وزیر اعظم ڈاکٹر من موہن سنگھ نے کرناٹک کے شہر ہبلی میں ایک انتخابی جلسہ سے
خطاب کرتے ہوئے فرمایا ، ریاست میں اقلیت اپنے آپ کو غیر محفوظ محسوس کرتی ہے۔ 30
اپریل کا ایک اردو روزنامہ میرے سامنے ہے جس نے اس خبر کو صفحہ اول پر جگہ دی ہے
اورجلی حروف میں سرخی لگائی ہے،”کرناٹک میں اقلیت غیر محفوظ“ ۔ اسی خبر کے نیچے اس
سے بھی نمایاں سرخی ہے، ”امریکا کروڑوں مسلمانوں کا قاتل- اعظم خاں“۔ دونوں پر غور
کیجئے۔ ایک بیان کانگریسی لیڈر کاہے اور دوسرا یوپی میں اس کی نصف حلیف اور نصف
حریف سماجوادی پارٹی کے لیڈر کا ہے۔مگر دونوں کا مقصد ایک ہی ہے۔ مسلم اقلیت میں
مظلومیت کا احساس پیدا کرکے اپنی طرف رجوح کرنااور ان کا ووٹ حاصل کرنا۔ اس طرح کے
بیان دوسری پارٹیوں کے لیڈر بھی دیتے رہتے ہیں۔ان کے بین السطور پر غور کیجئے ، ایک
ہی طرح کا سیاسی ذہن بول رہا ہے۔ لیکن اس تجزیہ سے پہلے ایک واقعہ کا ذکر کرتا ہوں۔
دوسال قبل۲ مئی کو اس کالم نگار کو اپنے ہم وطن اورایک دوست ڈاکٹر راجپال سنگھ کے
ہمراہ پونا کے ایک باوقار ادارے ”سادھنا انسٹی ٹیوٹ آف منجمنٹ اینڈ لیڈر شپ “ کی
سالانہ تقریب میںشرکت کا موقع ملا۔ہمیں اس لئے بلایا گیا تھا کہ یوپی میں شوٹنگ
اسپورٹس کی مقبولیت کی مہم کے اپنے تجربات طلباءکے سامنے بیان کریں۔ واپسی میں ہم
ممبئی رکے اور ڈاکٹر ستیہ پال سنگھ ، آئی پی ایس سے ان کے گھرپر ملے۔ ان کا گاﺅں
ہمارے گاﺅں سے چند میل کے فاصلے پر ہے۔وہ اگرچہ ممبئی میں رہتے ہیں مگر اپنے علاقے
کی تعلیمی اوراصلاحی سرگرمیوں میں دلچسپی لیتے ہیں ۔ اسی ناطے ہماری اسپورٹس ایسوسی
ایشن کے شریک پیٹرن بھی ہیں۔ڈاکٹر ستیہ پال کے پاس کتابوں کا اچھا کلکشن ہے۔ دوران
قیام میں نے مراٹھی صحافی مظفرحسین کی ایک ہندی کتاب ’ الپ سنکھیک واد کی
مانسکتا‘نکال لی جس کا موضوع اقلیت کی نفسیات اور مسائل ہے۔ سرسری مطالعہ کے دوران
ان کے بعض مندرجات پرڈاکٹر صاحب سے کچھ گفتگو بھی ہوئی۔ دوسری صبح ناشتہ کی میز پر
انہوں نے مجھ سے سوال کیا: ’ ’اقلیتوں کا سب سے بڑامسئلہ آپ کے خیال سے کیا ہے؟“
مجھے اس سوال کا جواب دینے میں کچھ دیر نہ لگی۔ میں نے کہا: ”اقلیت کا مسئلہ بھی
وہی ہے جو اکثریت کا ہے۔“کچھ دیر خاموشی رہی، کچھ تجسس بھری نگاہیں میرے چہرے پر
مرکوز رہیں تو میں نے با ت پوری کی، ”مسئلہ minoritism یا majoritism کا نہیں ،
Sense of insecurity (عدم تحفظ کے احساس) کا ہے جو بعض وجوہ سے اقلیت میں شدید ہے
اور اکثریت میں بھی پیدا کیا جارہا ہے۔ایک گروہ نعرہ لگاتا ہے اقلیت غیر محفوظ اور
مظلوم ہے، دوسرا کہتا ہے ہندستان میں ہندو بھی محفوظ نہیں۔ دونوں کو خوفزدہ کرکے
