حضور مولانا محمد یوسف کاندھلوی ؒ اپنی تصنیف حیات الصحابہ ؓ میں تحریر کرتے ہیں کہ
حضرت عروہؓ فرماتے ہیں کہ حضور کی زوجہ محترمہ حضرت عائشہ ؓ نے ان سے فرمایا کہ
انہوں نے حضور سے پوچھا کہ جنگ احد کے دن سے بھی زیادہ سخت دن آپ پر کوئی آیا ہے ؟
آپ نے فرمایا کہ مجھے تمہاری قوم کی طرف سے بہت زیادہ تکلیفیں اٹھانی پڑیں اور ان
کی طرف سے مجھے سب سے زیادہ تکلیف عقبہ (طائف ) کے دن اٹھانی پڑی ۔میں نے (اہل طائف
کے سردار ) ابن عبد یا لیل بن کلال کے سامنے اپنے آپ کو پیش کیا ۔(کہ مجھ پر ایمان
لاﺅ۔اور میری نصرت کرو اور مجھے اپنے ہاں ٹھہرا کر دعوت کا کام آزادی سے کرنے دو)
لیکن اس نے میری بات نہ مانی میں (طائف سے ) بڑا غمگین اور پریشان ہو کر اپنے راستہ
پر (واپس ) چل پڑا ۔( میں یونہی غمگین اور پریشان چلتا رہا ) قرن ثعالب مقام پر
پہنچ کر (میرے اس غم اور پریشانی میں )کچھ کمی آئی تو میں نے اپنا سراٹھایا تو
دیکھا کہ ایک بادل مجھ پر سایہ کیے ہوئے ہے ۔میں نے غور سے دیکھا تو اس میں حضرت
جبرائیل ؑتھے ۔انہوں نے مجھے آواز دی اور کہا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کی قوم کی وہ
گفتگو جو آپ سے ہوئی سنی اور ان کے جوابات سنے اور ایک فرشتہ کو جس کے متعلق پہاڑوں
کی خدمت ہے آپ کے پاس بھیجا ہے کہ آپ ان کفار کے بارے میں جو چاہیں اسے حکم دیں ۔اس
کے بعد پہاڑ وں کے فرشتے نے مجھے آواز دے کر سلام کیا اور عرض کیا اے محمد آپ نے جو
حضرت جبرائیل ؑ سے سنا ہے وہ بالکل ٹھیک ہے آپ کیا جانتے ہیں ؟ اگر آپ ارشاد فرما
دیں تو میں ( مکہ کے ) دونوں پہاڑوں ( ابو قبیس او ر احمر )کو ان پر ملا دوں ( جس
سے یہ سب درمیان میں کچل جائیں )حضور اقدس نے فرمایا نہیں بلکہ مجھے امید ہے کہ
اللہ تعالیٰ ان کی پشتوں میں ایسے لوگوں کو پیدا فرمائے گا جو ایک اللہ عزوجل کی
عبادت کریں گے اور اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہیں کریں گے ۔
قارئین اخلاقیات کے تمام سبق اللہ تعالیٰ کے کلام اور انبیاءؑ کی زندگی میں ملتے
ہیں ۔ہمارا یہ ایمان او رعقیدہ ہے کہ اگر قرآن او ر سنت کی رسی کو مضبوطی سے تھام
لیا جائے تو بحیثیت انسان بھی اصلاح یقینی ہے اور بحیثیت مسلمان بھی ہم ایک آئیڈیل
انسان بن سکتے ہیں ۔بد قسمتی سے دین اور دینی شخصیات کو ہر دور میں مختلف طبقوں نے
اپنے اپنے مقاصد کے لیے استعمال کیا اور دین کی اصل روح سے انحراف کرنے کا یہ نتیجہ
نکلا کہ دین کا لبادہ اوڑھے جو بھی شخصیت سامنے آئی منافقت کے طرز عمل کی وجہ سے وہ
” آدھا تیتر آدھا بٹیر “ ٹائپ کی ایک ایسی چیز بن گئی کہ جو خلق خدا میں کم از کم
آئیڈیل کہلانے کے لائق نہیں تھی ۔دین اسلام کے اصل پیروکار ہمارے خیال میں ایسی
متوازن شخصیات ہوتی ہیں کہ جنہیں دیکھ کر ایمان لانے کا جی چاہتا ہے ۔
قارئین گیارہ مئی 2013کا دن قریب آتا جا رہا ہے اور ملکی تاریخ کے ”خونی ترین
