راجہ ماجد جاوید بھٹی
کشمیریوں کی قاتل بھارتی فوج اپنا بھیانک روپ بے نقاب ہونے اور کشمیریوں کا
قتل عام جاری رکھنے کے باوجود ان کا بڑھتا ہوا جذبہ آزادی دیکھ کر بوکھلاہٹ
کا شکار ہو رہی ہے۔ ایک طرف کشمیر میں بے مقصد جنگ لڑنے والے بھارتی فوجیوں
میں خودکشی کے رجحانات اور واقعات بڑھ رہے ہیں تو دوسری طرف تحریک آزادی
کشمیر میں بھارتی فوج کے بڑھتے ہوئے مظالم کے ساتھ ساتھ مزید تیزی آتی جا
رہی ہے۔ اس ساری صورتحال کا سامنا کرنے کی بجائے بھارتی فوجی قیادت پاکستان
پر الزام تراشی کرکے اپنی ناکامی چھپانا چاہتی ہے۔ کشمیر میں تعینات بھارتی
فوج کے سولہویں کور کے کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل ڈی ایش ہوڈا نے پاکستان کے
خلاف میڈیا وار کرتے ہوئے یہ الزام عائد کیا ہے کہ پاکستان میں مجاہدین کے
30 تربیتی کیمپ ہیں اور برف پگھلنے کے ساتھ جموں و کشمیر میں دراندازی کے
لئے دو سو مجاہدین تیار بیٹھے ہیں۔
دوسری طرف سچ یہ ہے کہ بدمعاش بھارتی فوج جو مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق
کی بدترین خلاف ورزیوں میں ملوث ہے جس نے اقوام متحدہ کے منشور کے مطابق
تحریک آزادی جاری رکھنے والے بے گناہ کشمیری عوام کا منظم قتل عام جاری
رکھا ہوا ہے۔ بھارتی انٹیلی جنس ایجنسی بدمعاش ”را“ آزادی کے متوالے
کشمیریوں کا حوصلہ توڑنے کے لئے بھارتی فوج کے ذریعے خواتین کی بے حرمتی کا
مکروہ حربہ بھی استعمال کرتی رہتی ہے تاہم اس طرح کے انسانیت سوز واقعات سے
کشمیریوں کی دینی غیرت اور جذبہ آزادی سرد ہونے کی بجائے مزید گرم ہو جاتا
ہے جس کی مثال سانحہ شوپیاں میں ملوث بھارتی فوجیوں کے خلاف جاری تاریخی
عوامی احتجاج کا تسلسل تھا۔ اب تو متعلقہ لیڈی ڈاکٹر کے بیان سے یہ حقیقت
بھی سامنے آ چکی ہے کہ بھارتی فوج کے حکم پر سانحہ شوپیاں کے شواہد چھپائے
گئے اور قاتل بھارتی فوجیوں کو بچانے کے لئے مقتولین نیلوفر اور آسیہ کی
لاشوں کے بجائے پلوامہ ڈسٹرکٹ ہسپتال کے میٹرنٹی وارڈ میں زیر علاج ایک
مریضہ کے جسم سے حاصل کردہ رطوبتوں کے نمونے رپورٹ کا حصہ بنا دیئے گئے۔
جب سے بھارتی مرکزی تحقیقاتی ادارے سی بی آئی نے شوپیاں ریپ کیس کی جانچ کا
کام سنبھالا اس کیس کے حوالے سے سامنے آنے والے نتائج اور تحقیقاتی عمل سے
ثابت ہوا کہ 29 اور 30 مئی 2009ءکی درمیانی شب اغواءاور اجتماعی زیادتی کے
بعد قتل کی جانے والی دو کشمیری خواتین 22 سالہ نیلو فر شکیل اور اس کی
17سالہ نند آسیہ جان کی موت کی ذمہ داری بھارتی فوجی ہیں اور ان کے گھناﺅنے
کام پر پردہ ڈالنے میں پولیس کے ساتھ بھارتی ڈاکٹرز بھی شریک تھے۔ کشمیری
ذرائع ابلاغ نے بھی تصدیق کی ہے کہ سی بی آئی کے اعلیٰ حکام اور تفتیش
کاروں نے غیر معمولی کارروائی کے لئے دونوں خواتین کی لاشیں قبروں سے
نکلوائیں تھیں، ان لاشوں کا ایک بار پھر ماہر فارنسک جانچ کرنے کے لئے
ڈاکٹروں اور ٹیکنیشنز کی نگرانی میں معائنہ کیا گیا جس کے بعد نیلوفر شکیل
اور آسیہ جان کی لاشوں کو دوبارہ باعزت طور پر تدفین کے مراحل سے گزارا
جائے گا۔ واضح رہے کہ سی بی آئی کے اعلیٰ حکام نے مجسٹریٹ کی مدد سے کی
جانے والی ایک کارروائی میں نیلوفر کے شوہر اور اس کی نند آسیہ کے بھائی
شکیل احمد زرگر سمیت ان کے بزرگوں سے تحریری طور پر لاشوں کا معائنہ کرنے
کے لئے قبر کشائی کی اجازت طلب کی تھی۔ جس کے بعد سی بی آئی نے کشمیر میں
موجود سرجنوں اور ماہرین کی خدمات حاصل کرنے کے بجائے دہلی سے ماہر سرجن
پوسٹ مارٹم اسپیشلسٹ اور فارنسک ماہرین کو بلوایا ہے جنہوں نے پیر 28 ستمبر
سے اپنے کام کا آغاز کردیا تھا۔ بھارتی مرکزی تحقیقاتی ادارے سی بی آئی کے
ذرائع کے مطابق سی بی آئی کی جانب سے شوپیاں سانحے کے حوالے سے مرکزی حکومت
کو جمع کروائی جانے والی ابتدائی رپورٹ میں سابقہ کمیشن اور پولیس افسران
پر مشتمل سپیشل انوسٹی گیشن ٹیم (ایس آئی ٹی) کی تحقیقات کو غیر تسلی بخش
قرار دیا تھا اور اس موقف کا اظہار کیا تھا کہ تحقیقات میں پولیس کے اہم
افسران کا کردار مشکوک ہے اور ساتھ ہی ڈاکٹروں کا کردار بھی قابل تحسین
نہیں ہے جس کی مکمل جانچ کی جانی چاہئے۔ |