خان صاحب۔۔گرتے ہیں شہسوار ہی میدانِ جنگ میں

گرتے ہیں شہسور ہی میدانِ جنگ میں۔۔۔سات مئی کی شام پاکستان تحریکِ انصاف کے چیئرمین جناب عمران خان عوامی جلسے کے دوران ایک حادثے کا شکار ہوگئے جس میں وہ شدید زخمی بھی ہوئے۔خان صاحب مسلسل روزانہ کی بنیاد پرتین سے چار جلسے کر رہے تھے جس میں عوامی طاقت کا عملی مظاہرہ صاف دیکھنے کو مل رہا تھا۔ ہماری دعا ہے اﷲ تعالیٰ انھیں جلد سے جلد مکمل صحتیاب کریں اور پھر سے وہ پہلے کی طرح نوجوانوں کے سینوں میں ملک سے پیار کا جذبہ پیدا کریں اور نئی امیدوں کی کرن باندھیں آمین ۔ قارئین جیسا کہ آپ جانتے ہیں یہ دعا صرف میری نہیں بلکہ پاکستان اور پاکستان سے باہر ہر محبِ وطن شہری کی ہے جو ملک میں تبدیلی کے خواہش مند ہیں خان صاحب کے اس حادثے کے بعد سے ملک کا بچہ بچہ ان کی صحت یابی کے لیے دعا گو ہے اس کے علاوہ پاکستان کے تقریباًسب ہی سیاست دانوں نے خان صاحب کے ساتھ پیش آنے والے واقعے کے بعد اپنے بڑے پن اور بردباری کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان سے اظہارِ ہمدری کیا جو کہ ایک مثبت قدم ہے جسے ہر سطح پر سراہاجانا چاہیئے ۔ پاکستان تحریکِ انصاف کا الیکشن میں کامیابی یا ناکامی کا ابھی کچھ کہا نہیں جاسکتا لیکن اس میں کوئی شک نہیں کے پاکستان تحریکِ انصاف اس وقت پاکستان کی ایک مضبوط اور مقبول جماعت بن چکی ہے جسے پورے پاکستان میں پسند کی نگاہ سے دیکھاجارہا ہے عمران خان جس سونامی کی بات کرتے ہیں وہ شاید اب حقیقت کا روپ دھار ے کھڑی ہے جسکا مکمل کریڈٹ پاکستان تحریکِ انصاف کو جاتا ہے کہ اس نے پورے پاکستان میں تبدیلی کا ایک ماحول بنایا اور ملک کو لوٹنے والوں سے چھٹکارے کا علم اٹھایا۔بالآخر اٹھارہ سال کی انتھک محنت کے بعد عمران خان بحیثیت ایک قوم کو بیدار کرنے میں کامیاب ہوئے آج جس طرف دیکھیں ہر ایک کی یہی رائے ہے کہ عمران خان کو ایک چانس ضرور ملنا چاہیئے اسے ایک موقع ضرور دینا چاہیئے یہ وہ عوامی حلقے ہیں جو ملک میں پنسٹھ سالوں سے رائج کرپٹ وفرسودہ نظام سے تنگ آچکے ہیں اور اب کسی بھی صورت تبدیلی کے خواں ہیں ۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کے صرف تبدیلی چاہنے سے یاتبدیلی کے لئے اٹھ کھڑے ہونے سے ہمارے ملک پاکستان میں تبدیلی ممکن ہے کیا اس طرح سے انقلاب کا راستہ بن سکتا ہے کیا ان رکاوٹوں کو دور کیا جاسکتا ہے جو ہمارے ملک کے کی پوسٹوں پر بیٹھے انتظامی ڈھانچے میں کسی بھی طور تبدیلی کے خواں نہیں محلاتی سوچ کے حامی ان لوگوں سے نمٹنے کے لیے صرف کیاایک لشکر کی ضرورت ہے انسانوں کا ٹھاٹھے مارتا سمندر ان مضبوط چٹانوں سے ٹکرانے کی ہمت رکھتا ہے جو ہمیشہ کی طرح ان طوفانی موجوں کو بزورِ طاقت واپس پیچھے دھکیلنے پر مجبور کردیتے ہیں جس کی حالیہ مثال چودہ جنوری کی ایک انقلابی کوشش میں دیکھی جاسکتی ہے ۔