کتاب، خطاب اور عذاب

کچھ لوگ کہتے ہیں کہ پہلی کتاب ”نیاز“ میں دی گئی ”نان حلیم“ کی طرح ہوتی ہے، جتنی زیادہ بانٹیں اتنی برکت پڑتی ہے۔ اس بات سے میں کسی حد تک متفق ہوں کیونکہ بعض کتابیں واقعی ایسی ہوتی ہیں جن پر حلیم ہی رکھ کر بانٹنی چاہئے! تاہم میرے نزدیک پہلی کتاب کے شائع ہونے اور اس کی تقریب رونمائی کے موقع پر مصنف کی حالت کچھ کچھ ایسی ہوتی ہے جیسی، بقول شفیق الرحمن، کسی شخص کی عموماً تین موقعوں پر ہوتی ہے… روتے ہوئے بچے کو بہلاتے ہوئے… تنہائی میں آئینے کے سامنے …اور اپنی شادی کے موقع پر!

ابتدا میں جب میں نے کالم لکھنے شروع کئے تو مجھے یہ کام بے حد آسان لگا اور دل میں خیال آیا کہ سینئر کالم نگار تو مفت میں کالم لکھنے کے نام پر اخبارات سے لاکھوں روپے کما رہے ہیں، اس ذرا سے کام کے لئے تو اخبار والوں کو دیہاڑی پر بندہ رکھ لینا چاہئے۔ تاہم دس بارہ کالم لکھنے کے بعد جب میرے چودہ پندرہ طبق روشن ہوئے تو پتہ چلا کہ یہ عام بندے کے بس کی بات نہیں اور یہ سینئر کالم نگار واقعتاً حق حلال کی کھا رہے ہیں۔ تاہم اس کے باوجود یہ سینئر کالم نگار مجھے ایک آنکھ نہیں بھاتے کیونکہ ان کا کالم پڑھنے کے بعد میں سٹپٹا کر رہ جاتا ہوں کہ آخر یہ لوگ اتنی دہائیوں سے تواتر کے ساتھ اتنا اچھا کالم کیسے لکھ لیتے ہیں؟ کبھی کبھی مجھے شبہ ہوتا ہے کہ شاید ان کالم نگاروں کے پاس الہ دین کا چراغ ہے جسے رگڑ کر یہ جن کو بلاتے ہیں جو ان کے لئے کالم لکھتا ہے…لیکن نہیں… میرے خیال میں یہ لوگ کسی جن کے محتاج نہیں کیونکہ یہ خود ہی کالم نگاری کے جن ہیں! ان سینئر کالم نگاروں سے قطع نظر، آج کل اخبارات میں بہت سے ایسے لوگوں کے کالم بھی پڑھنے کو ملتے ہیں جنہیں درحقیقت ویلڈنگ کرنی چاہیے لیکن خدا نے ان کا رزق کالم نگاری میں لکھا ہے۔ میں نے اس قسم کے کالم نگاروں کا کالم پڑھنے کا انعام مبلغ پانچ سو روپے فی کالم رکھا ہے… واضح رہے کہ خود میرا کالم پڑھنے کا انعام ایک ہزار روپے ہے اور آ پ یہ سن کر حیران ہوں گے کہ میں ہر ماہ اس مد میں تقریبا ً چالیس ہزار روپے خود ہی کما لیتا ہوں!

خواتین و حضرات! کالم نگاری کے میدان میں داخل ہونے کے بعد مجھ پر بہت سی حقیقتیں منکشف ہوئیں جن میں سے ایک حقیقت یہ بھی تھی کہ عموما ً مجھ پر کالم کی آمد طلوع آفتاب یا پھر غروب آفتاب کے وقت ہوتی جب میں اپنے لان میں ٹہل رہا ہوتا۔ میں نے اپنی اس کیفیت کا ذکر ایک دوست سے کیا تو اس نے نہایت سنجیدگی سے جواب دیا ” یہ علامات تو ”ڈینگی وائرس “ کی ہیں“!!! ایک اور حقیقت جو مجھ پر منکشف ہوئی وہ یہ تھی کہ خواتین بھی کالم پڑھتی ہیں… یقیناً یہ قرب قیامت کی نشانی ہے… کیونکہ اکثر ایسی خواتین، کالم پڑھ کر نہایت علمی قسم کی ای ۔ میلز کرتی ہیں مثلاً یہ کہ آپ کے کالم پر دی گئی تصویر تازہ ہے یا پرانی؟ آپ کی عمر کیا ہے؟ خواتین کی طرح کئی مرد حضرات بھی نہایت بصیرت افروز ای ۔ میلز کرتے ہیں۔ ایک صاحب نے لکھا کہ آپ کچھ کچھ پڑھے لکھے لگتے ہیں، ذرا یہ تو بتائیں کہ ریما اور میرا میں سے کس کی انگریزی بہتر ہے، نیز اس بارے میں بھی روشنی ڈالیں کہ اجمل قصاب کی چھوٹے گوشت کی دکان تھی یا بڑے گوشت کی؟

