سربجیت سنگھ کے ساتھ کوٹ لکھپت جیل میں جو کچھ ہوا وہ یقیناً قابل مذمت
ہے اور اس کے اہل خانہ اس غم کی گھڑی میں انسانی ہمدردی کے مستحق ہیں لیکن
اس سے علی الرغم یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ سربجیت سنگھ اس دنیا سے جاتے جاتے
ہندوستانی سیاستدانوں کے چہرے پر پڑی دوغلے پن کی چادرکو تار تار کرگیا ۔سربجیت
سنگھ کی زندگی مختلف مراحل میں چار مختلف افراد سے مماثل ہو جاتی ہے اور ہر
مرحلے میں ہمارے ذرائع ابلاغ کی منافقت کو عیاں کر جاتی ہے ۔ سربجیت سنگھ
اپنی ۲۲ سالہ طویل حراست میں کبھی اجمل قصاب کی طرح دکھائی دیتا تھا تو
کبھی اس کی حالت عبدالناصر مدنی جیسی ہو جاتی ہے۔ کبھی افضل گرو سے مماثل
ہوجاتا ہے تو کبھی قتیل صدیقی سے مماثلت اختیارکرلیتا ہے ۔
سربجیت کو موت کے بعد ذرائع ابلاغ نے جس طرح پیش کیا اس سے لوگ بھول ہی گئے
کہ آخر وہ کون تھا ؟ اس پر کیا الزام لگا تھا؟ اسے کس جرم کی پاداش میں
سزائے موت ہوئی تھی؟ وغیرہ وغیرہ ۔ اس لئے پس منظر کا اعادہ ضروری ہے۔
پاکستانی حکام کے مطابق سربجیت سنگھ پاکستان کے شہر فیصل آباد اور لاہور
میں دہشت گردی کا مرتکب تھا۔ ان دھماکوں میں چودہ بے گناہ شہری ہلاک ہوئے
تھے۔ یہ اس زمانے کی بات ہے جب طالبان موجود نہیں تھے اور ہر دھماکے کا
الزام ان کے سر منڈھ کر آنکھیں موند لینا ممکن نہیں تھا۔ پاک بھارت سرحد
پر قصورمیں۲۸ اگست ۱۹۹۰ کو سربجیت سنگھ گرفتار ہوا۔اس پر جاسوس
ہونےکاالزام لگایا گیا۔پولس کی حراست میں سربجیت سنگھ نے لاہور کے بھاٹی
گیٹ، پرانی انارکلی، فیصل آباد، ملتان اور ایک ٹرین میں دھماکوں کا اعتراف
کیا ۔ ۱۹۹۱ میں انسدادِ دہشت گردی کی عدالت نے سربجیت سنگھ کو سزائے موت
سنائی۔ اس کو لاہور ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں چیلنج کیا گیا لیکن سماعت
کےبعد دونوں عدالتوں نے سزاکو برقرار رکھا۔
پاکستان کی سپریم کورٹ نے ۲۰۰۶ میں سربجیت کی سزا کے خلاف نظرثانی کی اپیل
مسترد کردی اور سربجیت سنگھ کی سزائے موت بحال رہی سربجیت سنگھ کی بیوی، دو
بیٹیاں اور بہن دلبیر کور۲۰۰۸ میں پاکستان گئیں اور انہوں نے جیل میں
سربجیت سنگھ سے ملاقات کی۔ دلبیر کور نے صدر پرویز مشرف سے رحم کی اپیل کی
جو مسترد ہو گئی۔ اس کے بعد ہندوستا ن کے ایک ہزار دانشوروں کے دستخط سے
صدر پاکستان کورحم کی اپیل کی گئی ۔ ۲۶ اپریل ۲۰۱۳کوکوٹ لکھپت جیل لاہور
میں سربجیت سنگھ اپنے ساتھی قیدیوں مدثر اور عامر کے حملے میں شدید زخمی ہو
گیا۔ سربجیت کو تشویش ناک حالت میں لاہور کے جناح اسپتال منتقل کیا گیا
جہاں اسے انتہائی نگہداشت کے وارڈ میں وینٹی لیٹر پر رکھا گیا تاہم شدید
زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے سربجیت سنگھ نے یکم مئی کی شب میں اسپتال کے
اندر دم توڑ دیا۔
