پنجاب کارڈ

آج کل انتخابات کا زورو شور ہے اور سیاسی جماعتیں نئے نئے نعروں کے ساتھ عوامی عدالت میں عوام کے ووٹوں کے حصول کی خا طر سر توڑ کوششوں میں جٹی ہوئی ہیں۔عوام اپنے مینڈیٹ سے کسے سرفراز کرتے ہیں کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہے کیونکہ سیاست کا کھیل بڑا ہی بے اعتبارا ہوتا ہے اور اس میں کسی کو کوئی سمجھ نہیں آتی کہ آخری لمحوں میں عوا م کس طرح کے ردِ عمل کا مظا ہرہ کریں گئے اور کس جماعت کے حق میں اپنا وزن ڈ ال کر اسے جیت سے ہمکنار کر دیں گئے۔اس وقت ملک کی تین بڑی جماعتیںپاکستان تحریکِ ا نصا ف، مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی اقتدار کے سنگھاسن پر بیٹھنے کی امید لگائے ہو ئی ہیں۔کوئی شخص یقین سے یہ نہیں کہہ سکتا کہ اگلی حکومت کس جماعت کی ہو گی۔الیکشن کا سب سے دلچسپ پہلو یہ ہے کہ پنجاب اس وقت پاکستان کی ساری سیاست کا مرکز بنا ہوا ہے۔اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ پنجاب میں قومی اسمبلی کی ۰۶ فیصد نشستیں ہیں اور جو جماعت پنجاب میں فتح سے ہمکنار ہو جاتی ہے وہی مرکز میں بآسانی حکومت بنا لیتی ہے ۔اگر ہم پچھلے انتخابی نتائج پر نظر دوڑائیں تو یہ بات بالکل واضح نظر آتی ہے کہ پنجاب میں اکثریتی جماعت نے ہی ہمیشہ مرکز میں حکومت تشکیل دی تھی۔یہ ممکن نہیں ہے کہ پنجاب کی اقلیتی جماعت مرکز میں حکومت تشکیل دے سکے۔اس لحا ظ سے ماضی میں پنجاب کی تینوں بڑی جماعتیں پی پی پی، مسلم لیگ (ن) اور مسلم لیگ (ق) ہی وزارتِ عظمی سے سرفراز ہو تی رہی ہیں کیونکہ ان کے علاوہ کسی دوسری جماعت کا پنجاب میں کوئی قابلِ ذکر وجود نہیں۔کچھ جماعتیں عوامی حمائت کا دعوی تو بہت کرتی ہیںلیکن عملی طور پر ان کا وجود نہ ہونے کے برابر ہے ۔دعووں کی حد تک تو بات سمجھ میں آتی ہے لیکن جب بات عوامی مینڈیٹ تک پہنچتی ہے تو وہ بالکل تہی دامن ثابت ہوتی ہیں۔ میں اس سلسلے میں جماعت اسلامی کی مثال دوں گا جو ہمیشہ اقتدار کے خوا ب تو دیکھتی ہے لیکن انتخابات میں دوچار نشستوں سے زیادہ پر کامیابی سے ہمکنار نہیں ہوتی۔اس دفعہ تو پنجاب میں ان کی حالت انتہائی پتلی ہے کیونکہ اس دفعہ وہ دوسری جماعتوں کی بیساکھیوں کے بغیر انتخابات میں جا رہی ہے۔جما عت اسلامی ہمیشة مسلم لیگ (ن) کی حمائت اور زیرِ سر پرستی پنجاب میں چند نشستیں جیتتی رہی ہے لیکن اس دفعہ مسلم لیگ (ن) کی بے رخی کی وجہ سے پنجاب میں جماعت اسلامی کا مستقبل بالکل تاریک نظر آرہا ہے۔اس کی انتخابی مہم انتہائی پھیکی پھیکی سی ہے کیونکہ وہ کسی بڑی سیاسی جماعت کی چھتر چھایا اور سرپرستی سے محروم ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ جماعت اسلامی ایک منظم جماعت ہے اور ہر حلقے میں اس کا ایک مخصوص ووٹ بینک بھی ہے جو کسی بھی بڑی سیاسی جماعت کی جیت میں اہم رول ادا کر سکتاہے لیکن وہ ووٹ بینک اتنا زیادہ نہیں ہوتا کہ جماعت اسلامی کا اپنا امیدوار اس ووٹ بینک سے بآسانی جیت جائے۔ معلوم نہیں کہ دائیں بازو کی دونوں بڑی جما عتوں مسلم لیگ (ن) اور پاکستان تحریکِ انصاف نے جماعت اسلامی سے اتحاد کرنا کیوں مناسب نہیں سمجھا؟جماعت اسلامی نے کوشش تو بہت کی کہ ان دونوں جماعتوں میں سے کسی ایک سے اس کا ا تحاد ہو جائے لیکن بیل منڈھے نہیں چڑھ سکی۔مذاکرات بھی ہوئے میٹنگیں بھی ہوئیں لیکن مطالبات شائد اس نوعیت کے تھے کہ ان دونوں بڑی جماعتوں نے معذرت کر لی اور یوں جماعت اسلامی بالکل تنہا رہ گئی۔اب انتخابات میں اس کا کہیں ذکر بھی نہیں ہو رہا جو واقعی پریشان کن صورتِ حال ہے۔جماعت اسلامی کی ہمیشہ سے یہ حکمتِ عملی رہی ہے کہ کہ یہ ہر انتخاب سے قبل کوئی نہ کوئی اتحاد قائم کر کے اس کی کھڑپینچ بن جاتی ہے لیکن اس دفعہ جماعت یہ معجزہ سر انجام نہیں دے سکی اور بالکل الگ تھلگ اور اکیلی نظر آرہی ہے جو اس کے وجوداور بقا کو خطر وں سے دوچار کر سکتی ہے ۔ ان انتخابات میں اس کا مستقبل داﺅ پر لگا ہوا ہے ۔حالیہ سالوں میں جماعت اسلامی نے اینٹی اسٹیبلشمنٹ جماعت بننے کی جسارت کر رکھی ہے اور مجھے شک ہے کہ اسٹیبلشمنٹ سے اس کی دوری بھی اس کی تنہائی کا ایک سبب ہے ۔پاکستان میں ہمیشہ سے اسٹیبلشمنٹ کی قوت اور طاقت ایک مسلمہ حقیقت ہے اور جو کوئی اس حقیقت سے چشم پوشی کرتا ہے اس کےلئے سیاسی میدان میں جمے رہنا انتہائی مشکل ہوجا تا ہے اور جماعت اسلامی اسی کی عملی مثال بنی ہوئی ہے۔مذہبی جماتیں ہمیشہ سے اسٹیبلشمنٹ کے مہرے رہی ہیں لیکن افغانستان میں امریکی مداخلت اور طالبان کی حمائت کی وجہ سے مذہبی جماعتوں اور اسٹیبلشمنٹ میں دوریوں نے جنم لیا جن کو فی ا لحال پاٹا نہیں جا سکا۔یہ دوریاں اب بھی موجود ہیں تبھی تو ان انتخابات میں سب سے زیادہ نقصان مذہبی جماعتوں کو برداشت کرنا پڑےگا۔ مذہبی جماعتوں کو دیر یا بدیر اسٹیبلشمنٹ کے پاس ہی جانا ہے کیونکہ ان کا وجود اسٹیبلشمنٹ کی سر پرستی کے بغیر قائم رہنا ممکن نہیں ہے۔ سیاسی بیان بازی کی حد تک تو مذہبی جماعتیں سب سے آگے نظر آئیں گی لیکن پارلیمنٹ میں ان کی غیر موجودگی سے ان کی اہمیت بالکل ختم ہو جائےگی جس پر مذہبی جماعتوں کو ٹھنڈے دل و دماغ سے سوچنے کی ضرورت ہے۔

ان انتخا بات کا سب سے دلچسپ پہلو پاکستان تحریکِ انصاف کی پنجاب میں بڑھتی ہوئی مقبولیت ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ 1970 کے انتخابات میں پنجاب پی پی پی کا سب سے مضبوط قلعہ تھا اور ذولفقار علی بھٹو نے اس قلعے کو اپنی شعلہ بیان قیادت سے فتح کیا تھا ۔جنرل ضیاالحق کے مارشل لاءکے بعد پنجاب میاں برادران کی جولی میں ڈال دیا گیا اور انھوں نے دو دہائیاں اس صوبے پر راج کیا۔اسٹیبلشمنٹ نے کسی نہ کسی طرح سے پنجاب کو میاں برادران کی مٹھی میں دئے رکھا کیونکہ پی پی پی اینٹی اسٹیبلشمنٹ جماعت ہونے کی وجہ سے انھیں قابلِ قبول نہیں تھی۔