انتخابات “آمدہ الیکشن ثابت ہوچکے ہیں اللہ ہمارے ملک اور ہماری قوم پر رحم فرمائے
آمین ۔
قارئین اس وقت بلا ،شیر اورتیر وہ اہم ترین انتخابی نشان ہیں جو لوگوں کی توجہ کا
مرکز بنے ہوئے ہیں اسلام آباد جیسے سرسبز وشاداب خوبصورت دارالحکومت سے لیکر سندھ
کے ریگستانوں تک اور پنجاب کے نہری علاقوں سے شہری علاقوں تک اس وقت تحریک انصاف کے
سربراہ عمران خان ،پاکستان مسلم لیگ ن کے شریف برادران اور کسی حد تک پاکستان
پیپلزپارٹی کے قائدین دھواں دار قسم کے جلسوں میں مصروف دکھائی دے رہے ہیں الزامات
در الزامات اور دعوﺅںکی ایک بھرمار ہے جو عوام کے سامنے پیش کی جارہی ہے پرنٹ میڈیا
سے لیکر الیکٹرانک میڈیا تک اور ان سب سے بڑھ کر فیس بک اور سوشل میڈیا پر خوبصورت
تبصرے ،طنزیہ خاکے ،دلچسپ کارٹون عوامی توجہ کا مرکز بنے ہوئے ہیں ۔
قارئین ہم نے اسی حوالے سے ایک نئے زاویے کے تحت ایف ایم 93ریڈیو آزادکشمیر کے
مقبول ترین پروگرام ”لائیو ٹاک ود جنید انصاری “میں استاد محترم راجہ حبیب اللہ خان
کے ہمراہ ”الیکشن 2013،سیاسی جماعتوں کے منشور اور کشمیر “کے عنوان سے ایک مذاکرہ
رکھا اس تاریخی مذاکرے میں پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے سابق جنرل سیکرٹری
اور ایکسپریس نیوز ٹی وی کے ڈائریکٹر نیوز اینڈ کرنٹ افیئرز مظہر عباس ،پاکستان
مسلم لیگ ن کے مرکزی ترجمان صدیق الفاروق ،روزنامہ پاکستان کے ایڈیٹر سیف اللہ خان
نیازی،چیئرمین پاکستان پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری کے پولٹیکل کوآرڈینٹر برائے
کشمیر ارشد برقی اور بہت بڑی تعداد میں سامعین نے دنیا بھر سے شرکت کی۔مظہر عباس نے
موضوع کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں گیارہ مئی کو ہونے والے
الیکشن انتہائی کٹھن حالات میں منعقد ہورہے ہیں پاکستان بھر میں دہشت گرد اپنی تمام
قوت کے ساتھ جمہوری عمل کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کررہے ہیں پاکستان میں بدقسمتی سے
آبادی کا بہت بڑا حصہ ناخواندہ ہے شہری علاقوں میں تو صورت حال کسی حد تک گوارہ ہے
لیکن دیہاتی علاقوں میں اب بھی اس ترقی یافتہ دور میں برادری ازم ،علاقائیت اور
دیگر تعصبات کی بنیاد پر ووٹ ڈالے جاتے ہیں انتخابی منشور کس چڑیا کا نام ہے کوئی
نہیں جانتا پاکستان مسلم لیگ ن ،پیپلزپارٹی ،تحریک انصاف سے لیکر تمام قومی اور
صوبائی جماعتیں نام کی حد تک منشور کی بات کررہی ہیں لیکن اصل گیم آخر میں جاکر
شخصی مقناطیسیت ،برادری ازم اور دیگر تعصبات پر جاکر ٹھہرتی ہے مظہر عباس نے
انتہائی افسوس کے ساتھ بتایا کہ 1947ءسے لیکر اب تک تخریبی ارتقاءیا ارتقائی تخریب
کے نتیجے میں بہت سے قومی ایشوز پس پردہ چلے گئے ہیں کشمیر جس کے متعلق قائد اعظم
محمد علی جناح ؒ بانی پاکستان کا یہ فرمان تھا کہ ”کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے “اسے
