اب کی بار شاید یہ آخری چانس ہو اور شاید اس کے بعد کسی کو یوں آسانی سے
شہنشاہی اور حکمرانی کا موقع نہ ملے،مقتدر حلقے اور آنے والے حکمران اس بات
کو پلے باندھ لیں کہ اس قوم نے اب تک جتنا ظلم و ستم برداشت کرنا تھا کر
لیا ، ہر کام اور ہرپیمانے کی کوئی نہ کوئی حد ہوتی ہے،اور کون سا ظلم و
زیادتی ہے جو اس قوم پہ روا نہیں رکھی گئی شروع دن سے لیکر آج تک،ہر دور کے
بعد ایک نئی امید ایک نئی آس کہ شاید اب کے بار کچھ بدلے گا،سیاستدان اور
ڈکٹیٹر دونوں آزمائے گئے یہ جانتے بو جھتے ہوئے بھی کہ حق حکمرانی صرف عوام
کے منتخب نمائندوں کا حق ہے اس کے باوجود قوم نے آمروں اور ڈکٹیٹروں کو بھی
برداشت کیا مگر ایک سے ایک بڑا فنکار نکلا کسی نے مذہب کے نام پرتو کسی نے
روشن خیالی اور اعتدال پسندی کے نام پر بے وقوف بنا کر اپنا وقت گذارا،لیکن
اس سے جہاں ملک کو بہت بڑے نقصانات اور المیوں کا سامنا کرنا پڑا وہیں دن
بدن میچورٹی کی طرف سفر بھی جاری رہا،جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اب کسی غارت
گر یا مداری کی کم از کم یہاں کوئی گنجائش نہیں رہی،زیادہ دور کی بات نہیں
کرتے فقط پانچ سال پہلے اس ملک کے عوام نے بھٹو کی بیٹی کی عظیم قربانی کے
بعد اس کی پارٹی کو سر آنکھوں پہ بٹھایا اور انہیں اپنے آپ پر حکمرانی کا
بھرپور موقع فراہم کیا،مگر اس وقت شاید وقتی طور پر عوام بھول گئے کہ اس
پارٹی کے پاس اب نہ بھٹو ہے نہ بھٹو کی بیٹی اور تو اور بھٹوز کا ویژن تک
بھی مفقود ہے یہاں،اور پھر وقت نے ثابت بھی کیا کہ اس پارٹی پر وہ لوگ
براجمان ہو گئے جنہوں نے بھٹو کے قتل پر مٹھائیاں بانٹین اور بھنگڑے ڈالے
تھے اور وہ لوگ جو ایک آمر کی کابینہ میں وزیر تھے یہاں وزیراعظم بن گئے
دوسرے صاحب جنھوں نے مٹھائیاں بانٹیں وہ اسی بھٹو کا مقدمہ لڑنے عدالت میں
جا پہنچے اور پھر مقدمے کا بھی وہی حشر ہوا جو وزارت عظمیٰ کا ہوا آج دونوں
گئے وقتوں کو یا د کر کے ٹھنڈی آہیں بھر رہے ہیں ایک سے ایک بڑا نا اہل ،مگرعوام
نے ان کو بھرپور پانچ سال فراہم کیے اور کسی بھی طرح ان کو گھر بھیجنے والی
کسی قوت کا دست وبازو نہ بنے کہ مبادا یہ پھر مظلومیت کا لبادہ اوڑھ لیںاور
تو اور کینیڈا سے آئے بلکہ بھیجے گئے خود ساختہ شیخ کی مداری اور پٹاری کو
بھی بری طرح ریجیکٹ کر دیا،یہی سب سے بڑی تبدیلی ہے جو اس قوم میں آچکی ہے
کہ اس نے احتساب کا نظام اب اپنے ہاتھ میں لے لیا ہے،آج صرف وہی میدان میں
ہیں جنھوں نے عوام کے لیے کچھ کیا ہے کچھ نئے جو ابھی آزمائے جانے باقی
ہیں،باقی وہ تینوں بڑی جماعتیں اور پرومشرف ق لیگ کی حالت یہ ہے کہ اپنے
گھر سے باہر نکلتے ہوئے بھی پسینے چھوٹتے ہیں انتخابی مہم تو بڑی دور کی
بات ہے،مڑ مڑ کر کبھی جی ایچ کیو کی طرف دیکھتے ہیں تو کبھی اپنے آقا و