1988 کے انتخابات میں پی پی پی پنجاب میں قومی اسمبلی کی زیادہ نشستیں جیت گئی لیکن صوبائی انتخابات میں اسلامی جمہوری اتحاد اکثریتی جماعت بن کر سامنے آئی اور یوں میاں برادران کا پنجاب پر قبضہ اسی طرح برقرار رہا۔جاگ پنجابی جاگ تیری پگ کو لگ گیا داغ کا نعرہ دینے والی جماعت اسلامی نے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مل کر میاں برادران کو پی پی پی کی یلغار سے بچایا تھا ،لیکن وقت کی ستم ظریفی دیکھئے کہ وہی جماعت اسلامی اب بالکل تنہا کھڑی ہے اور میاں بردران انہیں کسی بھی طرح کی سیاسی حمائت دینے کےلئے تیار نہیں ہیں ۔12 اکتوبر 1999 کو جنرل پرویز مشرف کے فوجی شب خون کے بعد میاں برادران پر کڑا وقت آیا تو پنجاب ایک دفعہ پھر مسلم لیگ کو ہی دیا گیا لیکن اس فرق کے ساتھ کہ اب مسلم لیگ کی قیادت میاں برادران کی جگہ گجرات کے چوہدری کر رہے تھے۔ اسٹیبلشمنٹ کی حکمتِ عمل کے تحت مسلم لیگ ہی پنجاب کی وارث ٹھہری حالانکہ پی پی پی نے کئی دفعہ مسلم لیگ کوبچھاڑ ا تھا۔حقیقت یہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کی ساری طاقت کی بنیاد پنجاب ہے اور پنجاب کو وہ کسی ایسے ہاتھ میں نہیں دینا چاہتے جو ان کےلئے دردِ سر بن جائے ۔جنرل پرویز مشرف اور میاں برادران کی باہمی جنگ میں اسٹیبلشمنٹ میں بھی دراڑیں پڑ گئیں کیونکہ اسٹیبلشمنٹ کا ایک قابلِ ذکر حصہ میاں برادران سے ہمدردی رکھتا تھا۔عدلیہ اور میاں برادران کی باہمی دوستی بھی اسٹیبلشمنٹ کےلئے خطرے کی گھنٹی بننے لگی تو اسٹیبلشمنٹ نے نئی حکمتِ عمل اپنانے کا فیصلہ کیا۔میاں برادران اور اسٹیبلشمنٹ میں بھی ہلکی ہلکی دوریوں کا ا حساس ابھرنے لگاجسے میاں شہباز شریف اور چوہدری نثار علی نے اسٹیبلشمنٹ سے خفیہ ملاقاتوں سے دور کرنے کی کوشش کی لیکن انھیں اس میں خا طر خواہ کامیابی حاصل نہ ہو سکی ۔ اپنی بالا دستی قائم کرنے کےلئے اسٹیبلشمنٹ نے پنجاب میں ایک نئی سیاسی قوت پاکستان تحریکِ انصاف کو متحرک کرنے کا فیصلہ کیا ۔ 30 اکتوبر 2011 کو اقبال پارک لاہور میں تحریکِ انصاف کا جلسہ اس کا نقطہ آغاز تھا۔آئی ایس آئی کے سابق سربراہ شجاع پاشا ا س منصوبے کے بانی تھے اور انھوں نے پاکستان تحریکِ انصاف کو مضبو ط کرنے میں بڑا اہم رول ادا کیا۔میاں برادران نے جنرل شجاع پاشا کی ان حرکات پرکڑی تنقید بھی کی لیکن جنرل شجاع پاشا کے ذمے جو کام لگا یا گیا تھا وہ انھوں نے بڑے احسن طریقے سے سرانجام دیا۔ عمراں خان نے اس حمائت کو جسطرح عوامی قوت میں بدل ڈالا وہ ان کا بہت بڑا کارنامہ ہے۔پاکستان تحریک ِانصاف اس وقت پنجاب کی بہت بڑی قوت ہے اور پنجاب پر اپنا دعوی جتا رہی ہے۔(جاری ہے) ۔۔۔۔۔۔
Tariq Hussain Butt
About the Author: Tariq Hussain Butt Read More Articles by Tariq Hussain Butt: 629 Articles with 516032 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.