلوچستان ، کے پی کے جہاں تقریبا روزانہ ایسے واقعات ہورے ہیں وہاں معمولات زندگی جاری رہے۔ دہشت گردی کے خلاف وسیم اختر کا کہنا ہے کہ متحدہ نے چار سال پہلے کراچی میں طالبانائزیشن کے خطرے کا اظہار کیا مگر حکومت نے اس پر توجہ نہیں دی اور آج صورتحال یہ ہے کہ طالبان کراچی میں اتنے مضبوط ہوگئے ہیں کہ وہ شہر کی سکیولر جماعتوں کو کھلے عام نشانہ بنا رہے ہیں۔ایم کیو ایم نے دو ہزار بارہ میں طالبان کے خلاف عوامی رائے ہموار کرنے کے لیے ایک ریفرنڈم کا اعلان بھی کیا تھا۔ یہ ریفرنڈم منعقد تو نہ ہو سکا مگر طالبان ان کے مزید مخالف ضرور ہوگئے۔رواں سال ایم کیو ایم سے تعلق رکھنے والے دو ارکان اسمبلی منظر امام اور فخرالسلام کو قتل کیا گیا اور ان ہلاکتوں کی ذمہ داری پاکستانی طالبان نے قبول کی تھی۔

پاکستان میں انتخابی مہم کے آغاز سے قبل ہی پاکستانی طالبان نے ایم کیو ایم، عوامی نیشنل پارٹی اور پیپلز پارٹی کے جلسوں کو نشانہ بنانے کی باقاعدہ دھمکی جاری کی تھی اور لوگوں کو ان کے جلسوں میں شرکت سے خبردار بھی کیا تھا۔ طالبان کے ترجمان کے مطابق تینوں جماعتیں طالبان کی مخالفت کی وجہ سے ہٹ لسٹ پر ہیں۔طالبان کی جانب سے ان دھمکیوں کو عملی جامہ بھی پہنایا گیا اور کراچی میں متحدہ قومی موومنٹ کے انتخابی دفتروں کے باہر بم حملوں نے جماعت کو شہر میں اپنے تمام انتخابی دفتر بند کرنے پر بھی مجبور کر دیا۔ایم کیو ایم کے رہنماو ¿ں کے مطابق وہ انتہا پسندوں کے حملوں اور دھمکیوں سے خوفزدہ تو نہیں مگر اس سلسلے میں کچھ احتیاطی تدابیر ضرور اختیار کی گئی ہیں۔ان تدابیر کی ایک مثال ایم کیو ایم کا مرکزی دفتر نائن زیرو ہے جس کی سکیورٹی پہلے کے مقابلے میں کئی گنا بڑھا دی گئی ہے۔ نائن زیرو جانے کے لیے پتھر کے بیریئرز اور آہنی رکاوٹوں کے کم از کم تین ناکوں سے گزرنا پڑتا ہے جہاں متعین محافظ وائرلیس سیٹ اور اسلحہ سے لیس ہیں۔ مرکزی دفتر تک جانے والی تمام گلیوں پر آہنی بیریئرز لگے ہیں جبکہ ہرگاڑی اور ہر شخص کی تلاشی لازمی لی جاتی ہے۔ایم کیو ایم کے سینیئر رہنما فارق ستار کا کہنا ہے کہ انتہا پسند ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت انہیں انتخابی عمل سے دور رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں مگر ایم کیو ایم انتخابات میں حصہ لینے کے اپنے قانونی ، آئینی اور جمہوری حق سے کبھی بھی دستبردار نہیں ہو گی۔چند دن پہلے تک تجزیہ کاروں کی رائے یہ تھی کہ خوف و ہراس کی اس فضا میں شفاف انتخابات ممکن نہیں۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ انتخابی مہم غیر متوازن ہے۔ اس وقت صوتحال یہ ہے کہ تحریک انصاف اور مسلم لیگ نواز تو کھلے عام بڑے جلسے جلوس کر رہی ہی مگر دوسری طرف اے این پی، پی پی پی اور ایم کیو ایم پر حملے کیے جا رہے ہیں۔ لیکن یہ پورا سچ نہیں ہے کراچی میں ایم کیو ایم حقیقی کے رہنما آفاق احمد کی رہائش گاہ کے قریب فائرنگ میں ایک بچے سمیت دو افراد ہلاک ہوگئے تھے۔ انھیں اب تک جلسہ جلوس کی اجازت نہیں ہے۔صوبہ سندھ کے شہر شکارپور میں نیشنل پیپلز پارٹی کے انتخابی امیدوار ڈاکٹر ابراہیم جتوئی پر بھی خودکش حملے ہوئے ہیں۔ جس میں خودکش بمبار ہلاک اور دو افراد زخمی ہوگئے ہیں۔ ابراہیم جتوئی اپنے گاو ¿ں سے شکارپور آرہے تھے کہ ٹول پلاڑہ کے قریب موٹر سائیکل سوار حملہ آور ان کی گاڑی سے ٹکرایا جس میں ڈاکٹر ابراہیم محفوظ رہے ہیں انہیں معمولی چوٹیں آئی ہیں۔ عام انتخابات میں چند دن باقی رہ گئے ہیں لیکن سیاسی جماعتوں کے کارکنوں اور انتخابی امیدواروں پر دہشت گردانہ حملوں کا سلسلہ تواتر سے جاری ہے۔ بلوچستان کے علاقے ڈیرہ مراد جمالی میں ہونے والے ایک بم دھماکے میں کم ازکم تین افراد زخمی ہوگئے۔یہ بم دھماکا صوبائی اسمبلی کے لیے ایک آزاد امیدوار اللہ دینو کے قافلے کے قریب ہوا۔انتخابات کی تیاریوں کے دوران دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے اور ان میں سے زیادہ تر سیاسی جماعتوں کے کارکنوں، رہنماؤں اور دیگر انتخابی امیدواروں کو نشانہ بنایا گیا ہے۔منگل کو رات دیر گئے سابقہ مخلوط حکومت میں شامل تین جماعتوں پاکستان پیپلز پارٹی، متحدہ قومی موومنٹ اور عوامی نیشنل پارٹی کے رہنماؤں نے ایک مشترکہ نیوز کانفرنس میں یہ انکشاف کیا تھا کہ ان کی جماعتوں کو دہشت گردانہ حملوں کا نشانہ بنا کر انتخابات کے بائیکاٹ پر مجبور کیا جا رہا ہے۔تاہم ان رہنماو ¿ں کا کہنا تھا کہ وہ انتخابات میں بھرپور حصہ لیں گے اور الیکشن کو ’ہائی جیک‘ کرنے کی اجازت نہیں دیں۔بار بار یہ الزام لگایا جارہا ہے کہ حملوں کا نشانہ تین جماعتیں رہی ہیں اور کالعدم تحریک طالبان پاکستان نے ان جماعتوں پر حملوں کی دھمکی دے رکھی تھی۔لیکن ایسا نہٰن ہےکوئٹہ میں ارباب غلام علی روڈ پر نامعلوم افراد نے بلوچستان اسمبلی کے حلقے پی بی تھری سے مسلم لیگ ن کے امیدوار لشکری رئیسانی کے انتخابی دفتر پر دستی بم پھینکا جس سے چھ افراد زخمی ہوئے۔ یوں مسلم لیگ نون پر بھی حملے ہورہے ہیں۔ لشکری رئیسانی کچھ ماہ پہلے پیپلز پارٹی کو چھوڑ کر مسلم لیگ نون میں شامل ہوئے ہیں۔

