شارٹ کٹ

پچھلے دس بارہ برسوں میں دنیا جس قدر تبدیل ہوئی ہے، شاید پچھلے سو برسوں میں بھی نہیں ہوئی۔ تبدیلی کی یہ لہر ہمارے ملک میں تو کچھ زیادہ ہی شدت سے آئی ہے اور اس تبدیلی کے نتیجے میں بہت کچھ بدل گیا ہے۔ مثال کے طور پر اگر آپ اپنی گراسری لسٹ پر نظر ڈالیں تو آپ کو اندازہ ہوگا کہ یہ لسٹ آج سے دس سال پرانی لسٹ کے مقابلے میں یکسر تبدیل ہوچکی ہے، کیوں کہ اب اس میں بے شمار ایسے آئٹمز شامل ہوچکے ہیں، جن کا دس سال پہلے تصور بھی محال تھا۔ آج وہ شخص بھی منرل واٹر کی بوتل لے کر گھومتا ہے جو دس سال پہلے تک کہا کرتا تھا کہ ”ہمارے حکمرانوں کے لیے پانی بھی فرانس سے امپورٹ ہو کر آتا ہے۔“

اسی طرح آج کل لوگوں میں جلد بازی بھی بہت آگئی ہے، اب ہر کام جلدی میں ہوتی ہے اور ہر کسی کو شارٹ کٹ کی تلاش ہے۔ کوئی شارٹ کٹ سے امیر ہونا چاہتا ہے، کوئی شارٹ کٹ سے ”شریعت“ نافذ کرنا چاہتا ہے ، کوئی چودہ جماعتیں پڑھے بغیر ہی بی۔اے کرنا چاہتا ہے اور کوئی راتوں رات شہرت کی بلندیوں پر پہنچنا چاہتا ہے۔ شارٹ کٹ کے مارے یہ لوگ دراصل ان لوگوں سے متاثر ہیں جو ان کے سامنے دنوں میں امیر ہوجاتے ہیں یا جن کا کوئی ”جیک“ لگ جاتا ہے۔ میرا دوست رؤف ”تنہا“ بھی انہی لوگوں میں سے ایک ہے، جو کسی ”جیک“ لگنے کے انتظار میں ہیں۔ موصوف شاعر ہیں اور” تنہا “تخلص فرماتے ہیں لیکن جس قسم کے ان کے خیالات ہیں، میرے نزدیک وہ تنہا بالکل نہیں، کیوں کہ کم و بیش پوری نوجوان نسل ہی اس قسم کے خیالات رکھتی ہے۔ رؤف ”تنہا“جب بھی کسی امیر آدمی کو دیکھتا ہے تو اس کی رال ٹپکنے لگتی ہے یا پھر وہ اس شخص کو گالیاں دے کر دل کی بھڑاس نکال لیتا ہے، تاہم ہر دو صورتوں میں وہ اپنے اس عزم کا اعادہ ضرورکرتا ہے کہ زندگی بہت مختصر ہے اور اس میں کامیابی کسی شارٹ کٹ کے بغیر ممکن نہیں۔

مجھے رؤف ”تنہا“ جیسے لوگوں کے شارٹ کٹ ڈھونڈنے پر کوئی اعتراض نہیں، لیکن مصیبت یہ ہے کہ ایسے لوگ شارٹ کٹ کے لیے بھی کوئی پلاننگ نہیں کرتے، یعنی اگر ہم راتوں رات امیر بننا چاہتے ہیں تو اس کے لیے یہ زحمت بھی گوارا نہیں کرتے کہ کوئی ایسا بندوبست کرلیں جس کے ذریعے سے دولت اگر آنا چاہے تو آسکے۔ ہمارا حال تو اس مراثی جیسا ہے جس نے گھر میں لیٹے لیٹے دعا کی کہ ”خدایا! آج مجھے چھپر پھاڑ کر دس لاکھ روپے دے ۔“ تھوڑی دیر انتظار کرنے کے بعد جب کچھ بھی نہ ہوا تو بالآخر مراثی نے تنگ آکر کہا کہ ”خدایا! پھر آج مجھے موت ہی دے۔“ اس کا یہ کہنا تھا کہ یکایک چھت میں دراڑ پیدا ہوئی اور چھت ٹوٹنا شروع ہوگئی، یہ دیکھ کر مراثی بے ساختہ بول اٹھا”واہ میرے رب! ان کاموں میں تُو بہت جلدی دکھاتا ہے۔“

