پاکستان کے دیگر شہروں کی طرح خطہ پوٹھوار کے دل گوجر خان میں بھی سیاسی ماحول کافی
گرم دکھائی دے رہا ہے۔گوجر خان سے NA-51قومی اسمبلی جبکہ pp-3اورpp-4قومی اسمبلی کا
حلقہ ہے۔شہر گوجر خان کو یہ شرف حاصل ہے کہ اس کا ایک فرزند راجہ پرویز اشرف
پاکستان کا وزیر اعظم رہ چکا ہے اور اشفاق پرویز کیانی کی شکل میں دوسرا فرزند آرمی
چیف ہے۔11 مئی کو گوجر خان کے حلقے NA-51سے تین بڑی سیاسی پرٹیوں کے درمیان کانٹے
دار مقابلہ ہو گا جن میں پاکستان پیپلز پارٹی ،مسلم لیگ نواز اور پاکستان تحریک
انصاف شامل ہیں۔گوجر خان کے حلقہ NA-51سے سات سیاسی پارٹیوں نے اپنے امیدوارانتخابی
میدان میں اتار دیئے ہیں جن میں تین مقبول ترین پارٹیوں کے علاوہ متحدہ قومی موومنٹ،
عوامی نیشنل پارٹی،جماعت اسلامی اور جمیعت علماءاسلام(نورانی گروپ) شامل ہیں جبکہ
دو آزاد امیدوار بھی انتخابی اکھاڑے میں کود پڑے ہیں۔تمام پارٹیاں آج کل زور و شور
سے اپنی اپنی انتخابی مہم چلانے میں مصروف ہیں اور ایک دوسرے کے خلاف بیان بازی بھی
عروج پر ہے حالانکہ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے اس قسم کی بیان بازی پر پابندی لگا
رکھی ہے مگر افسوس کہ الیکشن کمیشن کی سننتا کون ہے؟
2008کے عام انتخابات مین پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما راجہ پرویز اشرف نے گوجر خان
کے حلقہNA-51سے کامیابی حاصل کی تھی جس کی سب سے بڑی وجہ اس وقت محترمہ بے نظیر
بھٹو کی شہادت تھی جس کے افسوس میں لوگوں نے پیپلز پارٹی کو ووٹ دیئے لیکن اب اس
الیکشن میں شائد ایسا نہیں ہو گا کیونکہ اب عوام پیپلز پارٹی سے تنگ آ چکی ہے اور
تبدیلی چاہتی ہے۔اس دفعہ راجہ پرویز اشرف کے مقابلے میں مسلم لیگ نواز کے کافی
مضبوط امیدوار راجہ جاوید اخلاص ہیں جبکہ پاکستان تحریکِ انصاف سے نوجوان رہنما
فرحت فہیم بھٹی ہیں جنہوں نے پارٹی ٹکٹ حاصل کرنے کے لیے برطانیہ کی شہریت بھی ترک
کی ہے۔
راجہ پرویز اشرف کی مدت وزیر اعظم میں حلقہ گوجر خان میں ترقیاتی کاموں پر 22ارب
روپے بھونک دیئے گئے مگر آج تک گوجر خان کی عوم کو معلوم نہ ہو سکا کہ یہ 22ارب
روپے کہاں خرچ ہوئے کیونکہ یہاں کوئی خاطر خواہ کام نظر نہیں آیا جو ان موصوف نے
کرایا ہو۔گوجر خان میں نہ کوئی یونیورسٹی بنی اور نہ ہی کوئی ہسپتال پھر حیرانی کی
بات یہ ہے کہ اتنی بڑی رقم کن ترقیاتہ کاموں میں صرف ہوئی شائد اس کا جواب خود راجہ
پرویز اشرف صاحب بھی نہ دیں سکیں کیونکہ یہ سوال ہی اتنا مشکل ہے۔وزیر اعظم کا عہدہ
سنبھالتے ہوئے راجہ پرویز اشرف چاہتے تو گوجر خان کو پیرس بنا سکتے تھے جیسے ان سے
پہلے سابقہ وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے ملتان کو پیرس کا نقشہ دیا ہے اب ملتان
میں بسنے والوں کی نسلیں یوسف رضا گیلانی کو یاد رکھیں گی۔مگر افسوس راجہ پرویز
اشرف صاحب کو پیسے کی ہوس نے ایسا کرنے ہی نہیں دیا ورنہ ان کی کیا مجال کہ اپنے
حلقہ گوجر خان میں ترقیاتی کام نہ کراتے۔اب آیندہ کے الیکشن میں لوگوں نے ان موصوف
سے تمام طر امیدیں ختم کر دی کیونکہ انہوں نے وزیر اعظم ہوتے ہوئے حلقہ کے کام نہیں
کیے تو اب اگر MNAبن بھی گئے تو کیا خاک کام کریں گے۔اس لیے اب راجہ پرویزاشرف بھی
لوگوں سے ووٹ مانگ کر شرمندہ نہ ہوں۔اسی بنا پر مسلم لیگ نواز کے امیدوان پیپلز
پاٹی کی ووٹ بنک کرنے میں کامیاب ہوں گے۔ن لیگ کے امیدوار راجہ جاوید اخلاص کی ایک
ذاتی خوبی یہ بھی ہے کہ ان کے تمام سیاسی کیریئر میںان پر ایک روپے کی کرپشن ثابت
