جماعت اسلامی پاکستان ایک منفرد جماعت ہے ۔اس جماعت کا نظم وضبط مثالی
ہے ،زندگی کے تمام شعبوں میں اثر ونفوذ رکھتی ہے ، رفاہی وفلاحی کاموں
میںبڑھ چڑھ کر حصہ لیتی ہے ۔یہ واحد جماعت ہے جس کے کارکنان بہت مخلص، فعال
اور مستعد ہوتے ہیں ،جماعت کے اکثر وابستگان اگر چہ ٹھیٹھ انداز میں دین پر
عمل نہیں کر پاتے تاہم دیانت دار اور باکردار ضرور ہوتے ہیں لیکن جماعت
اسلامی کے حوالے سے کچھ مخمصے ایسے ہیں جو خود جماعت کے لوگوں کے لیے بھی
ناقابل فہم ہیں جبکہ باہر سے جماعتِ اسلامی کو دیکھنے اور پرکھنے والوں کے
لیے جماعتِ اسلامی ہمیشہ ایک چیستان رہی ہے ۔جماعت اسلامی کبھی خود کو
پانچویں مذہب اور مسلک کے طور پر پیش کرتی ہے اورکبھی خو د کو کسی مکتبہ
فکر کا حصہ باور کرواتی ہے ۔افکار ونظریات کے معاملے میں مولانا مودودی کی
متنازعہ تعبیرات اور قابلِ اعتراض عبارتوں پر بہت لے دے ہوچکی آج کی نشست
میں جماعت اسلامی کے فکری،مذہبی ،مسلکی اور نظریاتی پہلو پر گفتگو کرنا
مقصود نہیں بلکہ محض جماعتِ اسلامی کی پالیسی اور اندازِ سیاست کے حوالے سے
جو مخمصے ہیں انہیں زیر بحث لانا ہے۔
موجود ہ اور مروجہ انتخابی سیاست کے حوالے سے جماعت کی پالیسی ....یہ ایک
ایسا موضوع ہے جس پر بہت پہلے خود جماعت کی اپنی صفوں کے اندر اختلافات نے
سراٹھا یا اور پھر جماعت کو شکست وریخت سے دوچار ہونا پڑا۔ اگر چہ وقتی طور
پر تو اس مسئلے پر قابو پالیا گیا لیکن صورتحال یہ ہے کہ آج تک جماعت ِاسلامی
کوئی ایک لائن اختیار نہیں کر پائی ۔آج جماعت کے ایک عام کارکن کے لیے
فیصلہ کرنا مشکل ہے کہ جماعتِ اسلامی کو اصلاحی تحریک کہا جائے یا انقلابی
جماعت قرار دیا جائے ؟جماعت اسلامی کو رفاہی وفلاحی خدمات سرانجام دینے
والی کوئی این جی او کہا جائے یا احتجاج ،دھرنوں اور جلسے جلوسوں کے لیے
تشکیل پانے والی جماعت ؟ ،یہ سمجھنا بھی مشکل ہے کہ جماعت اسلامی ایک اسلام
پسند جماعت ہے یا سیکولر اور روشن خیال تنظیم؟.... یہ تردد صرف کارکنان کی
حد تک ہی نہیں بلکہ گاہے یوں معلوم ہوتا ہے جیسے جماعت اسلامی کی قیادت اور
پالیسی ساز بھی کسی تردد کا شکار ہیں ۔ اسی تردد اور تذبذب کے نتیجے میں
جماعت ِاسلامی عجیب وغریب فیصلوں کی مرتکب ہوتی ہے۔ جماعت اسلامی برسوں سے
نہیں بلکہ عشروں سے انتخابی سیاست کے اکھاڑے میں کودتی ہے لیکن ہمیشہ
دوسروں کو کندھا پیش کرتی ہے اور خود خاطر خواہ فوائد حاصل کرنے میں کامیاب
نہیں ہوپاتی ۔
ہمیں بہت پیچھے کے حالات وواقعات کا تو زیادہ علم نہیں۔ کتابوں میں جو پڑھا