شارٹ کٹ والوں کی باتیں بہت دل چسپ ہوتی ہیں، یہ لوگ ایسے ایسے منصوبے بناتے ہیں کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے، لیکن حیرت ہے کہ پھر ان منصوبوں پر عمل بھی نہیں کرتے۔ ایسے ہی ایک صاحب سے ملاقات ہوئی، فرمانے لگے ”میں نے ایسا منصوبہ بنایا ہے جس کی مدد سے میں صرف 45 دنوں میں25 لاکھ کمالوں گا۔“میں نے متجسس ہوکر پوچھا کہ کیسے؟انہوں نے جواب دیا ”تھائی لینڈ سے امپورٹ کیے گئے کپڑوں کا ایک کنٹینر تقریباً 25 فی صد منافع دے جاتا ہے،اگر میں صرف ایک کروڑ کی امپورٹ کروں تو مجھے25 لاکھ بچ جائیں گے، یہ سارا کام 45 دن سے زیادہ کا نہیں ہے، ریڈی میڈ گارمنٹس کے خریداروں سے میری بات ہوچکی ہے، وہ سارا مال کیش پر خرید لیں گے، بس مجھے بینک سے قرضہ لینا ہے اور امپورٹ شروع کردینی ہے۔ چند دنوں بعد دوبارہ ملاقات ہوئی تو انہوں نے ایک اور پلان سامنے رکھ دیا۔ میں نے کپڑوں کی امپورٹ کے بارے میں دریافت کیا تو ہاتھ ہلا کر بولے ”بس یار بینک والوں نے پلا نہیں پکڑایا ورنہ آج میں لاکھوں میں کھیل رہا ہوتا، خیر کوئی بات نہیں، اب کی بار ایسا پلان لایا ہوں، جس میں ایک روپے کی انویسٹمنٹ کے بغیر ہی دس لاکھ کی دیہاڑی لگ جائے گی!“

بڑے بڑے پلازے، کاروبار کی chains، کمپنیاں…یہ سب ایک دن میں نہیں بن جاتے۔ آج جس بیکری کی چین ہمیں پورے ملک میں نظر آتی ہے، اس کا مالک 30 سال پہلے سائیکل پر رس بیچا کرتا تھا، اسی طرح لاہور میں ایک بہت بڑے پلازے کے مالک نے 25 سال پہلے صرف ایک تھڑے پر ڈبل روٹی اور انڈے بیچ کر کام شروع کیا تھا۔ ایسی سینکڑوں مثالیں ڈھونڈی جا سکتی ہیں، لیکن ان مثالوں کا مطلب یہ نہیں کہ ہر کوئی صرف محنت کے ذریعے یا جائز طریقے سے ہی دولت کما کر کامیاب ہوا ہے۔ بہت سے لوگ غیر قانونی کام کے نتیجے میں دولت کماتے ہیں، کچھ لوگ کئی دفعہ نقصان اٹھا چکنے کے بعد کامیاب ہوتے ہیں، جب کہ کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جن کے پاس پہلے سے ہی دولت ہوتی ہے، لیکن وہ اسے اپنی محنت کا کرشمہ گردانتے ہیں۔ ایک دفعہ طلبہ کا ایک گروپ ایک نوجوان بزنس مین کی فیکٹری کا دورہ کرنے گیا، انہیں بتایا گیا تھا کہ اس نوجوان نے دیکھتے ہی دیکھتے ترقی کی منزلیں طے کیں اور آج اس کا شمار ملک کے بڑے ایکسپورٹرز میں ہوتا ہے۔ نوجوانوں کا گروپ بہت متاثر ہوا اور بزنس مین سے اس کی کامیابی کا راز جاننے کی کوشش کی۔ چوں کہ اس سے پہلے موصوف کو اپنی قابلیت جھاڑنے کا کوئی موقع نہیں ملا تھا، لہٰذا انہوں نے اپنی بات کا آغاز بین الاقوامی سیاست سے کیا اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ پاکستان کا ہر مسئلہ ایک صیہونی سازش ہے، حتیٰ کہ لاہور سے گوجرانوالہ تک کی ٹوٹی ہوئی سڑک بھی بھارتی لابی کی وجہ سے نہیں بن پا رہی۔ اس ”تمہید“ کے بعد انہوں نے بتایا کہ کیسے انہوں نے فٹ بال بنانے کی ایک نئی تیکنیک ایجاد کی، جس کے نتیجے میں انہیں دھڑا دھڑ آرڈر ملنے لگے اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے وہ کروڑ پتی ہوگئے۔ کسی نے پوچھا کہ ان آرڈرز کو پورا کرنے کے لیے ان کے پاس سرمایہ کہاں سے آیا، تو انہوں نے جواب دیا کہ جب بھی مجھے پیسوں کی ضرورت ہوتی، میں اپنی ماں سے بیس تیس ملین مانگ لیتا اور پھر ایکسپورٹ کے پیسے آنے پر اپنی ماں کو رقم واپس کردیتا۔ بیس تیس ملین کا ذکر انہوں نے یوں کیا جیسے بیس تیس روپوں کی بات ہو۔ موصوف نے فرمایا کہ ایک دو بارایسا بھی ہوا کہ آرڈر کینسل ہوگیا کیوں کہ مال کوالٹی کے مطابق سپلائی نہیں کیا گیا تھا، جس کی وجہ سے ”چند ملین روپوں“ کا نقصان بھی ہوا، لیکن ماں نے وہ ”چند ملین روپے“ دے کر نقصان پورا کردیا۔ پوری گفتگو سننے کے بعد اندازہ ہوا کہ موصوف اچھا خاصا نقصان اٹھا کر اس مقام تک پہنچے تھے۔ انگریزی میں کہتے ہیں…hence proved…کسی چیز کا کوئی شارٹ نہیں ہوتا اور جو چیزیں بظاہر شارٹ کٹ نظر آتی ہیں، ان کے پیچھے اس قسم کی ماں ہوتی ہے، جیسے مولا جٹ کی تھی جو ہر سین کے بعد آواز لگاتی تھی …”وے مولیا…!“

(This article is permitted by the author to publish here)

Yasir Pirzada
About the Author: Yasir Pirzada Read More Articles by Yasir Pirzada: 30 Articles with 63355 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.