ذرا ہٹ کے، ذرا بچ کے

مرزا تنقید بیگ کئی دِنوں سے اللہ کی مخلوق کو راحت بخش رہے ہیں یعنی گوشہ نشینی اختیار کئے ہوئے ہیں! اب اُن کے ”شَر“ سے محفوظ رہنے کی ایک بہتر صُورت اِسی صُورت نکل سکتی ہے کہ وہ ”از خود نوٹس“ کے تحت لوگوں سے کم کم مِلیں! اوروں کا تو علم نہیں، ہم اپنے آپ کو ایسا خوش نصیب نہیں گردانتے کہ مرزا ہم سے مِلنا کم کردیں۔ مگر جب ہم نے دیکھا کہ مرزا کی گوشہ نشینی روپوشی کی حد کو چُھو رہی ہے تو کچھ تشویش لاحق ہوئی اور اُن کے گھر جا پہنچے تاکہ رُوپوشی نما گوشہ نشینی کی ”وجہِ تسمیہ“ جان سکیں۔

مِرزا کمبل اوڑھے ایک کونے میں دُبکے ہوئے تھے۔ ہم سمجھے طبیعت ناساز ہے اِس لیے پوچھا کہیں بیمار تو نہیں پڑگئے؟ مرزا نے بیماری سے متعلق ہمارے استفسار پر لعنت بھیجتے ہوئے کہا۔ ”تم تو یہی چاہوگے کہ میں بیمار پڑجاؤں تاکہ ملنا نہ ہو اور تمہارے دِل کو سُکون ملے۔“

ہم نے سُکون سے جواب دیا جناب! ہم تو رسمی کارروائی کے طور پر پوچھ رہے تھے، ورنہ بیمار پڑیں آپ کے دُشمن!
”تو پھر پڑ جاؤ نا بیمار۔“ مِرزا نے جواباً فرمائش داغ دی!

ہم نے استفسار کیا کہ اِتنے دِنوں سے گھر میں کیوں بند ہیں۔ خیر سے ابھی رمضان کا ماہِ مبارک بہت دور ہے۔ آپ کو تو رمضان میں قید کیا جاتا ہے!

مرزا نے تِلمِلاکر جواب دیا۔ ”تم سے بڑا بے خبر بھی دُنیا میں بھلا کون ہوگا؟ خدا جانے وہ سب کچھ کیسے لِکھ لیتے ہو جسے کالم قرار دیکر داد پانے کی ہوس ہے!“

ہم نے وضاحت چاہی کہ ہماری نظر سے کیا چُوک گیا ہے، کون سی بات جاننے سے ہم رہ گئے ہیں۔ ڈینگی فیور تو پھیلا نہیں جو کوئی یوں قرنطینہ میں جا بیٹھے۔ اور کِسی چھوٹی موٹی بیماری کی کیا مجال کہ مرزا کے نزدیک بھی پھٹکے!

ارشاد ہوا۔ ”فضاءمیں خرابی کی بُو تو ہم نے بہت پہلے سُونگھ لی تھی مگر مسلم لیگ (ن) کے سربراہ میاں نواز شریف نے بھی کہا تو سمجھ لو تصدیق ہوگئی۔“

ہم نے وضاحت طلب نظروں سے دیکھا تو اُنہوں نے بات آگے بڑھائی۔ ”میاں صاحب نے کہا ہے کہ نوجوان ہوشیار رہیں، شکاری اُن کے شکار پر نکلے ہیں۔ کِسی بھی وقت ہَلّا بولا جاسکتا ہے۔“

ہم سہم گئے۔ بہت پہلے کی بات ہے، اُستادِ محترم رئیس امروہوی مرحوم نے کہا تھا
بہت دِنوں سے یہی شغل ہے سیاست کا
کہ جب جوان ہوں بَچّے تو قتل ہو جائیں!

اور یہ رُجحان اِس لیے پروان چڑھا تھا کہ بعض شُعراءشعوری یا لاشعوری طور پر نوجوانوں کو سچ بولنے کے نام پر سِسٹم سے ٹکرا جانے کی تحریک دیکر ایک طرف ہٹ جاتے تھے! بعض اشعار میں سچ بولنے کے صِلے کی ”نوید“ بھی سُنادی جاتی تھی۔ مثلاً
کبھی نہ روکیے سچ بولنے سے بَچّوں کو
اِنہی کے دم سے تو مقتل میں رونقیں ہوں گی!

