پرویز کی واپسی

دیہاتوں میں بولی جانے والی بولیاں بڑی ہی با معنی ہوتی ہیں مگر دیہات کے لوگ نہ ان پر عمل کرتے ہیں اور نہ ہی یہ بولیاں بولنے سے باز آتے ہیں۔اگر دیہات کے لوگ عقل و فہم سے بھر پور ان فقرات کی تماثیل پر عمل کرتے تو کوئی چوہدری،ملک ،راجہ اور خان کے ووٹوں سے الیکشن جیت کر نوٹ نہ کماتا اور نہ ہی وہ استحقاق کے گھمنڈ اور پروٹوکول کی آڑ میں تکبر کی آخری حد کو چھوتا دیہاتی عوام کو فریب دینے میں کامیاب ہوتا۔

اگر دیہات میں کسی کا جرم کسی دوسرے کے سر تھوپ دیا جائے تو دیہات کی عورتیں فوراً بول اٹھتیں ہیں ’’ہائے اﷲ جی خصم کرے نانی تے چٹی دھوترے نوں‘‘یعنی کرے کوئی اور بھرے کوئی اسی طرح اگر کوئی شخص حرام کی کمائی پر عیش کرے تو کہا جاتا ہیـ ـ’’چوراں نے کپڑے تے ڈانگاں نے گز‘‘۔چور جب لوٹ کا مال تقسیم کرتے ہیں تو گز یا میٹر سے نہیں بلکہ ڈانگوں(چھڑی) سے پیمائیش کرتے ہیں۔ہماری سیاست میں دیہاتی ضرب المثل کے کئی نمونے موجود ہیں مگر سیاستدان اسطرف متوجہ نہیں ہوتے۔دیہاتوں میں بچے کی پیدائش کے بعد نام رکھنے کا مرحلہ آتا ہے تو اکثر لوگ علمائے کرام،مولوی صاحبان یا پھر اپنے پیرو مرشد سے رابطہ کرتے ہیں تاکہ وہ ایسا نام تجویز کریں جو برکت کا باعث ہو۔لڑکوں کے نام اﷲ تعالیٰ کے پاک ناموں سے چنے جاتے ہیں یا پھر پیغمبروں اور رسولوں کے ناموں پر نام تجویز کیئے جاتے جاتے ہیں۔علمائے کرام کا کہنا ہے کہ رحمٰن،رحیم اور قیوم نام نہ رکھا جائے تو بہتر ہے چونکہ یہ اوصاف صرف اﷲ تبارک و تعالیٰ کے ہیں۔کوئی انسان رحیم،رحمان اورقیوم نہیں ہوسکتا۔اگر یہ نام رکھنے ہی ہوں تو عبد الرحیم،عبد الرحمٰن اور عبدالقیوم نام رکھے جائیں اور پھر احتیاط کے ساتھ انھیں اس طرح لکھا اور پکارا جائے۔ہمارے معاشرے میں اکثر نام بگاڑے جاتے ہیں یا پھر ایسے ناموں کے حامل اشخاص اپنی کوتاہ اندیشیوں اور کم فہمیوں کی بنا پر بد نام ہو کر عوام الناس کے فیض و غصب کے نشانے پر آجاتے ہیں۔لوگ ان کے ناموں کو بگاڑتے اور نام لیکر گالیاں دیتے ہیں۔ایسے ناموں کے حامل اشخاص پر فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ اپنی خصلت کی مناسبت سے نام بدل لیں اور اپنے گناہوں میں اضافہ نہ کریں۔ہمارے اہل علم بھی اکثر جاہلیت کے مرتکب ہوتے ہیں۔بڑے بڑے ناول نگار،ادیب،دانشور،شاعر اور ڈرامہ نگار اپنی تحریروں میں فضل الرحمٰن یا فضل دین کو فضلو بابا لکھتے ہیں۔اسی طرح اﷲ تعالیٰ لکھنے سے بھی یہ لوگ اکثر عاری رہتے ہیں اور اﷲ میاں لکھتے ہیں۔اﷲ تعالیٰ کے ساتھ میاں لگانے والوں میں اکثریت پنجابی اہل علم و قلم کی ہے چونکہ پنجاب میں ہر پیسے والا میاں کہلواتا ہے ۔ان میاں صاحبان کی ذات،قوم یا قبیلہ کیا ہوتا ہے اسکا کسی کو علم نہیں ہوتا مگر کاروبار اور ظاہری چمک دمک والے صاحبان میاں ضرور بن جاتے ہیں۔

