پاک لوگوں کی سرزمین اور گدھ نما حکمران

پاک لوگوں کی سرزمین پر سیاسی گدھوں نے قبضہ کر لیا ہے اوراوپر سے ستم ظریفی یہ ہے کہ یہ سیاسی گدھ انتہا درجے کے ظالم ہیں اگر یہ کہا جاے کہ آزادی کے وقت انہوں نے گورے حکمرانوں سے جاتے جاتے سے پوئندکاری کروا لی تھی تو یہ غلط نہ ہو گا قیام پاکستان کے بعد سے اب تک ظالم حکمرانوں نے عوام کو چکی میں آٹے کی طرح پیس کر رکھ دیا ہے صدقے جاوں اس بھولی عوام کے جو پھر بھی آوے ہی آوے اور جاوے ہی جاوے کے نعرے لگا لگا کر ایک بار پھر ہلکان ہونے کو ہے، گو کہ اس بار سٹیٹس کو کی پارٹیوں کوشدید خطرات بھی درپیش ہیںمگر غالب گمان پھر بھی یہ ہی ہے کہ حکمران پھر گھوم پھر کہ یہ ہی ہوں گے ، اور عوام کا مقدرپھر انکے ہاتھوں میں ہو گا اور اگلے پانچ سال پھر ذلت رسوائی کے ساتھ گزر جائیں گے، پانچ سال پہلے جب اُس ڈکیٹر کی حکومت ختم ہوئی جو ڈرتا ورتا نہیں تھا تو عوام نے سکھ کا سانس لیا اور کیا کیا خواب آنکھوں میں سجا کے بیٹھ گے کہ اب روٹی ہو گی سستی دودھ اور شہد کی نہریں بہہ جائیں گی پاکستان ترقی کے راستے پر گامزن ہو جائے گامگر صرف ایک سال بعد ہی آس امیدسب کچھ خاک میں مل گیاقتدار ملنے کو فوری بعد حکمران ٹولے نے اند ر کھاتے ایک گول میز کانفرنس بلائی اور سب کو سمجھایا کہ اپنے اپنے حصے کی لوٹ مار کرو اور اگلے پانچ سال کے لیے نئے نئے نقشے بناو اپنے وارثوں کی ٹریننگ کرو کہ کس طرح پھر لوٹ مار کرنی ہے پارلیمنٹ میں موجود سب پارٹیوں نے اس نادر نسخے کو پلے بھاند لیا اور پانچ سال وہ وہ کام کیے کہ رہے نام اللہ کا،پہلے تین سال پنجاب میں مل جل کر لوٹ مار ہوئی بلوچستان اسمبلی دنیا کی واحد اسمبلی بن گئی جہاں سب کے سب حکومت میں تھے پانچ سال کوئی ایک بندہ اپوزشن میں نہیں تھا ،کچھ یہ حال سندھ اور خیبر پختون خواہ کا رہا،2013 کے الیکشن سے صرف چھ ماہ پہلے عوام کو دکھانے کے لیے لڑائی لڑائی کا کھیل شروع ہو ا تاکہ عوام کو یہ باور کرایا جا سکے کہ ہم نے اصل اپوزیشن کا کردار ادا کیا ، پیش بندی کے طور پر الیکشن جیتنے کے لیے میڈیا ہاوسز بک گئے ،صحافیوں کی بولیاں لگ چکی،پولیس بیورکریسی خریدی جا چکی، اور تو اور نگران حکومت کے وزیر عل اعلان اپنے اپنے مستقبل کو بہتر کرنے کے لیے پسند کے بندوں کی کمپین میں مصروف ہیں،اس سب کے بعد کونسی تبدیلی اور کہاں کی تبدیلی،حالات و وقعات بتاتے ہیں کہ ہمھیں اگلے پانچ سال زلیل و رسوا ہونے کے لیے زہنی طور پر تیار ہو ناہو گا،ہم سب کچھ بھول کے پھر ان لوگوں کو منتخب کرنے کے در پے ہیں صرف رنگ میں بھنگ ان بچوں نے ڈال رکھی ہے جو پہلی بار اپنا ووٹ کاسٹ کرنے جا رہے ہیں جی ہاں یہ دو کروڑ کے لگ بھگ نئے ووٹر جو پچھلے الیکشن میں ووٹ کاسٹ کرنے کے اہل نہ تھے ، یہ دو کروڑ کے قریب نوجوان جو ابھی کل کے بچے ہیں وہ سب سے بڑی رکاوٹ محسوس ہو رہے ہیں یہ وہ نوجوان ہیں جو عقل فہم سے عاری ہے کیونکہ شنید ہے کہ یہ اپنے بڑھوں کی طرح غلامی کو طوق اپنے گلوں میں نہیں ڈالنا چاہتے اس وجہ سے کبھی نہ پریشان ہونے والے یہ گدھ نما حکمران جو پچھلے 65 سال سے سب کچھ چٹ کر گے اور لکڑ ہضم پتھر ہضم کے فارمولے پے کارفرما یہ کھربوں پتی سیاست دان جنکو پچھلے 65 سالوں میں کبھی کسی نے انکار نہیں کیا ان کل کے چھوکروں کی وجہ سے پریشان ہیں اور بیچارے پریشان کیوں نہ ہوں انکی پکی فصل کو یہ نوجوان آگ لگانے پے تل بیٹھے ہیںگو کہ کوشش تو بہت کی کہ ان بچوں کو رشوت دے کر خریدا جا سکے مگر یہ بچے جو ابھی اتنے عقل مند بھی نہیں وہ بہت عقل مند ثابت ہو ے اور مختلف سیاسی رشوتیں لیکر بھی ابھی تک تو ووٹ دینے سے صاف انکاری ہیں،اور اسی وجہ سے سیاسی گدھوں کا یہ ٹولہ کچھ پریشان پریشان دکھائی دے رہا ہے -

