11 مئی 2013 ء کو پاکستان میں عام انتخابات کا اعلان
ہوچکاہے تمام سیاسی دکاندار اپنی دکانیں چمکانے کی کوشش کررہے ہیں اور نئی
اسکیموں سے اپنے گاہکوں( ووٹروں) کو رجھانے کی کوشش کررہے ہیں ۔پنجاب میں
تو خیر نوازلیگ اور سونامیوں کا زور ہے اور وہ کھل کر اپنی تشہیر کررہے ہیں
اور عوام کو سبز باغ دکھانے میں مصروف ہیں مگر دیگر تین صوبوں میں حالات
یکسر مختلف ہیں خیبر پختونخواہ میں عوامی نیشنل پارٹی بم حملوں کا ہدف ہے
تو سندھ میں پیپلز پارٹی اور متحدہ کو انتخابی مہم چلانے سے روکا جارہا
ہے،بلوچستان کے قبائلی اور پس ماندہ معاشرے میں بھی امن و امان ایک طویل
عرصہ سے مسئلہ بنا ہوا ہے مگر الیکشن کا موسم آتے ہی دہشت گردی اپنی
انتہاؤں کو چھو رہی ہے ۔
ویسے تو تمام سیاسی جماعتوں کا کم و بیش عوام کی طر ف رویہ یکساں ہی ہے
یعنی ووٹ لینے کے بعد اقتدار کی طاقت عوام کے ذریعے حاصل کرنے کے بعد ،
بیلٹ پیپر پر مہر لگانے کے بعد عوام کی حیثیت ٹوائلٹ پیپر سے بھی کم تر
ہوجاتی ہے۔اگر ان لوگوں نے واقعی کوئی کام کیا ہوتا ،کوئی ٹھوس حکمت عملی
پاکستان کو درپیش تمام مسائل بشمول دہشت گردی کے حل کے لئے تشکیل دی ہوتی
تو آج یہ نوحہ کناں نہ ہوتے ،سندھ خصوصاً کراچی میں تو سیاسی جماعتوں کا
مقصد اور مطمع نظر صرف علاقوں پر قبضہ کرنے یا قبضہ برقرار رکھنے کی جدو
جہد رہی۔لوگوں کو جس طرح جبراً اپنے جلسوں اور ریلیوں میں گھسیٹ کر لے جایا
جاتا ہے ،وہ اہل کراچی بہت اچھی طرح جانتے ہیں ،جس طرح یہاں نفرتوں کے بیج
بوئے گئے بھائی کو بھائی سے لڑایا گیا اور یہ خوف عوام میں پیدا کیا گیا کہ
اگر مہاجر وں نے مہاجر پارٹی کا ساتھ نہ دیا تو خدانخواستہ پٹھان مہاجروں
کو کچا چبا کر کھا جائیں گے اور اگر پٹھانوں نے پٹھان پارٹی کو ووٹ نہ دیا
تو مہاجر ان کا تکہّ بنا دیں گے اور اسی طرح لیاری کے غریب بلوچوں اور
سندھیوں کو امن کمیٹی نامی فساد میں مبتلا کرکے انہیں بھی اسی نوعیت خوف
میں مبتلاکیا اور مسلح بدمعاشوں کو ان پر مسلط کردیا گیا۔۔۔جب کہ ایک عام
مہاجر ، پختون ، بلوچ ،سندھی، پنجابی اور دیگر کسی بھی قومیت کے افرادمیں
آپس میں کوئی دشمنی نہیں ہے وہ بالکل پرامن تھے ہیں اور رہنا چاہتے ہیں مگر
اس سیاسی گھناؤنے کھیل نے کراچی کے رہنے والے ہر شخص کو خوف میں مبتلارکھا
۔۔۔۔مگر آج یہ کیا ہوا کہ شاہی سید ، نائن زیرو آگیا فاروق ستار نے مردان
ہاؤس جانا گوارا کر لیا کیوں؟؟؟؟کیا ان 18 ہزار معصوم لوگوں کے خون کا کیا
ہواجو پچھلے پانچ سالوں میں ان عصبیت پرست پارٹیوں کے کارندوں نے کراچی کی
سڑکوں پر ٹارگٹ کلنگ کے نام پر بہایا ہزارو ں معصوم بچوں کو یتیم کیا،
ہزاروں بہنوں کے بھائی ، اور ماؤں کے بیٹے خاک و خون میں نہلا دئیے گئے ؟
پانچ سال قبل ان سیاسی مداریوں کو ہوش کیوں نہیں آیا کہ ایک ساتھ بیٹھ کر
اپنے تمام اختلافی معاملات کو حل کرتے اور شہر اور ملک کے وسیع تر مفاد میں