سربجیت پر ویسے تو اجمل قصاب کی طرح دہشت گردی کا الزام تھا اور دونوں کو
عدالت نےموت کی سزاسنائی لیکن اس کے باوجود سربجیت ۲۲ سال زندہ رہا۔ دوہزار
آٹھ میں صدر کے ذریعہ معافی کی درخواست مسترد ہوجانے کے بعد بھی وہ پانچ
سال حیات رہا لیکن اجمل قصاب کو پھانسی کے پھندے تک پہنچنے میں کتنا وقت
لگا ؟ یہ سوال ہمارے رحمدلی کے دعوے پرسوالیہ نشان لگا دیتا ہے ۔ دہشت گردی
کے الزام میں موت کی سزا کے باوجود سربجیت کے اہل خانہ کو اس سے ملاقات کی
اجازت حکومتِ پاکستان نے دی ۔ کیا اجمل قصاب کے اہل خانہ کیلئے اس طرح کے
اجازت نامے کا تصور بھی ممکن ہے؟ اور اگر کانگریس بڑی ہمت کرکے انہیں اجازت
دے بھی دیتی تو بی جے پی اور اس کے ہمنوا اس پر کس قدر ہنگامہ آرائی کرتے
اس کا تصور ہر گز مشکل نہیں ہے۔ پھر اگر وہ لوگ آ بھی جاتے تب بھی کیا عدم
تشدد کے نام لیوا انہیں تشدد کا شکار کئے بغیر لوٹ کرواپس جانے دیتے یہ
تحقیق طلب سوا نہیں ہے۔اگر پاکستانی دانشوروں کی جانب سے اجمل قا ب کیلئے
معافی کی درخواست کی جاتی تو ہمارے ذرائع ابلاغ میں اس کا کیا ردعمل ہوتا ؟
اس کا اندازہ بھی آسانی سے لگایا جاسکتا ہے۔ دوسروں پر شدت پسندی کا الزام
لگانا اور اپنے آپ کو رواداری کا پیکر قرار دینا جس قدر سہل ہے ۔ اپنے عمل
سے اس دعویٰ کی دلیل پیش کرنا اتنا ہی کٹھن ہے ۔
سربجیت سنگھ نے ایک زمانے میں حکمران کانگریس پارٹی کی صدر سونیا گاندھی کو
ایک خط لکھا تھا جس میں جیل کے اندرغیر صحتمند کھانا دیئے جانے کی شکایت کی
گئی تھی اور اس کے سبب ہاتھ پاوں کے متاثر ہونے کے علاوہ جیل میں دوائیں نہ
ملنے اور حکام کے ذریعہ طعنے مارنے کا بھی ذکر کیا تھا۔سربجیت کا یہ خط اس
کے وکیل اویس شیح نے سونیا گاندھی کو پہچاییا اور تصدیق کی کہ ایک بار
انہوں نے لکھپت جیل میں سربجیت سنگھ سے ملاقات کے دوران کھانا چکھا تھا
جوبہت ہی خراب تھا۔وکیل شیخ اپنے ساتھ سربجیت سنگھ کی بہن دلبیر کور اور
بیٹی پونم کے لیے بھی خط لے کر آئےتھے۔پاکتاعن سے کسی دہشت گرد کا خط لے کر
ایک وکیل ہندوستان تو آسکتا لیکن کیا یہاں سے بھی کوئی وکیل ایسا کرنے کی
جرأت کرسکتا ہے؟اس موقع پر وہ تمام واقعات نگاہوں کے سامنے گھوم جاتے ہیں
جبکہ اجمل قااب تو کجا بے گناہ ہندوستانی مسلم نوجوانوں کی پیروی کرنے والے
وکلاء کو بھی دھمکیا ں دی گئیں۔ انہیں مقدمہ سے الگ ہونےپرمجبور کیا گیا۔ان
کو عدالت کے احاطے میں نہ صرف رسوا بلکہ زدوکوب تک کیا گیا بلکہ شاہد اعظمی
جیسےدلیر اور بیباک وکیل کو شہید تک کردیا گیا۔ایسے میں کیا کوئی تصور
کرسکتا ہے کہ ایک وکیل ہندوستان سے پاکستان کا سفر کرکےاجمل جیسے کسی مجرم
کا خط پاکستانی سیاستدانوں تک پہنچائے گا ۔ اس کے اہلِ خانہ سے ملاقات کرے
گا اور اس پر ہونے والی زیادتی کی تصدیق کرے گا اور اگر کوئی ایسا کرنے کی