اب جناب عبد الرحمٰن ملک کو ہی لیں۔ہمارے ہاں ان کی برادری والے کھوکھرکہواتے ہیں جبکہ پاکستان میں ملک کا اضافہ اعوانوں کے نام کے ساتھ ہوتا ہے۔جناب عبد الرحمان اعوان تو نہیں مگر ملک ضرور ہیں جس پر محترمہ فردوس عاشق اعوان نے بھی کبھی اعتراض نہیں کیا۔جناب عبدالرحمٰن کا نام عامر لیاقت نے تبدیل کیا ہے جبکہ جناب زرداری صاحب کے کاغذات میں وہ رحمٰن ملک ہی ہیں۔ملک صاحب نے اپنے پانچ سالہ اقتدار میں جو کار ہائے نمایاں سر انجام دیے اسکی وجہ سے وہ انتہائی نا پسندیدہ شخصیت قرار پائے ہیں اور عوام الناس انکا نام سنتے ہی ان پر لعن طعن ہی نہیں کرتے بلکہ ڈینری کٹر قسم کی کاٹ دار گالیاں بھی سناتے ہیں کسی دور میں کا مریڈ نجیب اﷲ افغانستان کے وزیر داخلہ اور خاد کے چیف ہوتے تھے۔ان کی عادات بھی ہمارے ملک صاحب سے ملتی جلتی تھیں جس بنا پر لوگ ان کا چہرہ دیکھتے ہی مرگ بہ نجیب اور مادر سوختہ یا پدر سوختہ کہہ کر ٹیلی ویژن بند کر دیتے تھے ڈاکٹر نجیب کو عوامی نفرت کا احوال معلوم ہوا تو خار حرکت میں آگئی۔ہر سکول میں خار کا ایک ایجنٹ بیٹھ گیا جو صبح سویرے افغان بچو ں سے پوچھتا کہ جب کا مریڈ نجیب کی تصویر ٹیلویژن پر نظر آتی ہے تو تمھارے والدین کیا کہتے ہیں معصوم بچے بتا دیتے کہ وہ نجیب پر لعنت بھیجتے ہیں اور گالیاں دے کر ٹیلی ویژن بند کر دیتے ہیں بس پھر ماں باپ کی شامت آجاتی اور اکثر بل چرخی جیل یا پھر نظارت خانہ پہنچ جاتے۔جناب زرداری کو چاہئے کہ وہ ڈاکٹر ملک کا نام بھی بدل دیں چونکہ رحمٰن صرف اﷲ کی صفت ہے جبکہ اﷲ کی مخلوق پر ظلم کرنے والا شخص الٰہی صفات کا حامل نہیں ہوسکتا۔کہتے ہیں کہ ملک امیر محمد خان کے دور گورنری میں اعوانوں کے علاوہ کوئی دوسری قوم ملک کا اضافی حصہ نام کے ساتھ نہ لگاتا تھا۔کیمبل پور،جہلم اور میانوالی کے اعوان دو نمبری ملکوں کو پہچان جاتے تھے اور ایسے ملکوں کا مذاق اڑایا جاتا تھا۔حیرت ہے کہ ملک امیر محمد خان کے پوتے ملک عماد پیپلز پارٹی میں بھی ہیں اور عبد الرحمٰن ملک کے دوست بھی ہیں۔حیرت ناک بات یہ بھی ہے کہ ملک امیر محمد خان نے برطانیہ اور امریکہ میں بھی اپنا شملہ اونچا رکھا۔ملکہ برطانیہ اور امریکی صدر کے سامنے بیٹھ کر سنت طریقے سے ہاتھ دھو کر کھانا کھایا۔امریکی صدر نے پوچھا کہ جناب پاکستان میں کتے کیا کھاتے ہیں تو ملک امیر محمد نے کہا چکن چپس،چونکہ اسوقت امریکی صدر چکن چپس کھا رہا تھا۔اپنے بیرونی دوروں میں ملک امیر محمد خان نے ملکہ برطانیہ اور امریکی صدر کی بیوی کے علاوہ کسی گوری کو ہاتھ نہ ملایا جبکہ ان کا پوتا انجلینا جولی کے قدموں میں ڈھیر ہوگیا۔