مالک امریکہ کی طرف کہ جناب دیکھیے تو سہی ہمارے ساتھ کیا ہو رہا ہے،مگر یہ
سب کچھ انہی کا اپنا کیا دھرا ہے انسان وہی کچھ کاٹتا ہے جو بوتا ہے کل تک
آپ نے جو کچھ کیا وہی تو آج آپ کے سامنے آرہا ہے گھبراتے کیوں ہیں جناب،آپ
نے غریب آدمی کی زندگی کو شرمندگی اور گالی بنا دیا آج جب فیصلہ کرنے کی
قوت اور طاقت اسی غریب کے ہاتھ میں آئی ہے تو اب آپکی ٹانگوں کے ریکٹر
اسکیل پر 5.8 کا زلزلہ کیوں آگیا ہے ان میں تھوڑی جان پیدا کریںاور اس
ارتعاش کو پر تھوڑا کنٹرول کیجیئے ،دوسری طرف وہ جو بھرپور انداز میں اپنی
انتخابی مہم جاری رکھے ہوئے ہیں وہ بھی یاد رکھیں کہ عوام کی ساری امیدوں
کا محور و مرکز اب تمہی ہو ،جی اب جو دو بڑی جماعتیں میدان میں ان میں ایک
پاکستان تحریک انصاف اور دوسری پی ایم ایل ن ہے اور ہواﺅں کا رخ دیکھ کر
لگتا ہے کہ اب کی بار میاں نواز شریف ہی اس قوم کے وزیراعظم منتخب ہو ں
گے،کیوں کہ جس طرح کے عوامی اجتماعات میاں نواز کر رہے ہیں دوسرے حتیٰ کے
ان کے برادرم بھی ان سے کوسوں دور ہیں،یہ حقیقت ہے کہ فقط جلسے کی تعداد سے
کسی بھی جماعت کی مقبولیت اور اس کے ووٹوں کی تعداد کا اندازہ نہیں لگایا
جا سکتا،مگر جس طرح کا والہانہ پن اور محبتوں کا اظہار میاں نواز شریف کے
لیے عوام کے دلوں میں پایا جاتا ہے کم از کم اس وقت باقی سارے ان سے بہت
پیچھے ہیں،مجھے ذاتی طور پر تمام لیڈروں کے جلسے اٹینڈ کرنے کا موقع ملا
ہے،وزیراعظم راجہ پرویز اشرف سے لیکر عمران خان تک کسی بھی لیڈر کے لیے وہ
والہانہ پن کہیں نظر نہیں آیا جس کا مظاہر ہ گذشتہ روز میاں نواز شریف کے
جلسہ تلہ گنگ میں نظر آیا،جلسہ گاہ میں پچیس ہزار افراد کے بیٹھنے کا
انتظام کیا گیا تھا اور منتظمین کے دلوں میں اندر ہی اندر یہ بات کھٹک رہی
تھی کہ جگہ بہت زیادہ افراد کے لیے بنائی گئی ہے اگر اتنا بڑا پنڈال عوام
سے نہ بھرا تو کہیں میاں صاحب اور مخالفین کے سامنے سبکی نہ ہو جائے،ان کا
یہ خدشہ ایک لحاظ سے بجا تھا کہ زمینداروں کے لیے یہ دن ان کے سارا سال کے
اہم ترین دنوں میں شمار ہوتے ہیں اور تلہ گنگ جیسے علاقے میں لو گوں کا
واحد آمدنی کا ذریعہ کھیتی باڑی ہی تو ہے کہ نہ یہاں کوئی معدنیات ہیں نہ
کوئی انڈسٹری،ہم جب وہاں پہنچے تواکا دکا لوگ جلسے میں مو جود تھے،اسٹیج کے
آس پا س ہمارے تینوں امیدوار اور مسلم لیگ ن کی دیگر سرکردہ شخصیات بھی مو
جود تھیں،میں نے ایک اہم شخصیت سے لگے ہاتھوں کہہ دیا کہ جناب آپ نے پنڈال
بہت چھوٹا بنایا ہے یہ جگہ تو بہت کم ہے تو وہ حیران ہو کر مجھے دیکھنے لگے
اور سمجھے کہ شاید میں نے طنز کیا ہے کہنے لگے نہیں ملک صاحب،گو کہ لوگوں
کی فصلیں بالکل تیار ہیں پھ بھی انشا ءللہ کافی لوگ آئیں گے اور جگہ تقریباً
