پچھلے چند ہفتوںسے انتخابات کی
شروع ہونے والی ہلچل آج اختتام پذیر ہوچکی،بدامنی، مہنگائی ، بے روزگاری
اور امریکی غلامی میں جکڑے عوام کا خیال ہے کہ شاید وہ اپنا وٹ کاسٹ کرواکے
ان ناسور مصائب سے چھٹکارا حاصل کرسکیں،اسی لیے زیادہ تر عوام یہی چاہتی ہے
کہ ملک میں باصلاحیت اور نیک و صالح قیادت کا آنا ضروری ہے، ورنہ ملک مزید
مصائب کا شکار ہوجائے گا۔اسی وجہ سے عوام کی نظریں یہاں کے مذہبی رہنماﺅں
کی جانب اٹھتی ہیں، ان کا خیال ہے کہ یہی طبقہ ملک کو بحرانوں سے نکال سکتا
ہے، مذہبی رہنما چاہے کسی بھی جماعت کا ہو وہ قوم اور مذہب کے ساتھ مخلص
ہے۔ذیل میں چیدہ چیدہ اہم مذہبی امیدواروں کے انتخابی حلقوں کے بارے میں
معلومات دی جاتی ہیں۔
جمعیت علماءاسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن خیبر پختونخوا کے تین حلقوں
سے قومی اسمبلی کے انتخاب میں حصہ لے رہے ہیں، ان کے مقابلے میں پیپلز
پارٹی، تحریک انصاف اور مسلم لیگ نواز کے امیدوار ہیں۔ قومی اسمبلی کے یہ
تینوں حلقے انتہائی اہمیت کے حامل ہیں کیونکہ تاریخی اعتبار سے ان میں کچھ
حلقوں سے اہم شخصیات نے انتخابات میں حصہ لیا ہے جن میں ذوالفقار علی بھٹو
اور مفتی محمود رحمة اللہ شامل ہیں۔ قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 24 ڈیرہ
اسماعیل خان پر اس وقت کل امیدواروں کی تعداد 33 ہے۔ یہ حلقہ پاکستان کے ان
چند حلقوں میں شامل ہے جہاں اتنی بڑی تعداد میں امیدوار موجود ہیں لیکن
مبصرین کے مطابق یہاں اصل مقابلہ جمعیت علماءاسلام کے سربراہ مولانا فضل
الرحمٰن اور پاکستان پیپلز پارٹی کے امیدوار سابق سینیٹر وقار احمد خان کے
درمیان متوقع ہے۔ مولانا فضل الرحمٰن چونکہ ایک زیرک سیاستدان ہیں اس لیے
وہ ڈیرہ اسماعیل خان کی سیاست کو اچھی طرح سمجھتے ہیں اس لیے انہوں نے بعض
حلقوں پر اپنے امیدوار نامزد نہیں کیے اور دیگر مضبوط امیدواروں کے ساتھ
بارگین کیا ہے۔ مولانا فضل الرحمٰن نے تحصیل پہاڑ پور کے صوبائی اسمبلی کے
حلقے پر جاوید اکبر خان کے ساتھ ایڈجسٹمنٹ کی ہے اور کلاچی میں سابق وزیر
اعلیٰ عنایت اللہ خان گنڈہ پور کے بیٹے اسرار خان گنڈہ پور کے ساتھ اتحاد
کیا ہے۔ ان دونوں تحصیلوں کے کچھ ووٹ این اے 24 اور کچھ این اے 25 ٹانک کے
ساتھ ہیں۔ مولانا فضل الرحمٰن کو ان دونوں شخصیات کے ووٹ مل جائیں تو این
اے 24 پر مولانا فضل الرحمن میدان مار نے کے بہت زیادہ چانس ہیں۔ گزشتہ
انتخابات میں انہوں نے این اے 36 بنوں سے کامیابی حاصل کی تھی۔
مولانا فضل الرحمن قومی اسمبلی کے حلقہ این 25 ٹانک سے بھی انتخابات میں