بھی اب نام کی حد تک مسلم لیگ ن اور دیگر مسلم لیگیں Ownکرتی ہیں جبکہ پاکستان
پیپلزپارٹی جس کی بنیاد ہی ذوالفقار علی بھٹو نے کشمیر کے نام پر رکھی تھی اور
اقوام متحدہ میں پوری دنیا کے سامنے اعلان کیاتھا کہ ”ہم کشمیر کے لیے ایک ہزار سال
تک جنگ لڑنے کیلئے بھی تیار ہیں “اب وہ پارٹی بھی کشمیر کے مسئلے کے عملی حل کے
حوالے سے بیک فٹ پر دکھائی دیتی ہے رہی بات پاکستان تحریک انصاف اور دیگر جماعتوں
کی تو اُن کا موقف بھی کچھ مختلف دکھائی نہیں دیتا رہی بات کشمیری قیادت کی تو
افسوس کے ساتھ یہ بات کہنی پڑتی ہے کہ کشمیری لیڈرشپ یورپ برطانیہ اور دیگر ممالک
کے دورے کرکے سمجھتے ہیں کہ انہوںنے اپنے فرائض اداکردیئے اور عوام کے خون پسینے سے
اکٹھے کیے گئے ٹیکس کے قیمتی پیسے کو فارن ٹورز پر کشمیر کے نام پر خرچ کرکے یہ
لیڈرز مطمئن ہوجاتے ہیںکہ شاید انہوں نے اپنافرض اداکردیا پاکستانی لیڈر شپ ”کشمیر
کمیٹی “کے چیئرمین کی نشست کو اہمیت دیتی ہے جس کی ویلیو ایک وفاقی وزیر کے برابر
ہے اس سے بڑھ کر عملا ً کشمیر کیلئے کسی کو کسی قسم کا کوئی درد نہیں ہے مظہر عباس
نے انتہائی فکر انگیز انداز میں بتایا کہ حالانکہ یہ بات پتھر پر لکھی ہوئی سچائی
ہے کہ پاکستان اور ہندوستان جیسے دوجوہری ممالک کے درمیان نفرتوں اور کشیدگی کی صرف
اورصرف ایک ہی وجہ ہے اور وہ مسئلہ کشمیر ہے سیاسی جماعتیں اسے اپنے منشور کا حصہ
بنائیں یا نہ بنائیں اس سچائی کو کوئی بھی نہیں جھٹلا سکتا کہ اگر ہم جنوبی
ایشیاءمیں امن اور ترقی چاہتے ہیں تو کشمیر کے تنازعے کو کشمیری عوام کی رائے کے
مطابق حل کرنا ہوگا اس کے بغیر ہندوستان اور پاکستان کی ترقی ناممکن ہے پروگرام کے
دوسرے مہمان پاکستان مسلم لیگ ن کے مرکزی ترجمان صدیق الفاروق نے گفتگو کرتے ہوئے
بتایا کہ پاکستان مسلم لیگ ن کے منشور کی ڈرافٹنگ سے لیکر اُردو ترجمے تک تمام کام
انہوںنے اپنی نگرانی میں مکمل کرایا ہے اور اس پر بھرپور محنت کی گئی ہے صدیق
الفاروق کا کہنا تھا کہ پاکستان مسلم لیگ ن کے سابقہ ادوار حکومت میں کیے گئے
انتخابی وعدوں اور ان وعدوں پر کتنا عمل ہوا اس منشور میں وہ بھی واضح کیاگیا ہے
اور اسی طرح آئندہ الیکشن جیتنے کے بعد حکومت بنانے کی صورت میں پاکستان مسلم لیگ ن
ملک سے توانائی کے بحران کے خاتمے ،دہشت گردی کی لعنت سے چھٹکارے ،انتہا پسندی سے
نمٹنے ،صحت تعلیم دفاع ،سیاحت سے لیکر ہر موضوع پر واضح ترین اقدامات اور پلاننگ کو
عوام کے سامنے رکھ چکی ہے ان تمام چیزوں کے ساتھ ساتھ مسئلہ کشمیر کے حل کے حوالے
سے ہم اسی موقف پر قائم ہیں جس کے تحت اعلان لاہور کیاگیاتھا جنگیں مسئلوں کا حل
نہیں ہوتیں ہم بھار ت کے ساتھ برابری کی بنیاد پر مذاکرات کے ذریعے مسئلہ کشمیر حل
