حالیہ کرناٹک کے اسمبلی انتخابات
میں کانگریس کی تاریخی فتح سے اس کے تن مردہ میں ایک بار پھرجان آگئی ہے
اور ملک بھر میں جو اسس کے بدن پر ناکامی ‘بدنامی اور رسوائی کے داغ لگ رہے
تھے ان کے کچھ حد تک کم ہو نے کی کوشش ہو ئی ہے ۔ اس جیت سے کانگریس کے
خیمے میں اتنی زبردست خوشی ہے جیسے گنج قارون مل گیا ہو ۔کر ناٹک کی فتح کو
وہ دہلی کی فتح سے تعبیر کررہے ہیں اور زیادہ خوشی انھیں اس لیے ہے کہ اس
کے امید واروں نے زیادہ تر بی جے پی کے گڑھ کہلائے جانے والے علاقوں کے
قلعوں کو منہدم کیا ہے اور وہاں سے بھگوا پرچم اتار کر ہاتھ کا پنجا لہرایا
ہے۔ کانگریس نواز اخبار اور میڈیا تو اسے داستانوی سرخیاں لگا کر بیان کرر
ہے ہیں اور قارئین و ناظرین کو ایسا تاثر دے رہے ہیں جیسے یہ ہندوستان کی
تاریخ میں انوکھا واقعہ ہوا ‘اور کانگریس کی اس فتح کو دہلی کی فتح سے
تعبیر کررہے ہیں ۔حالانکہ آزادی کے بعد سے ہی یہ سلسلہ چلتا آرہا ہے ۔کبھی
وہ اوپرتو کبھی وہ نیچے۔کانگر یس کے اندرونی حلقو ں میں بھی یہ بات گر دش
کررہی ہے کہ اب ہمیں تیسری بار دہلی کے تخت پر قابض ہونے سے کوئی نہیں روک
سکتا اور کو ئی طاقت ایسی نہیں ہے جو ہمارے چیلنج کے سامنے رکے۔
کانگریس کی حالیہ کامیابی جس کسی کے لیے بھی خوشی کا باعث ہو‘ ہوتی رہے مگر
مسلمانوں کے لیے یہ خوشی کا نہیں غم کا مقام ہے ۔اس لیے کہ کانگریس ہی وہ
پارٹی ہے جس نے مسلما نو ں کی گردنوں پر چھریاں چلا ئیں ہیں‘ان کے نوجوانوں
کو دنیا بھر میں بدنام کیا ہے اور ان کے تعلیمی اداروں و مساجدکو غیر
اخلاقی و سماجی انسانوں کے کرتوتو ں سے جو ڑا ہے ۔مسلمانوں کو بہلا بہلا کر
بے وقوف بنایا ہے۔یہ صرف ایک مسلمانوں پر ہی منحصر نہیں ہے بلکہکانگریس نے
توملک تک کی شرمناک صورت حال بنا دی ہے ۔مہنگائی کا عفریت غریبوں کوڈسنے کے
لیے کھلے عام چھوڑدیااور ان کی لاکھ چیخ و پکار کا بھی اس پر کو ئی اثر
نہیں ہورہا ہے۔اس نے ملک میں ایمرجنسی کے حالات پیدا کیے ہیں اور ہندوستان
کے تقدس کو پامال کیاہے ۔خلاصہ کلام یہ کہ ملک کو کہیں منہ دکھلانے کے قابل
بھی نہیں چھوڑا۔
اس تحریر کے حوالے سے میں کر ناٹک کے مسلمانوں سے کہنا چا ہوں گا کہ اگر آپ
کو تبدیلی ہی کی خواہش تھی اور آپ لوگ بی جے پی ظلم سے نجات حاصل کر نا ہی
چاہتے تھے تو اس کے لیے بہترین متبادلجنتا دل ( سیکولر)موجود تھا ۔جنتا دل
(سیکولر)کے کارنامے کرناٹک میں آج بھی روشن ہیں اور ان سے ہر کس و ناکس
فایدہ اٹھارہا ہے۔یہ سب کارنامے اس نے حکومت سے باہر رہتے ہو ئے یہ کارنامے
کیے ہیں اگر آپ حضرات اسے حکومت کرنے کا موقع دیتے تو کرناٹک کی ہمہ جہتی
ترقی یقینی تھی ۔شاید آپ حضرات کو اس بات کا اندازہ نہ ہو یا آج میری باتیں
زہر لگ رہی ہوں گی مگر وہ وقت دور نہیں جب آپ میری ہم نوائی کر یں گے ا
ورکانگریس کے مظالم کی شکایت سرعام کر یں گے ۔یہ کر ناٹک کے مسلمانوں نے وہ
لمحاتی خطا کی ہے جس کی خمیازہ صدیوں تک بھگتنا پڑے گا ۔حالانکہ جمہوری
حکومت کی پانچ سالہ مدت ہوتی ہے مگر پانچ سال کا سفر ہی کر ناٹک کے
مسلمانوں کو صدیوں کاسفر محسوس ہوگا اس لیے کہ کانگریس بہت مختصر عرصے میں