الیکشن کمیشن نے انتخابی امیدواروں کو دہشت گردی کا نشانہ بنانے کے واقعات پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ الیکشن کمیشن سے جاری ہونے والے ایک بیان کے مطابق کراچی ، بلوچستان اور خیبر پختوانخواہ میں دہشت گردی کے واقعات قابل تشویش ہیں۔ الیکشن کمیشن کا کہنا ہے کہ امن امان کا قیام صوبائی حکومتوں کی بنیادی زمہ داری ہے، امیدواروں کو ایسا ماحول فراہم کیا جائے کہ وہ بے خوف اپنی انتخابی مہم چلا سکیں۔ذرائع کے مطابق الیکشن کمیشن کو اب تک صرف پنجاب سے پولنگ اسٹیشنوں کی تفصیلات ملی ہیں اور وہ بھی نامکمل ہیں۔ پنجاب سے ملنے والی فہرست میں ہر حلقے میں پولنگ اسٹیشنوں ، پولنگ بوتھ اور عملے کی تعداد دی گئی ہے لیکن یہ نہیں بتایا گیا کہ پولنگ اسٹیشن کہاں بنائے جائیں گے۔ الیکشن کمیشن کو باقی تین صوبوں سے پولنگ اسٹیشنوں کی تفصیلات کا انتظار ہے۔ ذرائع کے مطابق الیکشن کمیشن کو ملک بھر سے پولنگ اسٹیشن غلط مقامات پر بنائے جانے کی شکایات موصول ہورہی ہیں۔ یہ شکایات صوبائی الیکشن کمیشنوں کو بھیج دی گئی ہیں تاکہ ان کا ازالہ کیا جاسکے۔

