میں اور حمزہ جونہی کیفے اسلام کی چھت والے پورشن پہ چائے
پینے کیلئے پہنچے تو وہاں حسبِ معمول شہر کے نوجوانوں کو الگ الگ ٹولوں کی
صورت اپنی اپنی ٹیبلس کے گرد چیئرس پر بیٹھا ہُوا پایا۔لیکن یہاں بھی ہر
جگہ کی طرح آج کے دَور کا تازہ اور سب سے فیورٹ اِشوالیکشن ہی زیرِبحث چلتا
دِکھائی دِیا۔حمزہ جو کہ ایک الگ ہی آئیدیالوجی رکھنے والا نوجوان ہے،پہلے
ہی مجھ سے یہ کہہ چُکا تھا کہ یارجہاں جاؤیہی ایک بحث یہی ایک بات۔۔۔بیزاری
ہونے لگ گئی ہے اب تو یہ باتیں سُن سُن کہ۔میں اُسے سمجھاتا آرہا تھا کہ
یار یہی تو موسم ہے اِن باتوں کا ،اِس وقت نہیں ہونگی تو کب ہونگی۔
بحر حال قصّہ مختصر یہ کہ ہم جب پہلی ٹیبل کو کراس کرنے لگے تو ایک صاحب کو
اپنے ایک خاص لہجے میں ارد گرد بیٹھے ہوئے نوجوانوں کو اپنی پارٹی کے لیڈر
کی من گھڑت اور بے بنیاد خصوصیات بیان کرتے ہوئے سُنا۔جو اُس کے بعد اُنہیں
سورۃالبقرہ کی آیت ـ’’اور تم گواہی کو نہ چُھپاؤ،اور جو شخص گواہی
کوچُھپائے اُس کا دل گُنہگار ہے‘‘۔اُنہیں ایموشنل بلیک میل کرتے ہوئے سُنا
رہا تھا۔
حمزہ نے میری طرف دیکھا، میں نے اُسے آگے چلنے کا اِشارہ کِیااور ہم کونے
میں رکھی ہوئی دو چیئرس پہ جا کر بیٹھ گئے۔حمزہ کے اندر کامُلک اور قوم
کیلئے پازیٹو اور جوشیلہ نوجوان جاگ چُکا تھا،اور اُس کے اندر کی بے چینی
اور غُصّہ اُس کے چہرے سے صاف ظاہر ہو رہا تھا،لیکن اُس کے پاس اُس وقت وہ
سارا غُبار سِوائے میرے اُوپر اُتارنے کے اور کوئی چارہ بھی نہیں تھا،سو وہ
موصوف میری طرف دیکھ کے مُخاطب ہُوااور کہنے لگا۔۔، یار یہ سیاسی ڈراموں کے
ڈاریکٹرز،رائٹرزاور پرڈیوسرزآخر کب تک ہماری بیوقوف قوم کو اموشنل بلک میل
کر کر کے اپنے مفادات نکالتے رہیں گے؟اور اُوپر سے ہماری قوم ۔۔ اِس کی تو
کیا ہی بات کی جائے،اِن کیلئے تو شاید بیوقوف کا لفظ استعمال کرنا ایک
چھوٹا اور مُہذّب لفظ ہوگا، یہ تو بے ضمیراور مُردہ قوم ہے۔۔۔آخر یہ کس دن
اِن سارے ڈراموں کو اپنے ذاتی مفادات کے دائروں سے نکل کرایک سچی آنکھ سے
دیکھنا اور سمجھنا شروع کرے گی؟میں نے کہا چھوڑ یار۔۔ تُو کیوں بے وجہ
ہائیپر ہوتا ہے ۔رفتہ رفتہ سب ٹھیک ہوجائے گا۔ جب تک اِس مُلک میں تم جیسے
نوجوان زندہ ہیں تب تک اِس مُلک کو کبھی کچھ نہیں ہوگا ۔۔۔ باقی رہی بات
ہماری قوم کو شعور آنے کی، ٹھیک طرح سے دیکھنے اور سمجھنے کی ، تو وہ بھی
ہو ہی جائے گا ۔۔ انشااﷲ۔۔۔۔ ۔تم چائے پیؤ۔۔۔
اتنے میں ہماری برابر والی ٹیبل کے گرد بیٹھے ہوئے کچھ نوجوانوں میں سے ایک
نے پولیٹیکل اشوز پہ بات کرتے ہوئے اپنی تنظیم اور اُس کے لیڈر کے قصیدے