ہم نے نوجوانوں کے شکار سے متعلق خدشات کا اظہار کیا۔ جب بات قتل اور مقتل تک پہنچی تو مرزا نے کمال شفقت سے کام لیتے ہوئے ہمیں سمجھایا۔ ”ہر معاملے میں اپنی عامیانہ یعنی صحافیانہ دانش سے کام مت لیا کرو ورنہ فلسفیوں کی طرح ہمیشہ تاریک کمرے میں ایسی کالی بلّی تلاش کرتے رہوگے جو وہاں ہے ہی نہیں! ضروری تو نہیں کہ شکار کا مطلب مار دینا یا پھاڑ کھانا ہی ہو۔ نوجوانوں کے شکار پر نکلنے یا اُنہیں ٹارگٹ کرنے کا مطلب یہ ہے کہ نئی نسل کے ووٹ حاصل کرنے کی بھرپور کوشش کی جائے گی۔“

مرزا کی وضاحت سے ہم مطمئن تو ہوگئے مگر حیران بھی ہوئے کہ اگر نواز شریف نوجوانوں کو خبردار کر رہے ہیں تو مرزا کیوں پریشان ہیں۔ اُن کی جوانی کو گزرے ہوئے تو کئی عشرے بیت چُکے ہیں! اب کون بے وقوف اُن پر ”شب خون“ مارے گا؟ جب ہم نے جوانی سے متعلق تحفظات مرزا کے گوش گزار کئے تو وہ بدک گئے اور ”دِل ہونا چاہی دا جوان، عُمراں چ کی رکھیا اے“ والی نظروں سے ہمیں گھورتے ہوئے پھر لب کُشا ہوئے۔ ”جوانی کا تعلق ارادوں سے ہے۔ دِل جوان ہے تو ہم بھی جوان ہیں۔“

ہم نے جلتی پر مزید تیل چھڑکنے کی نِیّت سے مرزا کے گوش گزار کیا کہ آپ میں جوانی یقیناً پائی جاتی ہے کیونکہ آپ کا بڑھاپا عہدِ شباب سے گزر رہا ہے! اِس پر مرزا نے بہ آواز بلند، بلکہ بہ بانگِ دُہل لاحول پڑھی۔ ہم ڈر گئے کہ کہیں وہ غائب نہ ہو جائیں! خیر گزری کہ مرزا لاحول پڑھ کر بھی ”برقرار“ رہے اور سلسلہ کلام آگے بڑھایا۔ ”لوگ کہتے ہیں کہ تیسری عالمی عالمی جنگ آبی وسائل کیلئے ہوگی۔ ہمارے ہاں دسویں انتخابی جنگ نوجوانوں پر قبضے کیلئے ہو رہی ہے! دہشت گردی کی نذر ہو نے والے نوجوانوں کو سیاسی جماعتیں اپنا کارکن ثابت کرنے کے لیے لڑتی آئی ہیں۔ اب وہ زندہ نوجوانوں کو اپنا ثابت کرنے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہی ہیں! ویسے تو خیر نئی نسل کے کرتوت ہیں ہی ایسے کہ اُس پر منہ چُھپانا واجب ہوچکا ہے۔ سیاسی جماعتوں کے عزائم بھانپ کر وہ مُنہ مزید چُھپاتی پھر رہی ہے۔ اب نوجوان گھر سے نکلتے بھی ہیں تو ’ذرا ہٹ کے، ذرا بچ کے‘ والے انداز سے۔ خدا جانے کِس موڑ پہ کون سی سیاسی جماعت گھات لگائے بیٹھی ہو۔“

ہم نے عرض کیا کہ اگر سیاسی جماعتیں نوجوانوں کو ساتھ لیکر کچھ کرنا چاہتی ہیں تو اِس میں ہرج یا بُرائی کیا ہے۔ مرزا نے کہا۔ ”نئی نسل کا تو لوگوں نے ایک زمانے سے ناک میں دم کر رکھا ہے۔ توقعات کا پوٹلا اُس کے سَر پر دَھرنے کے بعد کہا جاتا ہے کہ توازن برقرار رکھ کر دِکھاؤ۔ ہر سیاسی تقریر میں اُسے مستقبل کا معمار ٹھہرایا جاتا ہے۔“

