جانور بھی الیکشن کی مہم پر

محترم قارئین!ہمارے اس نئے اور اچھوتے عنوان کو دیکھ کر آپ یقینا چونک گئے ہوں گے ،جو امیدوار الیکشن میں حصہ لے رہے ہیں وہ تلملا رہے ہوں گے ،کہ ہم جو اپنی جان جوکھوں میں ڈال کر الیکشن لڑ رہے ہیں ،ہمیں کیونکر جانوروں کی فہرست میں ڈال دیا گیا ہے ۔ جناب ہمارا، اس قسم کا نہ ہی کوئی ارادہ ہے نہ ہم ایسی جرات کر کے اپنے اوپر کوئی دفعہ لگانا چاہتے ہیں ،بلکہ تمام دفعات دور ہی رہیں ہم سے تو بہتر ہے ہمیں اس بات کا پورا یقین ہے کہ الیکشن میں حصہ لینے والے تمام امیدواروں کا تعلق اشرف المخلوقات سے ہے ۔جیتے جاگتے انسان ہیں۔سوئی ہوئی قوم کو جگائے رکھنے کا درد اور ہنر خوب جانتے ہیں ۔

ہم تو امیدواروں کے ان انتخابی نشانات پر سیر حاصل گفت و شنید کرنا چاہتے ہیں کہ جو الیکشن میں اپنے ساتھ ساتھ اُٹھائے پھرتے ہیں ، تقریر یوں کرتے ہیں کہ جیسے دھاڑ رہے ہوں؛گویا
؂کوہ کن نے پورا مرغا کھا کے یوں تقریر کی
جوئے شیر وتیشہ و سنگِ گراں ہے زندگی

اس شعر میں جنگل والا شیر مراد نہیں ہے، جا نوروں کے انتخابی نشانات کی فہرست میں شیر کو اولیت حاصل ہے ،سنتے آئے ہیں کہ شیر جنگل کا بادشاہ ہے ،مگراب لگتا ہے کہ کبھی ہوتا تھا۔۔ کیونکہ جب سے پنجرے میں بندجلسے جلوسوں میں در بدر کی ٹھوکریں کھا رہا ہے، عوامی عوامی سا لگنے لگا ہے ،ڈرا ڈرا سا سہما ہوا،بھوک سے نڈھال ہے ، پیاس سے بے حال ہے ،کہے تو کس سے کہے، بولے تو کس کو ۔۔، سبھی تو سیاسی جلسے جلوسوں کی شورو غوغا میں کھوئے ہوئے ہیں۔یہ قیدی شیر بہادر، جنگل کا شیر کم اور کسی انقلابی شاعر کا شعر زیادہ دکھائی دیتا ہے ، اس سے کہیں بہتر تو وہ گدھے اور کھوتے ہیں جو کہ آزاد انہ دندناتے پھرتے ہیں ،کوئی ان کو پوچھنے والا نہیں ہے ، یہاں تک کے ملک کے دارلحکومت اسلام آباد میں بھی گدھے آزادانہ گھومتے ہیں، دولتیاں جھاڑتے ہیں ،اپنی مرضی اور من مانی کرتے پھرتے ہیں ،ان کو کیوں نہیں کوئی پوچھتا۔۔؟ اسلام آباد میں آپ کو شیر تو کیا کوئی شیر کا بچہ تک نظر نہیں آئے گا۔

بوڑھا شیر بھی کیا سوچتا ہوگا ،کہ جوانی تو جسے تیسے گزر گئی،اک بڑھاپا تھا شرافت سے گزر جاتا تو اچھا تھا ،مگر افسوس کہ سیاست دانوں ،اخبار نویسوں ،کالم نگاروں نے اتنا شیر آیا شیرآیا لکھا ہے کہ اب تو شیر کاشیر کہلانے کو بھی دل نہیں کرتا ہوگا،شرمندگی سی feel ہوتی ہوگی ،اوراپنے آپ کو بکری بکری سا محسوس کرتا ہوگا۔

اس سے تو اچھا تھا کہ گدھوں کو آگے لایا جاتا ،اس میں بظاہر کوئی حرج بھی نظر نہیں آتا، ویسے بھی امریکی،گدھوں کو اپنانے میں فخر محسوس کرتے ہیں ،یہاں تک کہ سب سے بڑی جماعت ری پبلیکن پارٹی کا انتخابی نشان گدھا ہے،امریکہ کو گدھوں کی ہمیشہ سے ہی ضرورت رہی ہے ایک وقت تھا کہ پاکستان سے گدھے ایکسپورٹ کرنے کا سوچا جارہا تھا ، پاکستان کی کسی نہ کسی گلی کوچے میں ایک آدھ گدھا ضرورآوارہ گردی کرتا ہوا نظر آجاتا ہے ،امریکہ چلے جائیں گے تو چلوکسی کام تو لگیں گے۔سنا ہے وہاں کوئی فارغ نہیں بیٹھ سکتا،اس طرح امریکہ سے ہمارے تعلقات میں بھی بہتری آئے گی، بھائی چارہ بڑھے گا،بھائی نہ بھی بن سکیں چارہ تو بڑھے گا ، اس سے حالات میں بھی بہتری آ ئے گی کچھ عرصہ قبل ہماری سیاست میں گھوڑوں کو خاص مقام حاصل تھا ،مگر اب گدھوں کی ٹریڈنگ میں خاطر خواہ اضافے کا واضح امکان موجود ہے ۔
؂ جمہوریت کی اک طرزِحکومت ہے کہ جس میں
گھوڑوں کی طرح بکتے ہیں انسان وغیرہ