سیاسی فائدہ اٹھانا مقصود ہوتا ہے ۔“ ڈاکٹر صاحب نے اعتراف کیا کہ جب کسی گروہ یا
علاقے میں لوگوں میں عدم تحفظ کا احساس پیدا ہوجاتا ہے ، تبھی مسائل پیدا ہوتے ہیں
اور ہماری یہ ذمہ داری ہے کہ اپنی موجودگی سے عوام میں یہ احساس پیداکرےں کہ آپ
محفوظ ہیں۔“بات شروع ہی ہوئی تھی کہ ان کے ذاتی فون پرپیغام آیا کہ اسامہ بن لادن
کے مارے جانے کی خبر ہے۔ اس اندیشہ سے کہ خبرپھیلتے ہی کہیں شرپسند شہر میں شر نہ
پھیلادیں، وہ اپنے ماتحت پولیس عملے کو مستعد کرنے میں مصروف ہوگئے اور بات ادھوری
رہ گئی۔ آگے بڑھتی تو میں بتاتا کہ عوام میں عدم تحفظ کا احساس پیدا کرنا ایک سیاسی
حربہ ہے،جو صدیوں سے ہمارا تعقب کررہاہے۔ اسی کی بدولت ملک تقسیم ہوا، اسی کی بدولت
سماج تقسیم ہوا،اسی کی بدولت فساد ہوتے ہیں اور اسی کی وجہ سے برصغیر میں کئی بار
جنگ ہوچکی ہے۔ یہی وہ تندور ہے جس پر سیکولر پارٹیاں اپنی روٹیاں سینکتی ہیں اور
اسی کی تپش میں ہندوفرقہ پرست اپنے قصر کے لئے اینٹیں تیار کررہے ہیں۔یہ دونوں
خبریں جن کا حوالہ میںنے اوپر دیا اسی طرح کا ایک سیاسی حربہ ہے۔
اس دور کے لیڈروں میں ڈاکٹر من موہن سنگھ ہمارے نزدیک نہایت قابل احترام ہیں۔ وہ
خود ایک اقلیت سے تعلق رکھتے ہیں اور اس پر جو مار پڑی ہے، اس کا کرب بھی انہوں نے
محسوس کیا ہے۔ مگر ہبلی کے اس جلسہ کے حوالے سے ان سے یہ سوال تو کیا ہی جاسکتا ہے
کہ آپ کی دیانت اور شرافت تسلیم، مگر یہ تو بتائےے کہ ملک کی کس ریاست میں اقلیت
خود کو محفوظ محسوس کرتی ہے؟مہاراشٹر ا میں ، اندھرا پردیش میں اور آسام میں ، جہاں
کانگریس کی سرکاریں ہیں ،ان کا کیا حال ہے؟ یو پی ، راجستھان، ہریانہ، اتراکھنڈ اور
مغربی بنگال وغیرہ میں وہ کس حال میںہیں؟ آزادی کے گزشتہ ساٹھ سالہ دور میں ، بلکہ
اس سے بھی پہلے کانگریس کی حکومتیں جہاںبھی رہیں ، ان میں ان کے ساتھ کیا کچھ نہیں
ہوا؟ ہم کرناٹک میں بی جے پی یا اس جیسی کسی حکومت کے پھربن جانے کی تائید ہرگز
نہیں کرتے ،مگر یہ کیسے کہا جائے کہ اگر وہاںکانگریس برسرِ اقتدار آگئی تو اقلیت
محفوظ ہوجائیگی؟مشاہدہ یہ ہے کہ سرکاربدل جاتی ہے مگر انتظامیہ کا رویہ نہیں بدلتا۔
ایک آدھ وزیر کو چھوڑ کر کوئی بھی اتنی صلاحیت نہیں رکھتا کہ حکام کو اپنے ڈھب پر
لے آئے۔ سب کو اپنی عافیت اوراس سے زیادہ ’سنگھیوں‘ کی خوشنودی کی فکر دامن گیر
رہتی ہے۔ یہ بھی ایک بے بنیاد گمان ہے کہ ایک سیاسی پارٹی میں شریک ہوجانے سے آدمی
دودھ کا دھلا اور دوسری میںچلے جانے سے زہر کا بجھا ہوجاتا ہے۔ کل تک جو سیکولرزم
کا تمغہ سینے پر لگائے سفید پوش بنا پھرتا تھا، سیاسی مفاد کی خاطر آج بھگوادھاری