لیکن اس تمام تر صورتحال میں اس وقت تبدیلی دیکھنے میں آئی ہے جب گزشتہ روز آرمی چیف جنرل پرویز مشرف نے واشگاف الفاظ میں الیکشن گیارہ مئی کو ہونے کا اعلان کیا۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ پاکستان میں آئندہ انتخابات اور دہشت گردی کے خلاف جنگ سمیت اہم قومی امور پر جنرل کیانی نے اپنے خطاب میں فوج کا موقف بیان کرتے ہوئے یہ پیغام بھی دینے کی کوشش کی کہ ملک کو درپیش مسائل کے حل کے لیے قومی سوچ کا ادراک بھی ضروری ہے۔تجزیہ کار وں کی رائے میں پاکستان کے موجودہ حالات میں جنرل کیانی کے بیان سے غیر یقینی کی صورت حال کا خاتمہ ممکن ہو سکے گا۔ جنرل کیانی کا بروقت انتخابات کے انعقاد کے حق میں بیان انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔

جنرل کیا نی نے اپنی تقریر میں دو باتیں واضح کر دی ۔ایک یہ کہ انتخابات وقت پر ہو جائیں اور اس سلسلے میں جو مدد فوج کی طرف سے ہو سکتی ہے وہ اس کے لیے تیار نظر آتے ہیں۔ دوسرا پیغام دہشت گردوں کے لیے ہے کہ قانون اور آئین کے دائرے میں رہ کر گفت و شنید کرنا چاہتے ہیں تو بات ممکن ہے۔“جنرل کیانی نے اپنے خطاب میں واشگاف الفاظ میںکہا کہ انتخابات وقت پر ہی ہوں گے اس میں کسی کو شک نہیں ہونا چاہیئے۔”جمہوریت کی کامیابی عوام کی خوشحالی سے منسلک ہے، انتخابات کا انعقاد بذات خود مسائل کا حتمی حل نہیں بلکہ مسائل کے حل کی جانب ایک اہم قدم ضرور ہے، مسائل کے دیرپا حل کے لیے قومی سوچ اور امنگوں کا ادارک بھی ضروری ہے۔ ملک میں انتخابات کا انعقاد 11 مئی کو ہو گا ہمیں اس میں کوئی شک نہیں ہونا چاہیئے۔“

جنرل کیانی کا کہنا تھا کہ جمہوریت اور آمریت کی آنکھ مچولی کا اعصاب شکن کھیل صرف سزا اور جزا کے نظام سے نہیں بلکہ عوام کی آگاہی اور بھرپور شمولیت ہی سے ختم ہو سکتا ہے۔

متحدہ قومی موومنٹ کے قائد جناب الطاف حسین نے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل اشفاق پرویز کیانی کاگزشتہ روزیوم شہداءکے موقع پر کیاجانے والا خطاب کو پوری پاکستانی قوم کے جذبات کی ترجمانیسے تعبیر کیا ہے۔ رابطہ کمیٹی سے گفتگوکرتے ہوئے انہوں نے آرمی چیف کے خطاب کا زبردست خیرمقدم کیا اور کہا کہ جنرل اشفاق پرویز کیانی نے انتہائی اہم اور حساس قومی معاملات پر جس جرات مندی کے ساتھ اپنے موقف کا اظہار کیا ہے اس پر انہیں جتنا خراج تحسین پیش کیا جائے وہ کم ہے۔ جناب الطاف حسین نے کہاکہ جنرل اشفاق پرویز کیانی نے عملاً ثابت کردیا ہے ہ وہ ایک ایسے بہادر اور نڈرسپاہی ہیں جو دفاع وطن کیلئے ہمہ وقت تیاررہتا ہے۔جناب الطاف حسن نے کہاکہ جنرل اشفاق پرویز کیانی کاخطاب پوری قوم کے دل کی آوازہے اوران کے جراتمندانہ بیان سے قوم کو ایک نیا حوصلہ ملا ہے ،اس سے شکوک وشبہا ت میں بڑی حدتک کمی واقع ہوئی ہے اور قوم میں اعتماد اورہمت کی ایک نئی لہر دوڑگئی ہے۔جنرل کیانی نے جراتمندانہ اور دانش مندانہ موقف پیش کرکے پوری قوم کے سرفخر سے بلند کردیئے ہیں۔پوری قوم انہیں اور ان سمیت مسلح افواج کے ایک ایک افسر اور سپاہی کو سلام پیش کرتی ہے اور دعا گو ہے کہ اللہ تعالیٰ انہیں ہرمقام پر کامیابی عطا کرے۔الطاف حسین کے اس خیر مقدمی بیاں سے بھی اب خدشات کے بادل چھٹ گئے ہیں۔ اور الیکشن سر گرمیاں جان پکڑ تی نظر آ رہی ہیں۔ اگرچہ میڈیا میں غضب ناک سیاسی لفاظی اور مباحث کے ساتھ ساتھ حکمران کا سیاسی شوروغوغا عروج پر ہے، لیکن عوام سیاست سے بالکل لاتعلق ہیں۔اس ہنگامے میں عوام گہرے سکوت میں ہیں اور ایسا بے سبب نہیں۔معاشرے کو تاراج کرنے والی سیاست اور پالیسیوں میں کروڑوں عوام کی دلخراش محرومیوں کا کوئی حل نہیں۔ درحقیقت انھوں نے اس معاشی تنزلی کو اس کے حال پر چھوڑ دیا ہے۔ وہ دن گئے جب معاشی ماہرین معیشت کو ترقی کی راہ پر لانے اور غربت کے خاتمے اور سماجی ترقی کی کم ازکم کوشش ضرور کیا کرتے تھے۔ لیکن اس مایوسی اور پڑمردگی کے عالم میں وہ آئی ایم ایف اور عالمی بینک کے تباہ کن نسخوں کو آنکھیں بند کیے لاگو کر رہے ہیں۔ نجکاری، ڈی ریگولیشن، ری اسٹرکچرنگ، لبرلائزیشن اور کٹوتیوں کی پالیساں سماج کو برباد کرنے والی معاشی ابتری کو حل کرنے کے بجائے اس میں اضافہ کر رہی ہیں۔