اور بزرگوں سے جو سنا وہی ہمارا کل اثاثہ ہے لیکن جس وقت ”ظالمو!قاضی
آرہاہے “کی گونج ہر طرف سنائی دے رہی تھی اس وقت ہمارے سنِ شعور کا آغاز
تھا ۔اس وقت کے میڈیا ،تشہیر ،پروپیگنڈہ اور انتخابی منظر نامے میں جو
ماحول بنا تھا اس سے لگتا تھا کہ جماعتِ اسلامی کلین سویپ کر جائے گی جیسے
آج عمران خان کے سونامی اور تبدیلی کا چرچا ہے اور جس قسم کی خوش فہمیوں
میں آج عمران خان کے” انقلابی“ مبتلا ءہیں کچھ اسی قسم کی نفسیاتی کیفیت اس
وقت جماعت اسلامی کے ”صالحین “ کی بھی تھی ۔ اس وقت قاضی حسین احمد کے
ہاتھوں ظالموں ،جابروں ،سرمایہ داروں اور پرانے پاپیوں کے احتساب کے خواب
دیکھے جانے لگے تھے لیکن جب نتائج سامنے آئے تو جماعتِ اسلامی محض دو چار
سیٹوں تک سُکڑ کر رہ گئی تھی ۔اس سے پہلے اور بعدمیں جماعت کے ساتھ ہمیشہ
ایسا ہوتا رہا ہے صر ف ایم ایم اے کے پلیٹ فارم سے جب جماعت نے الیکشن میں
حصہ لیا تو شاندار اور ریکارڈ کامیابی حاصل کی ۔جس کے بارے میں کہا جاتاہے
کہ نہ اس سے قبل ایسی کامیابی حاصل کی گئی اور نہ اس کے بعد جماعت اسلامی
کے حصے میں ایسی کامیابی آئے گی ۔2008ءکے انتخابات میں جماعت اسلامی کو
بائیکاٹ اور احتجاج کی سیاست کے اتنے بلندوبالا مقامات پر پہنچایا گیا اور
پھر نیچے سے اس طرح سیڑھی کھینچ لی گئی کہ جماعت کے لیے واپسی کے تمام
راستے مسدود ہوگئے ۔ جماعت اسلامی کے ساتھ عہد وپیمان کرنے والوں نے تو
انتخابات میں حصہ بھی لیا اور اقتدار واختیار کے مزے بھی لوٹے لیکن جماعتِ
اسلامی پانچ سالوں تک ایوانوں سے باہر سڑکو ں ،پنڈالوں اور ہالوں تک محدود
رہی ۔
اب کی بار جب الیکشن کا ماحول بننا شروع ہوا تو سب کی نظریں تمام مذہبی
جماعتو ں بالخصوص جماعت اسلامی پر تھیں ۔پہلے تو اس طرح کی اطلاعات سامنے
آنے لگیں کہ مذہبی جماعتوں کے ووٹ بینک کو تقسیم ہونے سے بچانے کے لیے ایم
ایم اے کی بحالی یا ایسے کسی مشترکہ پلیٹ فارم کے قیام یا تشکیل کے لیے
تمام مذہبی قائدین وسعت قلبی اور عالی ظرفی کا مظاہر کریں گے لیکن پھر بقیہ
تمام جماعتیں تو ایم ایم اے کی بحالی پر متفق ہوگئیں لیکن جماعت اسلامی اس
اتحاد سے باہر رہی ۔یہاں یہ بحث مقصود نہیں کہ اتحاد بننے اور بگڑنے کی
وجوہات کیا تھیں؟غلطی کس کی تھی ؟کیوں تھی ؟ظاہر ہے کہ گلے شکوے اتحادوں کا
لازمہ ہوتے ہیں ،اتحاد وں میں بہت سے کڑوے گھونٹ بھرنے پڑتے ہیں،دوریاں اور
اختلافات بھی ہوتے ہیں لیکن بدقسمتی سے مذہبی جماعتیں بالخصوص جمعیت علمائِ
اسلام اور جماعت ِاسلامی باہمی گلے شکوے دور کرنے میں کامیاب نہ ہوسکےں اور