اب ان بچوں کو کون سمجھائے کہ وہ جن سے پھڈا لے بیٹھے ہیں، یہ سب کچھ آن کی آن میں سب کچھ چٹ کر جاتے ہیں انکے والدین کو تو پتہ ہی ہے کہ پچھلے پانچ سال میں یہ کیا کیا چٹ کر گے سٹیل مل کے ٹائی ٹینک سے لیکر پی آئی اے جیسے جن کھا گئے ، اور تو اور ریلوے کا لوہا اتنا زنگ آلود کر گئے کہ وہ بادامی باغ کی بھٹیوں میں آسانی سے گل جائے، یہ حاجیوں پے ظلم سے باز نہیں آتے کیونکہ انہیں پورا یقین ہے کہ انہیں کسی کی بدعا نہیں لگتی حالات جیسے بھی ہوں یہ اپنے مفاد میں اکھٹے ہو جاتے ہیں چاہے یہ پنجاب میں ہوں یہ سندھ میں چاہے یہ بلوچستان میں ہوں یا خیبر پختون خواہ میں ان میں بلا کا اتفاق ہے یہ گدھوں کے اصل وارث ہیں کیونکہ پچھلے پانچ سال میں جہاں بھی کوئی شکار انکی پہنچ میں آیا یہ مل جل کے کھاگے ، ان میں ایک خصوصیت بندروں والی بھی پائی جاتی ہے اگر انکے مفادت کو زرا برابر بھی نقصان کا اندشیہ ہو یہ شور مچا کر سب کو اکھٹا کر لیتے ہیں لہذا سیاسی گدھوں اور جدید بندروں کی خصلت والے سیاست دانوں کی راہ میں روڑے نہ ہی آٹکائے جائیں تو بہتر ہے ، اور اگر یہ بچے انکی مخالفت میں ووٹ ڈالنا ہی چاہتے ہیں تو پھر انہی کے ایک طریقے کو آپناتے ہوئے انکی مخالفت میں اتنے ووٹ ڈالیں کہ انکی نسلیں یاد کریں کیونکہ اگر یہ ایک بار اور اسمبلی میں آ گے تو پھر انکی بجائے تمھاری نسلیں یاد کریں گی ، ٹھنڈے دماغ سے سوچ لو اگر پھر بھی تم ان سیاسی گدھوں کے مخالف ووٹ دینا چاہتے ہو تو ایسا دھوبی پٹکہ مارو کہ یہ اپنی نسلوں کو بھی سبق دیں کہ جس ملک کے نوجوان اکٹھے ہو جائیں وہاں سے کہیں اور چلے جاؤ، اور ان سے پنگا نہ لو ، یاد رکھنا نوجوانو اگرسستی دکھائی تو تمھاری اس بیوقوفی سے بات نسلوں تک جائے گی -

 

Naveed Rasheed
About the Author: Naveed Rasheed Read More Articles by Naveed Rasheed: 25 Articles with 24554 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.