انقلاب کسی پنسارکے چورن کا نام ہوتا تو اس قوم کےہمدرد
اسے کب کا کھلا چکے ہوتے۔تبدیلی یا انقلاب زور آزمائی کا نام ہے۔ زمانے کے
دستور کے خلاف چلنےاور دریا کے بہاؤ کے مخالف تیرنے کا نام انقلاب ہے۔لوگوں
کو روکھی پھیکی تحریریں تک پڑھنا گوارا نہیں ہے۔انہیں پڑھنے میں رومانس
اورایڈونچر درکار ہے۔ انہیں دیکھنے کے لیے فلم اور سننے کے لیے موسیقی
چاہیے۔ ایسے میں آپ انہیں یہ بتانا چاہیں کہ ایک شے کا نام اللہ کی محبت ،
اس کا شکر اور اس کی فرمانبرداری ہے اوردنیا میں انسان کا سب سے بڑا
کارنامہ یہ ہے کہ وہ اپنے ربّ کو پہچانے اور اس کےآگے اس طرح سے ماتھا ٹیک
دے کہ اس کے بعد دنیا کی کوئی رسم، زمانے کاکوئی دستور اور نفس کی کوئی
ناجائز تمنااس کے لیے ماتھا ٹیکنے کے بجائے سینہ تاننے کی جا بن جائے۔یہ
سبق پڑھانا، یہ شعور دِلانا بے حد مشکل کام ہے۔ ہمارے معاشرے میں کسی سے
نیک کام کے لیے چندہ تو لیاجاسکتا ہے لیکن اسے اس بات پر آمادہ نہیں کیا
جاسکتا کہ میاں!یہ جو چند بول تم بول کر اپنے آپ کو مسلمان کہتےہو ان کا
مطلب جاننا ہو تو ابراھیم خلیل اللہ کی زندگی اپنانی پڑے گی۔اب بھلا کون ’’عقلمند‘‘
ہے جو اسے قبول کرلے۔
اس سے آگے چلیں۔ کئی کئی عشروں سے قائم فاسدنظام کیا محض للکارنے سے گِر
جانے والا ہے؟محض اخباری بیانات اور فقط پریس کانفرنسوں سے چلا جانے والا
ہے؟ اس فاسد نظام کے ساتھ ہزاروں خائن اور کرپٹ لوگوں کا دھندہ وابستہ
ہے۔یہ نظام محض ان کرپٹ لوگوں کی جی حضوری ہی نہیں کرتا بلکہ عام لوگوں کو
غربت میں رکھ کر اپنا دستِ نگر بھی بنائے رکھتا ہے۔ہزاروں معصوم لوگ زندگی
کی گاڑی کھینچنے کے لیے اس نظام کے کولہو کو چلانے کے لیے بیلوں کی طرح اس
میں جتے دن رات زور لگاتے ہیں۔ جواباً انہیں اس فاسد نظام سے گھروں کے
چولہوں کو جلارکھنے کے بقدر معاوضہ ملتا ہے۔پھر اسی پر اکتفا نہیں۔ یہ نظام
اپنی پراپیگنڈہ مشین اور تعلیمی اداروں سےذہنی طور پر تہی دست افراد کی ایک
کھیپ بھی برآمد کرتا ہے۔معاشرے میں موجودایک نسل تو اس نظام کی چاکری سے
اپنے چولہوں کو جلارکھنے کا انتظام کرتی ہے تو اس کے بعد آنے والی نسل اس
نظام کی تعلیمی اور پراپیگنڈہ مشین سے ذہنی طور پر پَست، فِکری طور پر بے
بہرہ اور اخلاقی طور پر بے راہ رو بن کر نکلتی ہے۔ نتیجتاً یہ آنے والی نسل،
اس نظام کی وفاداری میں پختہ تر ہوتی ہے۔
کیا خیال ہےکہ ایسی صورتحال میں صرف کاغذی پرچیوں سے یہ نظام ڈھے جانے والا
ہے؟ان کاغذی پرچیوں کی حقیقت اس کے سوا کیا ہے کہ یہ اس فاسد نظام کے نظامِ
ہضم کے انزائمز(خامرے/enzymes)ہیں۔یہ پرچیاں آن کی آن میں خودی کو پگھلا
کر اسے نظام کے سانچے میں ڈھال دیتی ہیں۔ جو شخص اس نظام کو ردّ کرتا ہے،
اس کے لیے یہ میٹھی چھریاں ہیں۔ انتخابی عمل میں حصہ لینے والا جب اس راستے
کو چنتا ہے تو یہ اس نظام کی جیت ہے۔ یہ نظام اس سے اپنی حیثیت تسلیم
کروالیتا ہے اور پارلیمنٹ میں داخلے سے پہلے اس سے اپنی وفاداری کاحلف بھی
اٹھوالیتا ہے۔جب آپ ذہنی طور پر اس نظام کی برتری(supremacy)قبول کرچکتے
ہیں تو پھرہی آپ اس کے چنے ہوئےطریقۂ کار کے تحت، اس کی قائم کردہ شرائط کے
تحت اس میں شمولیت اختیار کرتے ہیں۔جب نفسیاتی طور پر یہ سمجھ لیا جاتا ہے
کہ اس نظام سے لڑائی اور دشمنی ممکن نہیں ہے تبھی اس میں شمولیت اختیار کی
جاتی ہے۔یہ کیسے ممکن ہے کہ اس نظام سے نفسیاتی طور پر شکست تسلیم کیے بغیر
اس کا حصہ بھی بناجاسکے؟ان دونوں چیزوں میں سے ایک وقت میں ایک چیز ہی اپنا
وجود رکھ سکتی ہے۔ یا تو اس نظام کی نفسیاتی برتری اپنا وجود رکھے گی یا
پھر اس نظام کے متبادِل کی نفسیاتی برتری۔ دونوں ایک وقت میں موجود نہیں
ہوسکتے۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ اس نظام سے ہمیں فقط کوئی لفظی دنگل نہیں لڑنا بلکہ اس
سے حقیقی معنوں میں ہر قسم کی زور آزمائی کرنی ہے۔ اس میں فکری زورآزمائی
سے لے کراس کے جاری و ساری عمل کو معطل کرکے اس کے جگہ ایک اور نظام کو
انسٹال کرنا بھی شامل ہے۔سماجیات سے لے کر سیاسیات اور ابلاغیات سے لے کر
معاشیات تک ہر ایک چوراہے پر اس سے گتھم گتھا ہونا پڑے گا۔ یہ چومکھی لڑائی
ہے اور اس لڑائی پر فیصلہ کُن ضرب بہرحال یمن، لیبیااور شام کے انقلابات
جیسےکسی عملی اقدام ہی کی صورت میں لگانی پڑےگی۔اس سے پہلے تبدیلی شاعر کے
خواب اور دیوانے کی بڑ سے زیادہ کوئی حیثیت نہیں رکھتی۔جب تک ایک ایسی
عوامی شورش جنم نہیں لیتی جو نظام کے ہر ہر فاسد کل پرزے کو یکسر مسترد نہ
کرتی ہو تب تک صحیح معنوں میں تبدیلی نہیں آنے والی۔یہ کام جواں مردوں کا
کام ہے۔ایسے شیروں کا کام ہے جو زمانے کے رِواجوں اور اقدار(norms and
values)کوتبدیل کرکےرکھ دینے کی ہمّت رکھتے ہوں نا کہ انتخابی پرچیوں کے
ذریعےسہولت پسندی اور آرام طلبی کے راستوں سے انقلاب کا کیک کھانے کے
سپنےدیکھتے ہوں! |