ایم ایم اے کا نقشہ ٹوٹتے بنتے ،ابھر تے ڈوبتے آخرقصہ پارینہ بن گیا ۔پھر
یہ غلغلہ بلند ہوا کہ جمعیت علمائِ اسلام کو ایک طرف رکھ کر بقیہ مذہبی
جماعتیں متحد ہ دینی محاذ کے نام سے کوئی اتحاد تشکیل دے رہی ہیں ۔یہ بھی
امید کی ایک کرن تھی۔ ابتداءمیں جماعت اسلامی نے اس اتحاد کے قیام اور
تشکیل کے لیے خاصی سرگرمی دکھائی لیکن پھر نہ جانے کیا ہوا اور جماعت
اسلامی نے خود کو بالکل غیر محسوس طریقے سے متحدہ دینی محاذ سے الگ کر
لیا،پھر ملی یکجہتی کونسل کے پلیٹ فارم اور دفاعِ پاکستان کونسل کے پلیٹ
فارم سے الگ الگ آوازیں بلند ہوئیں کہ مذہبی ووٹ بینک کو تقسیم ہونے سے
بچانا چاہیے لیکن افسوس کہ اس کی کہیں شنوائی نہ ہوئی بلکہ قبلہ قاضی حسین
احمد صاحب کی حیات مبارکہ کے آخری دنوں میں راقم الحروف کی مولانا محمد
حنیف جالندھری اور اتحاد تنظیمات مدار س کے دیگر قائدین کی سربراہی میںقبلہ
قاضی صاحب سے متعدد ملاقاتیں اور اجلاس ہوئے جن کا یک نکاتی ایجنڈہ تھا کہ
مذہبی ووٹ بینک کو تقسیم ہونے سے بچایا جائے لیکن اے کاش ! ان کو ششوں کے
نتیجہ خیز ہونے سے قبل ہی قاضی حسین احمد اپنے خلوص اور درد ِ دل سمیت اپنے
اللہ کی بارگاہ میں تشریف لے گئے اور یہ خواب بھی خواب ہی رہا ۔
اور پھر الیکشن کا ہنگامہ برپا ہوا۔ میڈیا اور قومی منظر نامے پر بہت واضح
انداز سے یہ تاثر ملا کہ جماعت اسلامی، ایم ایم اے ،متحدہ دینی محاذ ،
یاملی یکجہتی کونسل اور دفاع پاکستان کونسل کی بنیاد پر تشکیل پانے والے
کسی بھی سیاسی مذہبی اتحاد کا حصہ بننے سے زیادہ پاکستان تحریک انصاف اور
مسلم لیگ (ن) کے ساتھ اتحاد یا سیٹ ایڈجسمنٹ کی خواہاں ہے۔ یوں کئی ماہ تک
جماعتِ اسلامی اور پی ٹی آئی اور جماعت اسلامی اور مسلم لیگ (ن) کے مابین
رومانس اپنے عروج پر رہا لیکن اس کا انجام بہت ہی شرمناک اور افسوسناک
ہوا۔ظاہر ہے کہ بہت پہلے نظر آرہاتھا کہ اس رومانس کا انجام جلد یا بدیر
ایسا ہی بھیانک ہوگا ۔اور پھر بالآخر جماعت اسلامی تنہاپرواز کرنے پر مجبور
ہوگئی اور اس وقت کا منظر نامہ یہ ہے کہ جماعتِ اسلامی اگرچہ چند گنی چنی
نشستوں پر تو اچھی پوزیشن میں ہے جبکہ ملک بھر کے بے شمار حلقوں میں مذہبی
ووٹ بینک کو تقسیم کرنے کا ”کارِ خیر“ سرانجام دے رہی ہے۔انتخابی نتائج میں
جماعت اسلامی کے حصے میں وہی دو چار سیٹیں ہی آئیں گی لیکن” خود تو ڈوبے
ہیں صنم تمہیں بھی لے ڈوبیں گے “ کے مصداق جماعت اسلامی بہت سے مذہب پسند
امیداوار وں کی شکست کا سبب ضرور بن جائے گی ....
