خاکسار نے محترم سلیم اللہ شیخ صاحب کے
کالم بعنوان ‘ کراچی: اصل مسئلہ کیا؟ ‘ کا مطالعہ کرنے کے بعد یہ آرٹیکل
لکھنے کی ضرورت محسوس کی- کراچی مسئلہ بابت محترم سلیم اللہ شیخ صاحب نے
اپنے آرٹیکل میں نہایت باریک بینی سے جائزہ لیا ہے اور ہر پہلو سے اس مسئلہ
کو دیکھنے میں بھرپور کامیاب ہوئے ہیں، جسکی کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم
ہے- موصوف کا یہ کہنا تو انتہائی درست ہے کہ ایم کیو ایم نے طالبانائزیشن
کا ڈھنڈورا جہاں ‘استعمار‘ کی خاطر بحثیت ‘کمک‘ استعمال کیا وہیں پہ عین
ممکن ہے کہ یہ ڈھنڈورا اپنی ‘فطرت‘ کی پیاس بجھانے کے لیے بحثیت راستہ
‘بنانے‘ کے لیئے پیٹا ہو- مزید برآں، یہ بھی درست ہے کہ طالبانائزیشن، لینڈ
مافیا، ڈرگ مافیا، ٹرانسپورٹ مافیا کا نام لے کر ایم کیو ایم براہ راست ‘اے
این پی‘ پر الزام دھر رہی ہے جو کہ زمینی و تاریخی حقائق کو سامنے رکھ کر
انتہائی غلط ہے
بمطابق راقم، کراچی کا اصل مسئلہ یہ ہے کہ ‘اردو سپیکنگ طبقہ‘ کو ‘پٹھان
سپیکنگ طبقہ‘ کے بڑے پیمانے پر کراچی میں ڈیرہ ڈالنے سے سخت سیاسی و مالی
مشکلات کا سامنا ہے اور ایم کیو ایم کو اس بات کو بھی خوف ہے کہ کہیں ‘اے
این پن‘ کراچی میں اپنی ‘عددی برتری‘ ثابت کر کے ایم کیو ایم کو ‘کلین بولڈ‘
ہی نہ کر دے- یہیں پر یہ سوال بھی اٹھتا ہے کہ انیس سو ستر کے زمانہ میں
کراچی کے مزدور طبقے کی سیاست نے نمایاں کردار ادا کیا، لانڈھی، کورنگی اور
لیاری کے مزدور اور غریب طبقات کیا کسی اور ملک کو ہجرت کر گئے ہیں؟ ایسا
تبادلہ آبادی تو کہیں دیکھنے سننے میں نہیں آیا- ہاں یہ بہت ممکن ہے کہ
مزدور طبقہ نے زندہ رہنے کے لیے اپنی جدوجہد کو الطاف حسین کے حکم پر موقوف
کر رکھا ہو؟ آخر ایم کیو ایم نے بھی تو اپنی ‘عددی برتری‘ کی بڑھوتری کے
لیے دن رات کام کیا، چار چار شادیاں کیں، دھڑادھڑ بچے پیدا کیے تاکہ سندھی
مزدوروں کو عددی شکست دینے میں کامیابی حاصل کی جائے تو پھر اس کے ماتھے پر
پٹھانوں کی آمد سے کیوں وَٹ پڑ رہے ہیں؟ کیا کراچی جانے کے لیے ‘ویزہ‘
درکار ہے؟
سب سے اہم بات یہ کہ پٹھان لوگ پاکستان کے صوبہ سرحد میں آباد ہیں کوئی آؤٹ
سائیڈر نہیں کہ ان کا کراچی شہر میں داخلہ کسی بھی وجہ سے چاہے معاشی ہو یا
سیاسی ہو یا تحفظ ہو کہ سرحد میں ملٹری آپریشن جاری ہے، ممنوع قرار دینا
