پرانے وقتوں کا ایک واقعہ ہے کہ جنگل میں ریچھ نے بکری کو پکڑا اور اسے ابھی
دسترخوان کے لئے چنا نہیں تھا کہ ایک دم شیر آ دھمکا،شیر نے اپنی خوراک ریچھ کے
پنجوں میں دیکھی تو اسے بہت غصہ آیا اور ریچھ پر حملہ کر دیا ،بہر حال شیر” شیر“
ہوتا ہے ،ریچھ نے بھی کچھ مقابلہ کیا مگر وہ آپس میں اس قدر الجھے رہے کہ انہیں
بکری یاد نہیں رہی آپس میں گھتم گتھا شیر بکری کا منظر دیکھتے ہی چالاک ”لومڑی “ جس
کا گزر ان کے قریب سے تھا اس نے موقع پا کر بکری کو کندھوں پہ اٹھایا اور رفو چکر
ہو گئی ،جب شیر اور ریچھ نے تھوڑی دیر کی لڑائی بعد بکری کی طرف دیکھا تو وہ کہیں
نظر نہیں آئی، جس کا دونوں کو بہت صدمہ ہوا اور اس نقصان کا ذمہ دار ایک دوسرے کو
ٹہرانے کی دلیلیں دیکر مایوس اپنے اپنے اگلے شکار کی جانب روانہ ہو گے۔اس واقعہ سے
یہ سبق ملتا ہے کہ اگر شیر اور ریچھ باہمی طور پر تقسیم کار کر لیتے تو لومڑی ہرگز
داﺅ نہ کھیل سکتی۔
کچھ ایسا ہی سیاسی منظر نامہ ہمارے حالیہ انتخابات میں نظر آتا ہے ،با لخصوص شیر
اور بلا کی لڑائی دلچسپ شکل اختیار کر چکی ہے ،دونوں جماعتیں اس قدر آمنے سامنے آ
چکی ہیں کہ ان کی شیر ریچھ والی لڑائی نظر آتی ہے مبادا کہ کہیں لومڑی داﺅ دیکھ کر
ان کا سارا شکار لے بھی جا سکتی ہے۔ان کی آپس کی لڑائی ان کے اعصاب میں اس قدر سما
چکی ہے کہ گذشتہ روز تحریک انصاف کے قائد عمران خان نے ایک انتخابی جلسہ میں ایک
بار نہیں تین بار کہا ”آپ مہربانی کریں مہر شیر پر لگائیں“انہیں جب اپنی غلطی کا
احساس ہوا تو پھر کھسیانی بلی کی طرح ”بلا بلا“ یاد آیا،کہتے ہیں کہ بڑوں کی معمولی
غلطی کو پوری قوم بھگتی ہے،جب ہم ماضی کو دیکھتے ہیں تو یہ درست لگتا ہے کہ ہمیشہ
لومڑی ہی کامیاب رہی ،بھٹو کے خلاف1977ءمیں ہونے والے انتخابات کے بعد بعض نا عاقبت
اندیش حکومت مخالف تحریک چلا بیٹھے ،جس کہ نتیجہ میں تحریک چلانے والوں کے ہاتھ کچھ
نہ آیا اور ایک لومڑی گیارہ سال تک ”بکریوں“ کو ہانکتی رہی ،اسی تحریک کے دوران
بھٹو مخالف اس قدر انتہا پر چلے گے کہ انہوں نے بھٹو کو شرابی کا عادی قرار دیا یہ
سن کر بھٹو جذباتی ہوگے اور انہوں نے ایک جلسہ میں کہا ” میں پیتا ہوں اپنی جیب سے
پیتا ہوں ،عوام سے لوٹے ہوئے مال یا مفت کے چندوں سے نہیں پیتا،حلوہ خوری نہیں کرتا
“ بلاشبہ انہوں نے اشارہ ان جماعتوں کی جانب درست کیا جو کھالوں اور چندوں کے سہارے
بے خبر و بے حس عوام کو اللہ اور رسول ﷺ کے نام پر اب بھی لوٹ رہیئں ہیں۔مگر ان کا
شراب پینے کا اقرا ر ان کے گلے پڑ گیا اور انہیں سازش سے تختہ دار تک پہنچنا
پرا۔پھر” لومڑی “نے بھٹو مخالف کو للکار کر بر سر عام کہا کہ ”سیاستدان اقتدار کی
لالچ میں ”کتوں کی طرح دم ہلاتے ہوئے میرے اردگرد چکر لگاتے ہیں۔
بات یہ ہو رہی ہے کہ لڑائی مار کٹائی میں ہمیشہ فائدہ تیسی قوت کو پہنچتا ہے،حالیہ
انتخابی مہم میں شیر اور بلا میدان میں نظر آ رہے ہیں ان کے درمیان لفاظی جنگ ان کے
