پاکستانی انتخابات سر پر پیں ،11 مئی 2013کے انتخابات کے
لئے انتخابی مہم زور شور سے جاری ہے - کاش یہ مہم پر امن طریقے سے جاری
رہتی - لیکن وطن عزیز میں جان لینا اور جان دینا ایک کھیل بن چکا ہے -
سوائے پنجاب اور اسلام آباد کے جہاں کچھ مثبت اور پر امن فضاء میں انتخابی
مہم چل رہی ہے باقی ملک لہو لہو ہے - کراچی کا تو آوے کا آوا نرالا اور
بگڑا ہوا ہے ہی جہاں آۓ روز دھماکے ہو رہے ہیں اور کئی بے گناہ ان دھماکوں
کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں کبھی ایم کیو ایم ، کبھی اے این پی اور کبھی جماعت
اسلامی اور پی پی پی- یہی حال پختونخواہ اور بلو چستان کا ہے - دہشت گردی
کی لہر اس واقت انتہا پر ہے - پشاوراور پختون خواہ میں ہونے والے دھماکوں
اور فائرنگ میں کئی جانوں کا نقصان ہوا- یہی حال کوئیٹہ اور دیگر شہروں کا
ہے- اس ماحول میں بھی بڑے بڑے جلسے ہو رہے ہیں -
ہر پارٹی کا جوش و خروش دیدنی ہے ، جہاں کہ پریشر کوکر بم، واٹر کولر بم ،
گاڑیوں میں بم ، رکشوں میں بم، جیکٹوں میں بم پھٹے جا رہے ہیں،عوام کا موت
سے کھیلنا اور موت کو دعوت دینا انتہائی ہمت و عظمت کا کام ہے - اب یہ کوں
کر رہا ہے کون کروا رہا ہے بات اور الزام وہی نامعلوم افراد پر آتا ہے جو
پاکستان کا خاصہ ہے - لیکن اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ پاکستان عوام سیاسی عمل
کو جاری رکھنا چاہتے ہیں اور اسمیں جوش و خروش سے دلچسپی لیتے ہیں- میڈیا
پر ایک سے ایک دلچسپ اشتہار ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچنے کے لئے کافی ہے- یہ
ایک بے حد مہذب اور جدید طریقہ ہے عوام کو اپیل کرنیکا، انکے دل موہ لینے
کا ، اپنی بات منوانیکا اور اپنی پبلیسٹی کرنیکا-اسپر ایک طبقہ فضول خرچی
کا الزام لگا کر کافی معترض ہے-ہر نکڑ ہر چوراہے پر دیواروں پر بھانت بھانت
کے انتخابی نشان اور نام- میرے گھر کے قریب پیپیلز پارٹی کی ایک سابقہ ایم
این اے نے اپنے مکان اور اپنے سے ملحقہ مکان کو تیروں، جھنڈوں اور بے نظیر
کی تصاویر سے سجا رکھا ہے - اب بے نظیر کی صورت میں بھٹو زندہ ہے - حیرت ہے
کہ زرداری کی تصویر کہیں دکھائی نہیں دیتی -
ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ-
مجھے تو اتنا ٹی وی دیکھنے کا ٹائم نہیں ملتا اور اگر دیکھوں بھی تو بس "
زندگی گلزار ہے " دیکھ کر اپنی زندگی گلزار کرنیکی کوشش کرتی ہوں - مجھے
بڑی مشکل سے ہی کوئی ڈرامہ پسند آتا ہے -
اور اسلام آباد راولپنڈی ماشا ء اللہ ابھی تک خوب گل و گلزار ہیں-یٰہ تو
ایک لا متعلقہ بات تھی-
لیکن ایم کیو ایم ، اے این پی اور جمیعت علماء اسلام کے اشتہار ٹی وی پر
نہیں ہیں یا تو انکو اپنے ووٹ بنک کا یقین ہے یا پھر وہ خرچے نہیں کرنا
چاہتے- اخبارات انکے اشتہاروں سے بھرے پڑے ہیں- اور پھر پوسٹر ہی کافی ہیں
- کراچی کے ایک ایک گھر سے الیکشن کمیشن کو سینکڑوں کے حساب سے ووٹر ملے
ہیں - اب فخرو بھائی اس امتحان میں کتنے کامیاب اترتے ہیں؟
لیکن پاکستان میں تبدیلی کی ہوائیں زور شور سے چل رہی ہیں -اسوقت بالکل وہی
امریکہ والی کیفیت ہے جب اوبامہ پہلی مرتبہ انتخاب لڑ رہا تھا اور تما م
امریکہ کے اکثریتی نوجوان بیک آواز چلا رہے تھے
we want change
ہمیں تبدیلی چاہئے
ہے اسوقت پاکستانی عوام اور خاصکر نوجوان ایک نئے تازہ دم موڈ میں نظر آتے
ہیں سوائے پرانے وفاداروں کے- جس سے بات کرو چاہے وہ جس طبقے سے تعلق رکھتا
ہے وہ تحریک انصاف اور عمران خان کا کا حامی ہے فیس بک پہ جایئے ، ٹویٹر پہ
جائے ہر جگہ تحریک انصاف چھائی ہوئی نظر آتی ہے تقریبا 50٪ لوگوں نے اپنی
شناخت پر تحریک انصاف کا انتخابی نشان اور عمران خان کی تصویر لگائی ہوئی
ہیں -بیرون ملک سے رضاکاروں کی ٹیمیں تحریک انصاف کی مدد کرنے آرہی ہیں
امریکہ سے میرے چند دوست بھی اسی غرض کے لئے پہنچ رہے ہیں- میں نے خود کل
تحریک انصاف کی ممبر شپ حاصل کی - عمران خان کو کرکٹ کی کپتانی میں آزمایا
گیا وہ پاکستان کو ورلڈ کپ دلانے والا ابھی تک واحد کپتان تھا اسکے زمانے
میں کرکٹ کو جو عروج ملا وہ بے مثال تھا- اسکا معرکتہ الآرا ہسپتال شوکت
خانم میموریل پاکستان اور قریبی ممالک میں کینسر کے علاج کے لئے انتہائی
شہرت کا حامل ہے - جسکا اس ہسپتال سے واسطہ پڑا ہے وہ اسکی تعریف، انتظام
اور خصوصا علاج میں رطب اللسان ہے- انکے مطابق یہاں صاحب حیثئیت اور صاحب
عسرت میں کوئی فرق نہیں ہے - ہسپتال کا عملہ ہر گز نہیں جانتا کہ یہ مریض
واجبات ادا نہیں کر سکتا-
اسلام آباد کے حلقے سے تحریک کے امیدوار ہمارے پرانے جاوید ہاشمی ہیں کوئی
اسکو نام دے رہا ہے" نئی بوتل پرانی شراب بہت سے عمران کو ایک ناتجربہ کار
سیاستدان قرار دے رہے ہیں اب یہ تو وقت بتاۓ گا کہ اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا -
عمران نے ابھی دو روز پہلے جوش خطابت میں کہا یاد رہے "کہ آپکو شیر پر ٹھپہ
لگانا ہےایک زمانہ تھا کہ عمران کا مذاق بنایا جاتا تھا وہ بیلٹ باکس
کھولتے ہیں تو بجائے ووٹوں کے نوٹ بھرے ہوتے ہیں لیکن اس مرتبہ قوی امید ہے
کہ ووٹ بھرے ہوئے ملینگے - اسلئے کہ اہل پاکستان اس مرتبہ تبدیلی میں
سنجیدہ ہیں-- اور تبدیلی کی ہوائیں بار آور ثابت ہونگی-- |