ہوگیا۔یا اس کا الٹا ہوگیا، اس سے کیا فرق پڑتا ہے؟ کلیان سنگھ کو جب ملائم سنگھ نے
اپنے پہلو میں جگہ دی تھی ، تب بھی وہ وہی کلیان سنگھ تھے جن کے دور میں بابری مسجد
مسمار کی گئی تھی ۔ دَل بدلنے سے دِل نہیں بدل جاتے۔چنانچہ وہ واپس بھاجپا میں
جاکرزیادہ آرام محسوس کررہے ہیں۔
اعظم خان صاحب کا یہ کہنادرست کہ امریکا لاکھوں مسلمانوں کی ہلاکت اور تباہی کا ذمہ
دار ہے۔ مگریہ بات ان کی زبان پراب کیوں آئی؟ وہ اگرپہلے یہ کہتے کہ ” امریکا
کروڑوں مسلمانوں کا قاتل ہے“، میں وہاں نہیں جاﺅں گا ، تو کچھ بات بنتی۔ ان کو بجا
طور پر یہ گراں گزرا کہ بوسٹن کے ہوائی اڈے پر ان کوکچھ دیر روکے رکھا گیا جبکہ
وزیر اعلا یادو کو ان کے وفدکے دیگر ارکان کو جن میں ریاست کے پرنسپل سیکریٹری
جاوید عثمانی بھی تھے، ضابطہ کی کاروائی کے بعد جانے دیا گیا۔بوسٹن کی رپورٹ یہ ہے
کہ ہندستانی قونصل خانہ اور امیگریشن کے حکام نے اس ۱۱ رکنی وفد کے وہاں پہنچنے پر
گرمجوشی سے استقبال کیا۔کاغذات کی خانہ پوری میں بھی مدد کی اور خوش اخلاقی سے پیش
آئے۔ جب سب کو کلیرنس مل گیا تو ایک خاتون افسر مسٹر خان کو”کچھ اور پوچھنے“ کے لئے
برابر والے کمرے میں لے گئیں اور دس ہی منٹ میں ان کو جانے کی اجازت دیدی۔
According to sources familiar with the incident, after they were cleared for
entry, a woman officer of the US Customs and Border Protection wing of the
Homeland Security took Khan to an adjacent room "for further questioning." The
extended interview lasted for ten minutes and the Minister was then cleared.
بظاہر یہ کوئی ایسی ’زیادتی‘ نہیں تھی جس پراتنا شدید ردعمل ظاہر کیا گیا۔مگر ظاہر
ہے وہاں پہنچنے پر جیسا استقبال نوجوان چیف منسٹر کا ہوا ہوگا ویسا بزگواراعظم خاں
کا نہیں ہوا ہوگا۔ جس سے ان کوکچھ نہ کچھ سبکی ضرور محسوس ہوئی ہوگی ۔جو لوگ اعظم
خان سرشت سے واقف ہیں، وہ سمجھ سکتے ہیں کہ ان کی انا کو کیسی ٹھیس پہنچی ہوگی۔
پھرامریکی افسر کی اس کاروائی پراعظم خان نے جو ہتک محسوس کی، اس کی بھی ایک
نفسیاتی ہوسکتی ہے اور وہ یہ کہ مذکورہ افسر کا تعلق طبقہ نسواں سے تھا۔
بہرحال اطلاع ملتے ہی ہندستانی سفارتخانہ نے اس پر اپنا احتجاج درج کرادیا۔ ہمیں
بھی افسوس ہوا۔ مگر اچھا یہ ہوا کہ خود ان کے اپنے بیان کے مطابق ان کے ساتھ کوئی
اور حرکت نہیں ہوئی ،حالانکہ اسی امریکا میں جارج فرنانڈیز کے ساتھ سخت زیادتی ہوئی
تھی۔ وہ جب بحیثیت وزیر دفاع امریکہ کے سرکاری دورے پر گئے تھے تو ان کو سخت جامہ
تلاشی سے گزرنا پڑا تھا، ان کے جوتے اور اوپر کے کپڑے اتردادئے گئے تھے۔ محترمہ