ہمارے نزدیک وہاں خان صاحب سے تھوڑی چوک ہوگئی اگر اس دن قادری صاحب کی انتخابی اصتلاحات کے مطالبات کو وہ تمام جماعتیں سپورٹ کرتیں جو واقعی ملک میں تبدیلی کی خواہ ہیں تو یقیناً11 مئی حقیقی تبدیلی اور تمام تبدیلی خواہوں کی فتح کا دن ہوتا ۔ ایسے نظام سے تبدیلی کس طرح ممکن ہوسکتی ہے جس نظام میں علاقے کا نمائندہ اپنے علاقے کو اپنی جاگیراور اس میں بسنے والی عوام کو اپنا غلام سمجھے اور جب چاہیں انکے ووٹوں کا سودا کردیں ان ووٹوں کا جن سے تبدیلی کی امیدیں باندھی جاتی ہیں اور ایسے نمائندوں کو ہمارا الیکشن کمیشن صادق و امین کا سرٹیفیکٹ بھی دے ڈالتا ہے۔قارئین کیا آپ نے نہیں دیکھا کس طرح اس نظام کے تحت راجہ پرویز اشرف کو انتخابی دنگل میں اِن اور جنرل پرویز مشرف کو آوٹ کیاگیا اور یہ پہلی بار نہیں پاکستان کی تاریخ ایسی درد ناک کیفیتوں سے بھری پڑی ہے جسے عوام پسند کر تے ہیں انھیں سیاست سے آوٹ کردیا جاتا ہے اور جسے عوام نا پسند کرتے ہیں ان کے ہاتھوں میں اقتدار کی کنجیاں تھمادی جاتی ہیں ۔ تبدیلی کی خواہاں تمام جماعتیں یہ جان لیں ملک میں کسی بھی قسم کی تبدیلی سے پہلے انتخابی اصتلاحات نہایت ضروری ہیں ایسا نہ کرنے والے ہمیشہ باہر کھڑے صرف چیختے رہیں گے لیکن ان کی چیخوں پر کوئی کان نہ دھرے گا۔ بس یہی چیز قادری صاحب نے سمجھانے کی اور بتلانے کوشش کی تھی اگر اُس وقت تمام تبدیلی خواں ایک ہوجاتے جس طرح اُس وقت موجودہ کرپٹ نظام کی سپورٹ میں تمام باطل قوتیں ایک ہوگئی تھیں اور نعرہ یہ لگایا گیا کہ ہم نے جمہوریت کا تحفظ کیاہے آج یومِ جمہوریت ہے وغیرہ وغیرہ۔ جو کہ دراصل وہ اپنے آپ کا تحفظ کررہے تھے اس نظام کا تحفظ کر رہے تھے جس کے ذریعے انھیں دوبارہ اس قوم پر عذابِ الٰہی بن کر مسلط ہونا ہے۔ خیر مایوسی کفر ہے ہم امید کر تے ہیں عمران خان کا سونامی انشاء اﷲ سمندرکی ٹھاٹھیں مارتی وہ طوفانی لہریں ثابت ہوگا جو مضبوط سے مضبوط چٹانوں کو بھی ریزہ ریزہ کردیتی ہیں ۔بس تحریکِ انصاف کی قیادت کو عملی تبدیلی کے لئے ان لوگوں سے ہاتھ ملانا ہوگا جو تبدیلی کے خواہاں ہیں۔ لہذا الیکشن کے بعد اپنی پوزیشن کو دیکھتے ہوئے اس ضد کو چھوڑ کر کے ہم کسی سے اتحاد نہیں بنائیں گے حقیقی تبدیلی کی خواہش مند جماعتوں کے ساتھ ایک ایسا اتحاد بنائیں جو واقعی ملک میں تبدیلی کا موجب بن سکے اگر ایسا نہ کیا گیا تو قوم کو ایک بار پھر ایک نئے چہرے کی تلاش ہوگی اور عمران خان صاب انہی پرانے چہروں کی صفوں میں کھڑے نظر آئنگے۔
علی راج
About the Author: علی راج Read More Articles by علی راج: 128 Articles with 107489 views کالم نگار/بلاگر.. View More