جرأت کرہی دیتا ہے تو کیا اسے واپس ہندوستان میں داخل ہونے دیا جائیگا ؟
اور اگر وہ پولس کے تحفظ میں داخل ہو بھی جاتا ہے تواس بیچارے کاوہی حشر
ہوگاجو کشمیر کی حمایت میں ایک جملہ بولنے والے پرشانت بھوشن کا ہوا تھااور
تو اورآزمائش کی اس نازک گھڑی میں طوطا چشمی انا ٹیم بھی اپا دامن جھٹک کر
ان سے دور ہوگئی تھی۔
اس موقع پر سربجیت کا موازنہ عبدالناصر مدنی سے کیا جانا چاہئے ۔ سربجیت کے
ساتھ جو سلوک لاہور جیل میں کیا جارہا تھا اس سے خراب سلوک پی ڈی پی کے
رہنما عبدالناصر مدنی کے ساتھ بنگلور کی جیل میں کیا جارہا ہے اور ان صحت
فی الحال بہت خراب ہو چکی ہے۔حقیقت تو یہ ہے کہ سربجیت کے برعکس عبدالناصر
مدنی بذاتِ خود دہشت گردی کا شکار ہوئے ہیں ۔ ان پر حملہ کرنے والے حملہ
آور رگھوناتھن پلئی کی گواہی پر گرفتار ہونے والاآریس ایس لیڈر شاجی کمار
آزاد گھوم رہا ہے اور مدنی کی ضمانت نہیں ہورہی ہے۔پچھلے دنوںمارکنڈے
کاٹجو نے بھی اس پر حیرت کاا ظہار کیاتھا کہ وہیل چئیرپر چلنے والےملزم کی
ضمانت سے بھلا کیا خطرہ ہوسکتا ہے ؟ عبدالناصر مدنی کو پھنسانے کیلئے جس
رفیق کو گواہ بنایا گیا اس نے خود تہلکہ جریدے میں اعتراف کیا اسے اذیت
دینے کیلئے بجلی کے جھٹکے دئیے گئے ۔ ایس آئی ٹی نے دھمکی دی کہ اگر اس نے
مدنی کے خلاف گواہی نہیں دی تو دہشت گردی کا الزام لگا کر اسے تاعمر جیل کی
سلاخوں کے پیچھے ٹھونس دیا جائیگا۔ بلکہ بی جے پی کے گواہ نے بھی کہا کہ وہ
خود نہیں جانتا تھا کہ وہ کس کے خلاف شہادت دے رہا ہے ۔ ان حقائق کے باوجود
سربجیت کی حالتِ زار پر ٹسوے بہانے والے سیکولر اور فرقہ پرست رہنما اور
ذرائع ابلاغ عبدالناصر مدنی کے تئیں خاموش تماشائی بنا ہوا ہے ۔ عبدالناصر
مدنی اپنی گرتی ہوئی صحت کے ساتھ اب بھی کسی اویس شیخ کے منتظر ہیں ۔
سربجیت پر جیل میں حملہ کو ایسی انہونی بناکر پیش کیا گیا جیسے کہ ایسی کسی
واردات کا سرزمینِ ہند پر تصور ہی ناممکن ہو حالانکہ ایک سال قبل قتیل
صدیقی کو پونے کی جیل کے اندر قتل کردیا گیا۔ قتیل صدیقی کو دہشت گردی کے
الزام میں گرفتارضرور کیا گیا تھالیکن ان کا ثابت ہونا تو درکنار قتیل پر
کوئی فردِ جرم تک داخل نہیں کی گئی تھی اور اس سے پہلے ہی انہیں جیل کے
اندر قتل ہوگیا۔ خواجہ یونس کا پولس کے ذریعہ قتل عدالت میں ثابت ہو چکا
ہے۔ سربجیت کے قاتلوں کو کیفرِ کردار تک پہنچانے کا مطالبہ بالکل بجا ہے
لیکن کوئی نہیں جانتا کہ قتیل صدیقی کے قاتل کو سب لوگ بھول گئے ۔ قتیل کے
لواحقین جب بہار سے ان کی لاش لینے کی خاطرپونے پہنچے توانہیں وہ سہولت
فراہم نہیں کی گئی جو پاکستان نے سربجیت کی لاش کو ہندوستان لانے کیلئے دیں
بلکہ انہیں ڈرایا دھمکایا گیا۔ اتفاق سے پنجاب ہی کی طرح سیاسی صورتحال
بہار میں تھی جہاں ایک علاقائی جماعت بی جے پی کی مدد سے حکومت کررہی تھی