کرناچاہتے ہیں لیکن اس کیلئے سب سے اہم ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان تمام داخلی
اور خارجی محازوں پر فتح یاب ہو پاکستان کی معیشت ترقی کرے اور پاکستان ایک طاقتور
ترقی یافتہ ملک کے طور پر دنیا کے نقشے پر اُبھرے کمزور کا موقف کتنا بھی درست کیوں
نہ ہو اس کی بات میں وہ وزن نہیں ہوتا جو کسی طاقت ور کے کمزور ترین موقف کو
دیاجاتاہے یہی وجہ ہے کہ پاکستان مسلم لیگ ن سمجھتی ہے کہ مسئلہ کشمیر کو حل کروانے
کیلئے پاکستان کا ایک مضبوط ملک کے طور پر عالمی برادری میں ترقی کرنا ضروری ہے اس
مقصد کے حصول کیلئے ہم نے بھرپور جدوجہد پہلے بھی کی ہے اور اب بھی کریں گے صدیق
الفاروق کا کہناتھا کہ پنجاب میں اس وقت مسلم لیگ ن کی ہوا چل پڑی ہے اور بڑے بڑے
برج منہ کے بل گریں گے ہم الیکشن میں فتح حاصل کرکے اپنے انتخابی منشور کی روشنی
میں میاں محمد نوازشریف کی قیادت میں ایک نئے پاکستان کی بنیاد رکھیں گے جو کشمیر
کی آزادی کا ضامن بھی ہوگا داخلی سطح پر آزادکشمیر کی حکومت کو این ایف سی میں حصہ
دیاجائے گا اور ارسا میں نمائندگی کے علاوہ گلگت بلتستان اور آزادکشمیر کو زیادہ سے
زیادہ داخلی خود مختاری دی جائے گی تاکہ یہ علاقے ترقی کرسکیں پروگرام کے اگلے
مہمان روزنامہ پاکستان کے ایڈیٹر سیف اللہ خان نیازی نے گفتگو کرتے ہوئے اس تشویش
کا اظہار کیا کہ اس وقت پاکستان تحریک انصاف ،پاکستان مسلم لیگ ن اور چند مذہبی
جماعتوں کے علاوہ پاکستان پیپلزپارٹی ،اے این پی ،ایم کیوایم اور دیگر سیاسی قوتوں
کو کھل کر انتخابی مہم چلانے کا موقع نہیں مل رہا انتہا پسند قوتیں اور دہشت گرد
براہ راست ان سیاسی جماعتوں کو ٹارگٹ کیے ہوئے ہیں سیف اللہ خان نیازی کا کہناتھا
کہ گیارہ مئی 2013ءکے انتخابات ملتوی بھی ہوسکتے ہیں 27دسمبر جیسا کوئی بڑا حادثہ
اگر پیش آگیا تو انتخابات کا انعقاد کھٹائی میں پڑ سکتاہے سیف اللہ خان نیازی نے
گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ مسئلہ کشمیر پاکستان اور ہندوستان کے درمیان اختلافات کی
بنیادی وجہ ہے سیاسی جماعتیں منشور میں اسے شامل کریں یا نہ کریں اس مسئلے کو حل
کیے بغیر ان دونوں ممالک کے درمیان موجودہ اختلافات دور نہیں ہوسکتے ۔پروگرام کے
اگلے مہمان چیئرمین پاکستان پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری کے پولٹیکل کوآرڈنیٹر
برائے کشمیر ارشد برقی نے کہا کہ پیپلزپارٹی کی قیادت نے کشمیر کے نام پر یہ جماعت
بنائی تھی اور ذوالفقار علی بھٹو شہید سے لیکر محترمہ بینظیر بھٹو شہید تک اور
موجودہ صدر پاکستان آصف علی زرداری کا کشمیر کے حوالے سے موقف کسی بھی قسم کے ابہام
سے پاک ہے مسئلہ کشمیر کے حل کے حوالے سے پیپلزپارٹی نہ کوئی سودے بازی کرسکتی ہے
اورنہ ہی کسی کو کرنے کی اجازت دے گی ارشد برقی نے کہا کہ محترمہ بینظیر شہید
برطانیہ جب بھی آتیں تو یہ کشمیری تارکین وطن ہی تھے جو اپنی محبوب قائد کا والہانہ