کبھی کبھی میں سوچتا ہوں کہ اگر میں نے (نعوذ باللہ) کالم نگاری نہ شروع کی ہوتی تو کیا ہوتا؟ شاید میں اس صورت میں قلم کی جگہ پستول اٹھا لیتا یا پھر اُس سردار جی کی طرح خود کش بمبار بن جاتا جسے اس کے کمانڈر نے بم باندھ کر خود کش حملے کے لیے روانہ کیا۔ سردار جی نے جانے سے پہلے احتیاطاً پوچھا کہ خودکش حملہ ہوتا کیا ہے؟ جواب ملا کہ اس حملے میں اپنے آپ کو ہلاک کرنا ہوتا ہے۔ سردارجی نے اطمینان سے سر ہلایا اور حملے کے لیے روانہ ہوگئے۔ دو گھنٹے بعد سردار جی نے کمانڈر کو فون کیا اور کہا کہ” میں ایک ایسی جگہ موجود ہوں جہاں دس بندے کھڑے ہیں، کیا یہاں خود کش حملہ کردوں؟ “ کمانڈر نے جواب دیا” نہیں، اس سے زیادہ لوگوں والی جگہ تلاش کرو۔“ آدھے گھنٹے بعد سردار جی کا دوبارہ فون آیا کہ” اب میں ایک ایسی جگہ پر موجود ہوں جہاں پچاس آدمی ہیں۔“ کمانڈر نے فوراً کہا” یہ جگہ بالکل ٹھیک ہے، یہاں خود کش حملہ کردو۔“سردار جی یہ سنتے ہی بھاگ کر پچاس آدمیوں کے درمیان پہنچے، ”وائے گرو“ کا نعرہ لگایا اور جیب سے چاقو نکال کر اپنے ہی پیٹ میں گھونپ لیا…!!! خواتین و حضرات! یقیناً آپ کی کوئی نیکی کام آگئی کہ اس سردار جی کی طرح خود کش بمبار بننے کی بجائے میں کالم نگار بن گیا۔

اس کتاب میں 2006 سے 2008 تک کے دوران ”روزنامہ جنگ“ میں شائع ہونے والے میرے کالموں کا انتخاب شامل ہے۔ ان میں سے اکثر کالم میں نے اُس وقت لکھے جب ان کی ڈیڈ لائن سر پر تھی یعنی اُس وقت جب کالم لکھنے کے سوا کوئی چارہ باقی نہ تھا، آخری لمحوں میں کام کرنے کی میری یہ عادت کچھ کچھ صدر مملکت سے ملتی ہے لہٰذا اپنی اس خصوصیت کی وجہ سے میں خود کو حکومت میں شامل ہونے کا اہل بھی سمجھتا ہوں۔

جیسا کہ میں نے شروع میں کہا کہ اپنی کتاب کے بارے میں کچھ لکھنا مشکل ترین کاموں میں سے ایک ہے اور چونکہ میں یہ مشکل کام کر گزرا ہوں، اس لئے ایک ترمیم شدہ شعر پڑھ کر آپ سے اجازت چاہوں گا:
کتاب عمر کا اک اور باب ختم ہوا
”خطاب“ ختم ہوا، اک عذاب ختم ہوا

( نوٹ: الحمرا آرٹس کونسل، لاہور میں منعقدہ اپنی کتاب ”ذرا ہٹ کے“ کی تقریب رونمائی، زیر اہتمام رائٹرز پینل آف پاکستان، میں پڑھا گیا)۔

(This article is permitted by the author to publish here)

Yasir Pirzada
About the Author: Yasir Pirzada Read More Articles by Yasir Pirzada: 30 Articles with 63369 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.