ووٹ کس کو دیں؟

تحریر: ابو محمد

انتظارکی گھڑ یاں ختم ہوچکی ہیں۔ وہ دن آچکا ہے جس کا انتظار تھا۔ آج ملک بھر میں عام انتخابات کرائے جارہے ہیں۔ جس کے ذریعے مستقبل کے حکومت کافیصلہ کیا جائے گا۔ اگر ماضی پر نظر دوڑایا جائے تو یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے۔ کہ ہم نے خود غلط لوگوں کو ووٹ کے ذریعے منتخب کرکے اپنے آپ پر مسلط کیا۔ اور پھران کے حکومت کے خاتمے تک ہاتھ مسل کر روتے رہے۔

ووٹ اگر چہ ایک چھوٹی سی پرچی ہے۔جس کی ظاہری کوئی حیثیت نہیں۔ لیکن یہ ایک انتہائی طاقتور ہتھیار ہے۔ یہ غریب کا وہ واحد قوت ہے جس کو مانگنے کیلئے امیر لوگ ان کی چوکھٹ پر بار بار حاضری دیتے ہیں۔ طرح طرح کے وعدے کرتے ہیں۔ کسی بھی قیمت پر اسے حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔اس کے ہر دکھ درد میں شرکت کر لیتا ہے۔مقصد صرف ووٹ حاصل کر لینا ہوتا ہے۔جس کے ذریعے وہ کرسی تک رسائی حاصل کر لیتا ہے۔

اب دیکھتے ہیں کہ ووٹ کیا ہے؟ ٭ووٹ ایک شہادت ہے۔ آپ جس کو ووٹ دیتے ہیں ۔ اس کے متعلق آپ گواہی دیتے ہیں کہ یہ شخص دیانتدار اور امانتدار ہے اور اس کام کی قابلیت اس میں موجود ہے۔ اگر آپ جانتے ہو کہ اس میں یہ صفات نہیں ہے۔ تو یہ ایک جھوٹی گواہی ہے۔ جو کہ گناہ کبیرہ ہے۔ ٭ووٹ کی دوسری حیثیت سفارش کی ہے۔ یعنی آپ جس کو ووٹ دیتے ہیں اس کی اس عہدے کیلئے سفارش کرتے ہیں۔ اس سفارش کے بارے میں اﷲ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ ’’جو شخص اچھی سفارش کرتا ہے اس میں اس کو بھی حصہ ملتا ہے اور جو بری سفارش کرتا ہے تو اس کی برائی میں بھی اس کا حصہ ہوتا ہے‘‘۔ یعنی ہمارے ووٹ سے جو شخص کامیاب ہوگا وہ اپنے پانچ سالہ دور میں جو بھی نیک یا بد عمل کرے گا ہم بھی اس میں شریک سمجھے جائیں گے۔ ٭ ووٹ کی ایک حیثیت وکالت کی ہے۔ مگر یہاں جس کو منتخب کرلیتا ہے وہ پوری قوم کا وکیل بن جاتا ہے۔ اب اگر وہ کسی کی حق تلفی کرے۔ تو پوری قوم کی ذمہ دار ہم ہوں گے۔

گویا کہ ہمارے ووٹ کی تین حیثیتیں ہیں۔ شہادت، سفارش اور حقوق مشترکہ میں وکالت، تینوں حیثیتوں میں جس طرح نیک، صالح اور قابل آدمی کو ووٹ دینا ثواب ہے اسی طرح ناہل، سیکولر اور بے دین شخص کو ووٹ دینا جھوٹی شہادت بھی ہے، بری سفارش بھی اور ناجائز وکالت بھی۔ اس کے تباہ کن ثمرات اس کے نامہ اعمال میں لکھے جائیں گے۔

ووٹ دینا ہمارا قومی فریضہ ہے۔ اﷲ تعالیٰ نے جیسے جھوٹی شہادت کو حرام قرار دیا ہے ویسے سچی شہادت کو واجب اور لازم قرار دیا ہے۔ قرآن کریم میں اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے۔’’اﷲ کیلئے سچی شہادت کو قائم کر‘‘۔ دوسری جگہ ارشاد ہے’’شہادت کو نہ چھپاؤ اور جو چھپائے گا اس کا دل گناہ گار ہے‘‘۔ اسی طرح نبی ﷺ کا ارشاد مبارک ہے’’جس کسی کو شہادت کیلئے بلایا جائے ، پھر وہ اسے چھپائے تو وہ ایسا ہے جیسے جھوٹی گواہی دینے والا’’۔ ایک اور حدیث میں نبی ﷺ کا ارشاد ہے ’’ کیا میں تمہیں نہ بتاؤں کہ بہترین گواہ کون ہے؟ وہ شخص جو اپنی گواہی کسی کے مطالبے سے پہلے ہی ادا کردے‘‘۔ قرآن کریم میں ارشاد ربانی ہے ’’اور جب کوئی بات کہو تو انصاف کرو، خواہ تمہارے قریبی رشتہ دار کے خلاف کیوں نہ ہو‘‘۔

خلاصہ یہ کہ انتخابات میں ووٹ کی حیثیت ایک شہادت ہے جس کا چھپانا بھی حرام ، اس میں جھوٹ بولنا بھی حرام اور اس پر معاوضہ لینا بھی حرام۔ یہ محض ایک سیاسی ہار جیت نہیں ۔ آپ جس کو ووٹ دیتے ہیں شرعا آپ اس کے حق میں یہ گواہی دیتے ہیں کہ یہ شخص اپنے نظریئے،علم و عمل اور دیانتداری کے روسے اس کام کا اہل ہے اور دوسرے امیدواروں سے بہتر ہے۔مولانا ابو الکلام آزاد ؒ اپنی کتاب اسلام اور سیاست میں فرماتے ہیں کہ دیندار کیلئے ووٹ مانگنا امر بالمعروف اور فاسق کو ووٹ دینے سے منع کرنا نہی عن المنکر ہے۔

اب فیصلہ آپ کا ہے۔ ووٹ نہ دینا بھی حرام ، غلط شخص کو دینا بھی حرام۔حق دار کون؟ اس کی وضاحت کی جاچکی ہے۔ اپنی ضمیر سے فیصلہ کیجئے ۔ کہی ایسا نہ ہو کہ کسی کی دھوکہ میں آکر دنیا میں اگلے پانچ سال بھی رونا پڑے۔ اور اپنی آخرت بھی برباد کرے۔ کیونکہ نبی ﷺ کا ارشاد مبارک ہے’’وی شخص سب سے بڑے خسارے میں ہے جو دوسرے کی دنیا کی خاطر اپنا دین کھو بیٹھے۔
Abid Ali Yousufzai
About the Author: Abid Ali Yousufzai Read More Articles by Abid Ali Yousufzai: 97 Articles with 83179 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.