۱۱ مئی تک ووٹوں اور نوٹوں کی باتیں اور سیاست دیکھنے کو اور سننے کو ملے گی،صاحبِ اثرورسوخ رکھنے والا امیدوار اپنا تن من دھن الیکشن کی سرگرمیوں پر نچھاور کر رہا ہے ،اب کے امیدواروں نے بھی عجب روپ دھارے ہیں ۔ہم نے ایک صاحب کو گدھے پر سوار دیکھا،ان کا دعوی تھا کہ وہ ممکنہ وزیراعظم ہیں ،مذاق ضرور کریں ،مگر اس قسم کا مذاق نہیں ہوناچاہئے جس سے دونوں کی عزت پر حرف آئے۔

ایک صاحب طر ز امیدوار بھینس پر سوار تھے،بھینس کو خوب سجا رکھا تھا ،اپنے تمام پوسٹر کمال خوبصورتی سے بھینس کے نازک بدن سے چپکا رکھے تھے ۔جہاں جاتے پہلے بھینس کو آگے کرتے پھر خود بنفس نفیس سامنے آتے ،لوگ حیرت انگیز طور پر دونوں کا بھرپور استقبال کر رہے تھے ،غالبا عوام بھی شیروں گدھوں ،اور گھوڑوں سے اکتا چکی ہے ،اس لئے تو اب بھینس کے آ گے بین بجانے کو تیار ہو گئی ہے بھینس بھی خراماں خراماں مستانی چال چلتی ہوئی اپنے مالک کا ساتھ دے رہی ہے ،ویسے اس کے جتنے بھی فائدے ہیں سب اپنی جگہ بجا ہیں۔ مگریہ بہت سست الوجود جانور ہے، اس میں ڈھٹائی بھی انتہا کی پائی جاتی ہے ،ایک جگہ کھڑی ہو جائے تو ٹس سے مس نہیں ہوتی ،لاکھ ڈنڈے برساؤاثر ہی نہیں ہوتا،جب تک کہ محترمہ کا خود سے کیٹ واک کا موڈ نہ بنے ۔ گویا یہ واحد جانور ہے جو اپنے مؤقف پر ڈٹا رہتا ہے ہمارے ہاں زیادہ تر بھنیس کا دودھ پیا جاتا ہے ،کہتے ہیں کہ خوراک کا اثر انسان کے مزاج اور عادا ت و اطوار پر پڑتا ہے۔و اﷲ عالم بالصواب ،ہم کیا کہہ سکتے ہیں ۔

شیر بھینس گدھوں کے علاوہ اس الیکشن کی سرگرمیوں میں ایک اور جانور بھی خاصا سر گرم نظر آرہا ہے وہ ہے پنڈی سے تعلق رکھنے والا مگرمچھ ۔ویسے عقلمندی کا تقاضا تو یہ ہی ہے کہ اس معاشرے میں رہتے ہوئے مگر مچھ سے بیرنہ ہی رکھا جائے۔مگرمچھ، ایک ابھرتے ہوئے سیاسی نوجوان کا انتخابی نشان ہے آپ کا کہنا ہے کہ اگر ،مگر چونکہ چنانچہ کو ووٹ نہ دیں ،مگر مچھ کو ووٹ دیں ۔ان کی اس بات سے غالباان سیاست دانوں کی طرف اشارہ لگتا ہے کہ جن کو اکثر یہ کہتے سنا ہے اگر میں سیاست میں آگیا تو ملک و قوم کی تقدیر سنوار دوں گا،میں نے پاکستان کی خدمت کرنی تھی مگر مجھے خدمت کا موقع نہیں دیا گیا ۔

خیر سے سابقہ حکومت نے اقتدار کے پانچ سال پورے کئے اوراقتدار کے آخری دن اپنی اوراپنے چاہنے والوں کی جس طرح سے خدمت کی ،جتنا نواز سکتے تھے نوازا۔۔ اور یوں ایک نئی قسم کی تاریخ رقم کی ۔۔۔ ؂ بکری کی بھوک مرغی کا معدہ ہے خیر سے
نیت نہیں بھری ، شکم ہیں بھرے ہوئے
مریم ثمر
Saima Maryam
About the Author: Saima Maryam Read More Articles by Saima Maryam: 49 Articles with 52659 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.