اعصاب پر اس قدر چھا چکی ہے کہ انہیں بعد میں اپنے کہے ہوئے فرمانوں پہ شر مندگی
ہوتی دکھائی دے رہی ہے ،عمران خان جو ایک تحریک اور تبدیلی کا نام سمجھا جاتا ہے ان
کی زبان سے ”شیر ہر مہر “ لگانے کی بات عجب لگتی ہے۔ان کے اس خطاب کے ردعمل میں
میاں شہباز شریف نے پُر لطف جواب دیتے ہوئے کہا کہ ”رانجھا رانجھا کر دی میں آپئے
رانجھا ہوئی“۔کیسا بر وقت اور بر محل جواب دیا جس پر ہر شہری نے عش عش کیا۔
کہتے ہیں کہ ”وقت اور سمجھ ایک ساتھ خوش قسمت لوگوں کو ملتے ہیں کیونکہ وقت پر سمجھ
نہیں آتی اور جب سمجھ آ جائے تو وقت نہیں رہتا“یہی معاملہ کچھ ہمارے سیاست دانوں کی
حرکات و جذبات سے عیاں ہوتا ہے ،سیانے کہتے ہیں کہ ”ہمیشہ اچھی سوچ رکھو ،سوچ سے
الفاظ بنتے ہیں الفاظ سے عمل ،عمل سے کرداربنتا ہے اور کردار سے آپ کی پہچان ہوتی
ہے“۔یہ ہر انسان کے لئے ضروری ہے کہ وہ بے وقت کی راگنی کے بجائے بروقت درست فیصلہ
کرئے مگر جو قوم کی تقدیر بدلنے والے ہوتے ہیں ان کی ہر بات ان کے کردار کی عکاس
ہوتی ہے ،عمران خان قابل احترام شخصیت ہیں ان کی قیادت میں ہم نے ورلڈ میچ ضرور
جیتا مگر جناب سیاست کی پر خار وادی میں ”بلا“ نہیں بلاﺅں کا مقابلہ کرنے کے لئے
ہوشمندی کا مظاہرہ کرنا پڑتا ہے ۔شاہد عمران خان اور ان کے لوورز یہ بات تسلیم نہ
کریں کہ عمران خان نے جیتی بازی اپنی زبان سے ہارنے کی جانب موڑ دی ہے غلط نہ ہو گا
،شیر پر مہر لگانے کی مذکورہ ویڈیو اب ہر گھر تک پہنچ چکی ہے ،کامن من یہ سوچ رہا
ہے کہ عمران خان کو کیا ہو گیا ہے۔
اللہ کے ہاں قبولیت کا وقت کسی کو پتہ نہیں کہ ہم کسی وقت کیسا لفظ منہ سے نکالیں
اور وہ پورا ہو جائے ،کہیں عمران خان نے شیر پر مہر لگانے کی بات قبولیت کے وقت بے
ساختہ منہ سے نکال کر اپنے ”سونامی“ کا رخ اپنی طرف تو نہیں کر دیا۔بہر کیف یہ سب
11مئی کو سامنے آ جائے گا،لیکن مجھ بار بار ایک خدشہ لا حق ہے کہ” لومڑی“ جو خاموش
تماشائی ہے کہیں ان دونوں (شیر اور ریچھ کی مثل) وقت کا فائدہ اٹھا کر ان کے خوابوں
کو ریزہ ریزہ نہ کر دے ۔کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ عمران خان پر میاں برادران کا
اعصابی دباﺅ نظر آتا ہے یہ بات کسی حد تک درست ہے ،کیونکہ اب تک انتخابی مہم میں یہ
دونوں آمنے سامنے ہیں ،لگتا بھی یہ ہے کہ انتخابات بھی ن لیگ اور پی ٹی آئی لڑ رہی
ہے ،باقی اپنے اپنے گھونسوں میں اپنے بچاﺅ میں مگن ہیں ۔
عوام کی تقدیر کون بدلے گا۔۔؟؟؟ یہ تو آنے والا وقت ہی بتا سکتا ہے کیونکہ دعوﺅں
اور اشتہاری مہموں سے اس کا کوئی نتیجہ اخذنہیں کیا جا سکتا ،عوام کی بھلائی اور
ملک کی بہتری اس میں ہے کہ جمہوریت کی گاڑی چلتی رہے ،آئین و قانون کی حکمرانی سے
ہی قومیں ترقی کرتی ہیں ، عوام کو اپنا ووٹ دیتے وقت درست فیصلہ کر نا ہو گا جس کا
درست وقت 11مئی ہے ،اگر خدانخواستہ فیصلہ غلط کر لیا تو اس کا پچھتاوا 5سال تک
بھگتنا پڑے گا- |