لیکن قتیل کے اہلِ خانہ کو پرسہ دینے کیلئے نہ بی جے پی والے آئے اور نہ
نتیش کمار ۔ مرکزی حکومت کے تو کان پر جوں تک نہیں رینگی۔ ذرائع ابلاغ قتیل
صدیقی پر ایس آئی ٹی کی جانب سے لگائے جانے والے بے بنیاد الزام کا ورد
کرتا رہا۔
سربجیت جب زخمی ہونے کے بعد اسپتال میں موت سے جوجھ رہا تھا تواس کے اہل
خانہ کو خصوصی ویزا دے کر پاکستان آنے کی اجازت دی گئی ۔ پاکستان میں فی
الحال انتخاب ہورہے ہیں اس کےباوجود سربجیت کی موت پر کسی جماعت نے سیاست
نہیں کی اس کے برخلاف محض اکثریت کےضمیر کو مطمئن کرنے کی خاطر تختۂ دار
تک پہنچائے جانے والے بے قصور افضل گرو کی پھانسی کو جان بوجھ کر حکومت
ہندنے اس کے اہل خانہ سے چھپانے کا جرم کیا۔ افضل کے اہل خانہ کو ان سے
ملاقات کے بنیادی حق سے حکومت کے ایماء پر محروم کیا گیا ۔ سربجیت کی لاش
لاہور سے امرتسر ہوائی جہاز سے اور پھر ان کے گاؤں بھکونڈی ہیلی کوپٹر سے
پہنچائی گئی لیکن افضل گرو کی تدفین جیل کے اندر عمل میں آئی ۔ افضل کے
اہلِ خانہ کی ساری التجا کہ وہ اسے اپنے یہاں لے جاکر آخری رسومات ادا
کرنا چاہتے ہیں ٹھکرادیا گیا حالانکہ افضل گرو پر وہی الزامات تھے جو
سربجیت پر تھے مگر سربجیت حملہ دو افراد کی حرکت تھی جبکہ افضل گرو کے خلاف
عدلیہ، انتظامیہ اور مقننہ تینوں نے آپس میں سانٹھ گانٹھ کرلی تھی۔
سربجیت کی موت کے بعد وزیراعظم منموہن سنگھ نے اسےہندوستان کا لعل قرار
دیا۔ مرکزی و ریاستی وزراء اس کی آخری رسومات ادا کرنے پہنچ گئے۔
وزیراعلیٰ پنجاب پرکاش سنگھ بادل کے علاوہ مستقبل کے وزیراعظم راہل گاندھی
بھی بھکونڈی جا پہنچے ۔ سربجیت کی لاش کو قومی پرچم میں لپیٹا گیا ۔اکیس
توپوں کی سلامی دی گئی اور قومی اعزاز کے ساتھ آخری رسومات ادا کی گئیں ۔
اگر یہی کچھ اجمل قصاب کے ساتھ ہوتا تو دہشت گردی کی سرکاری سرپرستی اور
پاکستان کو دہشت گرد ریاست قراردینے کامطالبہ کس زور شور سے کیا جاتا اس کا
اندازہ لگانا آسانی سے لگایا جاسکتا ہے ۔ ایک طرف تو ہم اس بات پر غم و
غصہ اظہا ر کرتے ہیں کہ حافظ سعید کو اجمل قصاب کو اکسانے کے الزام میں
مقدمہ چلانے کیلئے ہمارے حوالے کیوں نہیں کیا جاتا اور دوسری جانب پاکستان
میں جس پر اجمل قصاب کی طرح کا الزام ثابت ہوجاتا ہے اس کی ہم اعزاز و
تکریم کرنے سے نہیں تھکتے کیا یہ رویہ مبنی برانصاف ہے؟
یہ کسی دل جلے مسلمان کا ردعمل نہیں ہے بلکہ ریاستِ پاج ب ہی کی ایک سیاسی
جماعت دل خالصہ نےحکومت پیجاب کے رویہ پر اعتراض کرتے ہوئے اعتراض کیاکہ
سربجیت کو شہید قرار دینا ، آخری رسومات کو سرکاری اعزاز دے کر خزانے سے
اس کے اہل خانہ کوایک کروڈ کی خطیر رقم دینے سے ایسا لگتا ہے گویا وہ کسی
قومی مہم پر تھا اور اسےسرکاری ذمہ داری ادا کرنے کیلئے اسے پاکستان روانہ
کیاگیا تھا ۔ دل خالصہ کے سربراہ ایچ ایس دھامی اور سکریٹری منجندر سنگھ نے