اگر ہم وفاقی دارلحکومت اسلام آباد کی مثال لیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ یہاں
کے تمام دینی مراکز ،مساجد ،علماءکرام ،اہم شخصیات اور تمام مذہب پسند لوگ
جماعت اسلامی کے میاں اسلم کی حمایت کرتے ہیں ،اب کی بار اسلام آباد کے
دوسرے حلقے سے زبیر فاروق بھی میدان میں ہےں ۔بلاشبہ میاں اسلم قائدِ اسلام
آباد کہلانے کے حق دار ہیں اور برادرم زبیر فاورق نے بہت تھوڑے وقت میں
شبانہ روز کوششوں سے اپنے حلقے کی سیاست میں ہلچل مچا دی ہے ۔اب شہر کی
تمام تر مذہبی قوتیں اپنا پورا وزن میاں اسلم اور زبیرفاروق کے پلڑے میں
ڈالنا چاہتی ہیں لیکن عجیب مخمصے میں مبتلا ءہیں ۔ان مذہب پسند لوگوں کو اس
بات کی ضمانت کون دے گا کہ جماعت اسلامی کل کسی بگڑے بچے کی طرح روٹھ کر
ایوان اور پارلیمنٹ سے باہر نہیں ہو جائے گی ؟ان کے ووٹوں کی بنیاد پر
پارلیمنٹ میں پہنچنے والے امیدوار کل مذہب پسندوں کی جگہ سیکولر لوگوں کی
تقویت کا سبب نہیں بن جائیں گے ؟اور ایک مرتبہ پھر پارلیمنٹ میں اسلام
پسندوں کی تفریق وتقسیم کا تماشہ نہیں لگے گا؟
آج میاں اسلم اور زبیر فاروق کے ساتھ تعاون کے لیے آمادہ علماءکرام ،اہل
مدارس اور تبلیغی جماعت کے احباب ملک کے بہت سے حلقوں میںجماعت اسلامی کے
دوستوں سے بھی یہ توقع رکھتے ہےں کہ وہ بھی اپنے اور امت کے حال پر رحم
فرما ئیں۔ ابھی کل ہی مری جانا ہوا جہاں کے تمام مذہب پسندایم ایم اے کے
بعد پہلی مرتبہ یک جان اور یک آواز ہو گئے جبکہ جماعت اسلامی بدستور ڈیڑھ
اینٹ کی مسجد بنائے بیٹھی ہے ۔ پی پی ون کی صوبائی سیٹ پر ستائیس ہزار ووٹ
لینے والے عالی ظرف مولانا سیف اللہ سیفی جماعت اسلامی کے دوستوں کو بار ہا
اپنی طر ف سے ایثار اور ہر ممکن قربانی دینے کی پیشکش کر چکے لیکن جماعت کے
مہربانوں کی خوش فہمیاں ختم ہونے میں نہیں آرہیں ....فیاللعجب....اسلام
آباد میں میاں اسلم اور زبیر فاروق تو تمام مذہب پسندوں کی حمایت کے خواہاں
ہیں لیکن ان کی جماعت کے بہت سے ”مہربان“ دیگر حلقوں میں کیا گل کھلارہے
ہیں؟ اس کی طرف توجہ دینے کے لیے آمادہ نہیں ۔یوں جماعت اسلامی کے لینے اور
دینے کے پیمانے الگ الگ ہوگئے ہیں اور اللہ کا قرآن کہتا ہے ”مطففین کے لیے
ہلاکت ہے ،وہ مطففین کہ جب وہ لوگوں سے لینے کے لیے اپنا ترازو رکھتے ہیں
تو پورا پورا وصول کرتے ہیں لیکن جب تول کر دیتے ہیں تو کمی بیشی کرتے ہیں
“....یاد رہے کہ ترازو صرف عدل وانصاف کا استعارہ ہی نہیں مطففین کا شعار
بھی ہے ....سید منور حسن تو خود الیکشن میں حصہ ہی نہیں لے رہے کہ انہیں اس
معاملے کی نزاکت کا احساس ہو لیکن کیا جماعت میں کوئی اور رجل رشید ہے جو
اس صورتحال کا ادراک کر کے اس مسئلے کا حل نکال سکے ؟ |