میرا شنکر کی بھی ، جو امریکامیں ہند کی سفیر تھیں ،جامہ تلاشی ہوئی تھی جو صریحاً
سفارتی مراعات کے منافی تھا۔ یورپی اور امریکی ہوائی اڈو ں پر بعض سکھ مہمانوں کی
پگڑی اتار کر تلاشی لئے جانے کی خبریں بھی آئی تھیں۔لیکن ان واقعات کو ان میں سے
کسی کی مذہبی شناخت سے نہیں جوڑا گیا۔پھر یہ کیسے کہا جائے کہ اعظم خان اس لئے روکے
گئے کہ مسلمان تھے؟اگر اسی بناءپر روکا جاتا تو جاوید عثمانی بھی روکے جاتے۔
سابق صدر جمہوریہ ڈاکٹر اے پی جے عبدالکلام کو بھی سیکیورٹی چیک سے گزنا پڑا تھا
مگر انہوں نے یہ کہہ کر بات کو ہلکے میں لیا کہ سیکیورٹی عملے کو اپنی ذمہ داری ادا
کرنے کا حق ہے۔ وہ جس پروگرام کے لئے گئے تھے، سکون سے اس میں شامل ہوئے۔چنانچہ
امریکی اخباروں نے بھی اس پر سخت نکتہ چینی کی اور وہائٹ ہاؤس کو باضابطہ وضاحت
کرنی پڑی۔ چنانچہ ڈاکٹر کلام کا وقار اور بڑھا۔ اس کے برخلاف اعظم خاںکے دباﺅ میں
وزیر اعلا اکھلیش یادونے یہ گوارا کرلیا کہ ہارورڈ یونیورسٹی دوروزہ سیمینارمیں ’
مہا کنبھ کے انعقاد میں درپیش انتظامی مشکلات اور ان کا حل‘ عنوان سے لیکچر نہ دیں
جس کے لئے وہ مدعو تھے اور ۱۱ رکنی وفد کے ساتھ وہاں گئے تھے۔ ۔خیال رہے کہ
یونیورسٹی نے اس میلے کے دوارن مختلف پہلوﺅںکے مطالعہ کے لئے تقریباً ۰۵ ریسرچ
اسکالرس کو ایک مہینہ کے الہ آباد بھیجا تھا۔ اس دوروزہ سمینار میں یہ سب اسکالر
شریک تھے۔ اعظم خان نے بحیثیت وزیر شہری ترقیات اور انچارج میلے کے کامیاب
انعقادمیں کلیدی رول ادا کیا تھا۔اسی لئے وہ بھی ساتھ مدعو تھے۔ مگرافسوس کہ دونوں
کے ذہنوں پرخانگی سیاست حاوی رہی ،جس کا آغاز دہلی کے ہوائی اڈے سے ہی ہوگیا تھا ۔
دہلی ہوائی اڈے کے واقعہ کے بعد بوسٹن کے اس واقعہ پر جو شور اٹھا ہے اور جس طرح
اعظم خان نے سلمان خورشید کو ملوث کرنے کی کوشش کی ہے، اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ
نظر سنہ 2014ءکے پارلیمانی چناﺅ میں مسلم ووٹ بنک پر ہے جو سماجوادی کے انتخابی
وعدوں پر عمل نہ کرنے کی وجہ سے کھسکتا جاتا ہے جس کا فائدہ لوک سبھا چناﺅ میں
کانگریس کو مل سکتا ہے۔
اس ہنگامہ پر ملائم سنگھ کی خاموشی اور اکھلیش یادو کا اعظم خان کے ساتھ امریکا سے
فوراً واپس نہ آنے کا فیصلہ، اس بات کا اشارہ ہے پارٹی کی قیادت اس پر اعظم خان کی
پشت پر نہیں۔ ان کی پارٹی کے ایک وزیر کاجو بیان ان کے خلاف آیا ہے وہ بھی اسی طرف
اشارہ کرتاہے۔ اس مرحلہ پر اس بات کا ہرگز کوئی امکان نہیں کہ سلمان خان کو مورد
الزام ٹھہراکر سماجوادی پارٹی مرکز سے تعلقات کو مزید بگاڑ لیگی۔البتہ اوما بھارتی
نے اعظم خان کی تائید کرکے بھاجپا کی طرف سماجوادی کے رجحان کو تقویت دینے کی کوشش