ہونا تو دور کی بات الزام بھی نہیں ہے۔24سالہ سیاسی تاریخ میں انہوں نے کرپشن نہیں
کی کیونکہ اس کی واضح مثال چند دنوں پہلے گوجر خان میں ریٹرنگ آفیسر نے دی جس میں
انہوں نے جاوید اخلاص کو کہا کہ جائیں راجہ صاحب آپ پر کوئی کرپشن کا الزام نہیں ہے
اور صادق اور امین کی فہرست میں آتے ہیں جائیں اور الیکشن لڑیں۔ا س میں کوئی شک
نہیں کہ انہوں نے بھی گوجر خان میں ترقیاتی کام کوئی زیادہ نہیں کرائے جس کی سب سے
بڑی وجہ یہ راولپنڈی کے ضلع ناظم تھے اور پورے ضلع میں یکسان بنیادوں پر کام کرائے
نہ کہ صرف تحصیل گو جرخان میں۔جاوید اخلاص جیسے بھی ہیں مگر کرپشن میں ملوث نہ ہونے
کے باعث اس الیکشن میں ممکنہ کامیابی حاصل کر سکتے ہیں۔ان کی کامیابی کی ایک اور
بڑی وجہ الیکشن کے نزدیک 07مئی کو گوجرخان میں مسلم لیگ نواز کا ہونے والا جلسہ ہو
گا جس سے نواز شریف خطاب کریں گے۔یہ جلسہ مسلم لیگ ن کے ووٹ میں مزید اضافہ کرے
گااسی لیے گوجر خان کے حلقہNA-51سے ممکنہ کامیابی مسلم لیگ نواز کے امیدوار راجہ
جاوید اخلاص کی ہو گی مگر نتایج وقت آنے پر بدل بھی سکتے ہیں کیونکہ یہ تو اب عوام
کی ووٹ پر منحصر ہے جبکہ ووٹیں بنتی اور ٹوٹتی ہی الیکشن کے آخری دنوں میں ہیں۔
اب اگر تمام امیدواروں کو کرپشن کے حوالے سے دیکھا جائے کہ سب سے زیادہ کس نے کی ہے
تو ان میںپاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما اور سابق وذیر اعظم پاکستان راجہ پرویزاشرف
سرِ فہرست آتے ہیں ۔انہوں نے وفاقی وزارت بجلی و پانی اور پاکستان کے وزیر اعظم کے
عہدے کے ہوتے ہوئے کافی تیر مارے ہین جن میں رینٹل پاور پلانٹس کیس سب سے اہم ہے جس
مین اربوں روپے غائب ہونے کا انکشاف ہوا۔اس کے علاوہ انہوں نے اپنے دو دامادوں کو
غیر قانونی بھرتی کرایا،توہیں عدالت کا کیس بھی عدالت میں زیر بحث ہے۔انہی وجوہات
کی وجہ سے اس کے کاغذات نامزدگی گوجر خان مین ریٹرنگ آفیسر نے مسترد کر دیئے تھے
بعد مین انہیں لاہور ہائی کورٹ نے الیکشن لڑنے کی اجازت دے دی ۔اب خدا ہی حافظ ہے
ایسے ملک کا جہان ایک عدالت مجرم کو سزا دیتی ہے اور ساتھ ہی دوسری عدالت مجرم کو
باعزت بری کر دیتی ہے۔
اب اگر بات کی جائے گوجر خان سے پاکستان تحریک انصاف کے نوجوان رہنما فرحت فہیم
بھٹی کی۔یہ امیدوار پہلی دفعہ کسی انتخابات میں حصہ لے رہے ہیںمکمل طور پر تھانہ
کچہری کلچر کی تبدیلی کا وعدی کرتے ہوئے ووٹ مانگ رہے ہیں ۔گوجر خان تحصیل کے
نوجوانوں کی بہت بڑی تعداد ان کے دست و بازو ہے مگر افسوس کہ ان نوجوانوں میں
اکثریت ووٹ ڈالنے کے ابھی اہل ہی نہیں۔ان کے ووٹ گوجر خان شہر کی حد تک بہت ہیں اور
کچھ دیہاتوں میں عمران خان کے نام سے انہیں ووٹ مل جائیں گے اس کے علاوہ گوجر خان
کے دیہی علاقوں سے تحریک انصاف کے ووٹ نہ ہونے کے برابر ہے۔گوجر خان کے حلقہ قومی
اسمبلی PP-4کے تحریک انصاف کے امیدوار ساجد حسین مسلم لیگی رہنما شوکت عزیز بھٹی کے
مقابلے میں کافی مضبوط ہیں اس لیے شائد PP-4سے تحریک انصاف بازی مار جائے۔اس کے
علاوہ گوجر خان سے باقی پارٹیوں کے جو بھی میدوار ہیں وہ محض اپنی ضمانت ہو ضبط
کرائیں گے کیونکہ ان کی کامیابی اس حلقہ سا ناممکن ہے۔
میری ذاتی رائے یہی ہے کہ جو شخص بھی گوجر خان کے حلقہNA-51اور صوبائی
اسمبلیPP-3اورPP-4سے کا میابی حاسل کرے اپنے وطن پاکستان کی ترقی میں اہم کردار ادا
کرے اور اپنے حلقے کے ترقیاتی کاموں اور عوامی فلاح وبہبودمیں اہم کردار ادا
کرے۔(آمین) |