غدار کون یا غدار کون کون؟

میاں نواز شریف کے انٹرویوز پر مشتمل سہیل وڑائچ کی لکھی ہوئی کتاب ُ غدار کون ‘ زیر مطالعہ تھی کتاب میں میاں صاحب نے اپنے ’سنہری دور‘ کی یادیں تازہ کی ہیں اور اپنے کارہائے نمایاں بیان کئے ہیں او ر اپنی چند غلطیوں کا اعتراف کیا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ جنرل مشرف کے بھی خوب خوب لتے لئے ہیں ۔ ابھی اس کتاب کے چند ابواب باقی تھے کہ جنرل مشرف کے گرفتار ہونے اور ان پر چلائے جانے والے مقدمات کا شور اٹھ کھڑا ہوااور ہر طرف سے پکار سنائی دی کہ جنرل مشرف نے ملک کے آئین سے غداری کی ہے اور اس جرم کی سزا موت ہے لہذا جنرل کے خلاف آرٹیکل ۶ کے تحت کاروائی کی جائے اور مجرم کو اس کے جرم کی قرار واقعی سزا دی جائے ۔ اس سارے شوروغوغا میں سب سے بلند آواز وکلاء کی ہے اور عدالتی ٹرائل سے پہلے ہی میڈیا نے اس کا ٹرائل شروع کر دیا ہے۔

سوال یہ ہے کہ کیا واقعی جنرل نے کوئی غداری کی ہے اور کیا ان تمام معاملات میں جنرل اکیلا ذمہ دار ہے فی الوقت جنرل مشرف پر لگائے گئے الزمات میں قابل ذکر ملک کا آئین توڑنا اور منتخب حکومت کو گھر بھیجنا ، ججز کی نظربندی، لال مسجد کے مظلومین کا قتل ، ڈاکٹر عافیہ کی امریکہ کو حوالگی، محترمہ بے نظیر کا قتل اور کارگل کا مس ایڈونچر شامل ہیں ۔جنرل مشرف کے دور میں ایک حکومت ملک میں موجود تھی اور جو کچھ بھی اس وقت ہوا بلاشبہ اس میں اس وقت کی حکومت اور حکومتی ارکان شامل تھے اور ان کی مرضی اور منشاء کے بغیر اکیلا جنرل کچھ بھی نہیں کر سکتا تھا جنرل مشرف کے تمام فیصلوں کو اس وقت کی کابینہ کی مکمل حمایت حاصل تھی اور اس میں حزب اختلاف بھی موجود تھی جس کی سربراہی مولانا فضل الرحمان فرما رہے تھے۔ سوال یہ ہے کہ اگر اس وقت تمام فیصلے غلط تھے تو کیا ارکان اسمبلی میں اتنی بھی اخلاقی جرات نہیں تھی کہ وہ اس پر احتجاج کرتے اور جنرل کی معاونت سے الگ ہو جاتے لیکن اس وقت کی اسمبلی نے تمام فیصلوں کی توثیق کی یعنی یہ اقرار کیا کہ جنرل مشرف کے فیصلے درست اور وقت کی ضرورت ہیں تو ایسی صورت میں اب جبکہ ان کئے گئے فیصلوں پر جنرل مشرف کا ٹرائل شروع ہوا ہے تو ان فیصلوں کی توثیق کرنے والے ارکان اسمبلی کس قانون کے تحت پاک دامن قرار پائے ہیں ان کے خلاف مقدمات کیوں قائم نہیں کئے جا رہے -