ہم نے استفسار کیا کہ نوجوانوں کو مستقبل کا معمار قرار دینے میں بُرائی کیا ہے۔ مرزا نے وضاحت کی۔ ”بہت سے نوجوان جب معمار کا مفہوم سمجھنے کیلئے لُغت کی ورق گردانی کرتے ہیں تو وہاں ’راج مِستری‘ مُنہ چڑا رہا ہوتا ہے! جب کوئی نوجوانوں کو قوم کا سُتون قرا دیتا ہے تب بھی وہ سہم کر رہ جاتے ہیں کیونکہ پوری عمارت کا بوجھ سُتون کو برداشت کرنا پڑتا ہے اور ہلنے کی اجازت ہوتی ہے نہ گنجائش!“
ہم نے کہا یہ تو اچھی بات ہے کہ نئی نسل کیلئے کوئی ڈھنگ کی مصروفیت نکل آئے۔ یہ سُن کر مرزا نے لپکتا ہوا جواب دیا۔ ”تم ڈھنگ کی مصروفیت کا راگ الاپ رہے ہو۔ پہلے نئی نسل سے پوچھ تو لو کہ اُس کے پاس وقت ہے بھی یا نہیں۔ چار دن کی جوانی میں سو جھمیلے ہوتے ہیں یا پالنے پڑتے ہیں۔ دِل دینا ہوتا ہے، لینا ہوتا ہے۔ دِل میں درد بھی سمیٹا جاتا ہے، پھر اُس درد کا علاج بھی کرنا ہوتا ہے۔ رات بھر کے پیکیج پر جی بھر کے باتیں بھی کرنی ہوتی ہیں۔ ون وھیلنگ کا ٹنٹا بھی ساتھ لگا ہوا ہے۔ ہوٹلوں کے باہر شب بیداری بھی کرنی ہوتی ہے۔ بجلی کے کھمبوں پر چڑھ کر بینر اور پرچم بھی لگانے ہوتے ہیں۔ شادی کی تقریبات میں ناچ گانا اور ہَلّا گُلّا بھی کرنا ہوتا ہے۔ اب تم ہی بتاؤ کہ نئی نسل سیاست دانوں کی خواہشات پوری کرنے کیلئے وقت کہاں سے نکالے؟“

ہم نے ملتجیانہ انداز سے عرض کیا کہ نئی نسل کو اِن تمام جھمیلوں میں پڑنے کی ضرورت کیا ہے۔ یہ تو وقت کا ضیاع ہے۔ مرزا نے نئی نسل کی طرف داری جاری رکھی۔ ”میاں تمہیں کہا پتہ جوانی ہوتی کیا ہے۔ تمہارا تو عہدِ شباب بھی صفحے کالے کرنے میں گزر گیا۔ نوجوان اگر مختلف مشاغل پروان چڑھاکر وقت کو ٹھکانے نہ لگائیں تو اِتنا سارا وقت تو پڑے پڑے سَڑ جائے!“

ہم نے کہا یہ بات تو ہے تو اچھا ہے کہ نوجوانوں کا کچھ وقت سیاست کی نذر ہوکر قوم کے کام آجائے!

مرزا نے پھڑکتا ہوا جواب داغا۔ ”سیاست کی نذر ہوکر کون کام کا رہا ہے جو نوجوان کچھ کر پائیں گے؟ جسے ٹھکانے لگانا ہے اُسے سیاست میں لے آئیے۔ بے چارے نوجوان چار دن اپنا دِل بہلائیں تو وہ بھی اہل سیاست سے ہضم نہیں ہو پارہا۔ بعد میں انہی نوجوانوں کو زندگی بھر دال روٹی اور گھر بار کے جھمیلے سے نبرد آزما ہوتے رہنا ہے۔ دِل لینے اور دینے کا کھیل بھی چھین لیا تو اُن کی زندگی میں کیا رہ جائے گا! سیاست دان اِتنی مہربانی تو کریں کہ زندگی کے خوبصورت ترین لمحات سے محظوظ ہونے والوں پر شب خُون نہ ماریں!“
M.Ibrahim Khan
About the Author: M.Ibrahim Khan Read More Articles by M.Ibrahim Khan: 572 Articles with 524400 views I am a Karachi-based journalist and columnist. .. View More