پڑھنا شروع کیئے،اور اقبالؒکے ایک شعر کے ایک مصرے کی مدد لیتے ہوئے اُنکو
اموشنل بلیک میل کیا۔’’ذرا نم ہو تو یہ مٹی بُہت ذر خیز ہے ساقی‘‘۔
اور پھر اُس کے بعد حمزہ صاحب نے وہ کام کیا کہ جو اُسے اُس کے اندر بھڑکٹی
ہوئی آگ نے اُسے کہا۔۔ ٹیبل پر تین بار زور سے ہاتھ مارااور کھڑا ہو گیا۔۔۔
میں آپ سب لوگوں سے کچھ باتیں کرنا چاہتا ہوں،بلخصوص میری باتیں یہاں بیٹھے
ہوئے اپنی اپنی پارٹیوں کے لیڈرز کے چھوڑے ہوئے اُن کارندوں سے ہیں،جو یہاں
بیٹھے ہوئے ڈاریکٹ یا اِ ن ڈاریکٹ باقی سب لوگوں کا ذہن اپنی اپنی پارٹی
اوراپنے اپنے لیڈر کو ووٹ دینے کیلئے بنا رہے ہیں۔میری بات کو آپ ایک
دیوانے کی کہی ہوئی صرف ایک بات بھی سمجھ سکتے ہیں اور اگر چاہیں تو سوال
بھی۔۔۔حمزہ نے سانس لیااور پھر مُخاطب ہُوا۔۔۔جس ملک میں عوام کو دھوکے میں
رکھ کر الیکشن کے نام پر سلیکشن کی جاتی ہو ۔۔،جہاں الیکٹیڈ لوگوں کے بجائے
سلیکٹیڈ لوگوں کو بڑی بڑی ڈیلس کے عوض اسمبلیوں میں عوام کا خون پینے کی
لیئے بٹھا دیا جاتا ہو۔۔،اور ایک ایک کر کے الگ الگ دور کی الگ الگ پارٹی
اپنی اپنی بیٹنگ یاسیدھے لفظوں میں اپنی اپنی باری کے تحت حکومت میں لائی
جاتی ہوں۔۔،جہاں لیاقت علی خان،حکیم مُحمدسعیداور اِن جیسی کتنی ہی عظیم
اور معتبر شخصیات کوالگ الگ ہتھکنڈے استعمال کر کے بے موت شہیدکر دِیا جاتا
ہو۔۔،جہاں نہ تو کوئی فریادی ہو اور نہ ہی کوئی جوابدار،اور اگر کوئی غریب
مشکلیں مول لے کر فریاد کرنے کی ٹھان بھی لے ،تو پھر کوئی فریاد سُننے والا
نہ ہو۔۔، جہاں سارے قانون صرف اور صرف غریب، بے سہارا، لاچار اور مجبور
لوگوں پر لاگو ہوتے ہوں۔۔، جہاں کوئی بھی طاقتور شخص جو چاہے جب چاہے جہاں
چاہے بغیر کسی خوف و جھجھک کر کر سکتا ہو۔۔، جہاں انسان کی قیمت اور اہمیت
کسی جانور سے بھی کم تر ہو۔۔،جہاں عوام،قانون،انصاف،ووٹ،الیکشن اور مسئلوں
کے حل صرف کاغذ پہ لکھے ہوئے لفظوں اور جھوٹے سیاستدانوں کے کی تقریروں کی
حد تک محدود ہوں۔۔،جہاں ہمارے ووٹ دینے یا نہ دینے سے کسی ڈیل یا ہمارے ملک
کواِنڈاریکٹ ہینڈل کرنے والی طاقتوں پر کوئی فرق ہی نہ پڑتا ہو، تو پھر
ایسے غلط سسٹم میں ووٹ دے کر اپنے آپ کو اِس غلط سسٹم کا حصّہ کیوں بنایا
جائے۔۔؟
مانا کہ ووٹ دینا ہمارا قومی فرض ہے اور حق بھی ہے،مگر چور کاساتھ دینے
والا بھی چور ہوتا ہے، اور لگ بھگ اُتنی ہی سزا کاحقدار ہوتا ہے جتنا کہ
چور۔۔ ایک بات ذہن نشین کر لیجئے کہ الیکشن خالص دینوی معاملہ نہیں ہے،کہ
ووٹ نہ دینے سے اﷲ کے ہاں کوئی پکڑ ہوگی۔اور اگر ہوگی بھی تو شاید اُس شخص