اگر جنرل مشرف نے آئین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ایک منتخب حکومت کو گھر بھیجا تھا تو اس اقدام کو اس وقت کی اور آج کی فعال عدلیہ نے درست اقدام قرار دیا تھا تو عدالت کا درست کہا گیا اقدام کیسے ایک دن میں جرم بن گیا ہے اور کس طرح اس پر قانونی کاروائی کی جا سکتی ہے کیونکہ آرٹیکل ۶ تو اسی پر لاگو ہو گا جس نے آئین توڑا اور جس نے آئین توڑا اس پر توضرور مقدمہ چلائیں لیکن جنہوں نے اس اقدام کو درست کہا گویا ایک غیر آئینی اقدام کی توثیق کی توپھر ان کو بھی اس میں شریک جرم سمجھا جانا چاہیے ۔ جنرل مشرف پر غداری جیسے مقدمات قائم کرنے سے پہلے حکومتی مدار المہام اور مشرف مخالف دانشور غدار کی تعریف تو بیان کر دیں تا کہ پتہ چلے کہ کون کون غدار ہے اور کس کس کو حب الوطنی کا سرٹیفکیٹ دیا جائے گا کیونکہ میں تو یہ سمجھتا ہوں کہ اگر جرم کی نوعیت ایک جیسی ہے تو مقدمہ اور سزا بھی کسی تخصیص کے بغیر ایک جیسی ہونی چاہیے اور شریک مجرموں کو بھی کٹہرے میں لانا چاہیے۔

اگر ایک جنرل ایک منتخب حکومت کو جبری برطرف کرتا ہے تو یہ آئین شکنی ہے اور آرٹیکل ۶ کے تحت آتی ہے تو پھر ایجنسیوں سے پیسے لیکر ایک منتخب حکومت کے خلاف سازش کرنا کیا آئین شکنی قرار نہیں پاتا اور جو لوگ اس قبیح فعل کے مرتکب ہوئے تھے اور اصغر خان نے ان سب کا کچا چٹھہ کھول کھول کر بیان کر دیا ہے ان پر کسی نے مقدمہ قائم کرنے کاکیوں نہیں سوچا شاید اس لئے کہ اس میں بہت سے پردہ نشینوں کے نام بھی آئیں گے۔ سربراہ مملکت کی حیثیت سے اگر حاضر سروس ججز کو معطل کرنا غیر آئینی ہے تو کیا کوئی بتا نا پسند کرے گا کہ فوج کے ایک سر براہ سے استعفیٰ لینا اور ایک نہایت جونئیر جنرل کو فوج کا سربراہ مقرر کر دینا پھر اس کی غیر موجودگی میں اس کو برطرف کر دینا کون سے قانون کے تحت جائز قرار پاتا ہے۔ ججز کی نظربندی یقینی طور پر ایک مجرمانہ فعل ہے اور اس جرم پر مقدمہ قائم ہونا چاہیے لیکن سوال یہ ہے کہ کیا صرف ۷ نومبر ۲۰۰۷ کا امر ہی غیر قانونی تھا اور ۳۰ نومبر ۱۹۹۷ کا عمل جائز تھا جب عدلیہ پر حملہ کیا گیا اور ان کو ان کے اپنے چیمبرز میں بند کر کے کام سے روک دیا گیا اور ججز کی نظر بندی خلاف قانون ہے تو حضور عدلیہ پر حملہ بھی خلاف قانون تھا اور اس کے ماسٹر مائنڈ اور مجرم کو بھی کٹہرے میں لایا جانا چاہیے تا کہ انصاف کے تقاضے پورے ہوں۔ ڈاکٹر عافیہ کو امریکی تحویل میں دینا جرم ہے اور اس کے ذمہ داران کو کوسنے دینا جائز اور ان پر مقدمات چلانا وقت کی ضرورت ہے تو جنہوں نے ایمل کانسی کو امریکہ کے حوالے کیا ان پر مقدمات کیوں قائم نہیں کئے جا سکتے اگر ڈاکٹر عافیہ کی امریکہ حوالگی جرم اور ملک سے غداری ہے تو حضور ایمل کانسی کا کیس بھی کچھ مختلف نہیں وہ بھی پاکستانی تھا اور اس کو امریکہ کے حوالے کرنا بھی اتنا ہی گھناؤنا فعل تھااس جرم کے بھی ذمہ داران کو قرار واقعی سزا ملنی چاہیے۔ لال مسجد کے خود ساختہ مظلومین جن کے بارے میں اب کمیشن کی رپورٹ بھی آ چکی ہے اگر لال مسجد کو ضرار مسجد بنانے والوں کے خلاف کاروائی جرم تھی تو جس کابینہ نے اس کی منظوری دی اس کے ارکان سے صرف نظر کیوں کیاجا رہا ہے ان تمام مجرمین کو کٹہرے میں لانے کے لئے کون سا امر مانع ہے، اسی مسجد ضرار کے اندر سے جب فورسز پر حملہ کیا گیا اور فوجی افسران اور جوانوں کو شہید کیا گیا تو کیا وہ جوان پاکستانی نہیں تھے ان کے قتل کا مقدمہ بھی تو کسی پر چلائیں ان کے قاتلوں کو بھی کٹہرے میں لائیں یا انصاف کے حقدار صرف مسجد ضرار کے شدت پسند ہیں اور فورسز کے جوان انصاف کے حقدار نہیں۔