استقبال کرتے تھے قائد کشمیر بیرسٹر سلطان محمود چوہدری سابق وزیر اعظم برطانیہ سے
لیکر یورپ تک اور امریکہ سے لیکر دنیا کے تمام بین الاقوامی فورمز تک مسئلہ کشمیر
کے حل کیلئے عملی جدوجہد کررہے ہیں اس جدوجہد کا کوئی بھی انکار نہیں کرسکتا
پاکستان کے آئندہ انتخابات میں پیپلزپارٹی بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل کرے گی ۔
قارئین یہ تو وہ گفتگو تھی جو اس اہم مذاکرے میں معزز شخصیات نے استاد محترم راجہ
حبیب اللہ خان اور راقم کے سوالات کے جوابات دیتے ہوئے کی کچھ باتیں بین السطور بھی
ہوتی ہیں اس وقت بلا ،شیر اور تیر تین ایسی قوتیں ہیں جو پاکستان کی تقدیر بن سکتی
ہیں اس مذاکرے کے دوران میرپور کے ایک درد دل رکھنے والے صحافی راجہ آزادحسین نے
فون کال کے ذریعے شرکت کی اور ارشد برقی سے جلے بھنے انداز میں ادب کے ساتھ پوچھا
کہ جناب والا پیپلزپارٹی کی حکومت نے برسراقتدار آنے سے قبل یہ وعدے کیے تھے کہ
عوام کو روٹی کپڑا اور مکان مہیا کریں گے اور کشمیر کا مسئلہ بھی حل کریں گے تو
عالیٰ جاہ روٹی کپڑا اور مکان بھی چھین لیا گیا ہے اور آٹھ لاکھ کشمیریوں کے خون سے
رنگین کشمیر کی آزادی بھی خواب وسراب بن کررہ گئی ہے اور غریب پاکستانی عوام سی این
جی سے لیکر دیگر تمام ضروریات زندگی حاصل کرنے کیلئے یا تو لائنوں میں کھڑی دکھائی
دیتی ہے اور یا پھر لوگ جرائم پیشہ لوگوں کے آلہ کار بن کر ملک میں تباہی پھیلا رہے
ہیں اور یا پھر بے بسی اس حد تک بڑھ گئی ہے کہ غریب عوام اپنے بچے اور گردے بیچنے
پر مجبور ہوگئے ہیں تو جناب ارشد برقی صاحب یہ بتائیں کہ یہ ترقی معکوس کس نوعیت کی
تھی کہ جس نے پانچ سالوں کے دوران غریب عوام کا ستیا ناس کرکے رکھ دیا راجہ
آزادحسین کا یہ سوال اتنا تلخ اور درد سے بھرپور تھا کہ راقم اور استاد گرامی راجہ
حبیب اللہ خان گویا گونگے ہوگئے ہم نے ارشد برقی صاحب سے گزارش کی کہ حضور اس
انتہائی چبھتے ہوئے سچے سوال کا آپ خود ہی جواب دیں اس پر ارشد برقی کا کہناتھا کہ
اس وقت بڑی بڑی سامراجی قوتیں پاکستان کو ٹارگٹ بنائے ہوئے ہیں ،دہشت گردی کا عفریت
پیپلزپارٹی کو ورثے میں ملا اور توانائی کا بحران بھی میاں برادران اور جنرل مشرف
کا پیداکردہ تھا ہم آئندہ پانچ سالوں میں برسراقتدار آنے کی صورت میں روٹی بھی دیں
گے ،کپڑا بھی دیں گے اور مکان بھی دیں گے اورمسئلہ کشمیر تو ضرور حل کریں گے ۔
بقول علامہ اقبال ؒہم آپ کے سامنے یہ عرض کرتے چلیں
عالم ِآب وخاک و باد ! سرعیاں ہے تو کہ میں ؟
وہ جو نظر سے ہے نہاں اس کا جہاں ہے تو کہ میں؟
وہ شبِ درد و سوز و غم کہتے ہیں زندگی جیسے
اس کی سحر ہے تو کہ میں ؟اس کی اذاں ہے تو کہ میں؟
کِس کی نمود کے لیے شام و سحر ہیں گرم شیر
شانہ روزگار پر بارِگراں ہے تو کہ میں؟
تو کفِ خاک و بے بصر! میں کفِ خاک و خود نگر!