دوسری جانب تمام سیاسی جماعتوں کا کردار عوام کے سامنے بے نقاب ہوچکا ہے اور کسی کے پاس بھی بڑے پیمانے پر عوامی حمایت حاصل نہیں کہ وہ اس بنیاد پر کوئی فیصلہ کن برتری حاصل کرکے صورت حال کو اپنے حق میں کرسکے۔ کمزور فریقین کی باہمی لڑائی کا انجام یہی ہوتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ریاست کے ایک دھڑے کی جانب سے طالبان کو کراچی پر غلبہ حاصل کرنے کے لیے پروان چڑھایا جارہا ہے۔ لیکن آرمی چیف کے اعلان کے بعد سب جھاگ کی طرح بیٹھ گئے ہیں۔ جو سوات کے پی کے میں اپنا تسلط قائم نہیں رکھ سکے وہ پورے کراچی میں کیا کامیاب ہوں گے۔ گوکہ اس دوران خونریزی میں اضافہ ہوگا اور اس میں کمی کے امکانات نظر نہیں آرہے ہیں۔۔ انسانی جان سستی ہو چکی ہے چند ہزار کے موبائل فون کی خاطر انسان کی جان لے لی جاتی ہے۔ یہ سب کچھ سب کے سامنے ہو رہا ہے۔ نگران حکومت کی پہلی ترجیح امن وامان کا قیام ہونا چاہیئے تھا۔جس میں وہ کامیاب نظر نہیں آرہی ہے۔رینجر زکی طرف سے ٹارگٹڈآپریشن بھی جاری ہے اس کے باوجود بہتری کی کوئی صورت حال نظر نہیں آرہی ہے۔ ان حالات کو اب بھی کنٹرول نہ کیا گیا تو شفاف انتخابات ایک خواب بن جائینگے۔نگران حکومت اپنی ذمہ داریاں پوری کرے اور غیر جانبدارانہ انتخابات کیلئے ماحول ساز گار بنائے تمام امیدواروں کو سیکورٹی فراہم کی جائے اور سیاسی سر گرمیوں کو بھی مکمل سیکور کیا جائے۔ نگران حکومت نے تمام سیاسی جماعتوں سے امن وامان کے حوالے سے جو تجاویز لی ہیں ۔ ان پر عمل کریں ۔ جو قومی قیادت سندھ میں رہتی ہے اسکی حفاظت کیلئے فول پروف انتظامات کئے جائیں رینجر ز کی طرف سے کئے جانے والے ٹارگٹڈ آپریشن میں تیزی لائی جائے اور ملزمان قوم کے سامنے لائے جائیں۔کراچی میں نو گوایر یاز کے خاتمے کے بغیر غیر جانبدارانہ الیکشن کیسے ممکن ہے اور اس سلسلے میں بغیر کسی تفریق کے نو گوایریاز ختم کئے جائیں۔اگر ایسا نہ ہوا اور الیکشن کے دوران امن وامان خدانخواستہ قائم نہ کرسکے تو پھر اسکی تمام تر ذمہ داری نگران حکومت پر عائد ہو گی۔

 

Ata Muhammed Tabussum
About the Author: Ata Muhammed Tabussum Read More Articles by Ata Muhammed Tabussum: 376 Articles with 387741 views Ata Muhammed Tabussum ,is currently Head of Censor Aaj TV, and Coloumn Writer of Daily Jang. having a rich experience of print and electronic media,he.. View More