حصہ لے رہے ہیں۔ اس حلقے سے نوخیز جماعت تحریک انصاف کے نوخیز امیدوار داور
خان کنڈی مولانا فضل الرحمن کے مقابلے میں ہیں۔داور خان نے اس حلقے سے 2008
میں آزاد امیدوار کی حیثیت سے حصہ لیا تھا اور مولانا فضل الرحمٰن کے بھائی
مولانا عطا الرحمٰن نے داور خان کو شکست دی تھی۔اس حلقے سے داور خان کنڈی
کے لیے نقصان کی بات یہ ہے کہ کنڈی خاندان سے تعلق رکھنے والے سابق سپیکر
فیصل کریم کنڈی بھی انتخاب میں حصہ لے رہے ہیں اور دونوں کنڈی خاندان کے
افراد ایک دوسرے کے ووٹ آپس میں تقسیم کریں گے جس کا فائدہ مولانا فضل
الرحمٰن کو پہنچ سکتا ہے۔ مولانا کو اس حلقے پر جاوید اکبر خان اور اسرار
خان گنڈہ پور کی حمایت حاصل ہے، جس سے اس حلقے پر مولانا فضل الرحمن کی فتح
کی امید کی جا رہی ہے۔
اس کے علاوہ مولانا فضل الرحمن اس بارلکی مروت کے حلقہ این اے 27 سے بھی
انتخاب میں حصہ لے رہے ہیں۔مولانا فضل الرحمن کے مقابلے میں سلیم سیف اللہ
خان خان مسلم لیگ نواز،پاکستان تحریکِ انصاف کے امیدوار کرنل ریٹائرڈ ڈاکٹر
امیر اللہ خان مروت میدان میں اترے ہیں۔مولانا فضل الرحمٰن کو یقین ہے کہ
وہ اس مرتبہ تینوں حلقوں سے شاندار کامیابی حاصل کریں گے اور ان علاقوں میں
یہ تاثر بھی ہے کہ اس مرتبہ خیبر پختونخواہ میں جمعیت علماءاسلام (ف) حکومت
بنانے کی پوزیشن میں ہو گی۔مولانا فضل الرحمٰن نے ان تینوں حلقوں میں اپنے
بہتریں پتوں کا استعمال کیا ہے۔مولانا فضل الرحمٰن کا کہنا ہے کہ ”ڈیرہ
اسماعیل خان، ٹانک اور لکی مروت میں پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم
لیگ نواز میرے خلاف متحد ہیں، لیکن انشاءاللہ کامیابی مجھے ہی ہوگی۔
اہلسنت والجماعت کے سربراہ اور متحدہ دینی محاذ کے مرکزی رہنما مولانا احمد
لدھیانوی جھنگ کے حلقہ این اے 89 سے انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں۔ این اے
89 جھنگ کا دوسرا حلقہ ہے اور ماضی میں یہاں سے اہلسنت والجماعت کے اہم
رہنما الیکشن لڑتے رہے ہیں اور کامیابی بھی حاصل کرتے رہے ہیں،2008 میں
یہاں سے مسلم لیگ ق کے شیخ وقاص اکرم کامیاب ہوئے تھے، اہلسنت والجماعت کا
کہنا ہے کہ 2008میں پرویز مشرف نے اپنے پروردہ لوگوں کو جھنگ سے کامیاب
کروایا تھا اور ہمیں سازش کے تحت ناکام کیا گیا تھا،ہم کئی ہزار ووٹوں سے
کامیاب ہوئے تھے جبکہ ہمارے ساتھ دھوکہ بازی کی گئی ،اس حلقے سے شیخ وقاص
جعلی ڈگری کی وجہ سے نااہل ہوچکے ہیں، انہوں نے بارہا اپنی انتخابات میں
حصہ لینے کے اہل ہونے کے لیے اپیل دائر کی لیکن وہ اپنی ڈگری کو اصل ثابت