جہاں تک بی بی کی شہادت کا تعلق ہے تو انہوں نے اپنے ممکنہ قاتلوں کی نشاندہی خود بھی کر دی تھی اور کچھ لوگوں کی گرفتاری کا واویلہ رحمان ملک نے بھی اپنے دور میں کیا تھا اب سوال یہ ہے کہ جو لوگ اس وقت گرفتار کئے گئے وہ کون تھے اور ان لوگوں کے خلاف اب تک کاروائی کیوں نہ کی گئی جن کا ذکر بی بی نے اپنے خط میں کیا تھا ان میں سے ایک ملزم کو تو نائب وزارت عظمیٰ کا انعام بھی دیا گیا تھا اور وہ حضر ت کسی زمانے میں جنرل مشرف کو دس بار وردی میں منتخب کرنا چاہتے تھے گویا ان کا منصوبہ تھا کہ دس مرتبہ آئین سے انحراف کیا جائے گا لیکن قصور صرف جنرل مشرف کا اور سزا کا مطالبہ بھی صرف جنرل مشرف کے لئے ، تو میں یہی کہوں گا کہ اے امیر شہر بتا کیا یہی انصاف ہے۔ بی بی شہید کے بارے میں ذرا آصف زرداری کا بیان بھی ملاحظہ ہو انہوں نے ابھی حال ہی میں اپنی ایک تقریر میں اور اس سے پہلے بیشتر تقاریر میں کسی مولوی صاحب کا ذکر کیا ہے اور ایک مخصوص سوچ کو اس حادثے کا ذمہ دار قرار دیا ہے لیکن مقدمہ صرف جنرل مشرف پر ، اب دو ہی باتیں ہیں یا تو بی بی نے اپنے خط میں غلط بیانی سے کام لیا، یا زرداری صاحب نے سچ نہیں بولا یا پھر اصل قاتلوں کو بچانے کے لئے ملبہ جنرل مشرف پر ڈالا جارہا ہے۔

بعض سیاسی کاری گر کارگل کا ذکر بھی بڑے زورو شور سے کرتے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ کارگل مہم کی وجہ سے پاکستان کو بھاری نقصان اٹھانا پڑا اور وہ اپنی ہی فوج کی شکست کا پراپیگنڈہ کرتے پائے جاتے ہیں جبکہ حقیقت کا اعتراف بھارتی سپہ سالار نے جنرل مشرف کی دلیری کی تعریف اور اپنی افواج کی نااہلی کو تسلیم کرتے ہوئے کیا ہے۔ ایک لمحے کے لئے ان دانشوروں کی بات کو مان لیتے ہیں تو ایسی صورت میں ان نام نہاد قائدین کے بارے میں کیا کہیں گے جنہوں نے تمام کشمیری قیادت کی لسٹیں اور منصوبہ بندی کی تفصیل بھارتی وزیر اعظم اندر کمار گجرال کو مہیا کر کے تحریک آزادی کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا کیا کشمیری قیادت کی تفصیل بھارت کو دینا ملکی راز افشا کرنا اور اپنے ہی ملک کے خلاف غداری نہیں ہے، جس جس نے یہ حرکت کی کیا وہ شیر بہادر قائدین ننگ ملت اور ننگ دیں نہیں کیا ان پر آرٹیکل ۶ کا اطلاق نہیں ہوتا اور اس واقعے کی پوری تفصیل اندر کمار گجرال نے اپنی کتاب میں قلم بند کی ہے جس کو یقین نہ ہو وہ اس کتاب کا مطالعہ کر سکتا ہے۔