سے کم ہوگی کہ جس نے کسی غلط آدمی کو ووٹ دیا ہو ۔ کیونکہ کل اُسی غلط آدمی
کے دور اقتدار میں کسی کے ساتھ بھی کسی قسم کی ہونے والی زیادتی کے ذمیندار
آپ بھی ہونگے۔، کیونکے ووٹ دے کر اقتدارمیں موجود شخص کے حق میں گواہی آپ
نے بھی دی تھی۔
آپ ہی سوچیئے کہ جو سیاستدان اقتدار میں آنے سے پہلے ہی ملک کے بڑے بڑے ٹی
وی چینلز کو کروڑوں روپے اَدوٹائزمینٹ کیلئے دے رہے ہَوں، کڑوڑوں روپے
اِنویست کر رہے ہوں،وہ اِقتدار میں آنے کے بعد قومی خزانے کا کیا حال کریں
گے۔
آپ ہی سوچیئے کہ پچھلے پینسٹھ سالوں میں عوام کو اِن خُد غرض سیاستدانوں نے
جلسوں میں نعرے، دیواروں پہ چاکنگ،اپنی بڑی بڑی گاڑیوں کے ٹائر
دُھلوانے،بھوک وافلاس اور سوچ و فکرمیں سسک سسک کر مر جانے کے علاوہ کیادیا
ہے ؟تو پھر ایسے غلط سسٹم میں ووٹ دے کر اپنے آپ کو اِس غلط سسٹم کا حصّہ
کیوں بنائے؟ ’’ہم ووٹ کیوں دیں‘‘۔
میرا شکوہ کم سے کم ہمارے مُلک کے اُن سیاستدانوں سے بلکل نہیں ہے کہ جو
ابھی نئے نئے اِس سسٹم میں اِن ہوئے ہیں ،کیونکہ وہ ہمارے آزمائے ہوئے نہیں
ہیں۔اور نہ ہی میرے شکوے اورمیری باتوں سے متفق ہونے والے ہر پاکستانی کا
شکوہ وطنِ عزیز سے ہے،بلکہ ہمارا شکوہ ہے تویہاں کے حُکمرانوں سے
ہے،سیاستدانوں سے ہے،ٹھیکیداری نظام سے ہے،لاشوں پہ پاؤں رکھ کرکلاشنکوف کی
سیاست کرنے والوں سے ہے،یہاں کہ مِس بیلنس سسٹم سے ہے اور سب سے بڑا شکوہ
اپنے وطن کی اِس نیم مُردہ قوم سے ہے۔
کیونکہ اگر ٹھیک طریقے سے غور و فکر کے ساتھ دیکھا اور پرکھا جائے تو سارا
قصورحکمرانوں، سیاستدانوں،اور اِس سسٹم نامی الفاظ کا نہیں ہے۔،کیونکہ
سیاستدانوں اور حکمرانوں کو پروان چڑھانے والے اور سسٹم بنانے والے ہم خُد
ہیں ،ہماری قوم ہے۔مگر افسوس ہماری قوم ایک ایسی نیند سوئی ہوئی ہے کہ جس
سے بیدار ہونا اِسے ایک عظیم گُناہ لگتا ہے۔۔،حق اور سچ کی بات پہ عمل کرنا
تو بہت دور کی بات ٹھری، اِسے تو حق اور سچ کی بات کہنا اور سُننابھی ایک
گُناہ کی طرح لگتا ہے،اور اگر یہی حال رہا تو وہ وقت دُور نہیں کہ جب ہماری
قوم ظُلم کے اُن پہاڑوں تَلے دب جائے کی جہاں سے نکلنا شاید ناممکن ہو۔
سورۃالرعدمیں اﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں کے’’بلاشُبہ اﷲ تعالیٰ کسی قوم کی حالت
کو نہیں بدلتاجب تک کہ وہ لوگ اپنی حالت خود نہیں بدلتے‘‘۔
اُس کے بعد حمزہ نے چائے کی آخری سِپ لی اور مجھے اپنے ساتھ لیئے اپنی
دیوانوں والی باتیں اور سوالات کیفے میں بیٹھے لوگوں کے ذہنوں میں کئی
سوالوں اور جوابوں کے انبارکی شکل میں دے کر کیفے سے باہر نکل آیا۔ |