نگران حکومت ․․․ چاردن کی چاندنی اور پھر․․․․

غزالہ یاسمین

انتخابات کا وقت آن پہنچا۔ میدان سج گیا۔ اب چند دن بعد ایک نئی حکومت وجود میں آنے والی ہے۔ وہ کیا کرکرے گی ، وہ تو وقت ہی بتائے گا۔ فی الحال حکومت کی باگ ڈور نگران حکومت کے پاس ہے جس کا ہر رکن لاٹھی پکڑ کر خود کو سہارا دے کر چند دن کی حکومت کو سہارا دے رہا ہے۔ چاردن کی چاندنی پھر اندھیری رات۔ اس ضعیف نگران حکومت کو تو پھر اندھیرے میں بھی کچھ نظر آنے والا نہیں۔ چاردن کی چاندنی میں وہ سب کچھ کرلینا چاہتے ہیں۔ نگران حکومت کو انگریزی میں "Care Taker" کہتے ہیں اور اگر ان دو الفاظ کو ردو بدل کر کے پڑھا جائے تو یہ take careجیسا کوئی لفظ بن جاتا ہے۔ اس پر وہ پورا عمل درآمد کررہی ہیں۔ اس نگران حکومتوں کے چناؤ کے طریقہ کار کو خاصا جمہوری اور شفاف گردانا گیا تھا مگر بدقسمتی سے جس’’خلوص نیت‘‘ اور چھپ چھپاؤ کو مظاہرہ دیکھنے میں آیا ۔اس پر عوام الناس کی کثیر تعداد خاصے وسوسے میں ہے۔ زیادہ تر کا اعتراض اس بات پر ہے کہ ہمارے قائدین کو کروڑوں افراد میں سے پانچ بھی بے داغ میسر نہ آئے بلکہ ایسی کوئی بات نہیں تھی ۔ دوسرا اعتراض ان دو اہم ترین شخصیات کی ضیعف العمری پر ہے جس پر بڑی مشکل سے ہاں تو ہوئی مگر وہ اپنی عمر کی سنچری مکمل کرنے کے نزدیک ہیں ۔

ابھی تک کی بیان شدہ کہانی میں تو مایوسی کی ٹیم کا پلہ بھاری نظر آتا ہے۔ مگر پھر بھی اس عمل کو حوصلہ افزا او ر خوش آئند سمجھنا چاہیے ۔وجہ سادہ سی ہے ۔ جب بھی کوئی کھلاڑی نئے رومز آف گیم کے تحت میدان میں اتر تا ہے تو اسے خاصی دشواری کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ مگر اچھے کھلاڑی کی پہچان یہ ہوتی ہے کہ وہ جلد از جلد نئے قواعد و ضوابط کے تحت اس کھیل پر مثبت انداز میں عبور حاصل کر لیتا ہے ۔مگر ان نگرانوں کا تو یہ حال تھا کہ ۱۱ مئی سر پر آ کھڑی ہوئی تو حالت یہ تھی کہ جب بھی (دو بندے) آپس میں ملتے تو ایک دوسرے سے یہی سوال کرتے کہ کیا ’’انتخابات‘‘ وقت پر ہوں گے یہ تو جنرل کیانی کا بھلا ہو کہ انہوں نے 30 اپریل کو اس کنفیوژن سے قوم کی نجات دلادی۔ ورنہ یہ بابے خدا جانے کس طرح اور کن الفاظ میں قوم کو تسلی دیتے ۔ انتخاب کا پہلے مرحلے یعنی اسکروٹنی کا آیا تو بے رحم اسکروٹنی کے دعوے ہوئے خوب شور بلند ہوا۔ کلمے پڑھوائے گئے ۔ ریاضی کے سوالات پوچھے گئے۔ قوم آج اس بات پر حیران ہے کہ ایک ہی شخص ایک حلقے سے اہل قرار دیا جاتا ہے ۔اور دوسرے سے وہی نااہل قرار پاتا ہے ۔ملک کو سب سے بڑا چیلنج امن و امان کا درپیش ہے ۔ لیکن وزیر داخلہ ہمیں ایسے ملے ہیں کہ انہوں نے رحمن ملک کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ۔ بلکہ انہوں نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ ’’اگلے تین سالوں میں امن و امان کا مسلہ (حل ہو جائے گا ‘‘