نہیں کرسکے،وہ اب مسلم لیگ ن کا حصہ بن چکے ہیں، لیکن ناہل ہیں، اس لیے
انہوں نے اپنی جگہ اپنے والد کو میدان میں اتارا ہے، لیکن اس باراس حلقے سے
مولانا احمد لدھیانوی کی پوزیشن کافی مضبوط ہے،اب کی بار وہ صرف اہلسنت
والجماعت کی جانب سے انتخابات میں حصہ نہیں لے رہے بلکہ متحدہ دینی محاذ کی
جانب سے میدان میں اترے ہیں، انہیں اس اتحاد میں شامل تمام جماعتوں کی
حمایت بھی حاصل ہے۔گزشتہ دنوں محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے جھنگ
میں مولانا احمد لدھیانوی کے حق میں جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ میں
قوم سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ مولانا احمد لدھیانوی کو ڈاکٹر عبدالقدیر سمجھ
کر کامیاب کروائے۔اسی طرح اور بھی کئی اعلیٰ شخصیات نے مولانا احمد
لدھیانوی کی حمایت کا اعلان کیا ہے جس سے امید کی جارہی ہے کہ مولانا احمد
لدھیانوی کامیابی حاصل کریں گے۔
جمعیت علماءپاکستان کے مرکزی صدر صاحبزادہ ابوالخیر محمد زبیر 11 مئی کو
ہونے والے انتخابات میں حیدرآباد کے قومی اسمبلی کے حلقہ 220 سٹی اور پنجاب
کے ضلع قصور کے قومی اسمبلی کے حلقے این اے 138 پر امیدوار ہوں گے۔ ان کے
مقابلے میںاین اے 220سے پی پی پی کے صغیر احمد قریشی اور سید وسیم حسین ایم
کیو ایم کے نمایاں امیدوار ہیں۔جبکہ این اے 138سے ان کا مقابلہ ایم کیو ایم
کے سعد علی اور مسلم لیگ(ن) کے وسیم اختر سے ہے ان کے علاوہ اور بھی کئی
امیدوار اس حلقے سے ان کے مقابلے میںہیں۔حیدرآباد کے قومی اسمبلی کے حلقہ
این اے 220 سٹی پر 2002ءکے انتخابات میں صاحبزادہ ابوالخیر زبیر نے متحدہ
قومی موومنٹ کے امیدوار آفتاب احمد شیخ کو شکست دی تھی، اس لیے اس بار
10جماعتی اتحاد کی وجہ سے ان کا متحدہ قومی موومنٹ کے امیدوار سے زبردست
مقابلہ رہے گا۔2008میںمتحدہ مجلس عمل کے بائیکاٹ کی وجہ سے صاحبزادہ زبیر
نے انتخابات میں حصہ نہیں لیا تھا،اس لیے متحدہ قومی موومنٹ کے صلاح الدین
کامیاب ہوئے تھے۔
قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 223 ٹنڈو اللہ یار سے اہلسنت والجماعت اور
متحدہ دینی محاذ کی جانب سے مولانا اورنگزیب فاروقی انتخابات میں حصہ لے
رہے ہیں،ان کے مقابلے میں مسلم لیگ نون کی ڈاکٹر راحیلہ گل مگسی، ایم کیو
ایم کے ساجد وہاب خانزادہ، سندھ ترقی پسند جماعت کے نصرت الطاف حسین جسکانی
اور ان کے علاوہ 21 امیدواروں کا نام بھی فہرست میں شامل ہے۔لیکن اس بار اس
حلقے سے یہ امید کی جارہی ہے کہ اس سیٹ پر کامیابی مولانا اورنگزیب حاصل
کریں گے،کیونکہ ٹنڈواللہ یار کے عوام مولانا اورنگزیب کا بھرپور ساتھ دے