کشتِ و جود کے لیے آبِ رواں ہے تو کہ میں؟
قارئین پاکستان تحریک انصاف کے قائد عمران خان تبدیلی کی بات کر رہے ہیں ،پاکستان
مسلم لیگ ن کی قیادت اپنی سابقہ ادوار حکومت میں ہونے والی ترقی کے تسلسل کی بات
کرتی ہے اور پاکستان پیپلزپارٹی کے قائدین بھٹو شہداءکے فلسفے کی بات کرتے ہیں اور
روٹی کپڑا اور مکان کے گن گاتے ہیں ہم انتہائی دیانتداری سے یہ سمجھتے ہیں کہ مسئلہ
کشمیر پاکستان اور ہندوستان کی معاشی بد حالی کی وجوہات میں سے ایک بڑی وجہ ہے
کشمیر کے تنازعہ کی وجہ سے 1947سے لے کر آج تک ان دونوں ممالک نے کھربوں روپے
ہتھیاروں کی دوڑ میں خرچ کر دیے ۔پاکستان چونکہ دو قومی نظریہ کی بنیاد پر وجود میں
آیا اور ہندو رہنماﺅں نے اس مملکت کو کبھی بھی دل سے تسلیم نہ کیا ۔کشمیری مجاہدین
نے بھارت کے ظلم کے خلاف اور اپنی آزادی کے لیے جدوجہد جاری رکھی اور آج کشمیر
لاکھوں شہداءکے خون سے رنگین ہے جب تک مسئلہ کشمیر حل نہیں کیا جائے گا تب تک عالمی
ضمیر کے دامن پر لگا داغ صاف نہیں ہو گا ۔پاکستانی سیاسی جماعتیں پاکستانی اور
کشمیری عوام کے حال پر رحم کریں اور داخلی اور خارجی محاذوں پر موجود تمام خطرات سے
نمٹنے کے لیے نیک نیتی کا مظاہرہ کریں ۔مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہمارا یہ بھی عقیدہ
ہے کہ حق و باطل کی کشمکش قیامت تک جاری رہے گی اور اہل حق قلیل تعداد میں ہونے کے
باوجود ضرور سرخرو ہوں گے ۔مسلمان کے لیے با عمل ہونے کی صورت میں دونوں جانب
کامیابی کا پیغام ہے مر گئے تو شہید زندہ رہے تو غازی ۔۔۔سوچنے کی ضرورت ان لوگوں
کو ہے جو تبدیلی ،ترقی کے تسلسل یا عوامی ترقی کی بات کریں اور وہ بات محض ایک بات
بن کر رہ جائے۔عمل کے بغیر قول ایسے ہی ہے جیسے جسم بغیر روح کے ۔اللہ تعالیٰ
پاکستانی اور کشمیری عوام پر رحم فرمائے اور انتخابات کے پردے سے اللہ تعالیٰ کا
رحم و کرم برآمد ہوتا کہ غربت ،مہنگائی ،دہشت گردی ،انتہا پسندی اور قتل و غارت گری
کے چنگل میں پھنسی اٹھارہ کروڑ عوام بھی سکھ کا سانس لے اور ڈیڑھ کروڑ کشمیریوں کے
لیے بھی آزادی کا پیغام سامنے آئے ۔آمین ۔
آخر میں حسب روایت لطیفہ پیش خدمت ہے ۔
امریکی جج نے کٹہرے میں کھڑے مجرم سے پوچھا
”تمہاری دو بیویاں کار کے حادثے میں ہلاک ہوئیں ،دونوں مرتبہ گاڑی کے بریک فیل ہوئے
کیا میں پوچھ سکتا ہوں کہ تمہاری تیسری بیوی کی موت زہر کھانے سے کیوں ہوئی ؟ “
مجرم نے انتہائی معصومیت سے جواب دیا
” جناب عالی تیسری بیوی ڈرائیونگ نہیں جانتی تھی ۔
قارئین بلا ،شیر اور تیر تینوں آپ کے سامنے ہیں اور مسئلہ کشمیر بھی موجود ہے
،فیصلہ آپ کے ہاتھوں میں ہے خدا را ووٹ کی قوت کو درست طریقے سے استعمال کریں تا کہ
آپ کے مسائل بھی حل ہوں اور مظلوم کشمیری بھی سکھ کا سانس لے سکیں ۔ |