بھر جائے گی،میں نے کہا جناب مجھے اس سے قبل بھی ایسی شخصیات کے جلسے کور
کرنے کا موقع ملا ہے آپ کے یہ سارے انتظامات دھرے کے دھرے رہ جائیں گے نہ
صرف یہ ٹینٹ قناتیں اڑ جائیں گی بلکہ آس پاس کی سڑکیں بھی بلاک ہو جائیں
گی،میری بات سے انہیں جہاں ایک طرف حوصلہ ہوا وہیں اند ر ہی اندر انہیں یہ
دھڑکا بھی لگا رہا کہ اگر لوگ کم آئے تو،کیوں کہ ان کے چہرے سے ان کی اندر
کی پریشانی صاف عیاں تھی،اور پھر جب لوگوں کی آمد شروع ہوئی تو یوں لگ رہا
تھا کہ کسی نے رکے ہوئے پانی کا بند کھول دیا ہے، آن کی آن میں پنڈال کیا
آس پاس کا علاقہ اور عمارتیں بھی لوگوں سے کچھا کچھ بھر گئیں میاں صاحب کی
آمد سے قبل ہی کہیں تل دھرنے کو بھی جگہ نہ تھی ،ہمیں تلہ گنگ پریس کلب کے
صدر سمیت اسٹیج تک پہنچنے میں شدید دشواری کا سامنا کرنا پڑا اور آگے جو سو
فٹ کا سیکورٹی حصار قائم کیا گیا تھا بڑی تگ و دو کے بعد جب وہاں تک پہنچے
تو میاں نواز شریف کا ہیلی کاپٹر فضا میں نظر آیا عوام کے شور اور نعروں
میں کان پڑی آواز سنائی نہیں دے رہی تھی اور چند منٹ بعد جب میاں صاحب وہاں
پنچے تو وہی ہوا جس کا اندازہ تھا تمام ٹینٹ اور سیکورٹی حصار دھرے کے دھرے
رہ گئے پولیس اہلکار اپنی شدید ترین کوشش کے باوجود عوام کو روکنے میں
کامیاب نہ ہو سکے اور لوگ تمام رکاوٹیں تو ڑتے ہوئے اسٹیج کے پاس عین میاں
صاحب کے پاس پہنچ گئے اور میاں صاحب کو کہنا پڑا کہ پلیز رک جائیں کیا اب
آپ اسٹیج پہ آئیں گے مجھے آپ کے جذبے اور محبت کا احساس ہے مگر سیکورٹی
والوں سے تعاون کریں تب جا کر تھوڑا سکون ہوا،میاں صاحب نے اپنی آدھے گھنٹے
کی تقریر میں جو کہا اس سے ہمیں کوئی غرض نہیں کیوں کہ اس میں کچھ بھی نیا
نہیں تھا وہ ایک روایتی تقریر تھی ،جیسی تقاریران دنوں ہر جگہ ہو رہیں ہیں
اور ہر لیڈر کر رہا ہے،عرض کرنا صرف یہ مقصود ہے کہ اب اس قوم کے پاس قومی
سطح کا صرف ایک ہی لیڈر مو جود ہے جس کا نام میاں محمد نواز شریف ہے اور
قوم اس پر اپنی محبتیں نچھاور بھی کر رہی ہے،اور ان لیڈروں کو بھی یاد
رکھنا چاہیے کہ یہ قوم جتنا جلدی سر آنکھوں پر بٹھاتی ہے اس سے جلدی اتار
بھی پھینکتی ہے،یہ اٹھارہ اٹھارہ گھنٹے کی لو ڈشیڈنگ اور چار چار دن گیس
اور سی این جی کی بندش برداشت کر رہی ہے صرف اس امید کہ اچھے دن جلد آئیں
گے اگر اب کی بار آپ نے بھی اس کے جذبات کے ساتھ وہی کچھ کیا جو آپ سے پہلے
والوں نے کیا تو پھر ان کا حشر ذہن میں رکھیئے گا،اللہ نہ کر ے کہ کبھی آپ
کے ساتھ بھی ایسا ہو جیسا آج سندھ میں پیپلز پارٹی ،ایم کیوایم اور اے این
پی کے ساتھ ہو رہا ہے،یہ قوم انتظار کی سولی پہ لٹک رہی ہے اور انتظار کے
بعد اگر نتیجہ مایوسی کی صورت میں نکلے تو ردعمل بڑا ہی شدید ہوتا
ہے،،،اللہ آپ کا حامی وناصر ہو،،،،،، |