اگر جنرل مشرف قومی مجرم ہے تو اسکا ساتھ دینے والے وہ مفاد پرست جو آج مختلف سیاسی پارٹیوں کی چھتر چھایا تلے تازہ دم ہو کر پھر سے عوام کاخون چوسنے کی تیاری میں مصروف ہیں ان پر مقدمات کیوں قائم نہیں کئے جاتے اور بات صرف ان موقع پرستوں تک محدود نہیں ان میں میڈیا کے وہ سرخیل اور کالم نگار بھی شامل ہیں جو کل تک جنرل مشرف کی تعریف میں زمین و آسمان کے قلابے ملاتے تھکتے نہیں تھے اور آج ان کو قوم کا سب سے بڑا مجرم جنرل مشرف کی ذات میں نظر آتا ہے اور آج سب لوگ ان موقع پرست سیاسی سائنسدانوں کے بارے میں خاموش ہیں جنہوں نے مشرف کے ساتھیوں کو اپنی اپنی ٹولیوں میں جگہ دی ہے جبکہ قانون تو یہ کہتا ہے کہ مجرم یا مجرم کے ساتھیوں کو پناہ دینے والا بھی اتنا ہی بڑا مجرم ہوتا ہے اور اس کے خلاف بھی قانونی کاروائی اتنی ہی سخت ہونی چاہیے جتنی مجرم کے خلاف ہوتی ہے۔ یار لوگوں کی یہ بھی ضد ہے کہ جنرل مشرف کی پالیسیوں نے ملک کا بیڑا غرق کر دیا ہے اور آج ملک کی حالت اور بدامنی کا ذمہ دار جنرل مشرف اور اسکی پالیسیاں ہیں تو جناب آپ سے عرض ہے کہ پچھلے پانچ سالوں میں حکومت اور حکومتی معاون آپ تھے طاقت آپ کے پاس تھی، اقتدار آپ کی ملکیت تھی،حکومتی مشینری پر آپ کی گرفت تھی اور سیاہ و سفید کے مالک آپ تھے اگر جنرل مشرف کی پالیسیاں ملک کے معروضی حالات سے مطابقت نہیں رکھتی تھیں تو آپ نے ان کو تبدیل کیوں نہ کیا، مشرف کے کئے گئے فیصلے آپ نے کیوں نہ بدلے، حکومتی روش کیوں نہ بدلی تو اس کی دو ہی وجوہات ہو سکتی ہیں یا تو آپ میں اتنی اہلیت ہی نہ تھی کہ آپ ملکی مفاد میں کوئی فیصلہ کر سکتے یا پھر جرنیلی فیصلے درست تھے دونوں صورتوں میں کریڈٹ مشرف کو جاتا ہے۔

آج اگر جنرل مشرف کو غدار ی کے مقدمے میں سزا دینی ہے تو ضرور دیں لیکن ان تمام مجرموں کو بھی بے نقاب کریں اور ان کو بھی سزا دیں جنہوں نے اپنے اپنے دور میں آئین کی دھجیاں بکھیریں وہ اصغر خان کیس میں شامل سازشئے ہوں یا اپنے اپنے دور میں پاکستانی شہریوں کو عازم امریکہ کرنے والے یا ججوں کو زدوکوب کرنے والے ہوں یا عدالت عظمیٰ پر حملہ کرنے والے یہ سب قومی مجرم قرار پانے چاہیے اور
ان کے خلاف بھی ویسی ہی کاروائی ہونی چاہیے جیسی یہ جنرل مشرف کے خلاف چاہتے ہیں ، جنرل مشرف کے خلاف شکنجہ کسنے کے ساتھ ساتھ ان سب کی بھی گردنیں ناپی جانی چاہییں تا کہ انصاف پورا پورا ہو ورنہ یاد رکھیں کہ انصاف ادھورا رہے گا اور ادھورا انصاف ظلم سے بھی بدتر ہوتا ہے ۔
Rashid Mehmood
About the Author: Rashid Mehmood Read More Articles by Rashid Mehmood: 20 Articles with 29206 views I am a qualified CPA and professional Financial and Audit Manager with over 12 years of experience in a variety of industries in key roles at national.. View More