پھلوں اور سبزیوں کی نقاشی کا حیران ُکن فن

کیا سا لیک(Kae sa lak)یعنی پھل اور سبزیوں کی نقاشی(carving)کے آغاز کے حوالے سے کوئی حتمی بات نہیں کہی جاسکتی لیکن سب سے مستحکم روایت یہ ہے کہ اسے تقریباً700 سال قبل سوُکوتھائی (Sukothai)میں شروع کیا گیا۔ یہ علاقہ اب تھائی لینڈ کے شمال کے مرکزی حصے کے طور پر جانا جاتا ہے۔

1240سے 1350تک سو ُکوتھائی میں نہایت دھوم دھام سے ایک تہوار منایا جاتا تھا جسے لوئی کراٹونگ(loi kratong)کہتے تھے۔یہ تہوار دسمبر کے مہینے میں پورے چاند کی رات میں منایا جاتا تھا۔اس موقع پر تھائی لوگ کراٹونگس(krathongs)یعنی تیرنے والے جلتے ہوئے چراغ کو دریا‘ جھیل ‘ نہر یا تالاب کے سپرد کیا کرتے تھے۔ اُن کا عقیدہ یہ تھا کہ اس عمل سے پانی کی روح کو ثواب پہنچے گا۔ تہوار منانے کا یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے ‘تاہم آج یہ تہوار تفریح او رخوبصورت اشیاءتخلیق کئے جانے کانام ہے۔

بادشاہ فرہ روانگ (Phra Ruang)کی نانگ نوپامرٹ (Nang Noppamert) نامی خادمہ نے اس تہوار پر بادشاہ کو پیش کرنے کے لئے کوئی ایسی چیز تخلیق کرنے کا سوچا جو سب سے مختلف اور منفرد ہو۔ اس موقع پر اس نے سجاوٹ کی غرض سے ایک پھول کو تراش کر لالٹین کے اوپر لگایا اور اسی طرح سے اس نے ایک چڑیا بھی بنائی اور اسے پھول کے اُوپر لگادیا۔اس کا بنایا ہوا یہ ڈیزائن پھل اور سبزی کی نقاشی کی جانب پہلا قدم قرار دیا جاتا ہے۔بادشاہ اپنی خادمہ کی اس تخلیق سے بے حد متاثر ہوا اور اس نے اس کے فن کی بہت تعریف کی ۔ اس نے یہ خواہش ظاہر کی کہ ہر خاتون کو اس فن میں ماہر ہونا چاہئے ‘بعد ازاں نانگ نوپامرٹ نے لالٹینوں اور چراغوں کو پھل اور سبزیوں سے بنے ہوئے پرندوں‘ بطخوں‘ خرگوش اور دیگر جانوروں سے سجانا شروع کردیا۔اس دور میں کیلے کے پتوں اور پھلوں سمیت کئی اشیاءسے نقاشی عام تھی۔اس کا فن رفتہ رفتہ اس کے ملک میں ‘ پھر دنیا بھر میں مشہور ہوا ۔واضح رہے کہ روایتی تھائی نقاشی میں تربوز اور دیگر پھل استعمال ہوتے ہیں۔

پھلوں اور سبزیوں کی نقاشی کے دوسرا دستاویزی ثبوت 1808-1824ءمیں کنگ راما IIکی شاعری میں ملتا ہے ۔ کنگ راما نے اپنی شاعری میں جگہ جگہ اپنی محبوبہ کا اس فن سے محبت کا تذکرہ کیا ہے۔اس نے اپنی شاعری میں تھائی میٹھوں ‘ پھل اور سبزیوں کو خوبصورتی سے تراشنے کی بات بھی کی ہے۔

اس فن کے ماہرین اپنے ہنر کو دوسروں سے خفیہ رکھتے اور اس فن کے صرف اپنے خاندان تک محدود رکھنے کے خواہاں تھے۔ 1932ءمیں تھائی لینڈ میں پھل اور سبزیوں کے انقلاب کے دوران کھانا پکانے سے متعلق یہ فن ختم ہوکر رہ گیا۔ اس کی بحالی 11سا ل کے بعد ایک پرائمری اسکول سے ہوئی جسے بعد ازاں سیکنڈری اسکولوں تک وسیع کیا گیاجہاں 10سال کی عمر سے بچوں اور بچیوں کو یہ فن سکھایا جاتا ہے‘ جب کہ یونیورسٹیوں میں اسے اختیاری مضمون کے طور پر رکھا گیا ہے۔

20ویں صدی کے وسط میں یہ فن تھائی لینڈ کی سرزمین سے نکل کر دنیا بھر میں مقبولیت اختیار کرنے لگا۔اس کے بعد دیگر ثقافتوں میں رفتہ رفتہ سے اس فن کی جگہ بنتی چلی گئی ۔آج ہر وہ شیف جو کھانوں کو خوبصورتی سے سجانے کی اہمیت سے واقف ہے وہ کسی نہ کسی حد تک پھلوں اور سبزیوں کی نقاشی میں ضرور دلچسپی رکھتا ہے۔پھلوں اور سبزیوں کی نقاشی میں پھول‘ پرندے یہاں تک کہ انسانی شکل بھی بنائی جاتی ہے۔

آج تمام بڑے ریستورانوں اور ہوٹلوں میں سبزیوں اور پھلوں کی نقاشی کے نمونے دیکھے جاسکتے ہیں۔ ان میں سے کچھ بہت پیچیدہ ‘جب کہ بہت سے سادہ مگر دلکش ہوتے ہیں لیکن انہیں دیکھتے ہی دل سے آواز آتی ہے”اسے کوئی کیسے کھاسکتا ہے؟“
Shazia Anwar
About the Author: Shazia Anwar Read More Articles by Shazia Anwar: 201 Articles with 307437 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.