رہے ہیں ۔
حلقہ این اے 250 کراچی سے جماعت اسلامی کے مضبوط امیدوار نعمت اللہ خان
انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں، وہ پہلے بھی یہاں سے کامیابی حاصل کرچکے ہیں،
انہوں نے اپنے دور میں کراچی میں بہت ہی شاندار کام کروائے ،جس کی وجہ سے
عوام کی اکثریت کی خواہش ہے کہ وہی اس بار کامیاب ہوں،امید بھی ظاہر کی
جارہی ہے کہ اس بار وہی کامیابی حاصل کریں گے کیونکہ اس حلقے سے انہیں کئی
حلقوں کی حمایت حاصل ہے،2008میں انتخابات میں حصہ نہ لینے کی وجہ سے اگرچہ
اس حلقے سے ایم کیو ایم کا امیدوار کامیاب ہوا تھا لیکن اس بار انہی کی
کامیابی کی زیادہ امید ہے۔ ان کے مدمقابل 31 امیدواروں میں پی ٹی آئی کے
ڈاکٹر عارف علوی، پی پی پی کے راشد ربانی، اے این پی کے سید محمد حنیف، ایم
کیوایم کی خوش بخت شجاعت ہیں۔این اے 126 لاہور کے حلقے سے جماعت اسلامی کے
مرکزی رہنما لیاقت بلوچ الیکشن میں حصہ لے رہے ہیں،ان کا کہنا ہے کہ
انشاءاللہ وہ اس حلقے میں تمام مخالفین کو شکست فاش دیں گے۔ان کے مقابلے
میں مسلم لیگ ن کے امیدوار خواجہ احمد حسن ، پیپلز پارٹی کے امیدوار سید
زاہد بخاری اور پی ٹی آئی کے امیدوارشفقت محمود میدان میں اترے ہیں۔این اے
حلقہ 256کراچی سے مولانا اویس نورانی جے یو پی کی جانب سے انتخابات میں حصہ
لے رہے ہیں۔ان کے مقابل پی ٹی آئی نے محمد زبیر خان، اے این پی نے محمد
یونس خان اور پی پی پی نے سید منظور عباس کو ٹکٹ دیا ہے۔متحدہ دینی محاذ کی
جانب سے مفتی عثمان یار کراچی کے حلقہ 258سے انتخابات میں حصہ لے رہے
ہیں،جن کے مقابلے میںاے این پی ، ایم کیو ایم، تحریک انصاف اور دوسری کئی
آزاد امیدوار ہیں۔ حلقہاین اے240سے جمعیت علماءاسلام کے قاری عثمان الیکشن
میں حصہ لے رہے ہیں،ان کے مقابل بھی کئی جماعتوں کے امیدوار ہیں لیکن ان کا
کہنا ہے کہ انشاءاللہ گیارہ مئی ہماری فتح کا دن ہے۔نوشہرہ، این اے 5 سے
جماعتِ اسلامی کے مرحوم امیر قاضی حسین احمد کے بیٹے آصف لقمان قاضی
انتخابات کے لیے میدان میں اترے ہیں۔نوشہرہ این اے 6سے ایم ڈی ایم کی جانب
سے جمعیت علماءاسلام (س) کے سربراہ کے بیٹے مولانا حامد الحق حقانی نے
انتخابات میں حصہ لیاہے۔قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 207 سے جمعیت
علماءاسلام نے ڈاکٹر خالد محمود سومرو کو میدان میںاتارا ہے،اس حلقے سے ان
کے مقابل پیپلز پارٹی شہید بھٹو گروپ سے غنویٰ بھٹو، پی ٹی آئی سے سید علی
حیدر زیدی، سندھ یونائیٹڈ پارٹی کےسرفراز احمد مستوئی، ایم کیو ایم کے
امیدواروں سمیت 36 امیدوار ہیں۔
|