جہاں غیرآئینی و غیر قانونی و غیر اخلاقی ہے وہیں پر اسکا مطلب
انہیں‘علحیدگی پسندی‘ کی طرف ‘ہپناٹائزڈ‘ کرنے کے مترادف بھی ہے- لہذا کسی
پاکستانی کے کسی بھی شہر بالخصوص کراچی میں داخلے پر انگلی اٹھانا کسی بھی
طرح سوٹ نہیں کرتا اور ایسا کرنے والے یقینی طور پر اپنے علاقے ‘کراچی‘ میں
اپنی ‘حاکمیت‘ کو برقرار رکھنا چاہتے ہیں
ایک پرائمری جماعت کا بچہ بھی جانتا ہے کہ سندھ میں سندھی، پنجاب میں
پنجابی، سرحد میں پختون، بلوچستان میں بلوچی پائے جاتے ہیں اور یہ یہاں
صدیوں سے رہتے آ رہے ہیں- کیا ‘اردو سپیکنگ‘ بھی پاکستان میں وسیع پیمانے
پر پائے جاتے ہیں؟ اگر ہاں تو کس صوبہ میں؟ چلیں عقل کو ایک طرف رکھ کر مان
لیتے ہیں کہ اردو سپیکنگ بھی کراچی ‘صوبہ‘ میں پائے جاتے ہیں تو پھر یہ
سوال اٹھتا ہے کہ ‘مہاجر قومی موومنٹ‘ نے ‘متحدہ قومی موومنٹ‘ میں کیوں
پینترا بدلا؟؟ جی ہاں، یہی وہ سوال ہے جس سے ثابت ہو جاتا ہے کہ ایم کیو
ایم باالفاظ دیگر اردو سپیکنگ کلاس کا پاکستان کی دھرتی سے لسانی، زمینی،
سیاسی، تاریخی، معاشرتی، ثقافتی کوئی تعلق نہیں ہے بلکہ اس کی پیدایش کے
صرف دو ہی چیدہ اسباب ہیں- اولآ، سندھ میں پاکستان پیپلز پارٹی کو ختم کرنے
کے لیئے ضیاالحق نے اسے پیدا کیا اور اسٹیبلیشمنٹ میں بھرپور نمائندگی
دلائی- دوسرا یہ کہ ایم کیو ایم کی پیدائش، پاکستان کے کشمیر ‘جہاد‘ کے
ردِعمل میں ہمسایہ ملک نے کروائی---
اس بات پر بھی حیرت ہوتی ہے کہ وہ آخر کیا عوامل ہیں جنہوں نے معاشی اور
سماجی طور پر ترقی یافتہ شہر کو ‘شہرِ خموشاں‘ میں تبدیل کر کے رکھ دیا ہے،
جہاں سوائے ایک ‘خطیب‘ کے کسی اور کی آواز ہی سنائی نہیں دیتی؟ چِڑی بغیر
‘اجازت‘ پر نہیں مار سکتی؟ اگر کراچی مسئلہ کو فلسطین مسئلہ کے تناظر میں
سجھنے کی کوشش کی جائے تو اس کو سمجھنا انتہائی آسان ہے- فلسطین کی جگہ
‘سندھی‘ لفظ اور اسرائیل کی جگہ ‘ایم کیو ایم‘ لفظ رکھ کر کراچی مسئلہ کو
دیکھا جائے تو کچا چٹھا سب کچھ بآسانی باہر آجاتا ہے، لیکن جو باہر آئے اس
کو ظاہر نہیں کرنا کیونکہ اسکا ظاہر کرنا کراچی کو ایک اور لہو کا غسل دینے
کا سبب بن سکتا ہے- اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ کراچی شہر کی یرغمالیت ختم
کرنے کی طاقت و ہمت عطا فرمائے-آمین
‘پانی پانی کر گئی مجھ کو قلندر کی یہ بات
تُو جُھکا جب غیر کے آگے نہ مَن تیرا، نہ تَن‘ |