عرصۂ حیات تنگ کر دیتی ہے اور انسان کو اس طرح ضبط میں لیتی ہے کہ وہ تڑپ
بھی نہیں سکتا۔
عزیز قاری !میرا کر ناٹک سے کو ئی تعلق نہیں ہے اور نہ ہی میری وہاں کو ئی
رشتے داری ہے ہاں ایک ہے وہ ہے ایک مسلمان ہونے کے ناطے وہاں کے مسلمانوں
سے ۔ان کا دکھ میرا دکھ ہے اور ان کی خوشی میری خوشی مگر انجام سے بے خبر
یامصیبت سامنے دیکھ کر بھی خوش ہونے کا میں قایل نہیں ہوں ‘سچ جانیے میں کر
ناٹک کے مسلمانوں کی حالیہ خوشی سے بالکل ناخوش ہوں اور اس سے مجھے شدید
رنج و غم ہوا ہے ۔کر ناٹک کے مسلمانوں نے وہ غلطی کی ہے جس کا ازالہ اس
بھگتنے کی صورت میں ہی ممکن ہے ۔میں جس وقت یہ سطور سپرد قرطاس کررہا ہوں
میری عجیب حالت ہے آپ اندازہ نہیں لگاسکتے کہ کانگریس نے میرے ملک ‘میرے
بھا ئیوں اورمیری ماؤں بہنوں کو کتنا نقصان پہنچایا ہے ۔اس کے جرایم ملک کا
بچہ بچہ جانتا ہے ۔ایسے مجرموں کو کرسی عطا کر نا اور اپنا حکمران بنانا
کہاں کی عقل مندی ہے ایسے لوگوں کا اصلی مقام تو جیل خانہ ہے ۔کر ناٹک میں
مسلمانوں نے کانگریس کا ہاتھ مضبوط کر کے اس کے جرایم پر پردہ ڈال دیا ہے
اور پورے ملک کے مسلمانوں کو دھوکا دیاہے۔آپ شاید مجھے پاگل کہیں ‘دیوانہ
کہیں‘کانگریس کا دشمن کہیں یا آپ کے جی میں جو آئے کہیں‘میری باتوں سے
اتفاق نہ کریں
مجھے اس بات کا کو ئی غم نہیں ہے میں یہی کہوں گا ۔یہ میری سینے کے زخم ہیں
‘یہ میرے اندر کا احساس ہے اور میرے اندر جلنے والی آگ کے شعلے ۔ میرے سینے
میں جو آگ ہے اس کے پھپھولوں کو آپ احساس نہیں کرسکتے ۔جس میں آگ میں‘ میں
جل رہاہوں اس کا احساس آپ کو نہیں ہوسکتا۔اگر الفاظ جاندار ہوتے تو آپ کو
پتا چلتا ‘آپ کے ہاتھ جل جاتے آپ کی آنکھوں میں جلن ہوتی اور آپ میرے ہم
نوا بن جاتے ۔آخر میں پھر میں یہی کہوں گاکہ کرناٹک میں مسلمانوں کانگریس
کو جتا کر ایک تاریخ ساز غلطی کی ہے جس پرخوشی منانے کے بجائے افسوس کر نا
چا ہیے۔
احساس
اس تحریر کے حوالے سے میں کر ناٹک کے مسلمانوں سے کہنا چا ہوں گا کہ اگر آپ
کو تبدیلی ہی کی خواہش تھی اور آپ لوگ بی جے پی ظلم سے نجات حاصل کر نا ہی
چاہتے تھے تو اس کے لیے بہترین متبادلجنتا دل ( سیکولر)موجود تھا ۔جنتا دل
(سیکولر)کے کارنامے کرناٹک میں آج بھی روشن ہیں اور ان سے ہر کس و ناکس
فایدہ اٹھارہا ہے۔یہ سب کارنامے اس نے حکومت سے باہر رہتے ہو ئے یہ کارنامے
کیے ہیں اگر آپ حضرات اسے حکومت کرنے کا موقع دیتے تو کرناٹک کی ہمہ جہتی
ترقی یقینی تھی ۔شاید آپ حضرات کو اس بات کا اندازہ نہ ہو یا آج میری باتیں
زہر لگ رہی ہوں گی مگر وہ وقت دور نہیں جب آپ میری ہم نوائی کر یں گے ا
ورکانگریس کے مظالم کی شکایت سرعام کر یں گے ۔یہ کر ناٹک کے مسلمانوں نے وہ
لمحاتی خطا کی ہے جس کی خمیازہ صدیوں تک بھگتنا پڑے گا ۔لانکہ جمہوری حکومت
کی پانچ سالہ مدت ہوتی ہے مگر پانچ سال کا سفر ہی کر ناٹک کے مسلمانوں کو
صدیوں کاسفر محسوس ہوگا اس لیے کہ کانگریس بہت مختصر عرصے میں عرصۂ حیات
تنگ کر دیتی ہے اور انسان کو اس طرح ضبط میں لیتی ہے کہ وہ تڑپ بھی نہیں
سکتا۔ |