شہر میں بسنے والی تمام اکائیوں میں ہم آہنگی اور محبت پیدا کرتے مگر ان کا
اتحاد عوام کے لئے نہیں کراچی میں بہنے والے خون ناحق کے لئے نہیں بلکہ
اپنے پنے پارٹی اور ذاتی مفادات کے تابع تھااور جب دہشت گردوں نے ان کے
کارندوں اور ان کے مراکز کو نشانہ بنانا شروع کیاتو یہ سب ایک پیچ پر آگئے
آج ان شہیدوں کے لواحقین کے دل خون کے آنسو رو رہے ہیں جن کے پیاروں کو صرف
اسی لئے مار دیا گیا کہ وہ مہاجر ، سندھی ، پٹھان یا بلوچ تھے ۔قصبہ علی
گڑھ پر اس لئے مورچہ بند ہوکر چار دن تک متواتر فائرنگ کی گئی نہتے لوگوں
پر آگ برسائی گئی کہ ان کا تعلق کسی خاص لسانی قومیت سے ہے۔لیاری میں
نوجوانوں کو اغواء کرکے ان کے ٹکڑے کے بوریوں میں ڈالے گئے اور اس کی ویڈیو
بنا کر تشہیر کی گئی ،معصوم مزدوں، چائے والوں، موچیوں رکشے اور ٹیکسیوں
والوں کو صرف اس لئے قتل کردیا گیا کہ ان کی رنگت گوری تھی اور وہ پشتو
بولتے تھے ،زینب مارکیٹ صدر سے شاپنگ کرتے ہوئے چار بلوچ نوجوانوں کو اغواء
کرکے بہیمانہ تشدد کا نشانہ بنا کر قتل کرکے ان کی لاشیں لیاری والوں کو
تحفہ میں دی گئیں واجہ کریم داد کو قتل کیا گیا رضا حید ر، منظر امام اور
نجانے کتنے ہزار معصوم اردو بولنے والے پچھلے پانچ سالوں میں قتل ہوئے ۔
کراچی کے عوام تینوں حکمرانوں سے صرف ایک سوال کرتے ہیں تم پانچ سال تک
پاکستان کے سیاہ و سفید کے مالک رہے اور تمام قانون نافذکرنے والے ادارے
تمہارے ماتحت رہے فوج نے بڑے صبر سے تمہارے کالے کرتوتوں کے باوجود تمہاری
حکومتوں کو چلنے دیا اور مدت پوری کرنے دی مگر عوام پاکستان کے عام آدمی
کیلئے تم نے کیا کیا ؟طالبان نے منگھو پیر ، سلطان آباد ،سہراب گوٹھ ،قائد
آباد اور دیگر علاقوں میں اپنے محفوظ ٹھکانے بنا لئے تمہاری حکومت کہاں
سوئی رہی اور اب تم جب تمہارے مقبوضہ علاقوں پر ضرب پڑی تمہیں تمہارے گھر
میں گھس کر مارا جانے لگا تو تمہیں ہوش آیا اب تم اتحاد کرنے اور مشترکہ
پریس کانفرنسیں کرنے لگے ہو،جب تمہیں اپنی شکست صاف نظر آنے لگی کہ اب عوام
ہماری کارکردگی سے تو بالکل مایوس ہیں اچھی حکمرانی دینے میں تو ہم مکمل
طور پر ناکام ہوچکے پانچ سال تک ہم نے عوام کا خون چوسنے اور خون بہانے کے
سوا کچھ کیا نہیں ،تو اب کس بنیاد پر اور کس منہ سے عوام سے ووٹ مانگیں ،سو
اب مظلومیت کا ووٹ لینے ،لوگوں کے جذبات سے کھیلنے کی کوشش کرنے لگے اور یہ
باور کرانے کی بھونڈی کوششیں کرنے لگے کہ ہمارے ساتھ ظلم ہورہا ہے.......
ارے بھائی ظلم تو وہ تھا جو عوام نے پانچ سال تک عوام پر روا رکھا گیا اب
لاشوں پر قبضہ کرکے جھنڈے ڈالنے سے عوام متاثر نہیں ہوں گے ،بہتر یہی ہے کہ
ڈرامے بازی ختم کرکے حقیقت کا سامنا کرو اب بھی سچ بولو اور اپنے رب سے اور
اپنے ووٹروں سے معافی مانگو اور آئندہ اپنے آپ کو زمین پر خدا نہ سمجھنے کا
عہد کرو تو شاید کچھ ازالہ ہوسکے ورنہ شاید تمہاری داستاں بھی نہ ہو
داستانوں میں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ |