کراچی گزشتہ رات ایک بار پھر آگ اور خون میں نہلا دیا گیا ہے اور اخباری
اطلاعات کے مطابق ٢٨ اور بعض اطلاعات کے مطابق ٣١ افراد جاں بحق ہوگئے ہیں۔
جبکہ ٢٠ سے زائد گاڑیاں جلا دی گئی ہیں۔ اس کے علاوہ مختلف علاقوں میں
ہوٹلوں کو آگ لگائی گئی ہے۔ اب ان واقعات پر ایک تشویش کا اظہار بھی کیا
جارہا ہے۔ اس کی مذمت بھی کی جارہی ہے ایم کیو ایم کے الطاف حسین صاحب،اے
این پی کے اسفند یار ولی اور شاہی سید صاحب، وزیر اعلیٰ سندھ سید قائم علی
شاہ، صدر آصف علی زرداری اور وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی صاحب نے اس پر
گہری تشویش ظاہر کی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ وزیر اعلیٰ سندھ کی سربراہی میں
ایک اہم اجلاس بھی ہورہا ہے جس میں پی پی پی، اے این پی، اور متحدہ قومی
موومنٹ کے ذمہ داران کو شریک کیا گیا ہے اور شہر کی صورتحال پر تبادلہ خیال
جائے گا اور صورتحال کو سنبھالنے کے لیے اقدامات کیئے جائیں گے۔ یہ ایک بہت
ہی راست قدم اٹھایا گیا ہے جو کہ وقت کی ضرورت ہے لیکن میرا مسئلہ ہے کہ
میں صرف سامنے کی چیز نہیں دیکھتا بلکہ ساری صورتحال کو دیکھنے کی کوشش
کرتا ہوں۔
بات یہ ہے کہ آپ بھیڑیوں کا بھیڑوں کو نگہبان بنا دیں تو کیا وہ ان بھیڑوں
کی حفاظت کرےگا۔سندھی میں ایک مثال ہے کہ جس کا ترجمہ ہے کہ جو کا ڈھیر ہو
اور گدھا رکھوالی کرے گا؟ محترم یہ سارے لوگ جو امن کا راگ الاپ رہے ہیں
یہی لوگ تو اس صورتحال کے ذمہ دار ہیں کون نہیں جانتا کہ طالبان اور لسانیت
کا نام لیا جارہا ہے لیکن درحقیقت یہ تو شہر پر قبضے کی جنگ ہے۔ یہ تو لینڈ
مافیا کا جھگڑا ہے۔ جس کو بڑی صفائی سے طالبان سے منسوب کر کے اصل بات
چھپائی جارہی ہے۔
آج وزیر اعلٰی سندھ امن اجلاس بلا رہے ہیں لیکن بارہ مئی دو ہزار سات کو
یہی وزیر اعلٰی سندھ محترمہ شیری رحمان صاحبہ کے ساتھ متحدہ قومی موومنٹ پر
دہشت گردی کا الزام لگا رہے تھے۔اور ٹی وی چینلز کے مذاکروں میں تیز و تند
مباحث ہورہے تھے۔آج یہ لوگ اپنے اقتدار کو دوام دینے کے لیے عوام کو بیوقوف
بنارہے ہیں اور ایک دہشت گروپ کی حمایت کر رہے ہیں اور حقائق سے آنکھیں چرا
رہے ہیں۔
اے این پی کے شاہی سید آج اپنی سیاست چمکانے کے لیے بارہ مئی کا نام لے رہے
ہیں آج ان کو بارہ مئی کے شہداء کی یاد ستا رہی ہے آج ان کے دل میں بارہ
مئی کے شہداء کی محبت جاگی ہے۔ لیکن کیا عوام بھی بھول گئے ہیں کہ ان کے
بھی کیا بیانات تھے بارہ مئی دو ہزار سات کے فوراً بعد؟ قریباً ڈیڑھ سال تک
اتحاد میں رہنے کے بعد جب کچھ اختلافات پیدا ہوئے ہیں تو ایک بار پھر
لسانیت پھیلانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ کیا لوگ نہیں جانتے کہ اے این پی کا
کیا کردار ہے کراچی کے حالات میں؟ دیکھیں اے این پی کراچی میں پختونوں کی
ہمدردی حاصل کرنے کے لیے لینڈ مافیا، اور منشیات فروشوں کی سرپرستی کرتی
رہی ہے اور گزشتہ سال کے اوائل میں جب بلدیہ ٹاؤن میں اچانک فسادات اٹھ
کھڑے ہوئے تھے اور ایک تنظیم کا رہنما فضل الرحمان ہلاک ہوا تھا تو جس کے
فوراً بعد ہی الاصف اسکوائر پر بھی کشیدگی بڑھ گئی تھی اور اس کو بڑی صفائی
سے سیاسی رنگ دینے کی کوشش کی گئی تھی لیکن وہاں کے مقامی لوگوں سے جب
معلومات کی گئی تو معلوم ہوا کہ یہ سارا منشیات فروشی اور لینڈ مافیا کا
جھگڑا ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ متحدہ قومی موومنٹ کا بھی اس ساری صورتحال میں بہت بڑا
کردار ہے۔ کراچی میں جو لینڈ مافیا کا اور زمینوں پر قبضے کا مسئلہ اچانک
اٹھ کھڑا ہوا ہے تو دراصل وہ اچانک نہیں اٹھا ہے بلکہ یہ گزشتہ تقریباً
ڈیڑھ سال سے جاری ہے اور الطاف حسین صاحب نےاس صورتحال کو اپنے ایجنڈے کی
تکمیل کےلیے استعمال کرنا شروع کیا ہے۔ ایک طرف طالبان کا نام لیکر امریکہ
اور مغربی قوتوں کو خوش کیا جائے۔ دوسری طرف یہ کہا گیا کہ ہم پختونوں کے
خلاف نہیں ہیں ہم تو طالبان کے خلاف ہیں- لیکن اگلی بات سے صورتحال واضح
ہوجاتی ہے کہ نشانہ کون ہیں متحدہ کے قائد نے چند دن پیشتر اپنےایک خطاب
میں کہا کہ طالبان مکینکوں، ڈرائیوروں، کلینروں، اور مزدوروں کی بھیس میں
کراچی میں آگئے ہیں۔اب اس بیان کو دیکھا جائے تو یہ واضح طور پر ایک مخصوص
قومیت کی طرف رخ موڑا جارہا ہے۔یہاں یہ بات واضح رہے کہ اب کراچی کی جو
صورتحال ہے اس میں نارتھ ناظم آباد بلاک یو، بلاک کیو، بلاک ایس، بلاک جے،
بلاک ٹی اور نارتھ کراچی کا متاثرہ حصہ جو کہ الیون اے کی طرف لگتا ہے اور
بلدیہ ٹاؤن اورنگی ٹاؤن کا حصہ متاثر ہوگا۔ کیوں کہ نارتھ ناظم آباد کے
مذکورہ علاقے کی صورتحال یہ ہے کہ ایک روڈ جو کہ قلندریہ چوک سے عبد اللہ
کالج تک جاتی ہے وہ
ایک طرح کی سرحد کا کام کرتی ہے ایک طرف پختون آبادی کی
اکثریت ہے دوسری طرف اردو اسپیک آبادی کی اکثریت ہے۔ ہمارا مقصد خدانخواستہ
کوئی لسانیت کو فروغ دینا نہیں ہے بلکہ اصل بات کو سمجھنے کے لیے یہ بات
نہایت ضروی ہے یہاں لینڈ مافیا کا انتہائی زور ہے اور متحدہ قومی موومنٹ اس
سوچ کے ساتھ کہ اس سے پہلے دوسرے لوگ قبضہ کریں خود قبضہ کر کے اپنے لوگوں
کو یہاں آباد کرلیا جائے۔اس کی مثال بلاک آئی میں واقع تاج محل پارک ہے جس
کے آدھے حصے پر قبضہ کر کے وہاں باقادہ مکانات بنا کر دیئے گئے ہیں اور اس
گلی کو دونوں طرف سے بند کردیا گیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ قلندریہ چوک پر
واقع طالب چمن پارک پر بھی چار دیواری بنا کر کام شروع کردیا گیا ہے یہی
صورتحال بلدیہ ٹاؤن اور اورنگی ٹاؤن کی ہے
اب اس ساری صورتحال کو سامنے رکھیں اور پھر گزشتہ رات کے فسادات کا جائزہ
لیں تو یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اس میں ٹھیلے والوں، پتھارے والوں، رکشہ
ڈرائیوروں اور مزدورں کی ٹارگٹ کلنگ کی گئی مکانات اور دکانوں کو آگ لگائی
گئی ہے۔اس طرح ذاتی مفادات کی جنگ میں بے گناہ عوام کو ایندھن بنایا گیا ہے
اور دونوں پارٹیوں کے ذمہ داران کو اس بات سے کوئی غرض نہیں ہے کہ اس کا
نتیجہ کیا نکلے گا؟ اس کا نتیجہ صرف اور صرف عوام کو بھگتنا ہوگا۔ دیکھیں
اگر خدانخوستہ یہ فسادات لسانی رنگ اختیار کرتے ہیں تو صرف وہ لوگ مارے
جائیں گے جو مخلوط آبادی میں رہتے ہیں یعنی اگر پختون آبادیوں میں اردو
بولنے والے لوگ ہونگے تو وہ نشانہ بنیں گے اور ارود بولنے والوں کی آبادی
میں پختون نشانہ بنیں گے۔اس کے ساتھ ساتھ سائٹ ایریا جو کہ کراچی کا ایک
صنعتی علاقہ ہے اور پاکستان کی معیشت میں اس کا اہم کردار ہے وہ متاثر ہوگا
کیوں کہ پھر وہاں کی فیکٹریوں اور کارخانوں میں حاضری متاثر ہوگی کیوں کہ
یہ علاقے پختون اکثریتی آبادی پر مشتمل ہیں اور لامحالہ ان فسادات کا اثر
یہاں بھی پڑے گا اور ممکن ہے کہ ماضی کی طرح ایک بار پھر یہاں سے سرمایہ
کار اپنا کاروبار سمیٹ دیگر شہروں میں منتقل کردیں اس میں نقصان کسی کو
نہیں ہوگا سوائے کراچی کے ،(اور کراچی کی نمائندگی کی دعوےدار قیادت کو اس
پر غور کرنا چاہیے) دوسری طرف یہ ہوگا کہ اردو بولنے والی آبادی سے پختونوں
کو نکالنے کی کوشش ایک بار پھر کی جائے گی۔ لیکن غور کرنے کی بات یہ ہے کہ
کوئی فرد اپنا کاروبار سمیٹ کر تو شاید دوبارہ کہیں اور ازسر نو شروع کردے
گا لیکن دلوں میں جو بال آئے گا وہ شاید کبھی نہ نکل سکے۔ اور یاد رکھیں اس
سارے ہنگامے میں نہ تو اے این پی کے کسی لیڈر کو کچھ ہوگا نہ متحدہ کا کوئی
ذمہ دار متاثر ہوگا۔ نہ ہی پی پی پی کے کسی لیڈر کو کوئی گزند پہنچے گی یہ
لوگ تو اپنے مسلح محافظوں، حکومتی طاقت اور ہٹو بچو کے شور میں متاثرہ
آبادیوں کا دورہ کر کے اور اپنی سیاست چمکا کر چلے جائیں گے۔ لیکن عوام
کہاں جائے؟
اس ساری صورتحال کے بعد ہماری ان تینوں جماعتوں ( پی پی پی ،ایم کیو ایم
،اے این پی ) سے دست بستہ گزارش ہے کہ خدارا اپنے اس وقتی اقتدار کے لیے
عوام کو استعمال نہ کریں بلکہ اصل ذمہ داران کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے
چاہے اس کا تعلق کسی بھی گروپ سے ہو اور عوام سے بھی ہماری یہی گزارش ہے کہ
بھائیوں اور بہنوں یہ کوئی لسانی جھگڑا نہیں ہے کوئہ طالبان نہیں ہیں یہ
صرف اور صرف مفادات کی جنگ ہے اس لیے کسی بھی قومیت کے خلاف کوئی بات نہ
کریں چاہے کوئی مہاجر ہے یا پختون سندھی ہے یا پنجابی، بلوچ ہے یا سرائیکی
یا کوئی اور وہ کسی کے ساتھ کوئی تعصب نہیں کرتا ہے بلکہ یہ لیڈر ہیں جو
گھر پھونک تماشہ دیکھتے ہیں ان سے ہوشیار رہیں |