سربجیت پر ہونے والے حملے کی مذمت کی اور ان کے اہل خانہ سے ہمدردی کا
اظہار بھی کیا مگر حکومت اور ذرائع ابلاغ کے ذریعہ اسے بے گناہ بتائے جانے
کوتسلیم کرنے سے انکار کردیا ۔ اس سے قبل شرومنی اکالی دل اندراگاندھی کے
قاتل بے انت سنگھ کی تکریم کرچکا ہے اور گولڈن ٹیمپل کا ایک حصہ جرنیل سنگھ
بھنڈارن والا کے نام سے موسوم کرچکا ہے لیکن کسی کلدیپ نیر نے اس پر اعتاض
کرتے ہوئے مرکزی حکومت کو انہیں غدار قرار دینے کی حمایت نہیں کی ۔
سربجیت سنگھ پر تین طرح کے الزامات عائد کئے جاتے ہیں اول تو یہ کہ وہ دہشت
گرد تھا دوم وہ شراب کا اسمگلر تھا اور سوم وہ شراب کے نشے میں نادنستہ طور
پرسرحد عبور کرگیا تھا ۔ اگر اس تیسرے اور سب سے ہلکے الزام کو بھی تسلیم
کرلیا جائے تب بھی دل خالصہ کے نزدیک وزیر اعظم کا سربجیت کو قوم کابہادر
سپوت قرار دینا ناقابل فہم ہے اس کا سوال ہے کہ شراب پی کر بین الاقوامی
سرحد کے پار نکل جانا کون سی د لیری کا کام ہے؟ اور اس سے قبل ملک کی سرحد
پر اپنی جان نچھاور کرنے والوں کی حکومت پنجاب نے کوئی تعظیم وتکریم کیوں
نہیں کی؟ دل خالصہ کے دلائل معروضی ہیں مگر ان کی جانب لوگ توجہ کیوں نہیں
دیتے؟ اس پیچیدہ سوال کا نہایت سہل جواب یہ ہے کہ ایک عام ہندوستانی کے
شانوں پر منکر نکیر کی طرح سیاستداں اور ذرائع ابلاغ سوار ہے۔ اس لئے ہم
لوگ وہی دیکھتے ہیں جو وہ دکھلانا چاہتے ہیں ۔ وہی سنتے ہیں جو وہ سنانا
چاہتے ہیں ۔ وہی پڑھتے ہیں جو وہ پڑھانا چاہتے ہیں ۔وہی سمجھتے ہیں جو وہ
سمجھانا چاہتے ہیں اور وہی سب بولتے ہیں جو وہ بولوانا چاہتے ہیں۔
حق و باطل کی تمیز سے عاری ہمارا قومی شعوراپنے سیاسی رہنماؤں کے پیچھے بگ
ٹٹ دوڑا چلا جاتا ہے۔ ہم ایک بے اختیار مخلوق کی مانند ذرائع ابلاغ کے ہر
جھوٹ اور سچ پر بلا توقف ایمان لے آتے ہیں ۔ ہم نے اپنے قلب و ضمیر کا گلا
گھونٹ دیا ہے ۔ اسی لئے ہمارے اندر بیجاتوقعات جنم لیتی ہیں اور اپنے متضاد
رویے پر ہمیں نہ حیرت ہوتی ہے اور نہ اس کا حساس ہوتا ہے۔ سربجیت کے ناحق
قتل کے جواب میں پاکستانی قیدی رانا ثنا اللہ پر جموں کشمیر کی کوٹ بھلوال
جیل میں ایک ریٹائرڈ فوجی قیدی جان لیوا حملہ کردیتا ہے جس کے نتیجے میں وہ
کومہ میں چلا جاتا ہے ۔رانا فی الحال جموں کے میڈیکل کالج اسپتال میں موت
سے لڑ رہا ۔اس پر بم دھماکے کا الزام تو ہے لیکن اس سے کوئی ہلاک نہیں ہوا
ہےاس کے باوجود ذرائع ابلاغ نے اس کی جانب سے اپنی آنکھیں بند کرلی ہیں
اور سوائے مارکنڈے کاٹجو کے کسی نے یہ نہیں کہا کہ انسانی بنیادوں پر اسے
پاکستان بھیج دیا جانا چاہئے کوئی بعید نہیں کہ جناب کاٹجو کو اس انسانی
ہمدردی کی قیمت جلد ہی چکانی پڑ جائے ۔ بقول شاعر ؎
حصارِ جبر میں زندہ بدن جلائے گئے
کسی نے دم نہیں مارا مگر دھواں بولا |