چراغ سب کے بجھیں گے!

کہتے ہیں کسی باغ کے قریب سے گزرنے والے ایک سید، چوہدری، مراثی اور ایک عام آدمی نے مالک کی اجازت کے بغیر کچھ پھل توڑکر کھالیے۔ مالک نے جب چار افراد کو دیکھا کہ میں ان سے مقابلہ نہیں کرسکتا تو اس نے عام آدمی کی طرف رخ کیا اور کہا کہ سید اور چوہدری تو ہمارے سردار ہیں ، مراثی ہمارا بھائی اگر انہوں نے میرے باغ سے پھل توڑ کر کھائے ہیں تو یہ باغ ان کا اپنا ہے لیکن تم کون ہوتے ہیں میرے باغ سے پھل کھانے والے؟ یہ کہہ کر اس نے عام آدمی کی پٹائی لگائی اور باغ سے نکال باہر کیا۔ سید، چوہدری اور مراثی بہت خوش ہوئے کہ عام آدمی کو یہ تو یہ حق نہیں پہنچتا کہ کہ وہ کسی کے باغ سے بغیر اجازت کے پھل کھائے۔ دوسری طرف کچھ وقت گزرا تو باغ کے مالک نے مراثی سے کہا کہ سید صاحب تو ہمارے سردار ہیں اور چوہدری صاحب ان زمینوں کے مالک ہیں ان لوگوں نے اگر پھل کھائے ہیں تو کوئی مسئلہ نہیں لیکن تم کیسے بھائی ہو جسے بھائی کا احساس تک نہیں ہے؟! یہ کہہ کر اس نے مراثی کو مارنا شروع کردیا سید اور چوہدری پھل کھاتے ہوئے ہنستے رہے اور خوش بھی ہوتے رہے کہ اچھا ہے مراثی کی پٹائی ہورہی ہے کیونکہ اس نے ہمارے ناک میں دم کیا ہوا تھا۔ مراثی مارکھا کر باغ بھاگ کھڑا ہوا ۔مراثی کو مارنے کے بعد باغ کے مالک نے چوہدری سے کہا کہ سید تو ہمارے رسول کی اولاد ہیں اللہ نے تمہیں زمین دی ہے، باغات دیئے ہیں لیکن تم پھر بھی دوسروں کے مال پر نظر رکھتے ہو! یہ کہہ کر چوہدری صاحب کی دھلائی کی۔ چوہدری صاحب مارکھا کر اور باغ کے مالک کو اس کی مطلوبہ رقم دے کر بھاگ نکلے۔ باقی رہ گئے سید صاحب تو باغ کے مالک نے یہ کہہ کر سید صاحب کی ٹھکائی کی کہ جناب جب آپ اپنے آباء و اجداد کی شریعت پر ہی عمل نہیں کرتے تو پھر آپ کا سید ہونا کس کام کا ؟!

مذکورہ بالا لطیفہ یا سبق آموز داستان اور پاکستان میں دہشت گردی کی صورتحال بھی کچھ ایسی ہی ہے۔ دہشت گرد عناصر نے فرقہ واریت کی بنیاد پر شیعہ اور بریلوی مسالک کو نشانہ بنایا ، ان کی مساجد و عبادت گاہوں میں دھماکے کیے تو مقتدر حلقوں اور مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد کی جان پر جوں تک نہیں رینگی بلکہ کچھ تو خوشی بھی محسوس کررہے تھے کہ چلو اس طرح مذہبی عناصر کو بدنام کرنے کا موقعہ ملے گا اور یہ لوگ خود ہی آپس میں لڑکر اپنی موت مرجائیں گے لیکن کسی نے بھی دہشت گردوں کے مقاصد اور ان کی پشت پر موجود طاقتوں کی طرف نگاہ ڈالنے کی زحمت گوارا نہیں کی۔ کچھ ہی مدت گزری اور دہشت گردوں نے مسالک کے ساتھ ساتھ پاک فوج کو بھی نشانہ بنانا شروع کیا یہاں تک کہ جی ایچ کیو، مہران بیس، کامرہ، واہ کینٹ سمیت ملکی دفاع کے دسیوں اہم مراکز پر حملے کیے گئے ،پورا پاکستان ہل کر رہ گیا لیکن بعض سیاسی و مذہبی جماعتوں خاص طور پر جماعت اسلامی اور جمیعت علمائے اسلام نے تو حد کردی کہ ان حملوں کی مذمت ایسے کی جیسے پاک فوج کی اپنی غلطیوں کی وجہ سے یہ حملے ہوئے ہیں۔ میڈیا کے بعض اینکرز نے مذمت کے الفاظ ان جماعتوں کے سربراہوں سے نکلوانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگایا مگر"یہ نہ تھی ہماری قسمت " خلاصہ کلام یہ ہے کہ بعض سیاسی جماعتوں نے کوئی سنجیدہ ردعمل ظاہر نہیں بلکہ اپنی ہی فوج کی مخالفت شروع کردی۔

دوسری طرف پی پی ، اے این پی اور ایم کیو سمیت بعض سیاسی جماعتوں نے دہشت گردی کے خلاف آواز اٹھائی تو انتخابات کا اعلان ہوتے ہی انہیں دہشت گردوں کی طرف سے دھمکیاں ملنی شروع ہوئیں اور چند ہی دنوں میں پاکستانی عوام نے دیکھا کہ دہشت گردوں نے دھمکیوں پر عمل کرتے ہوئے اب تک متعدد دھماکے کرکے لوگوں کو خوفزدہ کردیا ہے۔وہ چند جماعتیں جن کے بارے میں دہشت گردوں نے اعتماد کا اظہار کیا ہے اور انہیں انتخاباتی سرگرمیاں انجام دینے کی اجازت دی ہے وہ بظاہر خوش نظر آرہی ہیں کہ اس طرح اقتدار تک ان کا راستہ بہت کم ہوگیا ہے ۔

لیکن! وہ یاد رکھیں کہ ان کی باری بھی آیا ہی چاہتی ہے ۔ دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کے لیے جہاں پوری قوم کو یک صدا ہونا پڑے گا وہاں دہشت گردی کی پشت پر کارفرما عناصر کا جائزہ لینا بھی ضروری ہے اور یہاں کے دہشت گردوں پر ہاتھ ڈالنے سے پہلے ملک میں دہشت گردی کو پروان چڑھانے والے ہاتھ کاٹنے ہونگے۔ ورنہ ہمارا حال بھی باغ میں موجود لوگوں جیسا ہوگا اس فرق کے ساتھ کہ اس دفعہ باغ کا مالک نہیں بلکہ باغ کے دشمن یہ فریضہ انجام دیں گے۔ دہشت گردوں کی اخلاقی مدد کرنے والی پاکستانی جماعتوں کے بارے میں کسی نے کیا خوب کہا ہے :
ہوا کی زد پہ اگر ہوں تو خوش گمان نہ ہو
چراغ سب کے بجھیں گے ہوا کسی کی نہیں!
(خاکم بدہن)

جواد احمد
About the Author: جواد احمد Read More Articles by جواد احمد: 10 Articles with 7359 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.