کہتے ہیں کہ اولاد صدقہ جاریہ ہے۔اولاد کے اچھے کام والدین کی بخشش کا وسیلہ بنتے ہیں مگر ہماری اشرافیہ اس سے مبرا ہے۔جنرل پرویز نے اپنی کتاب’’ان دی لائن کا فائیر‘‘میں لکھا ہے کہ ان کے والد سید مشرف وزارت داخلہ میں اکاؤنٹنٹ تھے جبکہ میڈیا اور حکومت نے بیچارے سید مشرف کو جنرل مشرف بنا دیا ہے۔جنرل پرویز کو چاہیئے کہ وہ ایک پریس کانفرنس کریں یا پھر اخبار میں اشتہار دیں کہ وہ جنرل مشرف نہیں بلکہ پرویز ہیں۔عوام کو جو کچھ کہنا ہے وہ مجھے جنرل پرویز کو کہیں اور میرے والد مرحوم سید مشرف کو معاف کریں۔میں اپنے گناہوں اور کوتاہیوں کا خود ذمہ دار ہوں جبکہ میرے مرحوم والد کو خواہ مخواہ جنرل بنا کر رگڑا جا رہا ہے۔

جنرل پرویز چونکہ سید زادے ہیں اسلئے انھیں پرویز نام بھی سوٹ نہیں کرتا۔پرویز اسلامی نام نہیں اور جس ایرانی بادشاہ نے حضورﷺ کا خط پھاڑا کر پھینک دیا تھا اسکا نام بھی پرویز ہی تھا اگر جنرل پرویز واقعی سید ہیں توہ وہ دشمن رسولﷺ کا نام کیوں اٹھائے پھرتے ہیں البتہ ان کے مشاغل پرویزی ہی ہیں اس لئے ہوسکتا ہے کہ انکا نام اسی مناسبت سے رکھا گیا ہو پرویز کا مطلب فاتح ہے چونکہ ایرانی نام ہے۔زمانہ قدیم میں جب کوئی بادشاہ تخت کیان پر بیٹھتا تو اسے پرویز یعنی فتح کرنیوالے کے لقب سے نوازا جاتا۔جنرل پرویز نہ تو کیانی ہیں اور نہ ہی فاتح بلکہ وہ اخلاقی لحاظ سے ایک شکست خودہ شخصیت کے حامل ریٹائرڈ جرنیل ہیں جنکی جرنیلی نے اٹھارہ کروڑ مسلمانوں کو بھی شکست خودہ کر دیا۔سکندر نے تخت کیان کی اینٹ سے اینٹ بجا دی اور کیانی جرنیل اور شہزادے میدان جنگ میں مارے گئے مگر سکندر کے ساتھ این آر او کا ڈرامہ رچاکر یونان میں کوئی محل نہ بنایا اور نہ ہی یونانیوں کے سامنے جھکے۔

جنرل اشفاق پرویز کیانی کو پرویز نام اچھا لگتا ہے چونکہ وہ کیانی بھی ہیں اور فاتح سوات بھی جہاں طالبان کے لبادے میں ساری دنیا کے دھشت گرد سکندر کے راستے پر چلتے پاکستان پر حملہ آور ہوئے اور پھر جنرل کیانی کے ہاتھوں شکست کھا کر نیست و نابود ہوگئے۔جنرل کیانی آج بھی عالمی دہشت گردی کے خلاف جنگ جاری رکھے ہوئے ہیں اور ساری قوم کی مدد و حمایت کے ساتھ اپنے مشن کو آگے بڑھا رہے ہیں۔ وہ اخبارات،رسائل اور ٹیلیویژن اینکر جو جنرل مشرف کی واپسی پر طرح طرح کے کالم اور خبریں شائع کر رہے ہیں اور مختلف چینلوں پر جنرل مشرف کو اچھا یا برا کہہ رہے ہیں انھیں چاہیے کہ وہ مشرف کے بجائے اپنی توپوں کا رخ جنرل پرویز کی طرف رکھیں اور بیچارے مرحوم سید مشرف کو معاف کر دیں۔ انکا قصور اتنا ہی تھا کہ ان کے گھر جنرل پرویز پیدا ہوا جو ان کے لئے اجرو ثواب کا باعث نہ بن سکا۔
asrar ahmed raja
About the Author: asrar ahmed raja Read More Articles by asrar ahmed raja: 95 Articles with 100707 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.