بظاہرعمران اور نواز شریف کا میچ برابر لگتا ہے لیکن

 تحریر : محمد اسلم لودھی

عمران خان نے حالیہ الیکشن میں جس جاندار طریقے الیکشن مہم چلائی ہے اسے دیکھ کر مجھے ذوالفقار علی بھٹو یاد آرہا ہے ۔ کیونکہ بھٹو نے بھی ایوب خان سے بغاوت کے بعد عوام کے پاس جانے کی بجائے پاکستان کے تعلیمی اداروں کا رخ کیا تھا اور پاکستان کی شاید ہی کوئی یونیورسٹی یا کالج ہوگا جہاں بھٹو نہ پہنچا ہو۔ یہی وجہ ہے کہ بھٹو کو جنرل ایوب خان کے خلاف لاکھوں کی تعدادمیں ایسے نوجوان میسر آئے جو نہ صرف پیپلز پارٹی کی بنیاد بنے بلکہ مارشل لا دور میں انہوں نے سینے پر گولیاں کھا کر بھٹو کو اقتدار کے ایوانوں تک پہنچا دیا یہ الگ بات ہے کہ بعد ان میں سے اکثر بھٹو کے ظلم و ستم کا شکار ہوگئے ۔
اس سے پہلے قائداعظم محمدعلی جناح کی قیادت میں مسلم لیگ کی کامیابی اور حصول پاکستان کی جنگ میں نوجوان ہی پیش پیش دکھائی دیتے رہے ہیں ۔ ایٹمی سائنس ڈاکٹر عبدالقدیر خان بھی نوجوانوں سے ہی امیدیں وابستہ کرکے میدان سیاست میں اترے تھے لیکن ان سے پہلے عمران خان پاکستان کی قابل ذکر یونیورسٹیوں اور کالجز میں نوجوانوں کے پاس جاکر انہیں پہلے پاکستان کو درپیش مسائل کے بارے میں آگاہ کیا پھر ان کے دل و دماغ میں تبدیلی کا جوش و ولولہ پیدا کرکے الیکشن میں کامیابی کی راہ ہموار کر لی ۔ یہاں یہ ذکر بے محل نہیں ہے کہ پنجاب میں شریف برادران کو شکست دینا اور یہاں بڑے عوامی جلسے کرنا کوئی آسان بات نہیں ہے اس کی وجہ شاید یہ بھی ہے کہ میاں نواز شریف ایٹمی دھماکوں ٬ موٹرویز ٬ قومی اسمبلی میں شریعت بل اور میاں شہباز شریف سستی روٹی ٬ میٹرو بس سروس ٬ سیلاب زدہ علاقوںمیں تعمیر کی جانے والی ہاوسنگ سکیموں ٬ لیپ ٹاپ ٬ دانش سکولوں ٬ ڈینگی کے خلاف موثر جہاد اور مظلوموں کی بروقت داد رسی کے حوالے سے اپنی پہچان آپ بن چکے ہیں اور پنجاب کے لوگ بلاشبہ میاں نواز شریف اور شہباز شریف کو دل کی گہرائیوں سے پسند کرتے ہیں۔ یہ پسندیدگی اپنی جگہ لیکن عمران خان نے لاہور سمیت پورے پاکستان میں جس طرح بڑے بڑے جلسے کرکے تبدیلی کا جو نعرہ لگایا ہے اس سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ وہ ووٹروں کی توجہ حاصل کرنے میں بڑی حد تک کامیاب ہوچکے ہیں ۔ نتائج سے بے خبر ایک نڈر لیڈر کی حیثیت سے وزیرستان کا لانگ مارچ٬ جیکب آباد ٬ لورائی اور سبی جیسے شہروں( جہاں نوازشریف اور پیپلز پارٹی کی قیادت جاتے ہوئے کتراتی ہے) میں کامیاب جلسے کرنے کا کریڈیٹ یقینا عمران خان کو جاتا ہے ۔اس الیکشن کی سب سے اہم بات یہ ہے کہ پیپلز پارٹی ( جس کے پانچ سالہ عوام کش دور میں لوگوں کو فاقوں پر مجبور کردیا ہے ) اپنی موت آپ مر چکی ہے ۔ اب وہ لاکھ روٹی کپڑا مکان کانعرہ لگاتے پھریں بھٹو اور بے نظیر کی جوشیلی تقریروں کے اشتہار ٹی وی پر چلائیںانہیں بطور خاص پنجاب سے قابل ذکر ووٹ نہیں مل سکتے پہلے وہ کہتے تھے کہ اور کتنے بھٹو مارو گے ہر گھر سے بھٹو نکلے گا اب بھٹو تو ہر گھر سے نکلنے سے رہا اس کی جگہ ہر گھر سے بھوکا نکلے گا کے نعرے کو عملی شکل دے کر اپنی سیاسی ساکھ کو تباہ کرلیا ہے علاوہ ازیں پنجاب میں بجلی اور گیس کی بے رحمانہ لوڈشیڈنگ نے بھی پیپلز پارٹی کا جنازہ نکالنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑ ی ۔ اندازہ تو یہ تھا کہ اس مرتبہ پیپلز پارٹی کی جانب سے سیاسی میدان کا خلا شاید عمران خان پور ا کرے گا ۔امریکہ کے اخبار اکانومسٹ اور انگلینڈ کے اخبارفنانشنل ٹائمز کے سروے تو یہی کہتے ہیں کہ حالیہ الیکشن میں نوازشریف 120 نشستیں جیت سکتے ہیں جبکہ پیپلز پارٹی کو 60 اور عمران خان کے لیے 20 سے 40 نشستوں کا اندازہ لگایا گیا ہے میرا خود اندازہ بھی یہی تھا کیونکہ نوازشریف کاووٹر پہلے سے موجود ہے جبکہ عمران نے ووٹروں کو ابھی راغب کرنا ہے ۔ گزشتہ الیکشن میں عمران خان کی کوئی سیاسی وقعت نہیں تھی لیکن اس مرتبہ حیرت انگیز طور پر عمران خان پاکستان کے تقریبا تمام نوجوانوں کو تبدیلی کا نعرہ دے کر متاثر کرچکے ہیں وہ لوگ جو ہمیشہ نوازشریف اور بھٹو کے جانثار ہواکرتے تھے ان میں سے بہت عمران خان کو نہ صرف خود سپورٹ کررہے ہیں بلکہ دوسروں کو بھی یہ کہتے ہوئے آمادہ کرنے کی جستجو کررہے ہیں کہ وہ عمران کو موقعہ دے کر نیا پاکستان بنانے میں اپنا کردار ادا کریں ۔ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ نوازشریف دو مرتبہ وزیر اعظم اور دو ہی مرتبہ وزیر اعلی پنجاب رہ چکے ہیں اگر وہ اب تک کوئی تبدیلی یا انقلاب نہیں لاسکے تو اب وہ کیا انقلاب لائیں گے ۔ان کے مطابق اگر نواز شریف کامیاب ہوجاتا ہے تو پھر سرتاج عزیز جیسے عوام دشمن لوگ وزیر خزانہ بن کر پیپلز پارٹی کی طرح ہی عوام کا بھرکس نکالنے اور پاکستان کو مزید مسائل کی دلدل میں غرق کرنے کی جستجو کریں گے ان کے مطابق اس لیے اگر پاکستانی عوام کو گوناگوں اور تہہ در تہہ مسائل سے چھٹکارا حاصل کرنا ہے اگر بجلی گیس کی لوڈشیڈنگ سے ہمیشہ کے لیے جان چھڑانی ہے اگر پیٹرول اور دیگر اشیائے خورد نوش کو سستاکرناہے تو صرف اور صرف عمران خان کو ہی کامیاب کرواناہوگا وگرنہ نوازشریف کی کامیابی دوسرے لفظوںمیں ایک بار پھر پیپلز پارٹی کی کامیابی تصور ہوگی کیونکہ زرداری حکومت کا سہارا بن کے وہ قوم کے ساتھ پیپلز پارٹی کی لوٹ مار میں شریک ہوچکے ہیں ۔حالانکہ مجھے ان کی اس بات سے اتفاق نہیںہے لیکن دل سے ایک ہوک سی اٹھتی ہے کہ شاید یہ ٹھیک ہی کہہ رہے ہوں ۔ یہ الگ بات ہے کہ میری نظر میں نوازشریف موجودہ سیاست دانوںمیں سب سے زیادہ محب وطن اور عوام دوست ہے لیکن پیپلز پارٹی کے بدترین دور کے بعد حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ اب معمول سے ہٹ کر اقدامات کرنے کی ضرورت ہے ورنہ پاکستان کی سا لمیت اور عوام دونوں کی جان و مال خطرے میں دکھائی دیتی ہے ۔اب یہ اقدامات عمران کرتا ہے یا نواز شریف یہ تو وقت ہی بتائے گا یا اس کا اندازہ تو 11 مئی کی شام اس وقت ہوگا جب بیلٹ بکس کھلیں گے بظاہر عمران اور نواز شریف کے مابین میچ برابر ہی دکھائی دے رہا ہے لیکن میری نظر میں وہی پارٹی کامیابی سے ہمکنار ہوگی جو اپنے حمایت یافتہ ووٹروں کو پولنگ اسٹیشنوں تک لانے میں کامیاب ہوگی۔

Anees Khan
About the Author: Anees Khan Read More Articles by Anees Khan: 124 Articles with 113979 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.