ارے دوست ! تم مجھ سے پوچھتے ہو
کہ اس بار کسے ووٹ دیں...؟؟؟ حیرت ہے پانچ سال بھگت کر بھی تمہیں سمجھ نہیں
آئ کہ کسے ووٹ دوں...؟؟؟ نہیں مگر تمہارا قصور بھی نہیں ہے پیارے- تم بھی
میری طرح سادے ہو اور یہ حکمران بڑے ہی تیز...یہ لوٹ کر بھی ایسا منظر
کھینچتے ہیں کہ پتہ چلے ان سے بڑا شریف کوئی نہیں ہے -
تم اک کام کرو یار کسی بھی پارٹی کے ترجمان ، دانشور یا لکھاری سے مت پوچھو
کہ ووٹ کسے دوں ، کیوں کہ جس بھی "دانشور" سے پوچھو گے وہ اپنی پارٹی کی
ہزار خوبیاں بتائے گا - ارے خوبیاں ڈھونڈنے نکلو گے تو ہلاکو اور چنگیز
جیسے "شریف حکمرانوں" میں بھی کوئی نہ کوئی خوبیاں مل جائیں گیں - اس لئے "ووٹ
کسے دوں..؟؟" کا سوال دانشور وں سے پوچھنے کے بجائے اس بوڑھے باپ سے جا کر
پوچھو کہ جو جھکی کمر کے ساتھ بھی سڑک پہ کھڑا مسواکیں یا "چھلیاں " بیچ
رہا ہے ، اس سفید پوش ماں سے پوچھو کہ جو اپنے کانپتے ہاتھوں سے کپڑے سی سی
کر اپنی بیٹی کا جہیز بنا رہی ہے ، ان بچون سے پوچھو جو دن بھر ننگے پیر
سڑکوں پہ پھرتے ہیں اور ترستی آنکھوں سے چمکتی دکانوں میں سجی قیمتی چیزوں
کو دیکھتے ہیں ، جو سکول جانا چاہتے ہیں مگر حالات اجازت نہیں دیتے ، اس
جوان بھائی اور بیٹے سے جا کر پوچھو کہ جو سفارش نہ ہونے کی وجہ سے ڈگریاں
لے کر مارا مارا پھر کے اب تھک ہار گیا ہے اور بہنوں کی ذمہ داری اور
والدین کی بیماری سے پریشان ہو کر اب خود کشی کے بارے سوچنے لگا ہے - اگر
پھر بھی سمجھ نہ آئے کہ ووٹ کسے دینا ہے تو پھر جاؤ اور ان جوان بہنوں سے
پوچھو جو ٹویشن پڑھا پڑھا کر اپنا جہیز کا سامان تیار کرنے کے لئے پیسہ
اکھٹا کرتی ہیں مگر ان کی مہینہ بھر کی جمع پونجی بوڑھی امان کی دوائی پہ
خرچ ہو جاتی ہے - اور پھر رات بستر پر نم آنکھوں اور کانپتے ہونٹوں کے ساتھ
ہرلیڈر اور اس کے سپورٹر کے لئے ان کے دل سے "دعا" نکلتی ہے -
اور میرے پیارے بھائی ، میرے پاکستانی نوجوان دوست پھر بھی سمجھ نہ آئے کہ
کسے ووٹ دینا ہے تو پھر جاؤ اور جا کر اسے ووٹ دو جو پانچ سو روپیہ دے ، جو
تمہیں نوکری دلانے کا جھوٹا جھانسہ دے ، جو قیمہ والے نان اور پیپسی کی
بوتل پلائے ، اورجو تمہیں ترقی کے سہانے سپنے دکھا کر تم سے سکون کی نیند
بھی چھین لے - |