ضرور کی ہے۔
اکھلیش یادو کے اعزار میں نیویارک میں جس استقبالیہ تقریب کا اہتمام ہند کے قونصلر
جنرل نے کیا تھا اور جس میں وہاں مقیم اہم ہندستانی تاجروں اور صنعتکاروں کو مدعو
کیا گیا تھا، اس واقعہ کے بعد اس کو بھی منسوخ کردیا گیا، حالانکہ اس سے ریاست کو
فائدہ ہوتا اور سرمایہ کار یوپی کی طرف متوجہ ہوتے۔ حیرت کی بات ہے مودی دنیا بھر
کے سرمایہ کاروںکو ریاست کی طرف متوجہ کرنے میں ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں یہ
سماجوادی رہنما اپنی انا کی خاطر ایسے مواقع گنوارہے ہیں؟
اعظم خاں کا کہنا ہے کہ ان کو کوئی پونا گھنٹہ روکا گیا۔ اس سے یہ احساس تو ان کو
ہوا ہوگا کہ بلاوجہ روکے جانے سے کس قدر کوفت اور اذیت ہوتی ہے ۔ اس احساس کے ساتھ
وہ ان بے قصورنوجوانوںکے بارے میں سوچیں جو دنوں، ہفتوں اور مہینوں سے نہیں بلکہ
برسوں سے یو پی کے جیل خانوں میں بند ہیںاور ان کی رہائی کی کوئی صورت نظر نہیں
آتی۔ان کی سرکار کو اس طرح کے معاملے نمٹانے کی کوئی عجلت نظر نہیں آتی۔ خودان کی
زبان پر کبھی ان مظلوموں کاذکر نہیں آتا، حالانکہ اس وعدے میں وہ بھی شریک تھے کہ
سماجوادی کی سرکار بنتے ہی ان کو رہا کردیا جائیگا اور مسلمانوں کو ریزرویشن دیا
جائیگا۔ اب ان کی سرکار ضلع حکام پوچھتی ہے کہ ان کو چھوڑا جائے یا نہیں؟ انتظامیہ
کی روش ظاہر ہے، دوسرے وعدہ اس شرط پر نہیں کیا گیا تھا کہ ضلع حکام آمادہ ہونگیں
تو چھوڑ دیا جائیگا۔ مدت کے مطالبوں اور یادہانیوں کے بعد ایک خبر یہ آئی ہے کہ
طارق قاسمی اور خالد مجاہد کے خلاف مقدمات واپس لینے کی ہدایت ریاستی حکومت نے بارہ
بنکی کے ضلع حکام کو بھیج دی ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ سرکاری حکم نامہ لکھنو سے چل
کر بارہ بنکی پہنچنے میں دس دن کا وقت لگا اور ابھی تک ان پر کسی کاروائی کی اطلاع
نہیں۔ ہمیں معلوم ہے کہ ہماری قوم جذبات میں بہہ جاتی ہے، مدعوں کو اس کے پس منظر
میں دیکھنے کی عادی نہیں ہوئی اور پھر ایسے پارٹی وفاداروں کی بھی تو کمی نہیں جو
فون پر ہدایت ملتے ہی جھنڈے پتلے جلانے اور احتجاج کرنے گھروں سے نکل پڑتے ہیں۔ کون
کہہ سکتا ہے یوپی کی ایس پی سرکارکا رویہ مسلمانوں کے ساتھ اس سے مختلف ہے جو دیگر
ریاستوں میں ہے؟ یادو سرکار کے حق میں یہ ہوگا کہ وہ مسلم جذبات کے استحصال کی
تدبیریں تلاش کرنے کے بجائے اپنے انتخابی وعدوں کی سدھ لے۔حیرت اس بات پر ہوتی ہے
کہ اپنی ریاست کی مسلم اقلیت کے مسائل سے تو چشم پوشی برتی جاتی ہے اور عراق
وافغانستان کی مسلم آبادی پر امریکی مظالم کے خلاف سینہ کوبی سے سیاسی مفاد آرائی
کی کوشش کی جارہی ہے؟(ختم) |