گڈ گورننس ، اچھی حکمرانی یا بہتر راج نیتی میں پاکستان پچھلے 65 سالوں میں ’’ ریورس گیئر ‘‘ پر چل رہا ہے ۔حکومتی اور ریاستی اسٹیک ہولڈرز نظریہ ضرورت کے بھی پردادا اور ’’ سب اچھا ‘‘ کے قیدی ہیں ۔بیورو کریسی اور سول ایڈمنسڑیشن نہایت غیر منظم اور غیر پیشہ ورانہ انداز میں الجھی ہوئی ہے۔ چنانچہ گڈگورننس کے بنیادی اصول بھی اس نگران حکومتوں نے نہیں اپنائے ۔ویسے تو دانشمندوں کی کمی نہیں لیکن اصلی دانشور وہ ہے جو اپنے علم کو حکمت کے ساتھ ملا کر گم کر وہ راہ ہجوم کی درست منزل کی طرف رہنمائی کرے کیونکہ گڈگورننس ایک پہیے والی سائیکل نہیں بلکہ اس کے دو حصے ہیں حکمران اشرقیہ اور ووٹر عوام ۔ مگر پچھلے پینسٹھ سالوں طاقت کے مراکز پر چھایا ہوا وہ گروہ ہیں جن کو قوم کی قسمت اور ملک کی تقدیر کے فیصلے کرنے میں حر ف آخر کی حیثیت حاصل ہے ۔پاکستان کی ایلیٹ کلاس فیصلے کرنے کی کتنی صلاحیت رکھتی اس کا تازہ ترین نمونہ پچاس دن کے عبوری وزیر اعظم کے انتخاب کے لیے کی جانے والی ایکسرسائز سے کھل کر سامنے آگیا ہے ۔جس کے دوران’’میں میں اور صرف میرا ‘‘ کی آوازوں سے پورا ملک گونجتا رہا ۔ ان دونوں شخصیات نے اپنی آنکھوں سے تحریک پاکستان ۔ قیام پاکستان اور پھر سقوط پاکستان کے تمام مناظر دیکھے ہیں۔ یہ دونوں افراد ملک کی عدالتی ، سیاسی تاریخ اور سماجی رویوں سے پوری طرح آگاہ ہیں ۔عمر کے اس حصے میں ان کے لیے چاہ و حشمت اور شان و شوکت اس طرح کوئی اہمیت نہیں رکھتی اس لیے یہ تو قع کی جاتی تھی کہ دونوں افراد کسی بھی اقرباپروری اور مال و دولت کی خاطر ملک اور عوام کی عزت کو داؤ پر نہیں لگائیں گے کہ اور کوئی ایسا کام کر جائیں گئے کہ پاکستان انہیں سدا بار کرتا مگر سیانے کہتے ہیں کہ انسانوں کے رویے ایک خاص میں جا کر تبدیل نہیں ہوتے وہ جس طرح اپنی زندگی کو چلانا چاہتے ہیں اسی طرح ہی چلتے ہیں۔

متفقہ 20 ویں ترمیم کے ذریعے پانچ عدد عبوری حکومتوں کے قیام کے آئینی ڈھانچے کو نئی شکل دینے والے اپنے ہی بنائے ہوئے بندوبست کے تحت مشاورت کے پہلے امتحان میں ہی اس بری طرح فیل ہوئے جس کی مثال جدید عالمی سیاسیات میں ایک نیا ریکارڈ ہے ۔ پاکستان پر ہمیشہ نظر نہ آنے والے ہاتھوں کی حکومت اور دہشت رہی ہے ۔اس کا ثبوت ایک قتل کے مقدمے کے سرکاری وکیل کو سرئے بازار قتل کر دیا ۔ مگر نگران وزیر اعظم پہلے دن کی طرح بے بس نظر آئے ان کے صر ف دو ہی کام تھے ۔پر امن انتخاب اور دہشت گردی کو کنڑول کرنا ۔یہ تو پہلے دن سے ہی ساری سیاسی پارٹیوں کو تحفظ فراہم نہ کر سکے تو پر امن پولنگ کس طرح کرائیں گے۔یہ بزرگان ضیعف نگران حکومت جوان لہو کو بہنے سے روکنے اور اس کا سراغ لگانے میں ناکام ہو گئے ہیں ۔شاید یہ نگران بے چارے انتخابات کے ملتوی ہونے کے آسرے میں آئے تھے ۔مگر جنر ل نے ان کی اس خواہش و آرزو اورآواز کو پورا نہیں ہونے دیا ۔لگتا ہے وزیر اعظم صرف اپنے بیٹے کو 19 گریڈ میں ترقی دلانے کے لیے نگران بنے تھے شاید۔

آج ہر جگہ سے انتقام کے شعلے نظروں ، لفظوں اور حملوں کی صورت میں برس رہے ہیں ۔سپہ سالار نے جس درد مندی کے ساتھ قوم کے لیے آگے بڑھنے کے راستے کی نشاندہی کی ہے ۔ہر سیاست دان اسے ایک شخص سوچ کا وژن کہا جا رہا ہے ۔مگر کوئی بھی شخص سپہ سالار کے لفظوں کے مطلب کو سمجھنے کی کوشش نہیں کر رہا ۔ہر کوئی اپنی اپنی راگ الاپ رہا ہے ۔خدا کرے کہ نگران حکومتیں جاتے جاتے کوئی ایک ایسا کام کر جائیں جس سے وہ تاریخ میں تو بے شک اپنا نام نہ لکھوا پائے مگر پاکستان کا نام سر بلند کر جائیں ۔ کاش ایسا ہو جائے ۔
Anwer Parveen
About the Author: Anwer Parveen Read More Articles by Anwer Parveen: 59 Articles with 40196 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.